کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد اپنے ورثاء (دو بیٹے ، تین بیٹیوں )میں تقسیم کرنا چاہتا ہے،اس کا احسن طریقہ کیا ہے ؟ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص جب تک حیات ہے ،اپنی تمام جائیداد کا خود مالک ہے ،اس میں اولاد سمیت کسی کاحق نہیں،لہذا مذکورہ شخص کی زندگی میں اس کی اولاد میں سے کوئی تقسیمِ جائیداد کا مطالبہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی زندگی میں تقسیم کرنا اس شخص پر لازم ہے۔
البتہ اگریہ اپنی رضا اور خوشی کے ساتھ اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہیں، تو یہ اس کی طرف سے ہبہ ( گفٹ) ہو گا،چناچہ اولاد کے درمیان برابری ضروری ہے ،اس میں لڑکے اور لڑکیاں سب برابر ہیں ،البتہ دینداری،خدمت گزاری،یا معذوری،غربت وغیرہ کی وجہ سے کسی کو زیادہ دینا بھی درست ہےبغیر کسی معقول وجہ کے کسی کو محروم کرنا یا کم دینا صحیح نہیں،اسی طرح یہ شخص اپنے لئے جتنا حصہ رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہے ۔
لما في السراجي:
"قال علماؤنا:تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة :الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غيرتبذير ولاتقتير،ثم تقضى ديونه من جميع مابقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث مابقي بعد الدين، ثمّ يقسّم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمّة"(باب:الحقوق المتعلقة بتركة الميت،5-8،البشرى).
وفي بدائع الصنا ئع:
"وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى { إن الله يأمر بالعدل والإحسان }. وأما كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطأ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحلى ولا يفضل بعضهم على بعض وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي عليه الصلاة والسلام فأرجعه وهذا إشارة إلى العـدل بـين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى".(كتاب الهبة ، 113،115/8،ط:دار الكتب العلمية).
وفي البحر الرائق:
"فروع يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله لواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط".(كتاب الهبة،7/490،ط:رشيدية). فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 174/280