کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بعض مدارس میں طلباء کے ذمہ اکثر خدمتیں لگائی جاتی ہیں مثلاً: شعبہ بجلی کچھ طلباء کے ذمہ ، بعض کے ذمہ مدرسے کا دودھ ابال کر فریزر میں رکھنا، تاکہ دودھ خراب نہ ہو اور بعض کے ذمہ کھانا اور سالن بنانا وغیرہ ، اب بعض مرتبہ یہ طلباء اپنے متعلقہ شعبہ میں کام کرتے ہوئے کوئی چیز خراب کر دیتے ہیں مثلاً سالن بنانے والا سالن بناتے وقت کھیلنے چلا گیا یا کسی اور کام میں لگ گیا اور سالن کو ویسے چھوڑ دیا ، جس کی وجہ سے سالن جل گیا ، اور خراب ہو گیا یا دودھ ابالنے والے نے دودھ نہیں اُبالا ، جس کی وجہ سے دودھ خراب ہوگیا، تو کیا اس صورت میں ان طلباء پر ضمان آئے گا یا نہیں ؟
طلباء یہ خدمتیں بغیر عوض کے کرتے ہیں۔
مذکورہ شعبوں میں جب کسی طالب علم کی خدمت لگائی جاتی ہے ، تو وہ ان شعبوں میں امین ہے ، اور اگر امین کی تعدی سے کوئی چیز ھلاک ہو جائے ، تو شرعاً اس پر ضمان آتا ہے ، لہذ ا صورت مذکورہ میں اگر طلباء کی تعدی سے کوئی چیز خراب ہو جائے ، مثلا ً : سالن بنانےوالا سالن بناتے وقت کھیلنے چلا گیا ، یا کسی اور کام میں لگ گیا اور سالن کو ویسے چھوڑ دیا ، جس کی وجہ سے سالن جل گیا ، یا دودھ ابالنے والے نے غفلت کی اور دودھ نہیں ابالا ، جس کی وجہ سے دودھ خراب ہو گیا ، تو اس صورت میں اس طالب علم پر شرعاً ضمان آئے گا۔
لما في الملتقى الأبحر:
والوديعة ما يترك عنج الأمين للحفظ،وهي أمانة ، فلا يضمن بالهلاك.وتحته في مجمع الأنهر :قوله:(فلا يضمن) أي:لايضمن المودع الوديعة بغير تعد.وتحته في الدر المنتقى :قوله :فلا يضمن بالهلاك )بلا تعد،كسرقة ،ولو وحدها.(كتاب الوديعة:3/466،467،ط: الغفرية كوئته)
وفي التنوير مع الدر:
( وهي أمانة ) هذا حكمها مع وجوب الحفظ والأداء عند الطلب واستحباب قبولها ( فلا تضمن بالهلاك ) إلا إذا كانت الوديعة بأجر. أشباه معزيا للزيلعي. ( مطلقا ) سواء أمكن التحرز أم لا،هلك معها شيء أم لا؛لحديث الدارقطني(( ليس على المستودع غير المغل ضمان)).( واشتراط الضمان على الأمين ) كالحمامي والخاني ( باطل به يفتى ).خلاصة وصدر الشريعة.(كتاب الإيداع:8/528،529،ط:رشيدية)
وفي شرح المجلة لسليم رستم باز:
(ألأمانةغيرمضمونة،فإذاهلكت أوضاعت بلاصنع الأمين ولاتقصيره،فلايلزمه الضمان).....أماإذاهلكت بتعدى الأمين أوتقصيره،فإنه يضمن.(الكتاب السادس في الأمانات،الباب الأول في أحكام عمومية تتعلق باأمانات،المادة:768،ص:338،ط:الحقانية البشاور).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 175/60