کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی جس کے وہ معترف ہیں، اختلاف اس میں ہے کہ کتنی طلاقیں دی؟ شوہرکہتا ہے کہ اول تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ میں غصے میں تھا، غالب گمان دو طلاقوں کا ہے، بیوی بھی یہی کہتی ہے کہ دو طلاقیں دی، شوہر کے چچا بھی وہاں موجود تھے وہ بھی کہتے ہیں کہ دوطلاقیں دی، البتہ ایک اور شخص بھی وہاں تھوڑے فاصلے پر کھڑے تھے وہ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں دی ہیں، میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔
اب رہبری فرمائیں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟ اور رجوع کا شرعی طریقہ کیا ہوگا؟
صورت مسئولہ میں چونکہ شوہر کا غالب گمان بھی دو طلاقوں کا ہے، اور بیوی اور چچا کا بیان بھی اس کے مطابق ہے، اس لیے دو طلاقیں واقع ہوئی ہیں۔
اور رجوع کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر بیوی عدت کے اندر ہے تو شوہر بیوی سے یہ کہے کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں، اور بہتر یہ ہے کہ اس پر گواہ بھی قائم کر لے، اور اگر عورت کی عدت ختم ہو چکی ہے تو تجدید نکاح ضروری ہے، اس کے بعد شوہر کے پاس ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔لما في الأشباه:’’شك أنه؛ طلق واحدة، أو أكثر، بنى على الأقل... إلا أن يستيقن بالأكثر، أو يكون أكبر ظنه على خلافه‘‘.(القاعدة الثالثة: اليقين لايزول بالشك، ص:52، رشيدية)وفي تبيين الحقائق:’’والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل‘‘.(كتاب الطلاق: 41/3، دارالكتب العلمية بيروت)كذا في رد المحتار.(كتاب الطلاق، مطلب من الصريح ألفاظ المصحفة: 449/4، رشيدية)وفي الهداية:’’وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالى {فأمسكوهن بمعروف} من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك... والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي‘‘.(كتاب الطلاق، باب الرجعة: 183/2، دار الدقاق).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:192/157