کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں:1.. اسقاط حمل جائز ہے یا نہیں؟2..کیا یہ بچوں کو زندہ درگور کرنے کے حکم میں شامل ہے یا نہیں؟3.. اگر کسی سے یہ غلطی صادر ہوچکی ہو تو اس کے تدارک کی کیا صورت بن سکتی ہے؟
حمل ٹھہر جانے کے بعد چار ماہ پورے ہونے سے پہلے بعض اعذار کی وجہ سے حمل کو ساقط کرنے کی گنجائش ہے، مثلاً: حمل کی وجہ سے عورت کا دودھ خشک ہو گیا اور دوسرے ذرائع سے پہلے بچے کی پرورش کا انتظام ناممکن یا متعذر ہو، اسی طرح کوئی دین دار اور حاذق ڈاکٹر عورت کا معاینہ کرکے کہہ دے کہ اگر حمل باقی رہا تو عورت کی جان یا کوئی عضو ضائع ہونے کا خطرہ ہے، ورنہ بلا عذر ناجائز اور حرام ہے، اور چار ماہ گزرنے کے بعد حمل ساقط کرنا مطلقاً حرام ہے، کسی صورت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
2..جب تک روح نہ آوے، تو اسقاط ِ حمل قتل نفس کے حکم میں نہیں، لیکن اسقاطِ حمل بلا ضرورت حرام او رگناہ ہے اور روح آنے کے بعد حرام، گناہ کبیرہ اور قتل نفس کے حکم میں ہے۔
3..روح پڑنے کے بعد اسقاطِ حمل کیا اور مردہ ہی گر گیا ، تو عورت کے عاقلہ اس کے شوہر کو غرّہ یعنی پانچ سور درہم (131 تولہ3 ماشے چاندی یا اس کی قیمت) ایک سال کے اندر ادا کریں ،او راگر زندہ گر کر بعد میں مرا تو عورت کے عاقلہ پر پوری دیت اور کفارہ قتل واجب ہے، اگر بیوی نے شوہر کی اجازت سے اساقط حمل کیا ہے، تو اپنا حق خود ساقط کرنے کی وجہ سے شوہر کو کچھ نہیں ملے گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی