وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مولانا محمد نجیب قاسمی

نبوت ایک عظیم منصب
 نبوت ایسا عظیم منصب ہے جو ہر کسی کو عطا نہیں کیا جاتا ہے اور نہ کوئی شخص اپنی خواہش اور کوشش وجدجہد سے اس منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے، جس کو چاہتا ہے اسے اپنے فضل وکرم سے نوازتا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے رسول منتخب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے اور لوگوں میں سے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ (سورة الحج :75) ہم سب کا یہ ایمان ہے کہ تمام ابنیائے کرام عام لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ افضل وبہتر ہیں، مگر خود ابنیائے کرام بھی یکساں فضیلت کے حامل نہیں ہیں۔ بعض انبیاء کرام کادرجہ بعض دوسرے انبیائے کرام سے بڑھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یہ حضرات انبیاء ایسے ہیں کہ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ بعض ان میں وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا ہے اور بعض کو ان میں سے بہت سے درجوں پر سرفراز کیا ہے۔ (سورة البقرہ: 253) اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کی ہدایت وراہ نمائی کے لیے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کرام مبعوث فرمائے، جو سب لائق تعظیم اور انتہائی فضیلت کے حامل ہیں۔ مگر آخری نبی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم  سب سے افضل وبلند مرتبہ والے ہیں۔ اگرچہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سب سے آخر میں نبی ورسول بناکر بھیجے گئے ،مگر آپ صلی الله علیہ وسلم تمام ابنیاء ورسل، بلکہ ساری مخلوقات میں سب سے افضل واعلیٰ ہیں۔ اب تک تمام انبیا کرام ورسل کو خاص زمانہ اور خاص لوگوں کے لیے مبعوث فرمایا گیا، مگر تاج دار مدینہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو پوری دنیا میں قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لیے نبی رسول بناکر بھیجا گیا۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
آپ صلی الله علیہ وسلم کی عظمت وفضیلت پر بہت کچھ لکھا گیا اور بولا گیا ہے اور جب تک دنیا باقی ہے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ بیان کیے جاتے رہیں گے۔اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب، جسے اللہ تعالیٰ نے 23 سال کے عرصہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل فرمایا ، سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے محاسن وفضائل اور کمالات کا ایک حسین وجمیل گل دستہ بھی ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ واوصاف حسنہ کا ایک خوب صورت اور صاف شفاف آئینہ بھی۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر خیر موجود ہے، کہیں آپ کو اللہ کا رسول کہا گیا ہے، کہیں لوگوں کو خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا بتلایا گیا ہے، کہیں کہا گیا ہے کہ اے محمد! آپ کی رسالت پوری کائنات کے لیے ہے، کہیں کہا آپ آخری نبی ہیں۔ کہیں فرمایا:﴿ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک﴾، کہیں فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی﴾،کہیں فر مایا :﴿ اِنَّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَر ْ﴾، کہیں فرمایا: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾، کہیں فرمایا:﴿اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ، یَا ٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْماً﴾․ غرض کہ قرآن کریم میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے بے شمار اوصاف بیان کیے گئے ہیں، مگر:﴿وَمَا اَرْسَنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْن﴾ (سورہٴ الانبیاء: 107)کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ایک امتیازی وصف بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے آپ کو دنیا جہاں کے لوگوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔ یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات سراپا رحمت ہے، نہ صرف اس زمانہ کے لیے جس میں آپ مبعوث ہوئے اور نہ صرف ان لوگوں کے لیے جن کے سامنے آپ مبعوث فرمائے گئے، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبی رحمت ،یعنی سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت سراپارحمت
سیرت النبی کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کفار مکہ کے ہاتھوں کیا کچھ تکلیفیں اور اذیتیں نہ سہیں، لیکن کبھی نہ کسی کے لیے بددعا فرمائی اور نہ کسی پر نزول عذاب کی تمنا کی، بلکہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کو عذاب کا اختیار بھی دیا گیا تب بھی از راہ رحمت وشفقت آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر تکلیف نظر انداز کی اور ظالموں سے درگزر کیا، حالاں کہ ان کا جرم کچھ کم نہیں تھا کہ وہ اللہ کے پیارے رسول کو ایذا دینے کے گناہ میں مبتلا ہوئے تھے، ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب قہر بن کر نازل ہونا چاہیے تھا ،لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیشہ عفو وکرم سے کام لیا اور محض آپ کی صفت رحمت کے باعث وہ قہر خداوندی سے محفوظ رہے۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سراپارحمت ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ خصوصیت آپ کی شخصیت کے ہر پہلو میں بہ تمام وکمال موجود ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی گھریلو زندگی میں ، گھر سے باہر کے معاملات میں، اپنوں اور غیروں کے ساتھ، بڑوں اور بچوں کے ساتھ، ایک ناصح مشفق اور ہم درد غم گسار کی حیثیت سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو رحمت سے معمور دل عطا فرمایا تھا، جو کمزوروں کے لیے تڑپ اٹھتا تھا، جو مسکینوں اور یتیموں کی حالت زار پر غم سے بھر جاتا تھا۔ سارے جہاں کا درد آپ صلی الله علیہ وسلم کے دل میں سمٹ آیا تھا۔ یہاں تک کہ رحمت کا وصف آپ کی طبیعت ثانیہ بن گیا تھا، کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا اپنا، کیا پرایا، کیا مسلمان، کیاکافر… سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے رحم وکرم سے بہرہ ور رہا کرتے تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی صاحب زادیوں کو طلاق دی گئی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تمام اولاد کا انتقال آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو برا بھلا کہا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوپر گھر کا کوڑا ڈالا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے راستوں پر کانٹے بچھائے گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے خاندان وصحابہٴ کرام کا تقریباً تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو طرح طرح سے ستایا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنے وطن عزیز سے نکالا گیا ،مگر قربان جائیے اس نبی رحمت پر کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُف تک نہ کہا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی بچوں پر شفقت
بچوں پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفقت کا نظارہ قابل دید تھا، مدینہ منورہ کی گلیوں میں کوئی بچہ آپ کو کھیلتا کودتا نظر آتا تو آپ خوشی میں اس کو لپٹا لیا کرتے تھے، اس کو بوسے دیتے، اس کے ساتھ ہنسی مزاق کرتے، ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کررہے تھے کہ ایک دیہاتی کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور کہنے لگا کہ کیا آپ اپنے بچوں کو پیار بھی کرتے ہیں؟ہم تو نہیں کرتے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت کا جذبہ ختم کردیا ہے؟ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ سجدہ میں تشریف لے جاتے تو امامہ کو زمین پر بٹھادیتے اور کھڑے ہوتے تو انہیں گود میں اٹھالیتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز سنی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز مختصر کردی، تاکہ بچے کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نماز کی نیت باندھ کر لمبی قرأت کرنا چاہتا ہوں کہ اچانک بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کردیتا ہوں، تاکہ اُس کی ماں کو پریشانی نہ ہو۔

آپ صلی الله علیہ وسلم بچوں کو بڑی محبت سے گود میں لے لیا کرتے تھے، کبھی بچے آپ کے کپڑے بھی خراب کردیتے ،لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کو ناگواری نہ ہوتی۔ ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بچہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُس کو گود میں لے لیا تو اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کردیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پانی منگواکر کپڑے پاک کیے اور اُس بچہ کو پھر گود میں لے لیا۔ فصل کا نیا میوہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آتا تو سب سے کم عمر بچے کو، جو اُس وقت موجود ہوتا، عطا فرماتے۔ غرض کہ آج سے چودہ سو سال قبل رحمة للعالمین نے ایسے وقت بچوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آرام کا ذریعہ قرار دیا جب ناک اونچی کرنے کے لیے بچیوں کو زندہ دفن کردینے کا رواج تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُس وقت اُن پر تحفظ وسلامتی اور شفقت ومحبت کی ایک ایسی چادر تان دی تھی جب دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی بچیوں کے تحفظ وسلامتی کے لیے کوئی قانون نہ تھا۔ رحمة للعالمین نے بچوں اور بچیوں کو نہ صرف دائمی تحفظ بخشا، بلکہ انہیں گود میں لے کر ،انہیں کندھوں پر بٹھاکر، اپنے سینے مبارک سے لگاکر، انہیں معاشرہ میں ایسا مقام دیا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔بشریت کے تقاضے کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم بھی رنج وغم کی کیفیات سے گزرتے تھے اور فرط غم سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی آنکھیں بھی چھلک اٹھتی تھیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ رورہے ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ رحم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اُن بندوں پر رحم کرتا ہے جن کے دلوں میں رحم ہوتا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے خواتین کو معاشرہ میں عزت دی
عورتیں فطرتاً کمزور ہوتی ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے باربار صحابہٴ کرام کو تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، اُن کی دل جوئی کریں، ان کی طرف سے پیش آنے والی ناگوار باتوں پر صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : خبردار! عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، اس لیے کہ یہ عورتیں تمہاری نگرانی میں ہیں ۔ایک مرتبہ لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے کسی لڑکی کی صحیح سرپرستی کی اور اس کی اچھی تربیت کی تو یہ لڑکی قیامت کے دن اس کے لیے دوزخ کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود اپنے طرز عمل سے صحابہٴ کرام کے سامنے خواتین کے ساتھ حسن سلوک کی اعلی مثالیں قائم کیں، ایک مرتبہ ام الموٴمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اونٹنی پرسوار ہونے لگیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم سواری کے پاس بیٹھ گئے اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کے گھٹنوں کے اوپر، پاوٴں رکھ کر اونٹنی پر سوار ہوئیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم بہت خوش ہوتے اور انہیں اپنے ساتھ بٹھاکر ان کا بہت احترام کرتے۔ایک مرتبہ خواتین نے اجتماعی طور پر حاضر ہوکر عرض کیا کہ مردوں کو آپ سے استفادہ کا خوب موقع ملتا ہے، ہم عورتیں محروم رہ جاتی ہیں، آپ ہمارے لیے کوئی خاص دن اور وقت متعین فرمادیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُن کی درخواست قبول فرمائی اور اُن کے لیے ایک دن متعین فرمادیا۔ اُس دن آپ خواتین کے اجتماع میں تشریف لے جاتے اور اُن کو وعظ ونصیحت فرماتے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بیواوٴں سے نکاح کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بیواوٴں کو تنہا نہ چھوڑو، بلکہ انہیں بھی اپنے معاشرہ میں عزت بخشو۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے خادموں اور نوکروں کا خیال رکھا
آپ صلی الله علیہ وسلم کو خادموں اور نوکروں کا بھی بڑا خیال تھا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ خاد م تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنادیا ہے، اگر کسی کا بھائی اُس کا ما تحت بن جائے تو اُسے اپنے کھانے میں سے کچھ کھلائے، اس کو ایسا لباس پہنائے جیسا وہ خود پہنتا ہے، اس کی طاقت وہمت سے زیادہ کام نہ لے، اگر کبھی کوئی سخت کام لے تو اُس کے ساتھ تعاون بھی کرے…۔ اسی طرح حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر تمہارا خادم ،یعنی نوکر چاکر تمہارے لیے کھانا بناکر لائے تو اُسے اپنے ساتھ بٹھاکر کھلاوٴ یا اُس کھانے میں سے اُسے کچھ دے دو، اس لیے کہ آگ کی تپش اور دھویں کی تکلیف تو اُس نے برداشت کی ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کو یتیموں سے بڑی ہم دردی تھی
یتیموں کے لیے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے دل میں بڑی ہم دردی تھی، اس لیے آپ صحابہٴ کرام کو یتیموں کی کفالت کرنے پر اکسایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ، آپ نے قربت بیان کرنے کے لیے بیچ اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں ہوگا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا جانوروں پر رحم
آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحمت کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہ تھا ،بلکہ بے زبان جانور بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحمت سے مستفید ہوتے تھے۔ احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کسی انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے ، وہاں ایک اونٹ موجود تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ کر اونٹ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم یہ منظر دیکھ کر اس اونٹ کے پاس تشریف لے گئے، اس کے بدن پر ہاتھ پھیرا، یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگیا۔ اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت کیا : اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان نے عرض کیا یارسول اللہ! میرا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جس نے تمہیں اس جانور کا مالک بنایا ہے؟ اس نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے زیادہ کام لیتے ہو۔ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اگر تم ذبح کرو تو اچھے طریقے پر ذبح کرو، ذبح کرنے سے پہلے اپنی چھری تیز کرلیا کرو، تاکہ جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا بے جان چیزوں پر رحم
بے زبان چیزیں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے دائرہ رحمت میں شامل تھیں، سیرت کی کتابوں میں ایک حیرت انگیز واقعہ موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بے زبان چیزوں سے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کا کتنا تعلق تھا۔ مسجد نبوی میں جب آپ صلی الله علیہ وسلم خطبہ دیتے دیتے تھک جاتے تو ایک ستون سے ٹیک لگالیا کرتے تھے۔ بعد میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے منبر تیار کردیا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اُس پر تشریف رکھنے لگے۔ ظاہر ہے کہ وہ ستون آپ کے جسم اطہر کے لمس سے محروم ہوگیا۔ اُس بے زبان ستون کو اِس واقعہ سے اِس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ تڑپ اٹھا، یہاں تک کہ اُس کے رونے کی آواز آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی سنی اور صحابہٴ کرام کے کانوں تک بھی پہنچی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم منبر سے اترکر ستون کے پاس تشریف لے گئے، اور اُس پر دست ِشفقت رکھ کر اُس کو پر سکون کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اسے گلے نہ لگاتا تو یہ ستون قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا عفو وکرم
مکی دور میں قریش مکہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو کتنا ستایا، آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر کتنے مظالم ڈھائے گئے، یہاں تک کہ آپ کو اپنا وطن عزیز بھی چھوڑنا پڑا۔ اِس سے بڑھ کر تکلیف دہ واقعہ انسان کے لیے کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے ظلم وستم سے عاجز آکر ،اپنا گھربار سب کچھ چھوڑکر، دیار غیر میں جاکر فروکش ہوجائے۔ اس کے باوجود جب چند سال بعد آپ صلی الله علیہ وسلم فاتحانہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عجز وانکساری سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک جھکی ہوئی تھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے :﴿ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیکُمُ الْیَوْمَ ﴾تم پر آج کوئی گرفت نہیں ہے۔ حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اُس دن چاہتے تو اپنے تمام دشمنوں سے گن گن کر بدلہ لے سکتے تھے، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے انتقام پر عفو وکرم کو ترجیح دی اور فرمایا: الیوم یوم الرحمة ․ آج رحمت کا دن ہے۔

رحمة للعالمین
قرآن کریم میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو رحمت کائنات کا لقب دیا ہے: ﴿ وَمَا اَرْسَنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْن﴾ عالمین عالم کی جمع ہے، جس میں ساری مخلوقات انس، جن ، حیوانات، نباتات، جمادات سبھی داخل ہیں۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا اِن سب چیزوں کے لیے رحمت ہونا اس طرح ہے کہ تمام کائنات کی حقیقی روح اللہ تعالیٰ کا ذکراور اس کی عبادت ہے، یہی وجہ ہے کہ جس وقت زمین سے یہ روح نکل جائے گی اور زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا تو ان سب چیزوں کی موت، یعنی قیامت برپا ہوجائے گی۔ جب ذکر اللہ کا ان سب چیزوں کی روح ہونا معلوم ہوگیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ان سب چیزوں کے لیے رحمت ہونا خود بہ خود ظاہر ہوگیا، کیوں کہ اِس دنیا میں قیامت تک ذکر اللہ اور عبادت آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کی تعلیمات سے قائم ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے رحمة للعالمین ہونے کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو شریعت لے کر دنیا میں تشریف لائے ہیں وہ انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے ہے۔ آپ کی ہر تعلیم اور شریعت محمدیہ کا ہر حکم انسانیت کے لیے باعث خیر ہے۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ایسا عظیم موضوع ہے کہ رحمة للعالمین کے رحم وکرم اور شفقت پر دن رات بھی لکھا جائے تو اس موضوع کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی بیوی، بچے، گھر کے افراد اور گھر کے باہر لوگوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرنے والا بنائے جو رحمة للعالمین نے اپنے قول وعمل سے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے پیش فرمائے، آمین۔