کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی نیلامی جوتوں کا کام کرتا ہے اور وہ جوتے استعمال شدہ ہوتے ہیں، پھر ان کو دھو کر اچھی طرح صاف کر لیتا ہے ، پھر اس کے بعد ان جوتوں کی اچھی طرح مرمت کر لیتا ہے، یعنی اس میں اگر کوئی پھٹن ہے تو اس کو سی لیتا ہے، او راسی طرح اس جوتے کا اگر رنگ مناسب نہیں ہے تو اس کا رنگ تبدیل کر دیتا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ اس جوتے کو بالکل نئے جوتے کی طرح بنا دیتا ہے، پھر اس کو بازار میں لے جاتا ہے اور گاہک کو فروخت کر تے وقت اس کو یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ یہ نیاجوتا ہے او راس کا رنگ بھی اصلی رنگ ہے، اتنی قیمت میں آپ کو دیتا ہوں، اگر آپ راضی ہیں تولے لیں ورنہ ہماری چیز ہے چھوڑ دیں، تو کیا اس آدمی کے لیے یہ کہنا درست ہے ؟ کہ یہ نیاجوتاہے ،اور اسی طرح یہ کہنا درست ہے کہ اس کا رنگ اصلی رنگ ہے ؟ اور کیا اس کے لیے اس جوتے کا رنگ تبدیل کرناجائزہے؟
واضح رہے کہ جو جوتے کسی کے استعمال میں آجائیں پھر ان کی خواہ کتنی ہی اچھی مرمت کر لی جائے ،تاجروں کے ہاں ان کی قیمت گھٹ جاتی ہے او رایسے جوتوں کو نیاجوتا نہیں کہا جاتا ، لہٰذا مذکورہ جوتوں کونیا جوتا کہنا اور نیاجوتے کے نام سے فروخت کرنا دھوکہ ہے، جوکہ ناجائز ہے، اگر فروخت کیا اور خریدار کو حقیقت کا پتہ چلا تو اُسے واپس کرنے کا اختیار ہوگا، باقی رہا اس جوتے کا رنگ تبدیل کرنا، یہ چوں کہ اس کی اپنی ملکیت ہے جس میں شرعاً وہ تصرف کرنے کا مجاز ہے بشرطیکہ یہ غرض نہ ہو کہ خریدنے والے کو اصلی رنگ کے نام سے دیں گے ،نیز بیچتے وقت گاہک کے علم میں لائے، ورنہ دھوکہ کی وجہ سے یہ بیع ناجائز ہو گی۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی