صبر وثبات ۔ رباط اور تقویٰ کی اہمیت

صبر وثبات ۔ رباط اور تقویٰ کی اہمیت

محترم محمد احمد حافظ

بسم الله الرحمن الرحیم
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․(آل عمران:200)
ترجمہ:” اے ایمان والو! صبر کرو اور مقابلے میں مضبوط رہو اور ڈرتے رہو الله سے، تاکہ تم مراد کو پہنچو۔“ (ترجمہ شیخ الہند)
خلاصہ:… یہ سورہ آلِ عمران کی آخری آیت ہے اور ماقبل کی آیات میں الله کی راہ میں مہاجرت، مسافرت، اموال کے نقصان اور بے کسی وبے بسی کا ذکر ہے، اس کے بعد الله تعالیٰ کے انعامات کا بھی تذکرہ ہے، نیز اہل ِ ایمان کو دنیا کی بے ثباتی باور کرا کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ یہ آخری آیت گویا پوری سورہ کا خلاصہ ہے۔
مذکورہ آیت میں اہل ِ ایمان کو چار چیزوں کی وصیت کی گئی ہے :

صبر مصابرہمرابطہ تقویٰ
زمانہ حال میں جیسے حالات چل رہے ہیں اور اہل ِ ایمان جس قسم کی تکالیف اور صعوبتوں سے نبرد آزما ہیں، ان حالات کے پس منظر میں یہ آیت ہمیں ایک خاص سبق دیتی ہے۔

صبر… آیت ِ کریمہ میں پہلے نمبر پر صبر کو بیان کیا گیا ہے۔ صبر کی علماء نے تین قسمیں بیان کی ہیں:

صبر علی الطاعات: یعنی الله تعالیٰ کے اوامر کی پابندی کرنا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کو لازم پکڑنا۔

صبر عن المعاصی: یعنی جن چیزوں سے الله تعالیٰ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے روک دیا ہے ان سے رک جانا، خواہ وہ نفس کو کتنی ہی مرغوب کیوں نہ ہوں۔

صبر علی المصائب: مصیبت وتکلیف پر صبر کرنا، خاص طو رپر جب یہ مصائب الله کے دین پر عمل پیرا ہونے کے بعد پیش آئیں۔ ان مصیبتوں سے گھبرا کر دامن حق نہ چھوڑنا، بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ پکڑ لینا۔

مصابرت… آیت کریمہ میں دوسری چیز مصابرت ذکر فرمائی گئی، اس کے معنیٰ ہیں دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا۔ شدائد جنگ اور زخموں سے چور ہونے کے باوجود الله تعالیٰ سے آخرت کے اجر کی امید رکھتے ہوئے میدانِ جہاد میں ڈٹے رہنا۔ دین کی راہ میں آنے والی تکالیف اور مصائب کو برداشت کرنا۔ تفسیر البحر المحیط میں ہے:

مصابرہ کے معنی ہیں الله تعالیٰ کی نصرت کے پورا ہونے کا انتظار کرنا۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ الله تعالیٰ نے چوں کہ اس سورت میں کثرت سے جہاد کی ترغیب دی ہے، اس لیے اس کی آخری آیت میں ”مصابرہ“ یعنی دشمنوں سے ڈٹ کر مقابلے کا حکم دیا۔ علمائے کرام نے اس کی ایک اور تفسیر بیان کی ہے کہ جس طرح ہر مومن ومسلم کے ظاہری دشمن ہیں اسی طرح باطنی دشمن بھی ہیں،جن میں سب سے زیادہ خطرناک دشمن انسان کا نفس ہے، تو اس سے بھی ہر وقت چوکنا اور مستعدرہنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ یہ کسی وقت بھی انسان کو راہ ِ حق سے بھٹکا کر گناہوں کی پرخاروادی میں دھکیل سکتا ہے، اس لیے اس سے بھی ہوشیار رہنا لازم ہے۔

رابطوا: آیت ِ کریمہ میں تیسری چیز رباط ذکر فرمائی گئی ہے، رباط کا لغوی معنی گھوڑے کو کسی جگہ پر حفاظت کے لیے باندھ دینے کے ہیں، اسی سے ”رباط الجیش“ ہے ،یعنی فوج کو کسی جگہ متعین کر دینا ،نگرانی کرنا، دشمن کے مقابلے میں دارالسلام کی سرحدوں کی حفاظت کرنا، اسلامی مملکت کی حفاظت کے لیے جنگی ساز وسامان سے مسلح رہنا یہ سب رباط میں شامل ہے، ابن عطیہ کہتے ہیں صحیح قول یہ ہے کہ رباط کا معنی الملازمة في سبیل الله(الله کی راہ کولازم پکڑنا ) ہے۔

اس کے علاوہ ایک نماز کی ادائی کے بعد دوسری نماز کی بروقت اور جماعت کے ساتھ ادائی کے لیے فکر مند رہنابھی رباط میں شامل ہے۔ چناں چہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” میں تمہیں وہ چیز بتاتا ہوں جس سے الله تعالیٰ گناہوں کو معافر فرما دیں او رتمہارے درجات بلند فرما دیں ، وہ چیزیں یہ ہیں:

وضو کو مکمل طور پر کرنا، باوجود کہ سردی یا زخم وغیرہ کے سبب اعضاءِ وضو کا دھونا مشکل نظر آرہا ہو۔

مسجد کی طرف کثرت سے جانا او رایک نماز کے بعد دوسر ی نماز کا انتظار کرتے رہنا۔ اس کے بعد فرمایا ” ذالکم الرباط“ (یعنی یہ بھی رباط فی سبیل الله ہے )۔ (قرطبی)

امام قرطبی رحمہ الله نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا۔ اس حدیث کی رو سے امید ہے کہ جو شخص ایک نماز کے بعد وسری نماز کی پابندی کرے اس کو بھی الله تعالیٰ وہ ثواب عظیم عطا فرمائیں گے جو رباط فی سبیل الله کے لیے احادیث میں مذکور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل رباط فی سبیل ا لله اس سے ایک مختلف چیز ہے اور وہ ہے اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کرنا او رکفار سے مقابلے کے لیے جنگی ساز وسامان تیار رکھنا۔ احادیث میں اس کے بہت زیادہ فضائل آئے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

” الله کے راستے میں ایک دن کا رباط تمام دنیا ومافیہا سے بہتر ہے “۔ صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” ایک دن رات کا رباط ایک مہینے کے مسلسل روزے او رتمام شب عبادت میں گزارنے سے بہتر ہے او راگر وہ اسی حالت میں مر گیا تواس عمل ِ رباط کا روزانہ ثواب ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا اور الله تعالیٰ کی طرف سے اس کارزق جاری رہے گا اور وہ شیطان سے محفوظ ومامون رہے گا۔“

امام قرطبی نے حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” مسلمانوں کی کم زور سرحد کی حفاظت اخلاص کے ساتھ ایک دن، رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں، کرنے کا ثواب سو سال کے مسلسل روزوں اور شب بیداری سے افضل ہے او ررمضان میں ایک دن کا رباط ایک ہزار سال کے صیام وقیام سے زیادہ افضل ہے۔“

حضرت ابو درداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص الله کی راہ میں سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے وفات پا گیا وہ بڑی گھبراہٹ ( یعنی قیامت کے دن کی پریشانی سے ) محفوظ رہے گا اور (قبر میں ) اسے صبح شام رزق ملتا رہے گا او راسے برابر مرابط ( یعنی رباط میں لگنے والے ) کا ثواب ملتا رہے گا، یہاں تک کہ الله تعالیٰ اسے ( قیامت کے دن قبر سے) اٹھائے“ (رواہ الطبرانی)
رباط کے عمل کی اتنی زیادہ فضیلت یوں ہی نہیں ہے مجاہدین اسلام اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر دشمن کے سامنے صف آرا ہوتے ہیں تو ایک ایک لمحہ موت کا پیغام ہوتا ہے، مگر الله کے یہ سچے بندے اس خوف وہراس کی کیفیت کے باوجود، محض الله تعالیٰ کی رضا کے لیے، مستعد او رتیار کھڑے ہوتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ کفار اسلامی سرحد کی خلاف ورزی کی کوشش کریں تو ان کا منھ توڑ جواب دیا جاسکے۔

تقویٰ… آیت کریمہ میں چوتھی بات تقویٰ کی بیان کی گئی ہے۔ پچھلے ایک درس میں تقویٰ کی حقیقت مختصر طور پر بیان کی جاچکی ہے۔ یہاں بس اتنا سمجھ لیجیے کہ تقویٰ نام ہے ہمہ وقت الله رب العزت کی رضا جوئی کی تلاش میں رہنا اور اس کے قہر وغضب سے ڈرتے رہنا۔ آیت بالا میں یوں سمجھ لیجیے کہ تقویٰ کو بطور شرط بیان کیا گیا ہے یعنی صبر ومصابرہ اورمرابطہ بغیر تقویٰ کے ثمر آور نہیں ہوسکتے۔

فلاح:… فلاح کے معنی کام یابی او رمطلب پا لینے کے ہیں۔ فلاح دو قسم کی ہے، دنیوی اور اخروی، فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کر لینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوش گوار بنتی ہو، یعنی بقا ئے مال، اوربقائے عزت ودولت وغیرہ۔ فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے : بقاء بلافناء ، غناء بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہل… ان تمام چیزوں کا اصل مقام آخرت میں ہے، اس لیے کہ وہاں نہ فنا ہے، نہ فقر ہے، نہ ذلت ہے او رنہ ہی جہل ہو گا۔ اسی لیے کہا گیا ہے ”لاعیش إلا عیش الآخرة“ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی زندگی کے بارے میں کہا گیا ہے: ﴿وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ﴾․ (العنکبوت:64) ” اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے“۔
آخر میں ﴿لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾ فرما کر نتیجہ بتا دیا ۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله فرماتے ہیں:

”یہاں لعل شک کے لیے نہیں ہے، بلکہ ترجی یعنی امید دلانے کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اعمال بجالا کر فلاح کے امیدوار ہو، لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس میں تو کوئی وعدہ ہے ہی نہیں، تو شاید ایسا نہ بھی ہو، کیوں کہ یہ شاہانہ کلام ہے اور بادشاہ کسی کو امید دلا کر،ناامید نہیں کیا کرتے۔ شاہانہ کلام ہزار پختہ وعدوں سے زیادہ ( مضبوط) ہوتا ہے۔ (مزید فرمایا) لعلکم میں ایک راز ہے جواہل سنت نے سمجھا ہے وہ یہ کہ لعل فرماکر تنبیہ کی گئی ہے کہ ہم وعدہ کرکے مجبورنہیں ہو گئے، بلکہ اب بھی جزا کا دینا نہ دینا ہمارے اختیار میں ہے۔ ہماری شان یہ ہے کہ﴿لایسئل عما یفعل﴾ (جووہ کرتا ہے اس سے اس کو پوچھا نہ جائے گا)۔ ہم وعدہ ایفاء کریں گے، مگر اس کے لیے مجبور بھی نہیں ہیں، بلکہ وعدہ کے بعد بھی ویسے ہی مختار ہیں جیسے قبل وعدہ تھے۔“ (بخوالہ اشرف التفاسیر جلد اوّل)

فلاح کا تقویٰ سے خاص تعلق ہے، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تقویٰ اور فلاح کا ایک ساتھ ذکر ہوا ہے، مثلاً:
﴿وَأْتُواْ الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِہَا وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:189)
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ﴾․(آل عمران:130)
﴿فَاتَّقُوا اللَّہَ یَا أُولِی الْأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․ (المائدہ:100)
سورہ نُور میں توبہ کے ضمن میں :﴿وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّہَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․(النور:31)

فلاح کا وعدہ انہی لوگوں کے لیے ہے جن میں اوپر مذکورہ صفات موجود ہوں… فلاح کیا ہے؟ اس عظیم کام یابی کا حصول جسے ہمیشہ کے لیے دخول جنت اور جہنم سے نجات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کا تصور فلاح یہ ہے کہ نفس ِ انسانی تزکیہ اور پاکیزگی حاصل کر لے اور اس کا دل معاصی سے پاک ہو کر الله تعالیٰ کی کبریائی کے آگے جھک جائے۔ جب ایسا ہو جائے تو وہ عبد ِ مومن فلاح کا حقیقی مستحق ہو گا۔ قرآن مجید میں ہے : ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی﴾․(الاعلی)”تحقیق کا م یاب ہوا جس نے اپنے آپ کو پاک کیا۔“

یا جیسے سورہ شمس میں ارشاد ہے:﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا، فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا، قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾․
”اور نفس جیسا کچھ اس کو سنوارا، پس اس کو سمجھ دی اس کی بدی کی او راس کی نیکی کی، کام یاب ہوا جس نے اس کو پاک کیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو آوارہ چھوڑ دیا۔“

آیت مذکورہ میں ایمان والوں کونہایتقیمتی نصیحت ارشاد فرمائی گئی ہے، جو آج کے ماحول میں بہ خوبی سمجھی جاسکتی ہے۔ آج کا سکہ رائج الوقت”آزادی“ ہے ، آزادی دراصل نفس کی آوارگی کا نام ہے، مغرب نے جو انسانی حقوق متعین کیے ہیں، ان میں انسان کا پہلا حق ”آزادیٴ“ ہے، آزادیٴ فکر ونظر، آزادی مذہب، آزادیٴ اظہار، آزادیٴ عمل، آزادیٴ نسواں، یہ تمام آزادیاں دراصل نفس کی آوارگیاں ہیں۔ اس لیے فلاح یافتہ انسان وہ ہے جس نے اس دنیا میں اپنے نفس کو قابو میں کر لیا او راپنے آپ کو ان تمام آلائشوں سے بچالے گیا، اسی سے الله تعالیٰ کی رضا ملے گی۔
سختیاں اٹھا کر بھی طاعت پر جمے رہو: فائدہ از حضرت شیخ الہند:

”اگر کا م یاب ہونا اور آخرت میں مراد کو پہنچنا چاہتے ہو تو سختیاں اٹھا کر بھی طاعت پر جمے رہو، معصیت سے رکو، دشمن کے مقابلہ میں مضبوطی اور ثابت قدمی دکھاؤ، اسلام اور حدود اسلام کی حفاظت میں لگے رہو، جہاں سے دشمن کے حملہ آور ہونے کا خطرہ ہو وہاں آہنی دیوار کی طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ جاؤ:﴿وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ﴾(الانفال) ہر وقت ہر کام میں خدا سے ڈرتے رہو۔ یہ کر لیا تو سمجھو مراد کو پہنچ گئے:”اللّٰھم اجعلنا مفلحین وفائزین بفضلک ورحمتک في الدنیا والآخرة․“

آخری بات
موجودہ احوال میں زیر درس آیت ہمارے لیے ایک خاص پیغام رکھتی ہے۔ یوں تو الله کی پوری کتاب ہی مومنین کے لیے ہدایت اورراہ نمائی ہے، لیکن اس آیت کو ہمارے حالات سے ایک خاص تعلق ہے۔ اس وقت اہل دین بحیثیت مجموعی جن حالات سے گزر رہے ہیں اور جس طرح کے شدائد ومصائب نازل ہو رہے ہیں، دشمنان ِ اسلام جس طرح خفیہ وعلانیہ سازشوں میں مصروف ہیں، ان کے پیش نظر ہر صاحب ِ ایمان کو صبر وتقویٰ اور مصابرہ ومرابطہ کی طرف بطور خاص دھیان دینا چاہیے۔ ان چاروں صفات کو الله تعالیٰ نے اکٹھا ذکر فرمایا ہے او ران میں خاص حکیمانہ تعلق ہے۔ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اسلام پر عمل پیرا ہونے او را س کی قوت وسطوت اور شوکت کے حصول کے لیے پیش آمدہ تکالیف پر صبر کرتا ہے اور ظاہری وباطنی دشمنوں سے ہوشیار رہتے ہوئے، ان کی سرکوبی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اس سارے عرصے میں تقویٰ کی ڈھال کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ یہی وہ خاص پیغام ہے، اس آیت کا، جو آج کے مسلمانوں سے مخاطب ہے۔ یہ چاروں نکات وہ خاص اصول ہیں، جن میں ہماری دنیوی کام یابی اور اخروی فلاح مضمر ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کے اس پیغام کو سمجھنے اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔