پھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا!

پھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا!

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب زید مجدہم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم! أما بعد فأعوذ بالله من الشیطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․﴿یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ﴾․(سورة الصف:8)

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

آج الحمدلله جامعہ فاروقیہ کراچی کے تعلیمی سال کا طلبائے عزیز کے سامنے آخری بیان یا اجتماع ہے اور مسلسل آپ حضرات کی خدمت میں یہ بات عرض کی گئی ہے کہ آپ اس دنیا میں، اس کرہ ارض پر بہت منتخب لوگ ہیں، بار بار اس بات کو عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے ، تاکہ یہ بات دل میں بیٹھ جائے، قرار پکڑلے۔

ہم الحمدلله ثم الحمدلله مدارس کی اس محنت کے حوالے سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں ایک بہت بڑا متیاز رکھتے ہیں، اگر آپ اب سے سو سال پہلے کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو پوری دنیا میں مسلمانوں کا زوال اب سے سو سال پہلے یا ڈیڑھ سو سال پہلے ہوا تھا اور پوری دنیا پر قسما قسم کا استعمارآیا، ہمارے اس خطے میں جو استعمار آیا، اس کو انگریزی زبان میں کالونیل سسٹم کہتے ہیں، ہمارے اس خطے کوانگریزنے اپنی کالونی بنایا اور اس پر قبضہ کر لیا، چناں چہ پوری خلافت عثمانیہ جو دنیا کے تقریباً اکثر حصے پر قائم تھی اور اسلام کا جھنڈا پوری دنیا میں لہراتا تھا، اس خلافت عثمانیہ کی بندر بانٹ کی گئی، کچھ حصے پر انگریزوں نیقبضہ کیا، کچھ حصے پر فرانسیسیوں نیقبضہ کیا، کچھ حصے پر ڈچ قوم نے قبضہ کیا، کچھ حصے پر ہسپانیہ والوں نے قبضہ کیا، کچھ حصے پر اٹلی والوں نے قبضہ کیا اور وہاں کے مسلمان جہاں تک ان سے ممکن ہوا انہوں نے مزاحمت بھی کی، انہوں نے جہاد بھی کیا اور اپنے خطے کو آزاد کروانے کی کوشش بھی کی، لیکن ان تمام استعماروں میں جو سب سے خوف ناک اور سب سے ظالم استعمار تھا وہ فرانسیسی استعمار تھا، اس نے اسلام کی جڑ اور اسلام کا بیج مارنے اور ختم کرنے کی کوشش کی۔

آپ حیران ہوں گے کہ آج بھی فرانس کے جو میوزیم ہیں وہ خاص قسم کے میوزیم ہیں ،ان میں الماریاں ہیں، ریکس بنے ہوئے ہیں اور ہر اس مجاہد اور شہید کی باقیات مثلاً اس کا سر،اس کا سینہ، اس کے ہاتھ، اس کی ٹانگیں، تاریخ کے ساتھ درج کرکے میوزیم کے اندر رکھا ہوا ہے۔

لیبیا او رافریقا کے او ربہت سے ممالک، فرانسیسی استعمار کا شکار ہوئے، بڑی مزاحمت کی وہاں کے مسلمانوں نے، بڑے بڑے مجاہدین پیدا ہوئے، ان استعماروں میں انگریزی استعمار بھی بہت خوف ناک استعمار ہے، ہزاروں ہزار علماء کو پھانسیوں پہ لٹکایا گیا، کالا پانی جیل میں ڈالا گیا اور ملک کے اندر بھی ان کا ناطقہ بند کیا گیا، زندگی گزارنا دشوار اور مشکل کر دیا گیا، لیکن پوری دنیا کا اگر آپ جائزہ لیں، اس استعمار کے زمانے میں صرف ایک خطہ برصغیر کا ہے کہ یہاں کے علماء نے جو حکمت عملی طے کی اور جو طریقہ اختیار کیا، اس کے نتیجے میں آج آپ، طلباء علوم نبوت یہاں موجود ہیں۔

یہ ہمار ے اکابر کی ان قربانیوں ، مجاہدوں اور حکمت علمی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے فوراً اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی اور مدرسہ قائم کیا، دارالعلوم دیوبند قائم کیا، دارالعلوم دیوبند قائم ہوا تو ایک استاد او رایک شاگردسے، استاد بھی محمود، شاگرد بھی محمود، انار کے درخت کے سائے میں، کوئی عمارت نہیں، کوئی بلڈنگ نہیں، ایک استاد ایک شاگرد سے دارالعلوم دیوبند شروع ہوا۔

خدمت دین میں اسباب پر نظر نہ ہو

یہاں دورہ کے طلباء موجود ہیں او رکل انہیں میدان عمل میں اترنا ہے، وہ کبھی بھی یہ خیال نہ کریں کہ میرے پاس تو مسجد نہیں ہے، میں کام کیسے کروں گا؟ میرے پاس تو بلڈنگ نہیں ہے، میں کام کیسے کروں گا؟ نہیں، ہمارے اکابر ہمیں طریقہ صرف بتا کر نہیں گئے، عملاً دکھا کر گئے، عمارت کی ضرورت نہیں، اسباب کی ضرورت نہیں، ایک طالب علم مل جائے آپ کو، الله کا نام لے کر کام شروع کر دو، اگر اخلاص ہو گا، اگر للہیت ہوگی، اگر روحانیت ہوگی تو الله جل جلالہ اُسی ایک استاد اور ایک شاگرد سے بہت بڑا کام بنا دیں گے
اسی چراغ سے چراغ جلے گا اور قافلہ تیار ہو گا،تو ہمارے اکابر نے جو طریقہ اختیار فرمایا وہ نہایت مؤثر طریقہ تھا، الله تعالیٰ کے ہاں وہ طریقہ قبول ہو گیا، الله تعالیٰ نے اسے پسند فرمایاہے۔

ہر فاضل کا مقصد دین کی خدمت ہو

آپ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جو مدرسہ ہے۔یہ جامعہ فاروقیہ جہاں آپ بیٹھے ہیں، یہ براہ راست دارالعلوم دیوبند کی شاخ ہے، ہمارے حضرت قدس الله سرہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے، آخری پانچ سال انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں گزارے ، دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اپنے طلباء کو وہی ترغیب دیتے تھے جو آج میں آپ کو دینا چاہ رہا ہوں کہ ہمارا کوئی بھی فاضل کوئی کام نہیں کرے گا، سوائے اعلائے کلمة الله کے، مسجد کا کام کریں گے، مدرسے کا کام کریں گے، الله کے لیے دین کی خدمت کریں گے، ہم کبھی بھی یہ نہیں سوچیں گے کہ روٹی کا کیا ہو گا؟ یہ ہمارا کام نہیں﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللَّہِ رِزْقُہَا﴾رزق الله کے ذمے ہے، جو طالب علم آپ کے پاس آئے گا وہ اپنا رزق ساتھ لے کر آئے گا، آپ اس کی فکر نہ کریں، الله انتظام فرمائے گا، آپ نے یہاں کئی برس گزارے ہیں، تو یہاں کون کر رہا ہے؟ کوئی آدمی کر رہا ہے؟ کوئی آدمی نہیں کر رہا، الله تعالیٰ کر رہے ہیں، میں نے کئی دفعہ یہ بات کی ہے کہ آج کے اس دور میں پانچ چھ افراد کا کنبہ چلانا لوگوں کے لیے آزمائش بن گیا ہے، سینکڑوں طلباء ہیں، ان کے دو وقت کا کھانا، ان کی بجلی، ان کا پانی، ان کی گیس، ان کا انتظام، کون کرسکتا ہے؟ انسان نہیں کرسکتا، یہ الله تعالیٰ کر رہے ہیں، آپ جاکر اسی نیت، اسی عزم اور اسی حوصلے سے کام شروع کریں گے تو یقینا ،یقینا الله تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں گے۔

امامت کا منصب ذوق وشوق سے اختیار کریں

دورہ حدیث کے طلباء سے یہ درخواست ہے کہ مسجد کا کام، مسجد کی خدمت اختیار کرنے میں ان کو کبھی بھی یہ وہم او رخیال نہ ہوکہ میں کوئی چھوٹا کام کر رہا ہوں ،یہ امام الانبیاء سید الرسل صلی الله علیہ وسلم کا کام ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں آخر وقت تک مسجد نبو ی کے امام تھے، حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ مسجد نبوی کے امام تھے، تو ہمارے مقتدا کون لوگ ہیں؟ یہی او رالله تعالیٰ کواس کائنات میں ان حضرات سے زیادہ کوئی پسند ہے؟ نہیں۔ تو جب ہم سب یہ جانتے ہیں تو پھر یہ سوچیں اور یہ خیال آئے کہ میں امامت کروں گا؟ انا لله وإنا الیہ راجعون، شوق کے ساتھ، ذوق کے ساتھ امامت کریں۔

زندہ امام بنیں!

یاد رکھیں کہ زندہ امام بنیں، مردہ امام نہ بنیں، اگر آپ زندہ امام بنے تو آپ یاد رکھیں کہ پورے علاقے پر ان شاء الله ثم ان شاء الله کنٹرول آپ کا ہو گا، زندہ امام بنیں، امام محمد فرماتے ہیں کہ عالم ربانی کی پہچان یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے مسجد میں آئے اور سب سے آخر میں مسجد سے جائے، مسجد کو وقت دیں، آپ مسجد میں ہوں گے ، زیادہ وقت ہوں گے لوگوں کو آپ سے فیض زیادہ ملے گا اور اگر آپ محراب کے دروازے سے اقامت کے وقت آئے اور سلام پھیر کر وہیں سے باہر نکل گئے، تو آپ کو کیا معلوم کہ آپ کے پیچھے کون لوگ ہیں؟! آپ مسجد میں رہیں اور لوگوں کے ساتھ خوش روئی کے ساتھ، خندہ پیشانی کے ساتھ ،تبسم کے ساتھ ملاقات کریں، آپ کے ہاتھ میں کوئی مصافحے کے لیے ہاتھ دے تو سنت یہ ہے کہ آپ اپنا ہاتھ نہ کھینچیں، آپ کی کوشش یہ ہو کہ ہاتھ میں ہاتھ ہے اور آپ اس سے باتیں کر رہے ہیں اور باتیں کرتے کرتے آپ اسے حجرے میں لے جائیں ۔ ہمارے والدماجد قدس الله سرہ فرماتے تھے کہ پریشان نہ ہوں کہ میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں، نہ نہ، فرماتے تھے کہ ایک گھڑا لے لو، ایک صراحی لے لو، اس گھڑے، صراحی میں پانی رکھ لو اوراتنا تو انتظام آپ کے پاس ہو گا کہ تھوڑے سے چنے لے لو، تھوڑا سا گڑ لے لو، یہ چنے او رگڑ آپ کے پاس ہوں، صراحی، گھڑے میں پانی ہو، اس آدمی کا ہاتھ پکڑ کر آپ کمرے، حجرے میں لے آئے، آپ نے اس کو وہاں بٹھایا، اپنی جگہ پر بٹھائیں، چاہے وہ مزدور ہو، اپنے ہاتھ سے گھڑے سے پانی نکال کر پیش کریں، جو چنے ہیں وہ پیش کریں، گڑہے وہ پیش کریں اورجو اس کا مسئلہ ہے وہ توجہ سے سنیں او رپھر وہ مسئلہ آپ کو صحیح آتا ہے تو بتا دیں او راگر شک اور شبہ ہے تو بالکل پروا نہ کریں، ان سے کہیں کہ میں کتاب دیکھوں گا، اگر عصر میں ملاقات ہوئی ہے تو کہیں مغرب میں بتا دوں گا، عشاء میں بتا دوں گا، اگلے دن فجر میں بتا دوں گا، اس میں کوئی عیب نہیں ہے، اس میں قوت زیادہ ہے، کوئی پریشانی کی بات نہیں کہ آپ کو اس وقت مسئلہ نہیں آتا، لیکن غلط مسئلہ نہ بتائیں، اس سے کہیں کہ میں کتاب دیکھ کے یا میں اپنے اساتذہ سے پوچھ کے آپ کو بتا دوں گا۔

آپ یقین کریں کہ اب یہ جو آدمی یہاں سے اٹھ کے جائے گا، یہ پورے گاؤں میں، پورے محلے میں، جہاں جہاں بیٹھے گا، جس جس سے ملے گا ، آپ کا تذکرہ کرے گا، اب اور لوگ آئیں، انہیں بھی ہمت ہو گی کہ ماشاء الله ایسے امام ہیں، ہم بھی اپنے مسئلے پوچھیں، آپ یقین فرمائیں کہ یہ چند دنوں میں ،تھوڑے عرصے میں، پورا گاؤں آپ کی طرف متوجہ ہو گا۔ ہر آدمی آپ کے قریب ہو گا اور ظاہر ہے کہ جب آپ اس مبارک انداز میں محنت کریں گے تو گاؤں کے مسائل، لوگوں کے اجتماعی مسائل، لوگوں کے انفرادی مسائل سب آپ کے پاس آئیں گے، وہ یہ یقین کریں گے کہ یہ آدمی قابل اعتماد، قابل اعتبار ہے، ہمیں اس سے مشورہ کرنا چاہیے، اپنی بیٹی کا نکاح کریں گے آپ سے مشورہ کریں گے، دکان کھولیں گے آپ سے مشورہ کریں گے، حالاں کہ آپ کا یہ کام نہیں ہے، لیکن انہیں آپ پر اعتماد ہو گا کہ اگر ہم امام صاحب سے اس پر رائے لیں گے، تو وہ رائے ہمارے لیے زیادہ بہتر ہو گی، عقیدت بڑھے گی، محبت بڑھے گی اور آپ بڑے بڑے کام کرسکیں گے۔

یہاں ہمارے پاس کئی ساتھی آتے ہیں او رآکر ذکرکرتے ہیں کہ ہماری مسجد کو تیس سال ہوگئے ہماری مسجد بنتی نہیں ہے، بہت ہم نے محنت کی، میں کہتا ہوں، ناراض نہ ہوں، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ خود آپ ہیں، آپ نے صحیح طریقہ ہی اختیار نہیں کیا، اگر آپ صحیح طریقہ اختیار کرتے، آپ خادم بن کر وہاں رہتے، آپ نافع بن کروہاں رہتے، آپ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے، لوگوں کی مدد کرتے، لوگوں کے کام آتے، تو آپ جس دن بیلچہ مسجد کی تعمیر کے لیے لگاتے، اسی دن چاروں طرف آپ کے پاس لوگ کھڑے ہوتے کہ استاد جی سیمنٹ کتنا چاہیے ۔کوئی کہتا استاد جی سریہ کتنا چاہیے۔ استاد جی ریتی کتنی چاہیے۔ کوئی کہتا میرے پاس پیسے نہیں ہیں، میں مزدوری کروں گا۔یہ واقعات ہیں، ہمارے ملک کے اندر مسجد اورمدرسے اسی طرح بنتے ہیں، مدرسے والوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔

آپ کام شروع کریں گے تو کوئی کہے گا سیمنٹ میری طرف سے، کوئی کہے گا، اینٹیں میری طرف سے، یہ کب ہوگا جب لوگ یہ سمجھیں گے کہ ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے، یہ کام کر رہے ہیں، ان سے ہماری نسلیں بہتر ہوں گی، ہمارا مستقبل محفوظ ہو گا۔

دینی مدارس کے خلاف ایک سازش او رمنصوبے کا انجام

یہاں اس جامعہ فاروقیہ میں۔ پرویز مشرف کا زمانہ تھا اور ضیاء الحق مرحوم کے بیٹے اعجاز الحق وفاقی وزیر تھے مذہبی امو رکے، وہ یہاں آئے، آپ جانتے ہیں، دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مہمان آتا ہے، گاڑی اندر آتی ہے تو طلباء کا بھی ہجوم ہو جاتا ہے، عمارتیں کئی کئی منزلیں ہیں، تو سب منزلوں کی گیلریوں میں طلبہ کھڑے ہوجاتے ہیں، نیچے بھی چاروں طرف طلباء ہیں۔

پرویز مشرف نے ماڈل دینی مدرسے کا ایک نظام اور سازش شروع کی تھی او رجو وفاقی وزیرمذہبی امور تھے وہ اس کے ذمہ دار تھے، دفتر کے سامنے دونوں باغیچوں کے درمیان وہ مجھ سے باتیں کررہے تھے، اور بار بار یوں طلباء کو دیکھتے ہیں اورکہتے مولانا! یہ اتنے طلباء ہیں؟! میں نے کہا الله تعالیٰ کا فضل ہے، اس کا کرم ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں ماڈل دینی مدرسوں کا ذمہ دار وزیر ہوں، میرے ساتھ حکومت پاکستان کا مکمل خزانہ ہے، بیرون ملک سے جتنی طاغوتی قوتیں اور نظام ہیں ان سب کے خزانے بھی ہمارے ساتھ ہیں، لیکن ہم نے ابھی تک صرف تین مدرسے قائم کیے ہیں اور وہ بھی ایک کراچی کے حاجی کیمپ میں قائم کیا ہے، دوسرا سکھر کے حاجی کیمپ میں قائم کیا ہے، تیسراراولپنڈی کے حاجی کیمپ میں قائم کیا ہے اورباوجود اس کے کہ حکومت پاکستان کا خزانہ ہمارے ساتھ ہے ،ہم سے یہ تین مدرسے نہیں چل رہے، آپ کیسے چلاتے ہیں؟ تو میں نے کہا آپ ناراض تو نہیں ہوں گے؟ کہنے لگے نہیں، میں نے کہا یہ گیٹ جس سے آپ اندر آئے ہیں، اگر ہم آج اس کے ماتھے پیشانی پر باہر کی طرف حکومت پاکستان لکھ دیں، تو کل سے یہ جامعہ فاروقیہ بھی ختم ہو جائے گا، لوگ فوراً سمجھیں گے کہ یہ بھی سرکاری ہوگئے، طلباء بھی یہ سمجھیں گے کہ اب یہ جگہ رہنے کی نہیں رہی ،چلو یہاں سے، اساتذہ بھی سمجھیں گے کہ یہاں تواب دوسرا قصہ ہے، چلو یہاں سے، میں نے کہا یہ کام الله والوں کا ہے او رہمارے اکابر او ربزرگوں نے اس کام کو للہیت کی بنیاد پہ کیا ہے، ان مدرسوں کے ساتھ رہنے والے لوگ، مسلمان اس ملک ، اس شہر کے رہنے والے لوگ آنکھیں بند کرکے تعاون کرتے ہیں، کیوں کرتے ہیں؟ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارا او رہماری نسلوں کا دینی تحفظ ان مدرسوں کے ذریعے سے ہے۔اگر خدانخواستہ یہ مدرسے نہیں رہے تو ہمارا دین بھی نہیں رہے گا، ہمارا ایمان بھی نہیں رہے گا، ہمارے بچوں کا مستقبل بھی ختم ہوگا۔

فضلاء صرف دینی کام سے وابستہ رہیں

میری گزارش ہے ،درخواست ہے اپنے فضلائے عزیز سے، جواب فارغ ہو کر اپنے علاقوں میں جائیں گے تو وہ صرف دینی کام کریں، کوئی دنیاوی کام نہیں۔آج کل ایک فتنہ شروع ہو چکا ہے، سرکاری نوکریوں کا، تو ابھی میں نے سرکار کا قصہ تو سنا دیا کہ جب آپ سرکاری ہو جائیں گے تو پھر سرکاری ہوں گے، الله والے نہیں ہوں گے، پھر آپ کے اندر جو خمیر بنے گا جو مزاج بنے گا ،وہ الله والا نہیں بنے گا ،وہ سرکار والا بنے گا،تو آپ کو الله والا بننا ہے او ربالکل فکر نہ کریں کہ کیسے چلے گا مدرسہ؟ کیسے چلے گی مسجد؟ نہیں، آپ کا جو کام ہے آپ وہ کریں۔

جامعہ فاروقیہ کا ابتدائی زمانہ

ہمارے حضرت رحمۃ الله علیہ نے جب یہ مدرسہ بنایا تو یہاں کچھ نہیں تھا، یہ عمارتیں نہیں تھیں، یہ مسجد نہیں تھی، مسجد کا وضو خانہ جو آپ دیکھ رہے ہیں اس وضو خانے کے بقدر ایک مسجد تھی چھوٹی سی، اس کے اوپر ٹین کی چادریں تھیں اور وہ ٹین کی چادریں ایسی تھیں کہ جب بارش ہوتی تھی تو بارش اندر آتی تھی، لیکن دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے، حضرت مدنی رحمہ الله علیہ کے شاگرد خاص تھے، بڑوں کا اعتماد حاصل تھا، بڑوں کے تربیت یافتہ تھے، بیٹھ گئے، طلباء آتے تھے، حضرت فرماتے تھے کہ ہمارے پاس کھانے کا انتظام نہیں ہے، طلباء کہتے کہ ہم کھانا کھانے نہیں آئے ہیں، ہم تو علم حاصل کرنے آئے ہیں ۔طلبا ء آتے حضرت فرماتے ہمارے پاس کمرے نہیں ہیں، طلباء کہتے ہمیں کمرے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ طلباء آتے، حضرت فرماتے کہ ہمارے پاس تو بیت الخلاء کا بھی انتظام نہیں ہے۔ وہ کہتے کہ ہمیں اس کی بھی پروا نہیں، آپ بس ہمیں پڑھائیں، چناں چہ ایک ہجوم تھا طلباء کا۔

حضرت ہمارے اٹھارہ اٹھارہ، انیس انیس سبق اکیلے پڑھاتے تھے اور وہ سبق بھی ان کتابوں کے سبق تھے جن کتابوں کے نام بھی آج آپ کو معلوم نہیں۔

میر زاہد پڑھاتے تھے، ملا حسن، ملاّ جلال، شرح چغمینی، شمس بازغہ پڑھاتے تھے او راس کے ساتھ مشکوٰة شریف، بخاری شریف مکمل اکیلے پڑھاتے تھے، دو جلدیں نہیں تھیں اس زمانے میں، مشکوٰة کی دو جلدیں نہیں تھیں اس زمانے میں ،ترمذی کی دو جلدیں نہیں تھیں اس زمانے میں، مسلم کی دوجلدیں نہیں تھیں، اس زمانے میں، بخاری شریف کی، یہ ساری کتابیں خود پڑھاتے تھے۔

تو الله پر توکل کیا، اپنے اکابر کی تربیت کے اعتبار سے کیا اور اس مسجد کے امام بھی حضرت خود تھے، خود نمازیں پڑھاتے تھے، تو طلبا ء سے میری گزارش ہے کہ وہ اس کا اہتمام کریں اور اس کی کوشش کریں ،ہر ہر فاضل مسجد، مکتب، مدرسہ قائم کرے۔

تبلیغ اور حضرت اقدس شیخ المشائخ نوّرالله مرقدہ کا معمول

ہمارے حضرت رحمۃ الله علیہ ساری زندگی، جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، آخر وقت تک ہماری ذات کے حوالے سے بھی او راپنے فضلاء اور اپنے طلباء او راپنے شاگردوں کے حوالے سے بھی دعوت وتبلیغ کی ہمیشہ سرپرستی فرمائی، ضعیف تھے، بوڑھے تھے، وہیل چیئر پر تھے، لیکن کراچی کا اجتماع ،اس میں تین دن پورے شریک رہتے تھے، سب حیران ہوتے تھے، آپ یقین فرمائیں کہ طویل زمانہ ہے، جو برسہا برس پر مشتمل ہے کہ ہر جمعرات کو حضرت باقاعدہ شب جمعہ میں تشریف لے جاتے اور وہاں رومال سر پر ڈال کے کسی بھی کونے میں بیٹھ جاتے تھے۔ وہاں کے لوگ ، ان کو پتہ چلتا کہ حضرت تشریف لائے ہیں ، وہاں توسارے حضرت کے شاگر دتھے اور حضرت کے عقیدت مند، ان کی کوشش ہوتی کہ حضرت خواص کے کمرے میں تشریف لے آئیں، حضرت فرماتے نہیں، عام مجمع میں بیٹھے رہتے۔

فضلا ء تبلیغ میں سال لگانے کا اہتمام کریں

تو بھائی! آپ سے درخواست ہے خاص کردورہ حدیث کے فضلاء سے کہ وہ سال لگانے کا اہتمام کریں اور یاد رکھیں کہ یہ سال یوں گزر جائے گا، آپ یقین کریں کہ اگر آپ نے سال لگا لیا تو آپ ساری زندگی اپنی ذات کے لیے بھی بہت مفید ہو جائیں گے اور پوری امت کے لیے مفید ہو جائیں گے اور وہ باتیں جو میں نے مسجد کے حوالے سے عرض کی ہیں، مکتب کے حوالے سے، مدرسے کے حوالے سے عرض کی ہیں، ان تمام خدمات میں سال لگانے کے بعد چار چاند لگ جائیں گے، نور علی نور ہو جائے گا، آپ کی خدمت نہایت مؤثر ہوگی، آپ میں تفقہ پیدا ہو جائے گا، لوگوں کی نفسیات سمجھنا آپ کو آجائے گا، آپ کے لیے عملی زندگی میں کام کرنا نہایت آسان ہوجائے گا، آپ کے لیے گفت گو اور بات کرنا آسان ہو جائے گا، بعض طالب علم بڑے ذی استعداد ہوتے ہیں، لیکن آپ ان سے کہیں کہ ذرا کھڑے ہو کر بات کریں تو بات نہیں کرسکتے، عجیب بات ہے کیوں بات نہیں کرسکتے؟ یہ دس بارہ سال جو ہم نے سیکھا ہے، یہ کس لیے سیکھا ہے؟ اسی لیے سیکھا ہے تاکہ لوگوں تک پہنچائیں، تبلیغ میں جائیں گے توآپ کو فجر سے لے کر عشاء تک بولنا ہی بولنا ہے، سارا دن بولنا ہے، سارا سال بولنا ہے، آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے بولنے کا معیار بلند ہو گا کہ نہیں ہو گا؟ اور ایسا بولنے والا جب مسند درس پر بیٹھے گا تو وہ بہترین مدرس ہو گا کہ نہیں ہو گا؟ ایسا بولنے والا جب منبر پر بیٹھ کر بیان کرے گا تو بہت اچھا بیان کرنے والا ہو گا کہ نہیں ہوگا؟ ایسا عالم جب کسی مدرسے کا مدیر او رمہتمم بنے گا تو لوگوں کے ساتھ گفت گو او ربات چیت کا سلیقہ آجائے گا کہ نہیں آئے گا؟

پھر آپ کی نماز، پھر آپ کا روزہ، پھر آپ کی تلاوت ، پھر آپ کی دعا، پھر آپ کا ذکر، پھر الله کی طرف رجوع، یہ ساری چیزیں سال میں ترقی کریں گی، اس لیے میری گزارش ہے، درخواست ہے تبلیغ میں سال ضرور لگائیں۔

حضرت اقدس دامت برکاتہم کا فراغت کے بعد سات چلے لگانا

جب ہم محض الله تعالیٰ کے فضل سے فراغت کے بعد الله تعالیٰ کی راہ میں نکلے تو اس زمانے میں علماء کے لیے سال نہیں ہوتا تھا، اس زمانے میں جب ہم لوگ فارغ ہوئے تو سات چلے ہوتے تھے، میں نے حضرت والد ماجد سے عرض کیا، تو حضرت نے فرمایا فوراً چلے جاؤ، ایک لمحہ بھی حضرت نے تامل نہیں فرمایا، جس دن امتحان ختم ہوا اسی دن میں چلا گیا۔

اور الحمدلله میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں کہ ہم نے ان سات چلوں میں بڑی بڑی مشقتیں برداشت کیں، پیدل چلے، نوے دن کی ہماری ایک تشکیل ہوئی، جو بارہ کہو، راولپنڈی سے ایبٹ آباد تک براستہ مری،نتھیا گلی تھی، تین مہینے پیدل چلے، اس علاقے کے لوگ اس علاقے کو اتنا نہیں جانتے جتنا میں جانتا ہوں، پیدل چلے، گاؤ ں گاؤں، پہاڑوں میں ٹارچیں لے کر، تہجدکے وقت نکلتے تھے اگلے گاؤں کے لیے اور اگلے گاؤں پہنچ کر فجر کی نماز پڑھتے تھے، جنگل سے لکڑیاں کاٹنا، ان کو لا کر جلانا، آپ جانتے ہیں کہ گیلی لکڑی کو جلانے سے دھواں کتنا ہوتا ہے ؟آنکھیں لال، ہم نے تو زندگی میں کبھی تصور نہیں کیا تھا، لیکن سارے مجاہدے کیے اور اس سے آدمی بنتا ہے، اس سے آدمی کو فائدہ ہوتا ہے۔

بلوچستان میں ایسے علاقوں میں ہماری تشکیل ہوئی کہ وہاں چھوٹے چھوٹے جوہڑ پانی کے ہیں، اُدھر کتا پانی پی رہا ہے، اِدھر گدھے پانی پی رہے ہیں، اُدھر ایک عورت بیٹھی ہوئی کپڑے دھو رہی ہے، یہی پانی آپ کو پینا ہے، اس کے علاوہ پانی نہیں، آپ حضرات نے تو شاید اس کا تصور نہیں کیا ہو گا، ہم نے وہاں وقت گزارا ہے او راس پانی کو استعمال کرنے کے بعد جسم میں خارش ہوگئی، دانے نکل آئے اوربات صرف دانوں تک نہیں تھی، خارش ہوتی تھی ،اس کو کھجاتے تھے تو اس میں سے کیڑے نکلتے تھے، خوف آجاتا تھا۔

یہ سب کیا ہے؟ یہ سب تربیت ہے کہ مشکل سے مشکل حالات، سخت سے سخت حالات، آپ کو مشکل سے مشکل حالات میں زندگی گزارنا آتا ہو، یہ نہیں کہ آپ صرف عیش وعشرت کی زندگی کے عادی ہوں، کھانا مل رہا ہے، الله کا شکر ہے، نہیں مل رہا کوئی بات نہیں۔

تبلیغ

تو آپ یاد رکھیے کہ یہ الله کی راہ میں نکلنا، سال لگانا، یہ آپ کو کہیں سے کہیں پہنچا دے گا، بشرطیکہ سنجیدگی سے لگائیں ،بشرطیکہ فکر کے ساتھ لگائیں، بشرطیکہ سیکھنے کی نیت سے لگائیں او راگر صرف تفریح مقصد ہو، ایبٹ آباد تشکیل کر دو او راب سوات تشکیل کر دو، اب فلاں جگہ تشکیل کر دو، گھومنے پھرنے کے لیے نہیں، بلکہ میں توساتھیوں کو ترغیب دوں گا، کیوں کہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ میں نے تبلیغی زندگی میں جتنی مشقت والی تشکیلیں تھیں ان سے جو مجھے فائدہ ہوا وہ آج تک محسوس ہوتا ہے اور سہولتوں والی تشکیلوں میں ، بس وقت گزاری، جہاں مشقت ہو وہاں تشکیل کریں، جہاں کھانا نہیں ہے، جہاں پانی نہیں ہے، جہاں بجلی نہیں ہے، جہاں مٹی کی مسجدیں ہیں، جہاں سانپ بچھو ہیں، ان تشکیلوں سے فائدہ ہوتا ہے، ہم الله تعالیٰ سے مشقت نہ مانگیں ،ہم الله تعالیٰ سے عافیت مانگیں، خیریت مانگیں، لیکن اپنے آپ کو حوالے کر دیں، جہاں ہمار ی تشکیل کردی جائے ہم تیار ہوں، ہم اس کے اندر اپنی طرف سے کہ نہیں یہاں نہیں جائیں گے، یہاں جائیں گے، نہیں، ایسا نہ ہو۔

تو یہ الله کی راہ میں نکلنا آپ کو بہت نفع دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ سب طلباء، یہ ساری باتیں سب طلباء سے ہیں، لیکن دورہ حدیث والے طلباء چوں کہ اب الله کی راہ میں نکلیں گے، عملی میدان میں نکلیں گے، کام کے لیے نکلیں گے تو آپ یاد رکھیں کہ اسلام کے حوالے سے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی مصالحت نہ ہو، مر جائیں، جان دے دیں، جیلوں میں چلے جائیں، فاقے برداشت کرلیں گے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کا جو دین ہے اس سے ہم روگردانی نہیں کریں گے، اس میں ہم مصالحت اختیار نہیں کریں گے، ہر حال میں۔

فتنوں کے زمانے میں اعمال پر اجر میں اضافہ

اور یاد رکھنا جیسی الله تعالیٰ کی مدد صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ تھی، اس سے زیادہ آپ کے ساتھ ہے، کیوں ؟ اس لیے کہ الله تعالیٰ نے نرخ کم کر دیا ہے، ہم کم زور لوگ ہیں، تو ہم کم زور لوگوں کے لیے الله تعالیٰ نے اپنا نرخ کم کر دیا کہ آپ تھوڑا سا بھی کریں گے، اجر بہت ملے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” إنکم فی زمان من ترک منکم عشرما أمربہ ھلک“ ، تم یعنی صحابہ ایسے زمانہ میں ہو کہ جو شخص تم میں سے اس دین کا دسواں حصہ چھوڑ دے گا، جس کااسے حکم دیا گیا ہے تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔”ثم یأتی زمان من عمل منھم بعشر ما أمر بہ نجا․“ پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ جو اس دین کے دسویں حصے پر عمل کرے گا، جس کا اسے حکم دیا گیا ہے تو وہ نجات پا جائے گا۔ (سنن الترمذی، ابواب الفتن، رقم الحدیث:2265)
اورمسلم کی روایت میں ہے:”العبادة فی الھرج کھجرة إلیّ“فتنہ کے زمانے میں عبادت کرنا، ایسا ہے گویا میری طرف ہجرت کرکے آنا۔ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الفتن، باب فضل العبادة فی الھرج، رقم:7400)

آپ کو معلوم ہے کہ فتنے اور فساد کے زمانے میں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرے گا، اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ ’’عن ابن عباس رضی الله عنہما عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال:’’من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ أجر مأة شہید“․(الزھد الکبیر للبیہقی، رقم الحدیث:207،ص:118)

الله تعالیٰ نے بہت آسان کر دیا ہے بعد میں آنے والوں کے لیے، چناں چہ آپ اس کی کوشش کریں، اس کا اہتمام کریں کہ سنت کو قائم کریں، خالص مسنون وضع اختیار کریں، عمامے کا اہتمام کریں، چادر کندھے پر ڈالنے کا اہتمام کریں، لمبا کرتا پہننے کا اہتمام کریں، شوار ٹخنوں سے اونچی رکھنے کا اہتمام کریں ، کتاب آپ کے ہاتھ میں ہو، وہ کتاب قرآن کریم بھی ہو سکتا ہے، وہ کتاب حدیث کی کتاب بھی ہو سکتی ہے، وہ کتاب فقہ کی بھی ہو سکتی ہے، کوئی نہ کوئی کتاب آپ کے ہاتھ میں ہو، کتاب سے تعلق ختم نہ کریں۔

اسمارٹ فون سے بچیں

اور خدا کے واسطے اس ٹچ فون سے، اسمارٹ فون سے بچیں، یہ آپ کو کسی کام کا نہیں چھوڑے گا، آپ کے اندر کی روحانیت ، تہس نہس ہو جائے گی، آپ مجھے بتائیں کہ ایک آدمی جس کے پاس اسمارٹ فون ہے، کیا آپ نہیں جانتے کہ دنیا کی جو آخری گندگی ہے وہ اس فون میں ایک لمحے کے فاصلے پر ہے، ایک آدمی جوان ہے، خلوت میں ہے، آپ مجھے بتائیے کہ نفس وشیطان تو میرے ساتھ بھی لگا ہوا ہے، کون ہے جس کے ساتھ نفس وشیطان نہ ہو؟ آپ مجھے بتائیں کہ وہ آنکھیں جنہیں آپ نے ہر حال میں محفوظ رکھنا ہے ،وہ کان جنہیں آپ نے ہر حال میں محفوظ رکھنا ہے، کیا اس کے ساتھ رہتے ہوئے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ ! کیا پھر آپ کی نماز وتلاوت میں حلاوت وشیرینی ہوگی؟ کیا پھر آپ کو تلاوت کی توفیق ملے گی؟ کیا پھر آپ کو ذکر کی توفیق ملے گی؟ او رجب ان سب چیزوں کی توفیق آپ کو نہیں ملے گی تو آپ الله کے مقرب ہوں گے؟ کیا الله کی مدد آپ کے ساتھ ہوگی؟ پھر لوگ آپ کے ساتھ کھیلیں گے، کوئی لات مارے گا، آپ ادھر چلے جائیں گے، ادھر سے لات ماریں گے، آپ ادھر چلے جائیں گے، پھر آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، آپ کی حیثیت ہوگی فقر سے، آپ کی حیثیت بنے گی فاقے سے، آپ کی حیثیت بنے گی سنتوں کی کامل اتباع سے، ہر چیز مسنون طریقے سے ہو اور صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کی جو شان تھی او ران کا جو انداز تھا وہ سنتوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ سنت کے مقابلے میں کسی کی کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، جان دینے کے لیے تیار تھے، ماں باپ کو چھوڑنے کے لیے تیار تھے، قوم قبیلے کو چھوڑنے کے لیے تیار تھے، لیکن الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے، چناں چہ الله نے ان کو کہاں پہنچایا؟ رضی الله عنہم، الله ان سے راضی ہو گیا، ورضوا عنہ اور وہ الله تعالیٰ سے راضی ہو گئے، آپ کے ساتھ بھی الله کی مدد ہو گی ، نصرت ہو گی، قدم قدم پر ہوگی، لیکن اس کے آداب ہیں، ان آداب کو اختیار کریں۔

اچھے اخلاق اختیار کریں

اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے نہایت بلنداخلاق ہوں اور نہایت بلنداخلاق وہ ہیں جو مسنون ہیں، ماں باپ کے ساتھ حسن اخلاق، قرآن آپ نے پڑھا ہے، ان کو اُف کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، نہایت ادب اور احترام سے پیش آئیں، ان کے دل سے دعائیں نکلیں، آپ ان کی خدمت کریں گے، آپ ان کے لیے فکر مند رہیں گے، تو لمحہ بہ لمحہ ان کے دلوں سے،دل سے دعائیں نکلیں گی۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں  طاقت  پرواز  مگر  رکھتی  ہے

دل سے دعائیں نکلیں گی، تو آپ ترقی کریں گے، آپ اڑیں گے، اپنے اساتذہ کا ادب، نہایت ادب کے ساتھ جہاں جائیں اپنے اساتذہ کا نہایت ادب کے ساتھ ذکر کریں، اپنی مادر علمی کا ذکر کریں اور اپنے علاقے کے اندر جو علماء ہیں، جو مشائخ ہیں ان سے رابطے میں رہیں، آپ ان کی خدمت میں جائیں، وہ پوچھیں کیوں آئے ہو؟ آپ کہیں حضرت آپ کی زیارت کے لیے آیا ہوں، غرض مند اور ضرورت مند بن کر نہ جائیں، بے لوث ہو کر جائیں، ضرورت ہو تب بھی جائیں ،لیکن آپ کا معمول یہ ہو کہ اپنے علاقے کے علماء سے تعلق اورر ابطہ ہو، ان کی دعاؤں میں شریک ہوں، اور حتی الامکان چاہے جتنی بڑی سے بڑی قربانی آپ کو دینی پڑے دے دیں، لیکن انتشار نہ پیدا کریں، اجتماعیت ہو، اتحاد واتفاق ہو، اس اتحاد واتفاق کے لیے اگر آپ کو بہت کچھ قربان کرنا پڑے کر دیں، آپ کو الله تعالیٰ بہت دیں گے۔

ایک واقعہ

ہمارے ایک دوست ہیں بیرون ملک، ان کے نو بھائی ہیں، اورآٹھ کراچی میں ہیں، بہت بڑا خاندان ہے، بہت مال دار خاندان ہے، یہ آٹھ کے آٹھ اس ایک کے مخالف ہیں جو باہر ہے او ران آٹھ نے ماں باپ کی وراثت پر قبضہ کر لیا او راس نویں کوجوباہر ہے اس کو کچھ نہیں دیا، اس کا مجھ سے تعلق ہے، اس نے مجھے اپنی بپتا سنائی کہ میرے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے، بہرحال کچھ کوششیں ہوئیں اور اس کے نتیجے میں یہ طے ہوا کہ کراچی میں ایک مجلس ہو گی او راس میں نو کے نو بھائی شریک ہوں گے اور ان دونوں نے مجھے ثالث مقرر کیا کہ جو فیصلہ آپ کریں۔

نشست ہوئی، تو اب ان کی جائیدادیں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور… اندرون ملک بھی ہیں او ربیرون ملک بھی ہیں اور اب وہ آٹھ ایک طرف اور نواں بیچارہ ایک طرف، اب ان آٹھ نے کہا کہ فلاں چیز ہماری، تو میں نے نویں سے کہا کہ دے دو، دوسری چیز کی بات آئی تو انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہماری میں نے اس نویں سے کہا کہ یہ بھی دے دو، تیسری چیز کی بات آئی تو انہوں نے کہا یہ بھی ہماری، میں نے اس سے کہا یہ بھی دے دو، تو وہ جونواں تھا وہکھڑا ہو گیا او رکہا حضرت آپ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا تمہیں پتہ نہیں، دے دو، آپ یقین کریں کہ شاید پندرہ چیزیں تھیں ان پندرہ میں سے دس انہوں نے لے لیں اور اس بیچارے کو پانچ ملیں، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، حضرت آپ نے یہ کیا فیصلہ کیا؟ میں نے کہا صبر کرو، دے دو ان کو، فتنے کو ختم کرو، اجتماعیت پیدا کرو، جس طرح یہخوش ہوتے ہیں ان کو خوش کرو، آپ یقین کریں اس واقعے کو شاید دس سال ہوگئے او رجب بھی میری اس نویں سے ملاقات ہوتی ہے، توو ہ جھولیاں اٹھا اٹھا کر میرے لیے دعائیں کرتا ہے، اس نے کہا حضرت !الله نے مجھے اتنا دیا ہے اتنا دیا ہے کہ ان آٹھ سے مجھے آگے کر دیا اور وہ آٹھ آج میرے محتاج ہیں، اورالحمدلله اب جب الله نے مجھے بڑا کر دیا ہے، حالاں کہ عمر میں میں چھوٹا ہوں، لیکن وہ سب کے سب میری عزت کرتے ہیں، احترام کرتے ہیں۔

تو اجتماعیت کو قائم کرنے کے لیے آپ کو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے دے دیں، اجتماعیت واتفاق کو ختم نہ کریں، اس کے نتیجے میں الله بہت خوش ہوں گے اور خوش ہو کر الله جو آپ کو دیں گے کہ جو آپ نے دیا تھا وہ بہت حقیر ہو جائے گا اور الله کا دیا ہوا وہ بہت زیادہ ہے۔

دینی کام کرنے والی سب جماعتوں سے تعلق ہو

اسی طرح مختلف دینی کام ہمارے ملک میں ہوتے ہیں، تبلیغی کام بھی ہوتا ہے، مدرسے کا کام بھی ہوتا ہے، مسجد کا کام بھی ہوتا ہے، بعض فتنے ہیں ان فتنوں کی بیخ کنی کے لیے ہمارے علماء مختلف تنظیموں او رجماعتوں کے ذریعے سے خدمت کرتے ہیں، سیاسی بہت سے امور اور معاملات ہیں، بعض ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں ،وہ خدمات انجام دیتی ہیں، آپ کا سب سے بہترین تعلق ہو، کسی سے آپ کا اختلاف نہ ہو، سب دین کا کام کر رہے ہیں، سب اپنی اپنی جگہ اہم ہیں، ہم سب سے تعلق رکھیں، ظاہر ہے کہ آپ سب کام نہیں کرسکتے، جتنا کرسکتے ہیں وہ کریں اور جو نہیں کرسکتے ان کے لیے دعا خیر کریں ،ان کو اپنا سمجھیں، ان کو غیر نہ سمجھیں، ان پر تنقید نہ کریں، ان کی تنقیص نہ کریں ،آپ کی یہ حیثیت نہیں کہ آپ ترازو ہاتھ میں لیں، ہم مدرسے والے ہیں، تو کیا مدرسوں میں کمیاں، نقائص نہیں ہیں؟ تبلیغ کے اندر کیا نقائص نہیں ہیں؟ لیکن کیا مطلب ہے کہ ہم مدرسے کا کام چھوڑ دیں، تبلیغ کا کام چھوڑ دیں، کیا ہم جہاد کا کام چھوڑ دیں؟! نہیں نہیں، ہم سارے کام کریں گے اورجو جہاں ہے وہ ان نقائص کو ختم او رکم کرنے کی کوشش کرے، لیکن اس کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جھگڑنا، ایک دوسرے کو الزام دینا، ایک دوسرے پر بہتان لگانا، ایک دوسرے کو ذلیل اور رسوا کرنا، کسی بھی طرح ہمارے بزرگوں کا طریقہ نہیں ہے۔

ہم نے اپنے حضرت نورالله مرقدہ کو اس جامعہ میں دیکھا کہ پورے ملک سے ہر قسم کے لوگ حضرت کے پاس آتے، حضرت کا سینہ سب کے لیے کھلا تھا، سب کو سینے سے لگاتے، چاہے وہ جہاد والے حضرات ہوں، چاہے وہ سیاست والے حضرات ہوں، چاہے وہ تبلیغ والے حضرات ہوں، چاہے وہ فتنوں کی بیخ کنی کرنے والے حضرات ہوں۔

چناں چہ آپ سب جانتے ہیں کہ حضرت نورالله مرقدہ سب کے لیے متفق علیہ تھے، سب کے دلوں میں حضرت کی قدر تھی، سب کے دلوں میں حضرت کا احترام تھا ،کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے کبھی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے والے کی تنقیص نہیں کی، بلکہ حوصلہ دیا، اس کی تعریف کی، اس کی پشت پناہی کی، اس کے ساتھ تعاون کیا، اس لیے آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی انہی کی اولا دہیں کہ آپ اپنے بڑوں کے طرز کو اختیار کریں، اور دعوت وتبلیغ کا کام ہو، خانقاہ کا کام ہو، جہاد کا کام ہو، مدرسے کا کام ہو، جو بھی کام ہو، سارے کاموں میں شریک ہوں او راگر کسی کام میں شریک نہیں ہوسکتے، اپنی مجبوری اور مصروفیت کی وجہ سے تو ان کے خیر خواہ ہوں اور وہ خیر خواہی دلی ہو، صرف زبانی نہ ہو۔

خیر کی چابی بنیں

اور بھائی اس کے ساتھ ساتھ وہ طلباء جو دورہ حدیث کے علاوہ ہیں وہ چھٹیوں میں گھر جائیں گے، آپ کو ہر آدمی دیکھے گا، آپ محسوس کریں یا نہ کریں، ہر آدمی آپ کی وضع قطع، آپ کا چلنا پھرنا، آپ کی مسجد کی حاضری، آپ کی دلچسپیاں، آپ کی ترجیحات ، سب دیکھے گا، پتہ چلا کہ سال بھر جامعہ فاروقیہ میں گزار کر آئے ہیں اور مسجد میں تو نظر ہی نہیں آتے، ایسا نہ ہو، نماز تو فرض ہے، وہ کراچی میں بھی فرض ہے، جامعہ فاروقیہ میں بھی فرض ہے اور باہر بھی فرض ہے ،جہاں بھی جائیں، فرض فرض ہے۔ تو آپ اہتمام کریں اذان ہو جائے تو سارے کام چھوڑ کر مسجد آئیں اورنظر آئے کہ آپ واقعتا عالم بن کر آئے ہیں یا آپ واقعتا جامعہ فاروقیہ کے طالب علم ہیں۔

وہاں آپ لوگوں کو مثبت پیغام دیں، وہ لوگ آپ کو دیکھیں گے کہ ماشاء الله مسجد میں حاضر باش ہے، بڑوں سے بھی ملتا ہے،چھوٹوں سے بھی ملتا ہے، بیماروں کی بیمارپرسی کرتا ہے، خوشی میں بھی شریک ہوتا ہے، غمی میں بھی شریک ہوتا ہے تو ہم بھی اپنے بچوں کو مدرسے میں د اخل کریں اوراگر وہ دیکھیں گے کہ خدانخواستہ آپ بد اخلاق ہیں، بدتمیز ہیں، آپ مسجد میں نظر نہیں آتے، کہیں گے نہیں بھائی! ہم نے ارادہ تو کیا تھا، بچو ں کو بھیجنے کا، لیکن وہاں تو غلط لوگ تیار ہو رہے ہیں، ہم وہاں نہیں بھیجیں گے تو آپ خدا کے واسطے خیر کی چابی بنیں، آپ اس کے لیے تالا نہ بنیں، لوگوں کے لیے رکاوٹ نہ بنیں۔

نوجوان نسل کو مدرسوں میں لائیں

آپ سے گزارش ہے کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ یہ بات عرض کی کہ ہماراجہاد جاری ہے اور ہمارا جہاد کیا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ، کوشش کریں کہ نوجوان مدرسوں میں آئیں، وہ یہاں آکر عالم بنیں، حافظ بنیں، مفتی بنیں، تاکہ وہ قوم کی صحیح رہبری کرسکیں، ورنہ مدرسے سے باہر جو ماحول ہے، اس میں محب وطن لوگ تیار نہیں ہو رہے، بلکہ کون تیار ہو رہے ہیں؟ ڈاکو، لٹیرے، چور، حرام خور اور گدھ جو مردار خور ہوتے ہیں، ہمارے اس قیمتی ملک کو پچھتر سال سے لوٹنے والے لوٹ رہے ہیں، وہ مدرسوں نے نہیں پیدا کیے، جب پاکستان بنا تو یہاں جو مدرسے تھے وہ ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے اور پچھترسال سے رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں، ہمیں تنگ کیا جارہا ہے، پریشان کیا جارہا ہے، یہ جو ہمارا نہایت امن والا راستہ ہے، اس پر الزامات لگائے جارہے ہیں، جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں، ہمیں مشق ستم بنایا جارہا ہے، لیکن آپ مجھے بتائیں کہ الحمدلله ثم الحمدلله، حکومتوں سے ایک کوڑی، ایک ٹکہ مدرسوں کو حاصل نہیں اور نہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن مدارس نے ترقی کی یا نہیں کی؟! مدارس نے جو کام تھا، خیریت عافیت کے ساتھ، بڑی بڑی مشکلات جھیل کر اپنا کام کیا، لیکن دوسری طرف جو کچھ ہوا ہے، جوہو رہا ہے، وہ اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ ملک کا بیڑا غرق ہو گیا ہے، ملک تباہ ہو گیا ہے، لوٹ لیا ہے، ڈاکے ڈالے ہیں، وہ لوٹ اور ڈاکے، سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں میں نہیں، بلکہ اربوں، کھربوں میں ہیں اور پچھتر سال سے یہی کام ہو رہا ہے، تو خدا کے واسطے قوم کو، قوم کے بچوں کو اور قوم کے مستقبل کو اوراس عزیز ترین ملک کو اگر محفوظ کرنا ہے، تو بچوں کو مدرسے میں لائیں، مدرسے میں لانے سے ملک بھی بچے گا، قوم بھی بچے گی، دین وایمان بھی بچے گا، ہر چیز بچے گی او راگر وہ بچے خدانخواستہ کسی دوسرے راستے پر چلے گئے، تووہی بنیں گے ،جو لوگ بن رہے ہیں اور آپ کے سامنے ہیں۔

اس لیے میری درخواست ہے کہ ہمیں اپنا کام بڑی ذمہ داری کے ساتھ کرنا ہے، اس لیے وہ ساتھی جو فارغہو رہے ہیں ساری زندگی ان کو یہ کام کرنا ہے کہ جس مدرسے میں ہیں اس مدرسے کو آباد کریں اور اگر وہ یہ سمجھیں کہ ہم ان بچوں کو جامعہ فاروقیہ بھیجیں تو ”اھلاً وسھلاً“ جامعہ فاروقیہ ان کا استقبال کرے گا۔

لیکن وہاں سے کسی خط کے ذریعے سے ،کسی فون کے ذریعے یہاں اساتذہ سے مجھ سے، رابطے میں رہیں کہ ہم دو طالب علم بھیج رہے ہیں، ہم پانچ دس طالب علم بھیج رہے ہیں۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!