اصول ِ حیات

اصول ِ حیات

مولانا عبدالاحد

دین کے مطابق زندگی گزارنا انسانی زندگی کا مقصد ہے، مال ودولت، کھانا پینا، کپڑا،مکان انسانی زندگی کی ضرورت ہے۔ الله تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ﴾․ (الذاریات:56)

ترجمہ:” جنات او رانسانوں کومیں نے پیدا کیا محض اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔“

الله تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے دین کے مطابق زندگی گزارنا انسانی زندگی کا مقصد ہے۔

جس کلمہ کو پڑھ کے انسان دین کے اندر داخل ہوتا ہے، اس کلمہ کا درس بھی یہی ہے کہ انسان محض الله کی عبادت کرے اور الله کے حکموں کے مطابق زندگی گزارے،”لا الہٰ الله“ الله کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، الله کے حکموں کو ماننا لازم تو ہے، لیکن اس کا طریقہ بھی معلوم ہونا چاہیے تو وہ طریقہ ہے”محمد رسول الله“ محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول وپیغمبر ہیں۔ یہ جملہ ہمیں پیغام دے رہا ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ نے جتنے بھی احکام اپنے بندوں کے لیے نازل فرمائے وہ اپنے نبی پراتارے، جب الله کے احکام نبی کے علاوہ کسی اور سے نہیں مل سکتے تو ان پر عمل کرنے کا طریقہ بھی نبی سے ہی ملے گا۔ اس کے علاوہ کسی اور کا طریقہ قابل قبول نہیں ہو گا۔

چناں چہ اسی دین پر عمل کرنے کا درس دیتے ہوئے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کون مجھ سے ان باتوں کو لے گا جو خود ان پر عمل کرے یا آگے اس شخص کو سکھا دے جو ان پرعمل کرے؟ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے عرض کیا: یا رسول الله! میں حاضر ہوں ، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر پانچ چیزیں شمار کیں ، فرمایا:”اتق المحارم تکن أعبدالناس“ حرام کردہ چیزوں سے بچتے رہو تو لوگوں سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے۔” وارض بما قسم الله لک تکن أغنی الناس“ الله نے تیری قسمت میں جو کچھ دے دیا ہے اس پر راضی ہوجا تو تو لوگوں میں سب سے زیادہ مال دار ہوجائے گا۔” وأحسن الیٰ جارک تکن مؤمنا“ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کر توتو کامل ایمان والا ہوجائے گا۔” وأحب للناس ما تحب لنفسک تکن مسلماً“ اور تو لوگوں کے لیے وہی پسند کر جو تو اپنے لیے پسند کرتا ہے تو تو فرماں بردار بن جائے گا۔” ولا تکثر الضحک، فإن کثرة الضحک تمیت القلب“ اور زیادہ مت ہنسا کر ،کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (الترمذی:2/505)

اس حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے پانچ جملے ارشاد فرمائے۔ ان میں سے ہر ایک جملہ انسانی زندگی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلے جملے میں ارشاد فرمایا: حرام کردہ چیزوں سے بچ توتو لوگوں سے زیادہ عبادت گزار ہوگا۔ اس جملے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبادت کا مفہوم بتایا ہے، اس مبارک جملے کا مقصد پہچاننے سے پہلے عبادت کا معنی معلوم ہونا چاہیے۔ عربی میں لفظ”عبادة“ کا معنی ہے خدمت کرنا، ذلیل ہونا، خضوع کرنا اور یہ سب الفاظ قریب المعنی ہیں، جن کا خلاصہ ہے مالک کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کر دینا، بغیر کسی دلیل او ربغیر چوں چراں کے حکم مان لینا، جیسا کہ قرآن مجید میں الله تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم فرمایا:﴿أسلم﴾”اے ابراہیم! اپنے آپ کو سپرد کر تو انہوں نے فوراً الله تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم ختم کرتے ہوئے کہا:﴿أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ﴾میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے سپرد کر دیا۔ جب کہ ہمارے ہاں عبادت کا مفہوم سمجھا جاتا ہے کہ ایک بندہ نفلی نمازیں زیادہ پڑھے، ذکر واذکارزیادہ کرے تو اس کو ہم عبادت گزار سمجھتے ہیں، بلکہ یہ عبادت کا ایک حصہ ہے، حقیقی عبادت یہ ہے کہ فرائض وواجبات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ الله تبارک وتعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے بھی بچتا رہے، ایک شخص نفلی نمازیں اور ذکر واذکار تو بہت زیادہ کرتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ سود بھی کھاتا ہے، چغل خوری اور غیبت بھی کرتا ہے، کسی کا ناحق مال بھی کھاتا ہے، کسی کی عزت پر ڈاکا بھی ڈالتا ہے تو یہ شخص بدبخت تو ہے، لیکن عبادت گزار نہیں۔

دوسرا اصول حیات آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”الله کی تقسیم پر راضی ہو جا تو تو لوگوں سے زیادہ غنی ہو جائے گا۔“ غنی کے دو معنی ہیں: ایک ہے مال دار ہونا اور دوسرا دل میں لوگوں سے سوال کا تقاضا پیدا نہ ہونا۔جسے ہم استغنا سے تعبیر کرتے ہیں، اگر ”أغنی“ سے مال دار ی اور نعمتوں کی کثرت مراد ہو تو ”ارض بما قسم الله لک“ کا معنی ہو گا، مال کی کمی کی وجہ سے الله کی ناشکری نہ کر کہ لوگوں سے کہتا پھرے کہ کھانے کے لیے خوراک پوری نہیں ہوتی، پہننے کے لیے لباس پورا نہیں، رہنے کے لیے مکان پورا نہیں، اگر اس ناشکری سے تو اپنے آپ کو بچائے گا تو الله تجھے لوگوں سے زیادہ مال دار کر دے گا۔ اس معنی کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے :﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِن شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُم﴾ اور جب اعلان کر دیا ہے تمہارے رب نے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں البتہ ضرور تم پر (نعمتوں کا) اضافہ کردوں گا۔ اور اگر ”أغنیٰ“ کا معنی استغناء ہو تو پھر ”وارض بما قسم الله لک“ کا مطلب ہو گا کہ الله کی تقسیم پر راضی ہو جا ،لوگوں سے سوال مت کر، تو تو لوگوں سے مستغنی ہو جائے گا، الله تبارک وتعالیٰ تیر ے دل میں سوال کا تقاضا ہی ختم کر دے گا، جس کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الغنیٰ غنی النفس“ حقیقی مال داری دل کا مستغنی ہونا ہے۔

زندگی کا تیسرا اصول آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وأحسن إلی جارک تکن مومناً“ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تو تو کامل ایمان والا ہو جائے گا۔ اس جملہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حقوق العباد کی ادائیگی کا درس دیا ہے، انسان کا اکثر واسطہ پڑوسیوں کے ساتھ ہوتا ہے تو ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا حکم فرمایا، کیوں کہ احسان کے بغیرامن قائم نہیں ہو سکتا، احسان کہتے ہیں:اس کے حق سے بڑھ کر اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا او راحسان عدل(انصاف) سے بڑھ کر ہے، عدل کا معنی ہے دو ترازوآپس میں برابر ہو جائیں، مطلب یہ کہ آپ کا پڑوسی آپ کے ساتھ جو معاملہ کرتا ہے، آپ بھی اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتے ہیں، تو یہ عدل ہے، اس میں معاملہ دونوں طرف سے برابر ہے، اس میں کوئی اجرو ثواب نہیں ، مگر عدل لازمی اور ضروری ہے۔ اجر وثواب کا معاملہ احسان ہے، آپ کا پڑوسی آپ کے ساتھ زیادتی کرتا ہے، آپ اس کو معاف کرکے اس کے ساتھ پہلے سے زیادہ اچھائی کا معاملہ کرتے ہیں تو یہ اجرو ثواب کا باعث ہے اور امن اسی احسان سے قائم ہوتا ہے، کیوں کہ پڑوسی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا میل جول زیادہ ہوتا ہے اور انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق کسی انسان کا مزاج دوسرے انسان کے مزاج کے موافق ہونا ناممکن ہے تو لازمی بات ہے کہ مزاج کی عدم موافقت کی وجہ سے ایک دوسرے سے خلاف مزاج باتیں پیش آئیں گی، اگر برابری کا معاملہ کرتے رہے تو ممکن ہے کہ معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جائے، لہٰذا احسان کا معاملہ کرکے امن قائم کیجیے او رایمان کامل کیجیے، کیوں کہ ایمان ہے ہی امن سے اور پڑوسی سے مراد صرف وہ پڑوسی نہیں ہے جس کا گھر آپ کے گھر کے ساتھ ہے یا وہ آپ کی گلی کا رہنے والا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا ساتھ اکثر آپ کو حاصل ہے، البتہ حق کی ادائیگی میں پڑوسیوں کے مراتب ہیں، اس میں پہلا حق اس پڑوسی کا ہے جو رشتہ دار بھی ہے، کیوں کہ آپ پر اس کا دوہرا حق ہے، ایک قرابت کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا۔ دوسرا حق اس پڑوسی کا ہے جس کا گھر آپ کے گھر کے قریب ہے، تیسرا حق اس پڑوسی کا ہے جو آپ کے پہلو میں رہتا ہے، یعنی اس کا اٹھنا بیٹھنا آپ کے ساتھ ہو، چاہے وہ ایک ہی جماعت میں آپ کے ساتھ پڑھنے والا طالب علم ہو یا کسی تعلیمی ادارے میں آپ کے ساتھ پڑھانے والا استاذ ہو یا کسی سرکاری یا پرائیویٹ یا کاروباری ادارے میں کام کرنے والا آپ کا پارٹنر (شریک) منیجر یا پھر ملازم ہو۔ چوتھا حق اس پڑوسی کا ہے جو سفر میں آپ کے ساتھ ہے۔ ان چاروں پڑوسیوں کو قرآن مجید میں بھی درجہ وارذکر کیا گیا ہے :﴿وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتَامَیٰ وَالْمَسَاکِینِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَیٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِیلِ﴾․(النساء:36)

وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی(رشتہ دار پڑوسی) وَالْجَارِ الْجُنُبِ (قریب کا پڑوسی) وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ (پہلو میں رہنے والا ساتھی) وَابْنِ السَّبِیل(سفر کا پڑوسی)۔

چوتھی چیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی:”وأحب للناس ماتحب لنفسک تکن مسلماً“ اور تو لوگوں کے لیے وہی پسند کر جو تو اپنے لیے پسند کرتا ہے، تو تو فرماں بردار ہو گا۔

اس جملے کا تعلق بھی حقوق العباد سے ہے۔ انسان کا فطری جذبہ ہے کہ وہ اپنے حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن فطرت کا قانون ہے کہ انسان اپنے حقوق اس وقت حاصل کرسکتا ہے جب وہ دوسروں کے حقوق ادا کرے گا، لہٰذا اس پر لازم ہے کہ جب وہ اپنے حقوق کا تقاضا کرتا ہے تو دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا جذبہ رکھے۔ ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”خیر الناس من ینفع الناس“ لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ اس جذبہ کے ساتھ انسان حقیقی مسلمان کہلانے کا حق دار ہے۔

پانچواں جملہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ولا تکثر الضحک، فإن کثرة الضحک تمیت القلب“ اور زیادہ مت ہنسنا کر، کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ یہ مبارک جملہ انسان کی اصلاح سے متعلق ہے، یہ جملہ تمام جملوں سے انتہائی اہم ہے، کیوں کہ حقوق الله ہوں یا حقوق العباد، انسان ان کی ادائیگی کی فکر اس وقت کرتا ہے جب اس کے دل میں خوف خدا اور فکر آخرت ہو، دین کی عمارت کی بنیاد فکر آخرت ہے، کیوں کہ جب تک انسان اس بات کی فکر نہ کرے کہ قیامت قائم ہونی ہے او رمیں نے الله تبارک وتعالیٰ کے سامنے اپنی زندگی کا جواب دینا ہے، میرے لیے اچھا یا بُرا فیصلہ ہونا ہے، میرا داخلہ جنت میں ہو گایا جہنم میں، اس وقت تک نہ حقوق الله کی ادائیگی کی فکر پیدا ہو گی اور نہ ہی حقوق العباد کی اورکثرت ضحک (زیادہ ہنسنا) غفلت کی علامت ہے، اس سے فضول مجلسوں کا شوق دل میں زیادہ پیدا ہوتا ہے اورا عمال کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے، اگر انسان اس کی طرف جلد توجہ نہ کرے تو دھیرے دھیرے دل سخت ہوتا چلا جاتا ہے، آخر دل اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ بالکل نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت اس کے اندر باقی نہیں رہتی، اسی کو آپ صلی الله علیہ و سلم نے دل کے مردہ ہونے سے تعبیر فرمایا۔ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم میں گوشت کا لوتھڑا (دل) ہے،اگر وہ صحیح ہو تو انسان کا سارا بدن صحیح رہتا ہے، (اگر اس کے اندر اعمال کرنے کا شوق اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہو تو باقی بدن بھی اعمال اور نصیحت کی طرف متوجہ رہتا ہے) اگر وہ خراب ہو تو سارا بدن بھی خراب رہتا ہے ( یعنی دل کی خرابی سے بدن بھی اعمال او رنصیحت سے دور رہتا ہے ) ۔چناں چہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر فکرِ آخرت پیدا کرے اور بے معنی، فضول باتوں اور فضول مجلسوں سے پرہیز کرے او راپنی زندگی جو الله تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہے، الله اوراس کے رسول کے عطا کردہ اصولوں کے مطابق گزارے۔