نکاح کا اسلامی و سماجی تصور

نکاح کا اسلامی و سماجی تصور

محترم محمد تبریز عالم قاسمی

اسلام میں نکاح ایک مقدس مفہوم کا حامل لفظ ہے،اس کے تقدس کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ رحمت دوعالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی سنت قرار دیا ہے،نسبت و استناد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،نسبت سے اشیاء کی قدروقیمت گھٹتی بڑھتی ہے اور اسی سے اشیاء میں روحانیت پیدا ہوتی ہے،اسی لیے اسلام میں نکاح صرف جنسی تسکین کا نام نہیں ہے؛بلکہ یہ ایک عبادت بھی ہے۔یاد رہے جس طرزِ حیات اور روشِ زندگی میں عبادت و سنت کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے وہ خوش بو شریعت فراہم کرتی ہے، کیوں کہ اسے اصلی و نقلی خوش بو کا علم ہوتا ہے،ورنہ ہماری آنکھیں تو ہر چمکتی چیز کو سونا خیال کرتی ہیں،روحانیت و مادیت کا امتیاز محض عقل کے ذریعہ انجام دینا خطرے سے خالی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ احادیث و سیرت میں نکاح کے فضائل و مسائل تفصیل سے منقول ہیں،نکاح کرنے والے کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ بوقت نکاح ان امور کی رعایت کرے،تاکہ وہ نکاح کے انوار وبرکات سے اپنی زندگی روشن رکھ سکے،اسلام نے نکاح کا جو تصور پیش کیا ہے اسی میں خیروبرکت ودیعت کی گئی ہے،اس کے سوا نکاح کا جو سماجی تصور ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے وہ اپنی تمام چمک دمک کے ساتھ روحانیت،خیروبھلائی اور حقیقی سعادتوں سے خالی ہے،اہلِ دل اور صاحبِ نظر شخصیات اسلامی اور سماجی تصورات کا فرق نہ صرف یہ کہ سمجھتی ہیں بلکہ وہ فرق انھیں دکھائی دیتا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ سماج کے ان تصورات سے اپنا دامن بچائے رکھتی ہیں جو تصورِ اسلام سے متصادم ہوتے ہیں،وہ ہر مسلمان سے اسی کی امید اور توقع رکھتی ہیں کہ وہ بھی اس معاملہ میں شریعت وسنت کے پاس دار رہیں،کیوں کہ یہی مومن کی معراج ہے۔

اسلام ایک دینِ فطرت ہے ،جس کی ہر تعلیم میں رحمت کے ساتھ اعتدال پنہاں ہے،اسی اعتدال اور رحمت کی وجہ سے اس کے ہر طرز اور ہر راہ نمائی میں آسانی موجود ہے،انسان جب اس اعتدال کی روِش سے ہٹتا ہے تو افراط و تفریط کی خاردار وادیوں میں گُم ہوجاتا ہے،اس وادی میں سنت کے لہلہاتے لالہ و گُل کے بجائے بدعات و خرافات ،رسوم ورواجات اور ضلالت وگم راہی کے کانٹے دامن ِمراد میں اُلجھتے اور پھنستے چلے جاتے ہیں،کسی کو اس کا احساس ہوتا ہے اور کسی کو اس کا ادراک نہیں ہوتا،اسی لیے زندگی کے ہر موڑ پر اسلام کی راہ نمائی اور سنت کی رہبری کا جاننا بے حد ضروری ہے؛کیوں کہ دینی علم اور صحیح جاں کاری ہی ہر جہالت کا علاج اور ہر ضلالت کا مداوا ہے۔مقامِ افسوس ہے کہ دورِ حاضر میں نکاح کو چند معاشرتی، سماجی رسم ورواج اور خاندانی طور طریقوں کو اپنانے کا نام سمجھ لیا گیا ہے،جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ نئی نئی برائیاں اور مختلف قسم کی دشواریاں جنم لے رہی ہیں، جن سے اپنے اور پراے سب پریشان ہیں۔

حیوانیت اور عبدیت
چوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خواہشات کا مجموعہ بنایا ہے،اسی لیے خواہشات پر یکسر پابندی نہیں لگائی گئی ہے، بلکہ انسانی خواہشات اور ان کے تقاضوں کی تکمیل کے اسباب و وسائل پیدا فرمائے ہیں اور بطور آزمائش ان اسباب و وسائل کو استعمال کرنے اور ان کے ذریعہ اپنے تقاضوں کو پورا کرنے کے دو راستے متعین کیے ہیں:ایک راستہ میں عبدیت کی شان ہے، جب کہ دوسرا راستہ حیوانیت سے موسوم ہے،جو نظامِ حیات رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا ہے اور جس کے مطابق انھوں نے اپنی زندگی گذاری ہے اس کو پیش ِنظر رکھنا عبدیت کہلاتا ہے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نبوی ہدایات کو بالائے طاق رکھ دینا اور اپنی مرضی اور صرف سماج کی رعایت کرنا حیوانیت کا دوسرا نام ہے،یاد رکھنا چاہیے! عبدیت تمام شعبہٴ حیات میں مطلوب ہے، یعنی جیسے نماز و روزہ اور حج وزکاة میں عبدیت اور بندگی مطلوب ہے ویسے ہی یہ عبدیت نکاح اور دیگر معاملات میں بھی ضروری ہے۔یہ بھی گوشہٴ دل میں محفوظ رکھنا چاہیے کہ عبدیت کے راستے سے منزل تک پہنچنا نہ صرف یقینی ہوتا ہے، بلکہ نہایت آسان اور باعثِ برکت ہوتا ہے، جب کہ حیوانیت کا راستہ منزل مقصود کو بہت پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

اسلام میں نکاح کی حقیقت
نکاح ایک انسانی ضرورت اور بقاء ِ نسل کا ذریعہ ہے، اس لیے شریعت نے اسے بہت آسان اور نہایت سستا بنایا ہے،چناں چہ نکاح کی حقیقت میں چھ باتیں شامل ہیں:دو فرائض:ایجاب و قبول اور دو گواہوں کا ہونا،ایک واجب:مہر (حسبِ استطاعت ) اور تین سنتیں:خطبہ نکاح ،تقسیمِ چھوہارہ اور حسبِ حیثیت ولیمہ۔ان اعمال کے علاوہ شادی کے موقع پر جتنے بھی کام کیے جاتے ہیں وہ غیر شرعی اور خلافِ سنت ہیں۔غور فرمائیں ایجاب و قبول، بوقت نکاح دو گواہوں کا ہونا،مہر ادا کرنا،خطبہ نکاح پڑھنا،چھوہارے تقسیم کرنا اور ولیمہ کرنا یہ سب اگرچہ نکاح کے لوازمات ہیں ؛لیکن ایسے بھی نہیں کہ جن میں کچھ زحمت اور دشواری ہو۔حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک جگہ لکھا ہے:

”ہر چیز میں کچھ نہ کچھ خرچ کی ضرورت ہے، بجز نکاح کے کہ یہ اپنی حقیقت میں ایک پیسہ پر بھی موقوف نہیں ؛کیوں کہ اس کی حقیقت ایجاب ہے اور قبول اور یہ محض دو بول ہیں زبان کے، ان میں کسی خرچ کی کیا ضرورت؟! چھوارے سو وہ محض مستحب ہیں،مہر میں موجل(ادھار) کی بھی گنجائش ہے ،تو فرمائیے سب سے زیادہ سستی چیز اگر کوئی تھی تو نکاح تھا، مگر اللہ بھلا کرے ہمارے بھائیوں کا، سب نے آپس میں کمیٹی کرکے اس کو ایسا مہنگا کردیا اور رسم و رواج کی زنجیروں سے ایسا جکڑ دیا کہ غریب آدمی کی تو مصیبت ہے،امیروں کے لیے بھی زحمت ہے۔“(میلاد النبی)

دوسری جگہ لکھتے ہیں:
”دیکھو !نماز روزہ وہ عبادتیں ہیں جن میں پیسہ لگتا ہے اور نکاح وہ عبادت ہے جو بغیر پیسہ کے ہے۔“(بحوالہ دعوت حق ،ص: 233 ج:اول)

سماج میں نکاح کی حقیقت
جب سماج میں نکاح کا ذکر کیا جاتا ہے تو نکاح کا سماجی تصور اتنا بھاری بھرکم اور اتنے لوازمات پر مشتمل ہوتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ۔منگنی کی رسم، مہندی کی رسم،ڈھول باجے کی ضرورت، مال کا اسراف،میرج ہال کی بکنگ،بارات کی گہماگہمی،مہنگے جہیز کے مطالبات،رات بھر جاگنا،گھروں کو روشنی سے سجانا،تصویر اور ویڈیوگرافی کا التزام،بے پردگی،نمازوں کو بالائے طاق رکھ دینا اور نہ جانے کیسی کیسی بدعات و خرافات کا ارتکاب!یہ سب نکاح کے وہ مشمولات ہیں جن کا شریعت وسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں،لیکن سماج میں یہ سب رائج ہیں اور نکاح جیسی اہم سنت کا غیر ضروری حصہ ہیں،لوگ شوق سے ان غیر شرعی امور کا ارتکاب کرتے ہیں اور سب چلتا ہے کے غیر دینی اصول پر عمل کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی جاتی،اس معاملہ میں مردوں سے زیادہ عورتیں پیش پیش رہتی ہیں۔ظاہر ہے جب عبدیت چھوڑ کر حیوانیت کے راستے پر انسان چلے گا تو برکت کے بجائے بے برکتی ہی اس کا مقدر بنے گی،اپنی بے جا شہرت کے حصول اور مخلوق کو خوش کرنے کی فکرسے آج ہماری شادی بیاہ سے سنت کی روشنی غائب ہو گئی ہے۔بھوپال کے صاحبِ دل بزرگ مولانا محمد یعقوب مجددی نے ایک بات بڑے درد و سوز سے کہی ہے:”شادیوں میں سب بلائے جاتے ہیں ،صرف خدا اور رسول کو رخصت کر دیا جاتا ہے ،صرف شادی کے اوقات میں وہ باہر رہتے ہیں،پھر ان سے راہ و رسم پیدا کر لی جاتی ہے۔“(اسرار حیات، ص: 173 بحوالہ صحبت با اہل دل )

اس موقع پر ہر شخص کو حضرت تھانوی کی کتاب اصلاح الرسوم کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے،حضرت تھانوی نے منگنی کے رسوم کو قیامت صغری قرار دیا ہے اور شادی کے بارے میں لکھتے ہیں:”منجملہ ان رسوم کے قیامت کبری کی رسم ہے، جس کو عرف میں شادی کہتے ہیں اور واقعی بربادی کہنا لائق ہے۔ بربادی بھی کیسی ،دنیا کی بھی اور دین کی بھی،اس کا لقب قیامت کبری رکھا گیا ہے“۔حضرت نے اس کے ذیل میں ایک سو رسوم کا تذکرہ فرمایا ہے،یعنی ایک سو رسمیں ایسی ہیں جو مسنون نکاح کو داغ دار کیے ہوئے ہیں،لوگ انھیں نکاح کی حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں ۔حضرت نے ان ایک سو رسوم کے ذکر کے بعد لکھا ہے:”یہ ایک سو واقعات ہیں، جن میں سے کسی میں ایک گناہ، کسی میں دو گناہ ،کسی میں چار، پانچ اور بعض میں تیس تک مجتمع ہیں۔ اگر اوسط فی واقعہ تین گناہ رکھے جائیں تو واقعات مذکورہ تین سو گناہوں کا مجموعہ ہیں ۔ جس عقد میں تین سو حکم شرعی کی مخالفت ہوتی ہو ،اس میں خیر و برکت کا کیا ذکر۔

غرض واقعات مذکورہ ان معاصی سے پر ہیں ۔اسراف، افتخار و نمائش، التزام مالا یلزم، تشبہ بالکفار،سودی قرض یا بلاضرورت قرض لینا ، جبری تبرعات، بے پردگی، شرک ،فسادعقیدہ،نمازوں کا یا جماعت کا قضا ہونا، اعانت ِمعصیت ، اصرار و استحسان معاصی کا جن کی مذمت قرآن وحدیث میں صاف صاف مذکور ہے“۔(اصلاح الرسوم ص:86)

دین داری بنام مال داری
زوجین میں نکاح کے وقت سب سے زیادہ قابل توجہ چیز از روے شرع دین داری ہے اور سب سے کم قابل التفات مال اور حسن و جمال ہے،لیکن سماج میں معاملہ برعکس ہے،لڑکی میں زیادہ تر حسن و جمال اور لڑکے میں زیادہ تر مال کو دیکھا جاتا ہے،دینداری موضوعِ گفت گو نہیں ہوتی؛ چناں چہ اس زمانہ میں مال و جمال ہی انتخابِ رشتہ کا معیار ہیں،یہ معیار قابلِ اصلاح ہے،اسی واسطے حدیث میں لڑکی کے سلسلے میں یہ بات وضاحت سے منقول ہے کہ عورت سے چار وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے:شرافت کی وجہ سے،مال کی وجہ سے،خوب صورتی کی وجہ سے اور دین داری کی وجہ سے۔ اے مخاطب تجھ کو دین دار عورت سے نکاح کرنا چاہیے۔(مشکوٰة)۔اور لڑکے کے بارے میں ارشاد ہے:اگر تمھارے پاس ایسا شخص آئے جس کے اخلاق اور دین داری کو تم پسند کرتے ہو تو تم اپنی لڑکی کا نکاح اس سے کردو، ورنہ زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیلے گا(مشکوٰة)

مذکور بالا دونوں حدیثوں کی خلاف ورزی نے ہمارے معاشرے اور ازدواجی نظام کو تہس نہس کردیا ہے،میاں بیوی میں باہم الفت و محبت اور ذہنی توافق نکاح کا مقصد اعظم ہے ،اس مقصد کا حصول دین پر موقوف ہے،جن لوگوں نے دین داری کو پسِ پشت ڈال دیا ہے ان کی زندگیاں عموما پیارومحبت اور ازدواجی چین و سکون سے خالی ہیں،دین داری کے بغیر صرف مال اور حسن وجمال بقاء ِ محبت کے لیے کافی نہیں ہیں،بقول حضرت تھانوی کے:”مال و جمال کی عمر بہت ہی کم ہے،مال تو ایک شب میں بے وفائی کرجاتا ہے اور جمال ایک بیماری میں ختم ہوجاتا ہے“۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مال اور حسن وجمال بوقت نکاح کوئی حیثیت نہیں رکھتے، بلکہ دین داری کے ساتھ یہ جمع ہو جائیں تو ایسا رشتہ نور علی نور کا مصداق ہوگا۔

دین داری کا معیار
شریعت میں اس علم کا سیکھنا اور سکھانا ایمان کا شعبہ اور عبادت کا حصہ ہے جو اللہ کی ذات و صفات کی یا اس کے احکام کی معرفت کا ذریعہ ہو،رشتہ نکاح میں عورتوں میں اسی دینی تعلیم کا ڈھونڈنا ضروری ہے،اسی علم سے انسان مہذب اور دین دار بنتا ہے،کیوں کہ دینی تعلیم ہی تمام علوم و تہذیب کی اساس ہے اور اسی سے دل میں خدا کا خوف پیدا ہوتا ہے،وہی خوف(تقوی) جس کی یاد دہانی خطبہ نکاح کے موقع پر بار بار کرائی جاتی ہے۔اس معاملہ میں بھی ہمارا سماج اپنی الگ رائے اور جدا معیار رکھتا ہے،چناں چہ اب زیادہ ترلڑکی کی ڈگریاں دیکھی جاتی ہیں اور اسی کی بنیاد پر رشتے ہوتے ہیں،نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سارے حقوق ضائع ہونے لگے جو شریعت نے زوجین پر عائد کیے ہیں،سکونِ دل کے ساتھ سکونِ خانہ بھی غارت ہو گیا،اس لیے نکاح کے وقت اس معاملہ میں بہت توجہ درکار ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لڑکیوں کو عصری علوم کی تعلیم نہ دی جائے، بلکہ گزارش یہ ہے کہ دینی علوم ہماری ترجیحات کا حصہ ہونے چاہییں،جو علوم وفنون شریعت کی طرف سے ممنوع نہیں ہیں، نیز وہ اللہ کی معرفت اور عبادت میں مُخِل اور حارج نہیں ہیں یا وہ علوم خلقِ خدا کی نفع رسانی کا ذریعہ ہیں تو انھیں ضرور سیکھنا چاہیے، بلکہ حسن نیت سے ان میں عبادت کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔اس موقع پر حضرت تھانوی کی ایک دوسری اہم کتاب”اصلاح انقلابِ امت“حصہ دوم کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

مسجد بنام شادی خانہ
نکاح کرنے کے لیے سب سے عمدہ اور مقدس جگہ مسجد ہے،اس کے لیے جمعہ کا دن بہتر ہے؛لیکن آج کل نکاح کے لیے شادی خانے کی بُکنگ ہوتی ہے،دن تاریخ رکھنے میں مبارک اور منحوس کی خودساختہ شناخت ہوتی ہے۔یہ اسلامی مزاج کے خلاف ہے، نیز خلاف سنت ہونے کی وجہ سے بے برکتی کا ذریعہ ہے۔نکاح ایک عبادت ہے،مسجدیں عبادت خانہ ہیں،عبادت اگر عبادت خانے میں انجام پائے تو وہ کتنی سعادتوں اور برکتوں کا پیش خیمہ ہوگی ہم آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔اسی طرح جمعہ حدیث کے بموجب دنوں کا سردار اور خوشی کا دن ہے،نکاح عبادت ہونے کے ساتھ خوشی اور شادمانی کا موقع بھی ہے،اگر خوشی، خوشی کے موقع میں انجام پائے تو مسرت پائے دار ہوتی ہے۔علامہ انور شاہ کشمیری کی تحقیق یہ ہے کہ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت نکاح کے لیے سب سے بہتر ہے؛کیوں کہ یہ دعا کی قبولیت کی گھڑی ہے،اس اعتبار سے اگر ایسی مستجاب اور مقبول گھڑی کے اندر نکاح کیا جائے تو خیروبرکت کے اعتبار سے وہ نکاح ایک مثالی نکاح کا مصداق ہوگا؛لیکن آج دیر رات نکاح کرنے کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جو یقینا قابل اصلاح پہلو ہے۔

علماء سے دوری کب تک؟
علمائے کرام انبیاء کے وارث اور دین کے راہ نما ہیں،عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عبادات اور اپنے معاملات میں ان سے رجوع کریں،اس کے بغیر وہ راہِ مستقیم پر گام زن نہیں ہوسکتے،مقامِ ستم ہے کہ لوگ اپنے دنیاوی معاملات میں ماہرین سے نہ صرف یہ کہ رابطہ کرتے ہیں؛بلکہ ان کے بتائے ہوے نقوش و خطوط پر چلنا ضروری خیال کرتے ہیں،لیکن جب دین کا مسئلہ آتا ہے تو اہلِ ذکر اور ماہرین ِ دین سے رابطہ غیر ضروری سمجھتے ہیں،کیا آپ نے کبھی سنا یا دیکھا ہے کہ فلاں شخص نے نکاح سے پہلے کسی مفتی یا عالم دین سے اس لیے رابطہ کیا ہو کہ وہ مفتی یا عالم نکاح کا مسنون طریقہ بتائے گا ،وہ بس اسی پر عمل کرے گا؟ آخر ہم دنیا کے معاملات میں اتنے چوکنے اور دین کے معاملات میں اس قدر بے خبر کیوں ہیں؟کیا ہم نہیں جانتے کہ آخرت دنیا سے بہتر اور زیادہ پائے دار ہے۔؟یقینا ہمیں اس کا علم ہے،آئیے ہمت کریں اور علماء سے پوچھ کر شادی بیاہ کے معاملات انجام دینے کا عزم کریں۔