: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:
اورین مال ویب سائٹ کے ساتھ کاروبار کرنا کیسا ہے،نیز اس کی حقیقت کیا ہے؟
تنقیح: سوال میں مذکورہ ویب سائٹ(اورین مال/Orion Mall) کے متعلق تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ کمپنی کے بنیادی طور پر دو کام ہیں:
ابتداء میں کمپنی کا ورکر بننے کے لیے متعین فیس =/500 روپے جمع کر کے اس کا ممبر بننا ہوتا ہے، اس کے بعد اس کمپنی کی جو اشیاء (Products)ہوتی ہیں،انہیں خرید کر بیچنا ہوتا ہے،جس طرح دیگر آن لائن ویب سائٹ ہوتی ہیں، مثلاً:(Amazon Alibaba, Oriflamme,وغیرہ)اور پھر آپ کو اس خرید وفروخت پر منافع ملتا ہے۔
دوسرا اور سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کمپنی کے ممبر بن گئے اور آپ کی رجسٹریشن مکمل ہوگئی ،تو اب دیگر لوگوں کو ترغیب دے کر اس کمپنی کا ممبر بنوائیں جب یہ افراد اپنی رجسٹریشن مکمل کروالیں گے ،تو یہ آپ کی ٹیم کے ممبر ہوں گے اور اب آپ کی ٹیم چین نیٹ ورک کی حیثیت سے کام کرے گی، لہٰذا آپ کی ٹیم کا کوئی بھی ممبر جب آگے نئے افراد کی رجسٹریشن کروائے گا،تو اس کا منافع آپ کو بھی ملے گا،پہلے فرد کی رجسٹریشن پر =/200روپے،پھر دوسرے فرد کی رجسٹریشن پر =/120 روپے،اسی طرح جتنے افراد آگے رجسٹرڈ ہوتے جائیں گے تو ان کا منافع آپ کو ملتا رہے گا،یوں یہ ایک چین نیٹ ورک (مکمل گروپ)بن جاتا ہے،پھر یہ گروپ جتنا متحرک ہوگا،اس حساب سے روز منافع ملتا رہے گا،جس کی کم از کم مقدار =/10روپے اور زیادہ سے زیادہ منافع کی کوئی مقدار متعین نہیں،اور یہ منافع کی زیادتی گروپ کی فعالیت پر منحصر ہے،پھر یہ رقم آپ کسی بھی وقت کسی بھی بینک،ایزی پیسہ یا جازکیش اکاؤنٹ وغیرہ سے نکلواسکتے ہیں۔
سوال میں مذکور اورین مال ویب سائٹ ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام کے تحت کام کرتی ہے،اور ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام میں شرعی اعتبار سے مختلف مفاسد اور خرابیاں پائی جاتی ہیں ،مثلاً غرر، دھوکہ دہی و غیرہ،اس طریقہ کار میں کمپنی کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتیں ،بلکہ پہلے صرف ممبران کو مصنوعات دی جاتی ہیں ،اور پھر ممبران کے ذریعے خریدار کو وہ مصنوعات ملتی ہیں،ساتھ ہی کمپنی کی طرف سے اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ آپ مزید ممبر بنائیں اور کمپنی کی مصنوعات کو فروخت کریں، اس پر کمپنی آپ کو کمیشن/منافع دے گی،نتیجتاً ایسی کمپنیوں کا مقصد مصنوعات بیچنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن اور منافع کا لالچ دے کر لوگوں کو کمپنی کا ممبر /ڈسٹری بیوٹر بنانا ہوتا ہے،اور ایک تصوراتی اور غیر حقیقی منافع کا وعدہ کر کے لوگوں کو کمپنی میں شامل کر لیا جاتا ہے،البتہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کمپنی کی کوئی پراڈکٹ خریدتا ہے اور کمپنی اس شخص کو اس خریداری پر رعایت دے تو اس میں حرج نہیں۔
ملٹی لیول مارکیٹنگ پر چلنے والی کمپنیوں میں سے کسی جائز کام کرنے والی کمپنی میں بلاواسطہ کسی کو ممبر بنانے میں ممبر کی محنت کا دخل ہوتا ہے جس کی اجرت لینا جائز ہے ،لیکن بغیر کسی محنت و مشقت کے بالواسطہ بننے والے ممبروں اور ان کی خرید و فروخت کی وجہ سے ملنے والی اجرت لینا جائز نہیں،اس لئے ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام پر چلنے والی کمپنی کا ممبر بن کر ممبرسازی کرنا اور مختلف راستوں سے مالی فوائد حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں، اس لیے مذکورہ ویب سائٹ کے ساتھ کاروبار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
نیز مذکورہ کمپنی کا ورکر بننا بھی درست نہیں،کیوں کہ کمپنی میں ورکر بننے کے لیے کمپنی کی طرف سے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ سب سے پہلے کمپنی کو =/500 روپے دو گے،پھر کمپنی کا ورکر بنو گے یہ اجارہ میں شرط فاسد ہے، اور اجارہ شرط فاسد کی وجہ سے فاسد ہوجاتا ہے،لہٰذا جب کمپنی کا ورکر بننا جائز نہیں،تو کمیشن لینا بھی جائز نہ ہوگا۔
لما في القران الكريم:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾.
(المائدة:90).
وفيه أيضا:
﴿قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾.
(البقرة:275).
وفيه أيضا:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾.
(النساء:29).
و في صحيح البخاري:
عن الشعبي عن النعمان بن بشير رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم (( الحلال بين والحرام بين وبينهما أمور مشتبهة فمن ترك ما شبه عليه من الإثم كان لما استبان أترك ومن اجترأ على ما يشك فيه من الإثم أوشك أن يواقع ما استبان والمعاصي حمى الله من يرتع حول الحمى يوشك أن يواقعه)).
(کتاب البیوع،باب:الحلال بین والحرام بین:[رقم الحدیث:2051] ،3/53،ط:دار طوق النجاة).
وفي روح المعاني:
“ وقال العلامة الآ لوسي رحمة الله عليه: ومن مفاسد الميسر أن فيه أكل الأموال بالباطل وأنه يدعو كثيرا من المقامرين إلى السرقة وتلف النفس وإضاعة العيال وإرتكاب الأمور القبيحة والرذائل الشنيعة والعداوة الكامنة والظاهرة وهذا أمر مشاهد لا ينكره إلا من أعماه الله تعالى وأصمه”.(2/ 115،114: ط:دار احياء التراث العربي).
وفي الرد:
"تتمة: قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".
(كتاب الاجارة،باب ضمان اللأجير،مطلب في أجرة الدّلاّل:9/107،ط:رشيدية).
و في الهداية:
و يجوز أن يحط عن الثمن و يتعلق الإستحقاق بجميع ذلك،فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا”.
(كتاب البيوع،باب المرابحة،3/80،ط:رحمانية).
وفي التنویر مع الدر:
(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل.(کتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة:9/77، ط:رشيدية).
وفي البحر :
قال رحمه الله ( يفسد الإجارة الشرط ) قال في المحيط كل جهالة تفسد البيع تفسد الإجارة لأن الجهالة المتمكنة في البدل أو المبدل تفضي إلى المنازعة وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين يفضي إلى المنازعة فيفسد الإجارة .... وفي الغياثية الفساد قد يكون لجهالة قدر العمل بأن لا يعين محل العمل وقد يكون لجهالة قدر المنفعة بأن لا يبين المدة وقد يكون لجهالة البدل أو المبدل.(کتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة:8/29، ط:رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 172/277