کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک ادارے میں ملازمت کرتا ہوں جس میں پہلے میری ذمہ داری اشیاء کی خریداری تھی، لیکن پھر میری ذمہ داری بدل دی گئی اور ہمارے ادارہ میں پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ ملازمت پر رکھتے ہوئے تنخواہ ، اوقات او رکام واضح طوربتا دیا جاتا ہے او رجس عہدے پر فائز کیا جاتا ہے وہ بھی تحریری طور پر واضح کر دیا جاتا ہے لیکن جب بھی مالکان ضرورت محسو س کرتے ہیں عہدہ اور کام بدل دیتے ہیں بنا ملازم کی رضا مندی کے او راگر ملازم نئی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دے تو کبھی عذر قبول کر لیا جاتا ہے اور کبھی ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔
1..کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہو گا؟
2..…مالکان اپنے ملازم سے طے شدہ کام کے علاوہ او رکیا کیا کام ملازمت کے اوقات میں لے سکتے ہیں؟
3..… کیا ملازم کو اس بنا پر ملازمت سے فارغ کرنا درست ہو گا؟
حضور صلی الله علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے کہ” زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ معاملات کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور انصاف کا معاملہ کیا جائے، ادارہ کی طرف سے جب اپنے ملازمین کو ان کاکام واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ آپ سے فلاں کام لیا جائے گا تو چاہیے کہ ان سے وہی کام لیا جائے جو ان کے لیے متعین کیا جاتا ہے، ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا کام تبدیل نہ کیا جائے، تاہم اگر ادارہ واقعی ضرورت محسوس کرے تو ملازمین کی رضا مندی سے ان کا کام تبدیل کرسکتا ہے، اس مختصر تمہید کے بعد سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
جواب ،1..2..ادارہ ملازمین سے وہی کام لے جس کی تعیین ان کے لیے واضح طور پر کی ہے، تاہم اگر ادارہ ضرورت محسوس کرے تو ملازمین کی رضامندی سے کوئی اور کام لے سکتا ہے۔
3…ادارہ نے ملازم کے لیے جب ایک کام کی تعیین کر دی تو ادارے کو چاہیے کہ وہ اس معاہدے کی پاس داری کرے، البتہ اگر ادارہ ضرورت کی بناء پر اس سے کوئی او رکام لینا چاہے اور ملازم طے شدہ کام کے علاوہ کسی او رکام کے کرنے سے انکار کر دے تو اس بناء پر اس کو ملازمت سے فارغ کرنا مروّت کے خلاف ہے، تاہم شرعاً اس وجہ سے اس کو ملازمت سے فارغ کرنے کی گنجائش ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی