صبر کی حقیقت اورفضیلت

صبر کی حقیقت اورفضیلت

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْء ٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ، الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ﴾․ (سورة البقرة، آیة:156-155) صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو!الله تعالیٰ نے اس کائنات میں جتنی مخلوقات پیدا فرمائی ہیں، ان مخلوقات میں سب سے اشرف، سب سے اعلیٰ، سب سے افضل، سب سے زیادہ معزز ومکرم انسان ہے۔ قرآن کی آیت ہے:﴿وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَیٰ کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا﴾․(سورة الاسراء:70)
یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں او رانہیں پاکیزہ چیزوں کی روز یاں دیں او راپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت دی۔

”تفسیر ابن کثیر“ میں اس آیت کے ذیل میں ہے:”وقد استدل بھذہ الآیة علی أفضلیة جنس البشر علی جنس الملائکة“․ اس آیت سے اس امر پر استدلال کیا گیا ہے کہ جنس انسان جنس ملائکہ سے افضل ہے۔

اور پھر ایک مرسل روایت نقل فرمائی ہے کہ فرشتوں نے الله تعالیٰ سے عرض کیا:”یا ربنا، إنک أعطیت بنی آدم الدنیا، یأکلون منھا ویتنعمون، ولم تعطنا ذلک، فأعطنا في الآخرة“․

اے ہمارے رب! تونے بنی آدم کو دنیا دے رکھی ہے، وہ کھاتے پیتے ہیں، موج مزے کررہے ہیں، تو تو اس کے بدلے ہمیں آخرت میں ہی عطا فرما، (کیوں کہ ہم دنیا میں اس سے محروم ہیں)۔

تو الله تعالیٰ نے فرمایا:”وعزتی وجلالی، لا أجعل صالح ذریة من خلقت بیدی، کمن قلت لہ: کن فکان․“

مجھے اپنی عزت او راپنے جلال کی قسم !اس کی نیک اولاد کو جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اس کے برابر میں ہر گز نہ کروں گا، جسے میں نے کلمہ کن سے پیداکیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، سورة الإسرا،آیة:70)

وجعل الطیبی” من بیانیة“أي فضلنا ھم علی الکثیرین الذین خلقناھم من ذوی العقول کما ھو الظاہر من”من“ وھم منحصرون في الملک والجن والبشر فحیث خرج البشر، لأن الشی لا یفضیل علی نفسہ، بقی الملک والجن، فیکون المراد بیان تفضیل البشر علیہم جمیعا، وھو الذی یقتضیہ مقام المدح․(تفسیر روح المعانی، سورة الإسراء، آیة:70،15/119)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں:
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس مخلوق کو میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا یعنی اپنی خاص عنایت وفضل سے اس کو اور اس مخلوق کو کیسے برابر کردوں جس کو میں نے کلمہ کن سے پیدا کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انسان ملائکہ سے نوعاً افضل ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت:21/304)

البتہ اس میں تھوڑی سی تفصیل ہے، وہ یہ کہ انسانوں کے رسول وہ فرشتوں کے رسولوں سے افضل ہیں اور فرشتوں کے رسول عامة البشر سے افضل ہیں اور عامة البشر عام فرشتوں سے افضل ہیں۔

چناں چہ ”شرح العقائد“ میں ہے:
ورُسل البشر أفضل من رسل الملائکة، ورسل الملائکة أفضل من عامة البشر، وعامة البشر أفضل من عامة الملائکة․ (شرح العقائد،ص:403)

اور”شرح الفقہ الأکبر“ میں ہے:
ومنھا تفضیل الملائکة: فخواصھم أفضل بعد الانبیاء علیہم السلام من عموم الأولیا، والعلماء، وعامة الملائکة أفضل من عامة المؤمنین، لکونھم مجرمین والملائکة معصومین․ (شرح الفقہ الاکبر، لعلی القاری،ص:341)

لیکن خوب یاد رکھیں کہ وہ انسان اشرف وافضل ہے جو الله تعالیٰ کی منشا کے مطابق اس دنیا میں زندگی گزارے، وہ لوگ جوالله تعالیٰ کے نافرمان ہیں، وہ لوگ جو خدانخواستہ الله تعالیٰ سے دشمنی او رمخالفت کرتے ہیں وہ اس میں شمار نہیں، ان کے بارے میں تو الله تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿کالأنعام بل ھم أضل﴾․(سورةالأعراف، آیة:179)

وہ تو چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ چوپاؤں سے بھی بدترین ہیں۔ انسان الله کی منشا کے مطابق زندگی گزارے،اس کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے جو احکامات اپنے نبیوں کے ذریعے بھیجے ان کو وہ دل وجان سے قبول کریں اور اس کا جو سب سے پہلا پتھر، سب سے پہلی اینٹ اور سب سے مضبوط بنیاد ہے اسے ایمان کہتے ہیں۔

پھر اس ایمان کے بہت سارے پھل ہیں، ثمرات ہیں، جو صرف ایمان والے کو حاصل ہوتے ہیں، انہی میں سے ایک بہت لذیذ، میٹھا پھل صبر ہے کہ جو ایمان والا ہوتا ہے، کامل الایمان، وہ ہر حال میں صبر کرتا ہے، ہر آدمی نہیں کرسکتا، آپ نے سنا ہے حضرت ایوب علیہ السلام الله کے نبی ہیں، الله تعالیٰ کے محبوب ہیں، ان پر جو آزمائشیں آئی ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ جو ابتلا اور آزمائشیں آتی ہیں، یہ ایمان کے اس درخت کو طاقت ور کرتی ہیں ،مضبوط کرتی ہیں۔

چناں چہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر آزمائشیں آئی ہیں: ﴿أشد الناس بلاءً الأنبیاء﴾ سب سے زیادہ سخت آزمائشیں انبیاء پر آتی ہیں او رپھر فرمایا: ثم الأمثل فالأمثل․(عن معصب بن سعد عن أبیہ قال: قلت یا رسول الله، أي الناس أشد بلاء؟ قال: الأنبیاء ، ثم الأمثل فالأمثل․(سنن الترمذی، ابواب الزھد، رقم الحدیث:2398) جو جتنا انبیاء کے قریب ہوتا ہے اس پر آتی ہیں۔ تو یہ آزمائش ہے ابتلا ہے یہ ترقی کے لیے ہے۔( آزمائشوں پر اجر:”سنن ترمذی“ کی روایت ہے: آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے الله کے رسول ! سب سے زیادہ آزمائش کس کو ہوتی ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کی پھر درجہ بدرجہ لوگوں کی۔ آدمی آزمائشوں میں مبتلا کیا جاتا ہے اس کے دین کے اعتبار سے ”فإن کان فی دینہ صُلبا اشتد بلاء ہ“ پس اگر آدمی اپنے دین میں پختہ ہوتا ہے تو اس کی آزمائش سخت ہوتی ہے ”وإن کان فی دینہ رقة ابتلی علی قدر دینہ“ او راگر آدمی دین میں پتلا ہوتا ہے تو اس کو دین کے اعتبار سے آزمایا جاتا ہے۔ ” فما یبرح البلاء بالعبد، حتی یترکہ یمشی علی الأرض وما علیہ خطیئة․“

آزمائشیں برابر مومن مرد وعورت کے ساتھ لگی رہتی ہیں، اس کی ذات میں، اس کی اولاد میں اور اس کے مال میں، یہاں تک کہ وہ الله تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے، درآنحالیکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(سنن الترمذی، ابواب الزھد، رقم الحدیث:2399)

مصائب کا اجر قابل رشک ہو گا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یَودّ أھل العافیة یوم القیامة حین یعطی أھل البلد الثواب، لو أن جلودھم کانت قرضت في الدنیا بالمقاریض․“

جب مصیبت زدوں کو (آخرت میں) ثواب دیا جائے گا تو اہل عافیت( وہ لوگ جو دنیا میں ہمیشہ چین وآرام سے رہے) تمنا کریں گے اے کاش! ان کی کھالیں دنیا میں قینچیوں سے کتری گئی ہوتیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الزھد، رقم الحدیث:2402)

مؤمن کو پہنچنے والی ہر تکلیف گناہوں کا کفارہ بنتی ہے
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” ما یصیب المسلم من نصب ولا وصب ولا ھم ولا حزن ولا أذیً ولا غم حتی الشوکة یشاکھا إلاکفر الله بہامن خطایاہ․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب المرضی، باب ماجاء فيکفارة المرض، رقم:5641، والجامع الصحیح لمسلم، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ من مرض، رقم:2573)

مسلمان کو جو بھی دکھ اور جو بھی بیماری او رجو بھی پریشانی اور جو بھی رنج وغم اور جو بھی اذیت پہنچتی ہے یہاں تک کہ کانٹا بھی اگر اس کے لگتا ہے تو الله تعالیٰ ان چیزوں کے ذریعے اس کے گناہوں کی صفائی کر دیتا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے : ”ما من مسلم یصیبہ اذیً، شوکة فما فوقھا، إلا کفر الله بھا سیئاتہ کما تحط الشجرة ورقھا․“(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب المرضی، باب أشد الناس بلاء الانبیاء، رقم:5648)

کسی مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے مرض سے یا اس کے علاوہ، الله تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح خزاں رسیدہ درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔

آزمائش کا آنا بلندی درجات کا سبب
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے:”إن العبد إذا سبقت لہ من الله منزلة لم یبلغھا بعملہ ابتلاہ الله فی جسدہ أو فی مالہ، أو فی ولدہ، ثم صبرہ علی ذلک حتی یبلغہ المنزلة التی سبقت لہ من الله․“(سنن أبی داود، کتاب الجنائر، باب الأمراض المکفرة للذنوب، رقم الحدیث:3092، ومسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم:22338)

کسی بندہ مومن کے لیے الله تعالیٰ کی طرف سے ایسا بلند مقام طے ہو جاتا ہے جس کو وہ اپنے عمل سے نہیں پاسکتا، تو الله تعالیٰ اس کو کسی جسمانی یا مالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ اور پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے، پھر اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے، یہاں تک کہ (ان مصائب وتکالیف او ران پر صبر کرنے کی وجہ سے ) اس بلند مقام پر پہنچا دیتا ہے، جو اس کے لیے پہلے سے طے ہوچکا تھا)۔

مصیبت سے سبق لینا چاہیے
ایک صحابی حضرت عامررضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بیماریوں کے سلسلے میں کچھ ارشاد فرمایا، (یعنی بیماری کی حکمتیں اور اس میں جو خیر کا پہلو ہے اس کا تذکرہ فرمایا) اس سلسلہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”إن المومن إذا أصابہ السقم ثم عافاہ الله عزوجل منہ کان کفارة لما مضی من ذنوبہ وموعظة لہ فیما یستقبل“․

جب ایک مسلمان بیماری میں مبتلا ہوتا ہے او رپھر الله تعالیٰ اس کو صحت وعافیت نصیب کرتا ہے، تو یہ بیماری اس کے لیے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور مستقبل کے لیے نصیحت وتنبیہ کا کام کرتی ہے۔

”وإن المنافق إذا مرض ثم أعفی کان کالبعیر، عقلہ أھلہ ثم أرسلوہ، فلم یدر لم عقلوہ ولم أرسلوہ؟“

اور منافق آدمی جب بیمار پڑتا ہے اور اس کے بعد اچھا ہو جاتا ہے، ( تو وہ اس سے کوئی سبق نہیں لیتا او رکوئی نفع نہیں اٹھاتا) اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جس کو اس کے مالک نے باندھ دیا، پھر کھول دیا، لیکن اس کو کوئی احساس نہیں کہ کیوں اس کو باندھا اور کیوں کھولا؟ (سنن أبی داود، کتاب الجنائز، باب الأمراض المفکرہ للذنوب، رقم:3091)

مطلق مصیبت او ربیماری پر بھی اجر ملتا ہے
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله فرماتے ہیں:”مشہور تو یہ ہے کہ جب صبر کرے تب اجر ملتا ہے، مگر بعض محققین کی یہ تحقیق ہے کہ مرض کا اجر علیحدہ ہے او رصبر کا الگ۔

مرض الگ چیز ہے اور صبر الگ چیز، مرض غیر اختیاری چیز ہے اور صبر اختیاری، دونوں ایک نہیں، میں قواعد فن سے کہتا ہوں کہ عدم صبر میں بھی مرض کا اجر ملے گا، گو بے صبری کا مؤاخدہ الگ ہو گا، اس سے مرض کا اجر کیوں فوت ہو جائے گا؟! جیسے رمضان میں بہت لوگ ایسے ہیں کہ روزہ تو رکھتے ہیں ،مگر نماز نہیں پڑھتے تو نماز نہ پڑھنے کا مؤاخدہ الگ ہو گا اور روزہ رکھنے کا اجر الگ ملے گا۔ (ملفوظات حکیم الامت:10/216-215)
          تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
          یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
عقاب جب باد مخالف کا مقابلہ کرتا ہے تو اوپر جاتا اور اوپر جاتا ہے تو آزمائشوں کا آنا ترقی کا ذریعہ اور سبب بنتا ہے، آدمی الله کی طرف رجوع ہوتا ہے۔

میں آپ کوچھوٹی سی مثال دیتا ہوں، آپ ایک چھوٹے سے خاندان کے فردہیں، آپ کے والد ہیں، والدہ ہیں، بیوی بچے ہیں، اس میں ساری چیزیں ٹھیک چل رہی ہیں، تنخواہ بھی مل رہی ہے، آمدنی بھی ہو رہی ہے، گھر کا نظام بھی چل رہا ہے ،خدانخواستہ کوئی وجہ ایسی ہو جاتی ہے کہ والد صاحب ناراض ہو جاتے ہیں، تو یہ آزمائش ہے، آپ پریشان ہو جاتے ہیں، خدانخواستہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیوی ناراض ہو جاتی ہے، تو آزمائش ہے، آپ خود سوچ لیں، آپ کنبے کا فرد ہیں کہ اس آزمائش کے زمانے میں آپ کے اعمال کی کیفیت بد ل جاتی ہے، وضو بھی اہتمام سے ہو رہا ہے، مسجد میں حاضری بھی اہتمام سے ہو رہی ہے، نوافل بھی پڑھ رہے ہیں، صلوٰة الحاجت بھی پڑھ رہے ہیں، ذکر بھی کر رہے ہیں، دعائیں بھی مانگ رہے ہیں کہ ابا جان راضی ہو جائیں، بیوی راضی ہو جائے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال میں نے دی کہ چھوٹی سی آزمائش آتی ہے تو آدمی کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ تو آپ بتائیے کہ اگر یہ آزمائش نہ ہوتی تو آپ اتنی صلوٰة الحاجتیں پڑھتے، اتنی لمبی لمبی دعائیں مانگتے یا آپ اتنا ذکر کرتے یا آپ اتنا الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے؟! آزمائش ذریعہ بنی آپ کی ترقی کا(بعض دفعہ مصیبت، بیماری وغیرہ کی صورت میں جو آزمائشیں آتی ہیں او ران پریشانیوں کی وجہ سے دل غمگین ہے ٹوٹا ہوا ہے تو یہ دل کا غمگین ہونا دل کا ٹوٹنا یہ الله تعالیٰ کے قرب کا سبب بن جاتا ہے اور یہ دل جب ٹوٹتا ہے تو الله تعالیٰ کی رحمتوں کا مورد بن جاتا ہے۔(جاری)