کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے سلسلے میں:
چند سالوں سے بعض نجی ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹر حضرات عمومی طور پر انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر بنائی گئی فلموں کی نمائش کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں تو یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، مگر ہمارے وطن عزیز میں یہ سلسلہ کچھ عرصے سے زور پکڑ رہا ہے۔
”
دی میسیج“
(The Massage) نامی فلم جو حضور صلی الله علیہ وسلم کے مقدس زمانہ کے واقعات پر مشتمل ہے ۔ اس فلم کی نمائش”
جیو“
چینل پر ہر سال کی جاتی ہے ۔ صرف نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی ذات اطہر کو چھوڑ کر اس فلم میں تقریباً تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے نام سے کردار کو پیش کیا ہے ۔313 بدری صحابہ رضوان الله اجمعین بھی بدر کی جنگ میں دکھائے گئے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے ناموں پرکردار ادا کاروں نے ادا کیے۔
آج کل ”
پیغام پروڈکشن“
نامی ادارے نے انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر فلمائی گئی فلموں کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے پھیلانا شروع کر رکھا ہے۔ ان فلموں میں ، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت مریم صدیقہ علیہا السلام کے فرضی کردار پیش کیے گئے ہیں۔ ان فلموں میں کئی مقامات پر نبی کا فرضی کردار کرنے والے کو اے نبی، اے یوسف، اے ابراہیم، اے پیغمبر کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہ فرضی کردار بھی کئی مقامات پر اپنے ڈائیلاگ سے خود کو الله کا پیغمبر کہتے ہیں ۔ مثلاً حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اس دور میں شیاطین، انسانوں پر جنگ کا اعلان کر دیتے ہیں اورسلیمان علیہ السلام کے نام سے کردار ادا کرنے والے کا ایک جملہ ( جب وہ ایک عورت کے پاس بیٹھا ہے) یہاں نقل کرتا ہوں۔
”
ہر پیغمبر کی ایک میراث ہوتی ہے اور میری میراث شاید ان سے (یعنی سرکش شیاطین سے) جنگ ہے۔“
میوزک کی دھنیں تو ان تمام فلموں میں متواتر استعمال کی گئی ہیں۔ اور ان فلموں میں انبیاء کے ناموں سے جن کرداروں کو دکھا گیا ہے ان کو بار بار اس طرح پکارا جاتا ہے جیسے کسی عام آدمی کو پکارا جاتا ہے۔ مثلاً نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیار رضی الله تعالیٰ عنہ کے نام سے جس شخص نے کردار ادا کیا ہے وہ کہتا ہے۔
”
ہم وہ کرتے ہیں جو محمد ہمیں کہتے ہیں … محمد نے ہمیں بتایا کہ ایک الله کی عبادت کرو۔“
کئی ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی لاتے ہوئے دکھایا گیا ہے او رایک انسان کو حضرت جبرائیل کے نام سے کردار دیا گیا ہے۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے نام سے بنائے گئے کردار پر ٹھٹہ، پاگل مجنون کہنا وغیرہ بھی فلمایا گیا ہے ۔ ایسی ہی کئی توہین پر مبنی مثالیں ان فلموں میں حد سے زیادہ موجود ہیں۔ آپ سے مندرجہ ذیل سوالات شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب طلب ہیں۔
کیا اسلام میں اس بات کی گنجائش ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی الله عنہم پر فلمیں یا ڈرامے تیار کیے جائیں؟ ان فلموں کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ ناجائز ہیں او ران کا گناہ کس درجہ کا ہے ؟ کیا ایسی فلموں کو بنانے والے یا انکا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرنے والے اسلام کے مجرم ہیں اور شریعت ان پر کیا تعزیر یا گرفت کرتی ہے؟ کیا ایسے لوگوں کو صرف توبہ کرنی چاہیے یا ان کے لیے کوئی سزا مقرر ہے؟
فلم بنانے والوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ اس فلم کی تمام دستاویز کی بڑی عرق ریزی سے قرآن، احادیث نبویہ اور مستند تاریخی حوالہ جات سے تیار کی گئی ہے ایسی صورت میں کیا فلم کو بنانے، نشر کرنے ، فروخت کرنے یا دیکھنے کی کوئی گنجائش اسلام میں ہے؟
کسی بھی شخص کو چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو فرضی طور پر نبی یا صحابی بنانا اور پھر دیگر فلموں کے کرداروں کی طرح اس شخص سے صحابی کے طور پر ایکٹنگ کرنے اور کروانے کے فعل کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اوردیگربلندپایہ بزرگ ہستیوں کی حیات ِ طیبہ کے حالات وواقعات کی تصویری فلم بنانا اورپھرمیڈیاکے ذریعے ٹی وی اورانٹرنیٹ وغیرہ پرپیش کرنانام نہادمتفکرین ومتجددین اوردشمنانِ اسلام کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کابدترین مذاق اڑانے کے مترادف ہے، ایسی فلمیں بنانا، دیکھنااوردکھانا ناجائزاورحرام ہے،بلکہ ایمان کاسلامت رہنابھی دشوارہے۔
اس عمل کے ناجائزہونے کی بے شما روجوہات ہیں،جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
…انبیاء کرام علیہم السلام کے نفوسِ قدسیہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذواتِ مطہرہ جس تکریم اورعظمت وجلال کی حامل ہیں،اس کاتقاضایہ ہے کہ ان مبارک شخصیات کی زندگی کے حالات کوپورے ادب واحترام کے ساتھ پڑھا،سنااورعملی طورپراپنایاجائے،اس کے برعکس ان فلموں میں پیشہ ورعام گنہگار انسانوں اوربہروپیوں کو ان مقدس شخصیات کی شکل میں پیش کرکے ان سے مصنوعی نقالی کرائی جاتی ہے،حالانکہ انبیاء کرام کی نقالی کفر جبکہ صحابہ کرام کی نقالی فسق ہے، پھران مقدس شخصیات کا روپ دھارنے والے بہروپیوں کوعامیانہ لہجے میں پکارا جاتا ہے،ان کے مخالفین کا کرداراداکرنے والے ایکٹروں کی طرف سے ان پردشنام طرازی کی جاتی ہے،انہیں مجنون،شاعر،ساحر،کاہن اورقصہ گو وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا ہے،فلمی ایکٹرز کی شکل وصورت بھی توہین آمیز ہوتی ہے مثلاً:خشخشی داڑھی اورکلین شیو وغیرہ،تو یہ تمام تر امور ان مقدس شخصیات کی تنقیص وتوہین کے ساتھ ساتھ ان کی پیغمبرانہ،صحابیانہ اور بزرگانہ قدروقیمت کے منافی امور ہیں،غیرت اور حمیتِ ایمانی کے خلاف ہے،کفر کی ترجمانی ہے اوربالآخرنتیجہ کفر ہی نکلتا ہے۔
حافظ ابنِ کثیررحمة اللہ علیہ آیت:﴿إن الذین یوٴذون اللّٰہ ورسولہ․․․․․․․إلخ﴾
کے تحت فرماتے ہیں:”یقول تعالی متھدداً ومتوعداًمن آذاہ بمخالفة أوامرہ، وإرتکاب زواجرہ،وإصرارہ علی ذلک،وإیذاء رسولہ بعیب أوبنقص عیاذاًباللّٰہ من ذلک قال عکرمة
فيقولہ تعالی:﴿إن الذین یوٴذون اللّٰہ ورسولہ﴾ نزلت في المصورین…والظاھرأن الآیة عامة فی کل من آذاہ بشيء،ومن آذاہ فقد آذی اللّٰہ…الخ ․(تفسیرابن کثیر،سورة الأحزاب:رقم الآیة:57،3/683، ط: دارالسلام) (وھکذافي روح المعاني، سورةالأحزاب،رقم الآیة:57،22/87،ط:دارإحیاء التراث)
اس کے بعد والی آیت ﴿والذین یوٴذون الموٴمنین والموٴمنات …إلخ﴾
کے تحت علامہ آلوسی بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(والذین یوٴذون الموٴمنین والموٴمنات…إلخ)یفعلون بھم ما یتأذون بہ من قول أو فعل…والظاھرعموم الآیة لکل ما ذکرولکل ماسیأتي من أراجیف المرجفین،وفیھامن الدلالة علی حرمہ الموٴمنین والموٴمنات مافیھا،وأخرج ابن أبي حاتم عن مجاھد في ھذہ الآیة قال: ”یلقي الجرب علی أھل النارفیحکون حتی یبدوالعظام، فیقولون: ربنا! بماذا أصابنا ھذا، فیقال: بأذاکم المسلمین“، وأخرج غیرواحد عن قتادة قال: ”إیاکم وأذي الموٴمن،فإن اللّٰہ تعالی یحوطہ ویغضب لہ“…إلخ․(روح المعاني،سورة الأحزاب:58،22/88،ط:دارإحیاء التراث)
فتاوی عالمگیری میں ہے:”سئل عمن ینسب إلی الأنبیاء الفواحش کعزمھم علی الزناونحوہ الذي یقولہ الحشویة في یوسف علیہ السلام،قال:یکفر؛لأنہ شتم لھم واستخفاف بھم․․․․․․․․․․․․قال أبوحفص الکبیر:کل من أراد بقلبہ بغض نبي یکفر…وکذلک لوقال:”أنارسول اللّٰہ“،أوقال بالفارسیة:”من پیغمبرم“یریدبہ”من پیغام می برم“یکفر…ولوقال لشعرالنبي: ”شعیر“ یکفر عند بعضھم، وعندالآخرین لا، إلا اذاقال بطریق الإستھانة… ولوقال: ”محمددرویشک بود“ أوقال: ”قدکان طویل الظفر“ فقدقیل: یکفر مطلقاً، وقدقیل: یکفرإذاقال علی وجہ الإستھانة،ولوقال للنبي: ”ذلک الرجل قال کذاوکذا“فقدقیل:أنہ یکفر…ومن قال:”جن النبي“یکفر…إلخ“․(کتاب السیر،الباب التاسع في أحکام المرتدین، منھا مایتعلق بالأنبیاء علیھم السلام:2/263-264،ط:رشیدیة)
(وھکذافي البحرالرائق،کتاب السیر،باب أحکام المرتدین:5/203،204،ط:رشیدیة)
فتاوی علماء البلدالحرام میں ہے:”ثانیاً:إن الذین یشتغلون بالتمثیل یغلب علیھم عدم تحري الصدق وعدم التحري بالأخلاق الإسلامیةالفاضلة،وفیھم جرأة علی المجازفة وعدم مبالاة بالإنزلاق إلی مالایلیق مادام في ذلک تحقیق لغرضہ من إستھواء الناس وکسب للمادة ومظھرنجاح في نظرالسوادالأعظم من المتفرجین،فإذا قاموا بتمثیل الصحابة ونحوھم أفضی ذلک إلی السخریة والإستھزاء بھم والنیل من کرامتھم والحط من قدرھم،وقضی علی ما لھم من ھیبة ووقارفي نفوس المسلمین،ثالثاً:إذاقدرأن التمثیلیة لجانبین-جانب الکافرین کفرعون وأبي جھل ومن علی شاکلتھما،وجانب الموٴمنین کموسی ومحمدعلیھماالصلاةالسلام وأتباعھم-فان من یمثل الکافرین سیقوم مقامھم ویتکلم بألسنتھم فینطق بکلمات الکفر ویوجہ السباب والشتائم للأنبیاء ویرمیھم بالکذب والسحر والجنون…إلخ،ویسفہ أحلام الأنبیاء وأتباعھم ویبھتھم بکل ما تسولہ لہ نفسہ من الشروالبھتان مماجری من فرعون وأبي جھل وأضرابھم مع الأنبیاء وأتباعھم لاعلی وجہ الحکایہ عنھمٍٍ؛ بل علی وجہ النطق بما نطقوا بہ من الکفر والضلال؛ ھذاإذالم یزیدوا من عند أنفسھم ما یکسب الموقف بشاعة ویزیدہ نکراًوبھتاناً وإلا کانت جریمة التمثیل أشد وبلاوٴھاأعظم؛ وذلک یوٴدي إلی ما لا تحمدعقباہ من الکفر وفسادالمجتمع ونقیصة الأنبیاء والصالحین․(فتاوی العقیدة،حکم تمثیل الأنبیاء والصحابة والتابعین،رقم المسئلة:289: ص:469، ط:د․خالدبن عبدالرحمن الجریسي)
…اسلام کی نظر میں تصویرسازی نہ صرف قبیح اور حرام ہے،بلکہ لعنت اور غضبِ خداوندی کا مستوجب ہے،چنانچہ تصویر بنانے والے کے حق میں رسول اللہ ا کاارشادِ گرامی ہے:
”إن أشدالناس عذاباًعنداللّٰہ یوم القیمة المصورون“
․
ترجمہ:”
بے شک قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں سب سے دردناک عذاب تصویربنانے والوں کوہوگا“
۔
(الصحیح للبخاري،کتاب اللباس،باب عذاب المصورین یوم القیمة،رقم الحدیث:595، ص:1224، ط:دارالکتاب العربي
)
اس ارشادِ گرامی کے مدِّمقابل یہ بات بدیہی ہے کہ کوئی فلم بھی جاندار کی تصاویر سے خالی نہیں ہوتی،اوریہی ظلم اورناپاک جسارت مذکورہ فلموں میں بھی کی گئی ہے کہ حضوراکے پاکیزہ دور اورمقدس شخصیات کو ایسے ذرائع سے پیش کیا گیا ہے جو خالصتاً معاصی کے لیے استعمال ہوتے ہیں،اورجن کا ناجائز ہونا بیسیوں احادیث سے ثابت ہے،حالانکہ انبیاء علیہم السلام اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی تصاویر بناناان پر کذب وافتراء کے زمرے میں آتا ہے۔
…حالات وواقعات کی منظرکشی سے متعلق کوئی فلم اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں عورتوں کا کردار نہ ہو،چنانچہ تحقیق کے مطابق مذکورہ فلموں میں بھی یہ کردار موجود ہے ،جبکہ غیرمحرم مرد وعورت کااکٹھے ہونا شیطنت ہے،اورفلمی ایکٹرز ان برائیوں کو برائی نہیں سمجھتے،بلکہ اپنی پسند کی عورت ایکٹرس کاانتخاب کرکے فلمی انڈسٹری میں کام کرتے ہیں،ایسے فحش کردار کے حامل افراد کوپاکباز ہستیوں کی شکل میں دکھاناتدلیس،دھوکہ اورجھوٹ کا کھلم کھلا مظاہرہ ہے،اس صورتِ حال کے پسِ منظرمیں تین اہم باتیں پوشیدہ ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ خواتین کا بے حجاب مردوں کے سامنے آنایاان کی تصاویرکانامحرم مردوں کو دکھلاناقرآن وحدیث کی رو سے قطعاً ناجائز ہے،جیساکہ ارشادِباریلہے: ﴿وإذاسألتموھن متاعاًفاسئلوھن من ورآء حجاب﴾ (الأحزاب:53)
ترجمہ:”
اورجب تم ان سے کوئی چیز مانگو،تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو“
۔(بیان القرآن،سورة الأحزاب، رقم الآیة:53:3/185،ط: ادارة تألیفاتِ أشرفیة)
دوسری جگہ ارشادِباری لہے:﴿وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیة الأولٰی﴾․(الأحزاب:33)
ترجمہ:”
اورتم اپنے گھروں میں قرار سے رہو،اورقدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو“
۔(بیان القرآن،سورة الأحزاب،رقم الأیة:33:3/168، ط: ادارة تألیفاتِ أشرفیة)
امام بیہقی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”السنن الکبرٰی“
میں اس مضمون سے متعلق ایک حدیث مبارک نقل فرمائی ہے:”شرالنساء المتبرجات المتخیلات وھن المنافقات،لایدخلن الجنة منھن إلا مثل الغراب الأعصم“․
ترجمہ:”
بدترین عورتیں، بے پردہ گھر سے نکلنے والی،اکڑکرچلنے والی عورتیں ہیں،وہ نام کی مسلمان(منافق)ہیں،ان میں سے سرخ چونچ اور پیر والے کوے جتنے(یعنی ایک آدھ)کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گی“
۔(السنن الکبرٰی للبیھقي،کتاب النکاح، باب استحباب التزوج بالودودالولود،رقم الحدیث:13478:7/131،ط: دارالکتب العلمیة)
دوسری بات یہ ہے کہ حضرات صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن جنہوں نے اپنی پوری زندگی تستر اور پردے کی حالت میں گزاری،ان طاہرات اور مطہرات ہستیوں کوعام فاسقہ اور فاجرہ عورتوں کی شکل میں پیش کرنا حمیت ِاسلامی اورغیرتِ ایمانی کے سخت خلاف ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ غیر شعوری طور پرناظرین کے دلوں میں یہ خیالِ بد ڈالا جاتا ہے کہ صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن کا معمول عام حالات میں بے پردگی کا تھااور اس دور میں چہرے کے پردے کا عام اہتمام نہیں تھا،حالانکہ لا تعداد منصوصہ دلائل سے صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن کا پردے پر اصرار اور مکمل اہتمام ثابت ہے۔
جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمة اللہ تعالی علیہ نے آیت﴿یدنین علیھن من جلابیبھن…الخ﴾
کے تحت لکھا ہے:”عن أم سلمةرضی الله تعالیٰ عنہا قالت:لما نزلت ھذہ الآیة:”یدنین علیھن من جلابیبھن “خرج نساء الأنصار کأن علی روٴوسھن القربان من السکینة،وعلیھن أکسیة سود یلبسنھا․․․․․․․․․․․الخ“.(تفسیرابن کثیر،سورة الأحزاب، رقم الآیة:59:3/684،ط:دارالسلام)
…مذکورہ فلموں میں سابقہ انبیاء علیہم السلام کے حالات وواقعات میں بہت سی اسرائیلی روایات او ر فرضی تخیلات کو بھی شامل کیا گیا ہے،مثلاً:حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح(قربان ہونے والا)دکھایا گیا ہے،حالانکہ یہ بالکل غلط اور یہود کی نقالی ہے،اس لیے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام۔
جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے آیت﴿فبشرناہ بغلام حلیم﴾
کے تحت لکھا ہے:”وھذا الغلام ھو إسماعیل علیہ السلام، فإنہ أول ولد بشر بہ إبراھیم علیہ السلام،وھوأکبر من إسحاق بإتفاق المسلمین وأھل الکتاب…وھذا کتاب اللّٰہ شاھد ومرشد إلی أنہ إسماعیل،فإنہ ذکرالبشارة بغلام حلیم وذکر أنہ الذبیح…إلخ“ (تفسیر ابن کثیر،سورة الصافات،رقم الآیة:101:4/20،ط: دارالسلام)
اس صورتِ حال میں فلم دیکھنے والے غیر اسلامی تعلیمات کو اسلامی تعلیمات سمجھ کر اسی کو دین سمجھ لیتے ہیں اور ان میں امتیاز نہیں کر پاتے،لہذا اس سنگین غلطی میں مبتلاکرنے کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو ان فلموں کو بنانے یا دکھلانے والے ہیں۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:
﴿ولیَحملن أثقالھم وأثقالاً مع أثقالھم﴾ (العنکبوت:13)
ترجمہ:”
اور یہ لوگ اپنے گناہ اپنے اوپر لادے ہوں گے اور اپنے گناہوں کے ساتھ کچھ گناہ اور“(بیان القرآن،سورة العنکبوت،رقم الآیة:13:3/105،ط:ادارة تألیفات أشرفیة)
۔
نبی کریم اکا ارشادِ گرامی ہے:”من دعا إلی ضلالة،کان علیہ من الإثم مثل آثام من تبعہ،لاینقص ذلک من آثامھم شیئاً“۔
ترجمہ:”
جو شخص لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتا ہے اس پر ان تمام لوگوں کے گناہوں کا وبال ہوتا ہے جواس گناہ کی پیروی کرتے ہیں اور یہ(لوگوں کے گناہوں کے وبال کا اس پر آنا)ان لوگوں کے گناہوں میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا “
․(الصحیح لمسلم،کتاب العلم،رقم الحدیث:6804،ص:1165،ط:دارالسلام)
…یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ فلم کا منشاء تعلیم و تبلیغ نہیں ہوتا،بلکہ تفریحِ طبع اور کھیل تماشوں سے لذت حاصل کرنا ہوتا ہے،لہذا ان فلموں کے دیکھنے والے صرف تفریحِ طبع کی غرض سے فلمیں دیکھیں گے،نہ کہ علم، نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کی غرض سے،جبکہ اسلامی تعلیمات وواقعات کو سننے سنانے کامقصدِ اصلی کھیل اور تفریح کو بنا لینا کسی طرح بھی جائز نہیں،بلکہ اس کا مقصد نصیحت حاصل کرنا ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وذرالذین اتخذوا دینھم لعباًولھواًوغرتھم الحیٰوة الدنیا وذکربہ أن تبسل نفس بماکسبت لیس لھا من دون اللّٰہ ولي ولا شفیع﴾(الأنعام:70)․
ترجمہ:”
اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہ ،جنہوں نے اپنے دین کو لہو لعب بنا رکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھاہے ،اور اس قرآن کے ذریعے نصیحت بھی کرتا رہ،تاکہ کوئی شخص اپنے کردار کے سبب اس طرح نہ پھنس جائے کہ کوئی غیراللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی ہو“
۔(بیان القرآن،سورة الأنعام،رقم الآیة:70:1/559،ط:ادارة تألیفاتِ أشرفیة)
دوسری جگہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:﴿وذکر فإن الذکری تنفع الموٴمنین﴾ (الذاریات:55)
ترجمہ:”
اور سمجھاتے رہئے، کیونکہ سمجھانا ایمان والوں کو نفع دے گا“
۔(بیان القرآن،سورة الذاریات،رقم الآیة:55:3/458،ط: ادارة تألیفاتِ أشرفیة)
…اس طرح کی فلموں کے اجراء کا مقصد بعض ملحدین اور مستشرقین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اس کے ذریعے دین کی اشاعت اور تبلیغ موجودہ زمانے کی ضروریات کو سامنے رکھ کر کرنا چاہتے ہیں،تو یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں دین کی تبلیغ وترویج کے لئے صرف نبی کریم اکا نہج(طریقہ)قابلِ قبول ہے،ناجائز اور حرام طریقوں کے ذریعے دین کی اشاعت نہ صرف مردود،بلکہ موجبِ گناہ ہے۔
جیسا کہ نبی کریم اکاارشادِ گرامی ہے: ”إن الخیرلایأتي إلا بالخیر،ثلاث مرات…إلخ“․
ترجمہ:”
بھلائی ہمیشہ بھلائی کے ذریعے ہی آتی ہے(آپ انے یہ بات بطورِتاکیدتین بار ارشاد فرمائی)“
․(شعب الإیمان للبیھقي،باب في الزھد وقصرالأمل،رقم الحدیث:10289 :7/275، ط: دارالکتب العلمیة)
امام مالک رحمة اللہ علیہ کاارشاد ہے:
”لن یصلح آخر ھذہ الأمة إلا ما أصلح أولھا“
․
ترجمہ: اس امت کے آخری طبقہ کی اصلاح صرف اسی طریقہ کے ذریعے ہی ممکن ہے،جس طریقہ سے امت کے اول طبقہ کی اصلاح ہوئی“
۔ (إقتضاء الصراط المستقیم ،ص:381،ط:مکتبة نزارمصطفی)
…اور اگر بالفرض ان فلموں سے بعض فوائد حاصل ہوتے بھی ہوں،لیکن ان کے مفاسد،فوائد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں،اور اسلامی قانون کے مطابق مفاسد اور فتن کا ازالہ ،مصالح اور منافع کے حصول سے مقدم اور اولیٰ ہے،چنانچہ ابنِ نجیم رحمة اللہ علیہ ”الأشباہ والنظائر“
میں فرماتے ہیں:
”ونظیرالقاعدة الرابعة قاعدة خامسة،وھي:”درء المفاسدأولیٰ من جلب المصالح“،فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة،قدم دفع المفسدة غالباً؛لأن اعتناء الشرع بالمنھیات أشد من إعتنائہ بالمأمورات،ولذا قال علیہ السلام :”إذا أمرتکم بشيء فأتوا منہ مااستطعتم،وإذا نھیتکم عن شيء فاجتنبوہ“،وروي في الکشف حدیثاً:”لترک ذرة مما نھی اللّٰہ عنہ أفضل من عبادة الثقلین“،ومن ثم جاز ترک الواجب دفعاًللمشقة،ولم یسامح في الإقدام علی المنھیات خصوصاً الکبائر“․ (الفن الأول،النوع الأول،القاعدة الخامسة،ص:91-92،ط:قدیمي)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما إثم کبیرومنافع للناس وإثمھما أکبر من نفعھما﴾(البقرة:219)
․
ترجمہ:”
لوگ آپ سے شراب اور قمار(جوا) کی نسبت دریافت کرتے ہیں،آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کو فائدے بھی ہیں،اور گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں“
۔ (بیان القرآن،سورة البقرة،رقم الآیة:219:1/142، ط: ادارة تألیفاتِ أشرفیة)
فتاوی علماء البلد الحرام میں ہے:”رابعاً:دعوی أن ھذا العرض التمثیلي لما جری بین المسلمین والکافرین طریق من طرق البلاغ الناجح،والدعوة الموٴثرة،والإعتبار بالتاریخ دعوی یردھا الواقع،وعلی تقدیر صحتھا فشرھا یطغی علی خیرھا، ومفسدتھا تربو علی مصلحتھا؛ وما کان کذلک یجب منعہ والقضاء علی التکفیر فیہ،خامساً:وسائل البلاغ والدعوة إلی الاسلام ونشرہ بین الناس کثیرة،وقدرسمھا الأنبیاء لأممھم وآتت ثمارھا یانعة؛نصرة للإسلام،وعزة للمسلمین ،وقد أثبت ذلک واقع التاریخ فلنسلک ذلک الصراط المستقیم؛صراط الذین أنعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھدآء والصالحین…الخ“․
(حکم تمثیل الأنبیاء والصحابة والتابعین،رقم المسئلة:289،ص:470،ط:د․خالدبن عبدالرحمن الجریسي)
…اسی طرح کوئی بھی فلم گانے بجانے ،میوزک اور موسیقی کے بغیرنا مکمل سمجھی جاتی ہے،تحقیق کے مطابق مذکورہ فلمیں بھی اس مفسدہ سے خالی نہیں، پھر گانے بجانے کی نسبت ان مقدس ہستیوں کی طرف کرنادوہرے گناہ کاباعث ہے،حالانکہ قرآنِ کریم میں گانے بجانے اور موسیقی کے آلات کولہوالحدیث(غافل کرنے والی باتیں)،جبکہ حدیث مبارک میں اس کو نفاق پیدا کرنے کا سبب اور ذریعہ ٹھہرایا ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ومن الناس من یشتري لھوالحدیث لیضل عن سبیل اللّٰہ بغیر علم ویتخذھا ھزواًاولٰئک لھم عذاب مھین﴾.(لقمان:6)
ترجمہ:”
اور بعض آدمی ایساہے جو ان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں،تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے،اور اس کی ہنسی اڑادے،ایسے لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے“
۔(بیان القرآن،سورة لقمان،رقم الآیة:6:3/141،ط: ادارة تألیفاتِ أشرفیة
)
نبی کریم اکا ارشادِ گرامی ہے:”الغناء ینبت النفاق في القلب ،کما ینبت الماء الزرع“
ترجمہ:گانا بجانا اس طرح دل میں منافقت اگاتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے“۔ (مشکوة المصابیح،کتاب الآداب،باب البیان والشعر،الفصل الثالث،رقم الحدیث:4810:3/189،ط: دارالکتب العلمة)
…فلم سازی کفار اور فساق کا شیوہ ہے،لہذا یہ عمل اختیار کرناکفار اور فساق کی مشابہت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول انے سخت منع فرمایا ہے،اور اس کے خطرناک انجام سے مطلع فرمایا ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿یأیھاالذین آمنوالا تتخذو االیھود والنصٰرٰی أولیاء بعضھم أولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم إن اللّٰہ لایھدي القوم الظلمین﴾․(المائدة:51)․
ترجمہ:”
اے ایمان والو!تم یہودونصاری کو دوست مت بنانا،وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں،اورجو شخص تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا بے شک وہ ان ہی میں سے ہوگا،یقیناًاللہ تعالیٰ سمجھ نہیں دیتے ان لوگوں کو جو اپنا نقصان کررہے ہیں“
۔(بیان القرآن،سورة المائدة،رقم الآیة:51:1/485،ط:ادارة تألیفاتِ أشرفیة)
نبی کریم اکاارشادِ گرامی ہے:”من تشبہ بقوم فھو منھم“
ترجمہ:”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے“(أبوداود،کتاب اللباس،باب ما جاء في الأقبیة،رقم الحدیث:4031:2/203،ط:رحمانیة)
…عقیدہ ختمِ نبوت اسلام کے بنیادی اور اساسی قواعد میں سے ہے،اس کے بغیر ایمان شرعاً غیر معتبر ہے،جبکہ مذکورہ فلموں میں غیر نبی کو نبی بنا کر دکھایا جاتا ہے،جوکہ ایک لحاظ سے غیر نبی کا دعوی نبوت ہے،حالانکہ یہ بدیہی البطلان ہے اور اس کے بطلان پر قرآن وحدیث کے صریح نصوص دال ہیں،خواہ یہ دعوٰی نبوت مرزا قادیانی(لعنة اللہ علیہ وعلی أتباعہ)کے دعوٰی کی طرح ظلی بروزی نبی ہونے کا ہو،یا مذکورہ فلموں کی شکل میں تمثیلی اور تصویری نبی ہونے کا ہو،لہذا ختمِ نبوت کے پروانوں سے درخواست ہے کہ ظلی بروزی نبوت کے دعویداروں کی طرح اس تمثیلی نبوت کے دعویداروں کا سدِ باب کرکے اسلامی فریضہ انجام دیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ما کان محمد أبا أحدٍ من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین وکان اللّٰہ بکل شئی علیماً﴾
ترجمہ:”
محمد(ا)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں،لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں،اور اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جانتا ہے“
۔ (بیان القرآن،سورة الأحزاب،رقم الآیة :40:3/175 ،ط :ادارة تألیفاتِ أشرفیة)
حافظ ابنِ کثیررحمة اللہ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:”وقولہ تعالٰی :﴿ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین وکان اللّٰہ بکل شئی علیماً﴾کقولہ عزوجل:﴿اللّٰہ أعلم حیث یجعل رسالتہ ﴾فھذہ الآیة نص في أنہ لا نبي بعدہ،وإذا کان لا نبي بعدہ فلا رسول بعدہ بالطریق الأولٰی والأحرٰی؛لأن مقام الرسالة أخص من مقام النبوة،فإن کل نبي رسول ولا ینعکس،وبذلک وردت الأحادیث المتواترةعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من حدیث جماعة من الصحابةرضي اللّٰہ عنھم،وقال الإمام أحمد:․…عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:”مثلي في النبیین کمثل رجل بنی داراً فأحسنھا وأکملھا،وترک فیھا موضع لبنة لم یضعھا،فجعل الناس یطوفون بالبنیان ویعجبون منہ ویقولون :لو تم موضع ھذہ اللبنة ،فأنا في النبیین موضع تلک اللبنة“،حدیث آخر:…قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”إن الرسالة والنبوة قد انقطعت،فلا رسول بعد ولانبي“…حدیث آخر:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”لانبوة بعدي إلاالمبشرات“،حدیث آخر:…إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:”فضلت علی الأنبیاء بستٍ:…وأرسلت إلی الخلق کافة،وختم بي النبیون“…حدیث آخر:قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”إني عند اللّٰہ لخاتم النبیین،وإن آدم لمنجدل في طینتہ“…حدیث آخر:قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:”إن لي أسماء:أنا محمد…وأنا العاقب الذي لیس بعدہ نبي“…وقال الإمام أحمد:․․․․․خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوماً کالمودع فقال:”أنامحمدالنبي الأمي ثلاثاً ولا نبي بعدي…إلخ“…والأحادیث في ھذا کثیرة…وقد أخبر اللّٰہ تبارک وتعالی في کتابہ ورسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في السنة المتواترة عنہ انہ لا نبي بعدہ؛لیعلمواأن کل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو کذاب وأفاک،دجال،ضال،مضل…وکذلک کل مدع لذلک إلی یوم القیمة حتی یختموا بالمسیح الدجال ،فکل واحد من ھوٴلاء الکذابین یخلق اللّٰہ تعالی معہ من الأمور ما یشھدالعلماء والموٴمنون بکذب من جاء بھا،وھذا من لطف اللّٰہ تعالٰی بخلقہ…الخ“(تفسیرابن کثیر،سورة الأحزاب،رقم الآیة: 40:3/650652، ط: دارالسلام)
(وھکذا في تفسیر روح المعاني،سورة الأحزاب،رقم الآیة:40:22/4142،ط:دارإحیاء التراث)
…مذکورہ فلموں کو بنانا،لوگوں کے سامنے پیش کرنااور دکھلاناگناہ کے کام میں تعاون ہے،جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود منع فرمایا ہے ۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وتعاونوا علی البر والتقوٰی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان واتقواللّٰہ إن اللّٰہ شدیدالعقاب﴾․(المائدة:2)
ترجمہ:”
اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو،اورگناہ وزیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو،اوراللہ تعالیٰ سے ڈراکرو،بلا شبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں“۔(بیان القرآن،سورة المائدة،رقم الآیة:2: 1/440،ط:ادارة تألیفاتِ أشرفیة)
مذکورہ بالا مفاسد کی بناء پر نیز دوسرے متعدد مفاسد کے پیشِ نظرایسی فلمیں بنانا ،دیکھنا،دکھانا اور خرید وفروخت کرنا وغیرہ سب ناجائز اورحرام ہے،اور اگر جائز سمجھا جائے تو کفر ہے،لہذا اس گھناوٴنی طاغوتی سازش کے مرتکب لوگوں پر لازم ہے کہ صدقِ دل سے توبہ واستغفار، تجدیدِ ایمان اور تجدیدِنکاح کریں ،اورآئندہ کے لئے احتیاط کریں۔
نیز تمام مسلمانوں پر اس طرح کی فلموں سے احتراز لازم ہے ،اور حکومتِ وقت کافرض ہے کہ نہ صرف اس طرح کے کفرو ارتداد پھیلانے والے عناصرکی گرفت کرے ،بلکہ آئندہ ہونے والی اس قسم کی سازشوں کا مکمل سدِ باب کرے ۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی