غصہ کے مُضر اسباب اور اس کا علاج

غصّہ کے مُضر اسباب اور اس کا علاج

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب زید مجدہم

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ﴾․ (سورة الروم، آیت:41)
وقال الله سبحانہ وتعالیٰ:﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ﴾․ (سورة آل عمران،آیت:110)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! یہ دنیا جس میں ہمارا بہت مختصر سا قیام ہے اس کی عمر اب آہستہ آہستہ پوری ہور ہی ہے اور یہ دنیا اپنے اختتام کی طرف جارہی ہے، چوں کہ ماضی بہت زیادہ طویل ہے اور اس کا بڑا حصہ گزر گیا، تھوڑا حصہ باقی ہے، سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری آمد بھی علامات قیامت میں سے ایک علامت ہے۔
میرا آنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اب دنیا ختم ہونے والی ہے، اب آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی، کوئی رسول، کوئی کتاب نہیں، یہ بھی ایک دلیل ہے کہ دنیا کا اختتام ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو انگلیوں کی طرف اشارہ فرماکر فرمایا کہ جیسے یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں ایسے ہی میں اور قیامت بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔
”عن أنس رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: بعثت أنا والساعة کھاتین․ (الجامع الصحیح لمسلم، ابواب الفتن، باب قرب الساعۃ، رقم:7404)
خوب اچھی طرح یاد رکھیں کہ اگر دنیا الله تعالیٰ کے احکامات اوربھیجے ہوئے رسول کے طریقے کے مطابق نہیں ہے تو وہ بہت بڑے فساد کا باعث ہے اور اگر دنیا الله تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہے اور رسول کے طریقے کے مطابق ہے تو وہ لوگ جو الله کی اطاعت کرتے ہیں اور الله کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، ان کا وہ زمانہ بہتر ہو جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس دنیا میں آزمائشیں ہی آزمائشیں ہیں، وہ آزمائشیں اہل دین کے لیے بھی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اشد الناس بلاءً، الانبیاء، سب سے زیادہ سخت آزمائشیں انبیاء پر آئی ہیں:” ثم الأمثل فالأمثل“․ (سنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ماجاء فی الصبر علی البلاء، رقم الحدیث:2398، وسنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، رقم الحدیث:4023)
پھر جو جتنا انبیاء کے قریب ہو گا اس پر اتنی ہی آزمائشیں آئیں گی، خلاصہ یہ ہواکہ اس دنیا میں مسائل ہی مسائل ہیں، مشکلات ہیں لیکن کچھ مشکلات الله تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے بھی آتی ہیں اور رسول کی نافرمانی کی وجہ سے ہوتی ہیں او رکچھ آزمائشیں ایسی ہوتی ہیں کہ الله تعالیٰ اہل ایمان کا امتحان لیتے ہیں کہ ان کے ایمان کا معیار کیا ہے؟
آپ نے سنا ہو گا دوستوں، عزیزوں، رشتہ داروں سے ، خود بھی احوال دیکھے ہوں گے کہ بہت سے لوگ، پاکستان چھوڑ کر، خلیجی ملکوں میں چلے جاتے ہیں، کوئی عمان چلا جاتا ہے، کوئی امارات چلا جاتا ہے، کوئی سعودیہ چلا جاتا ہے، کوئی بحرین، قطر چلا جاتا ہے ،کوئی اور آگے برطانیہ، یورپ او رامریکا چلا جاتا ہے ،کیوں جاتا ہے؟ وہ کہتے ہیں یہاں مشکلات ہیں، پریشانیاں ہیں، ہم یہاں رہ نہیں سکتے، آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی آدمی پاکستان چھوڑ کر امارات، عمان، سعودیہ، امریکا، برطانیہ، یورپ، کینیڈا چلا جائے اور وہاں اس کے مسئلے ختم ہو جائیں، ایسا نہیں ہے، مسائل کی شکل بدل جاتی ہے، پہلے پاکستانی مسائل تھے، اب اماراتی مسائل ہیں، اب عمانی، سعودی، مسائل ہیں، اب امریکی، برطانوی مسائل ہیں، مسائل ہی مسائل ہیں، کسی سے پوچھ لیں، مسائل ہی مسائل ہیں، ”جنت آنجا کہ آزارے نباشد“ صرف جنت ایک جگہ ایسی ہے جہاں کوئی مسئلہ نہیں، باقی کوئی جگہ ایسی نہیں۔
پھر یہ جو مسائل او رمشکلات ہیں، جیسے میں نے عرض کیا کہ ان میں ایک قسم وہ ہے جو نافرمانی کی وجہ سے ہیں، الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی، اور یہ بہت خوف ناک ہے، اتنی خوف ناک ہے کہ اس مشکل او رتکلیف میں ہر شخص جل رہا ہے، بہت سے لوگوں کو شعور ہو گیا ہے، لیکن وہ اس کا بندوبستنہیں کر رہے او ربہت سے لوگوں کو ابھی تک شعور نہیں، ہم اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو، اپنے گھر کو، اپنے خاندان کو الله تعالیٰ کی نافرمانی کرکے تباہ کر رہے ہیں، آپ مجھے بتائیں کہ الله تعالیٰ نے نماز فرض فرمائی ہے، کسی حال میں بھی گنجائش نہیں، روزے تو پورے سال میں ایک مہینہ فرض ہیں، زکوٰة بھی صاحب نصاب پر سال میں ایک مرتبہ فرض ہے حج پوری زندگی میں ایک مرتبہ ایسے شخص پر” من استطاع إلیہ سبیلا“ جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہو اس پر ایک دفعہ فرض ہے۔ لیکن نماز پانچ مرتبہ، فجر، ظہر، عصر، مغرب ، عشاء، کھڑے ہو کر پڑھ سکتے ہو، کھڑے ہو کر پڑھو، کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے بیٹھ کر پڑھنا فرض ہے بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے، لیٹ کر پڑھنا فرض ہے، آپ بتائیں اس فرض کے حوالے سے مسلمانوں کا کیاسلوک ہے الله تعالیٰ کے فرائض کے ساتھ جو ہمارا معاملہ ہے وہ بہت خوف ناک ہے او رپھر ہم اس کے لیے فکر مند بھی نہیں ہماری بیوی نماز پڑھتی ہے یا نہیں پڑھتی؟ ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہمارے بچے نماز پڑھتے ہیں نہیں پڑھتے، اس کی فکر نہیں، ہم خود نماز پڑھتے ہیں نہیں پڑھتے اس کی فکر نہیں، ہاں! ہمیں نوکری کی فکر ہے، ملازمت پر جانے آنے کے اوقات کی فکر ہے، بارش ہو، طوفان ہو، ہمیں اپنے بچوں کے اسکول کی فکر ہے، ہم جہاں بھی ہوں اسکول کے لیے فکر مند ہوتے ہیں، بچے اسکول گئے یا نہیں گئے، کوئی مسئلہ تو نہیں او راگر کوئی مسئلہ ہے تو وہیں سے بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کر رہے ہیں، ناغہ نہ ہو، لیکن کیا یہ ہمارا سلوک او رمعاملہ بچوں کی نماز کے حوالے سے بھی ہے ۔

روز محشر کہ جاں گداز بود
اولین    پرسش    نماز   بود

میدان محشر میں کہ جس میں سب پریشاں ہوں گے سب سے پہلا سوال نماز سے متعلق ہو گا کہ نماز پڑھتے تھے یا نہیں پڑھتے تھے۔
میرے دوستو! یہ تو وہ باتیں ہیں جو دین اسلام سے براہ راست متعلق ہیں، ہم اپنے گھروں میں قرآن پڑھتے ہیں نہیں پڑھتے، ہم اپنے گھروں میں نوافل پڑھتے ہیں نہیں پڑھتے، ہم اپنے گھروں میں دین کی باتیں کرتے ہیں نہیں کرتے، ہم نے اپنے گھروں کو شیاطین سے محفوظ رکھا ہوا ہے نہیں رکھا ہوا، اس کی کوئی فکر نہیں، میں اتنی تفصیلات سے واقف نہیں ہوں، لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اگر آج آپ نے اپنے آٹھ سال کے بیٹے یا آٹھ سال کی بیٹی کو اسمارٹ فون دیا ہوا ہے، تو وہ آٹھ سال کا بیٹا، بیٹی برہنہ مرد کو اور برہنہ عورت کو دیکھ چکے ہیں، آپ مجھے بتائیں کہ اگر گھر میں آگ لگ جائے تو ہم جان کی بازی لگا دیں گے اور اولاد کو بچانے کی کوشش کریں گے، لیکن اس جہنم کے اندر ہم اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے اپنے پیسوں سے دھکیل رہے ہیں۔آگے کیا ہونے والا ہے… الله ہم سب کی حفاظت فرمائے، بڑے چھوٹے کی تمیز ختم ہوچکی ہے، ماں باپ کی تمیز ختم ہوچکی ہے، بڑوں کی تمیز ختم ہو چکی ہے، ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں کبھی یہتصور نہیں کیا تھا کہ بڑوں کے سامنے، خواہ وہ والد ہوں، خواہ بڑے بھائی ہوں، خواہ وہ چچا ہوں، خواہ وہ ماموں، خالو، پھوپھا ہوں، خواہ وہ استاد ہوں کہ ان کے سامنے ننگے سر بیٹھے ہوں، یہ ادب ہے، یہآداب زندگی ہیں، کبھی ہم نے اس کا تصور نہیں کیا تھا کہ بڑے بات کر رہے ہوں تو چھوٹے مداخلت کریں، بڑے چھوٹوں کو اہتمام سے مجلس میں بٹھاتے تھے، تاکہ انہیں آداب مجلس آئیں، بڑوں کے سامنے بیٹھتے کیسے ہیں، بڑوں سے بات کیسے کرتے ہیں، بڑوں کی خدمت کیسے کرتے ہیں، آداب ہیں۔
آج میرے دوستو! سب ختم ہے!!!میں آپ حضرات کے سامنے اپنا ایک قصہ بیان کرتا ہوں، الله کرے آئندہ کے لیے بھی مجھے اس سے فائدہ ہو، آپ کو بھی فائدہ ہو، ہمارے حضرت والد ماجد قدس الله سرہ جب حیات تھے، صحت مند تھے، ہمارے ہاں جمعہ کی نماز کے بعد اکٹھے دسترخوان لگا کر کھانا کھایا جاتا تھا، نیا نیا موبائل فون ایجاد ہوا تھا، نیا نیا فون آیا تھا، میرے پاس بھی تھا، دسترخوان لگ گیا، سب لوگ بیٹھ گئے، کھانا شروع ہونے والا تھا کہ میرا فون آیا، میں نے فون اٹھا لیا اور میرا وہ فون سننا اتنا لمبا ہو گیا کہ سب نے کھانا کھا لیا اور میں فون میں مصروف تھا، تو ہمارے والد ماجد ،الله تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے منور فرمائیں اور ان کے فیوض سے ہم سب کو مستفید فرمائیں۔انہو ں نے مجھے کھانے کے بعد بلایا، او ربلا کر مجھ سے پوچھا کہ یہ فون آپ کا ہے؟ میں نے کہا جی !میرا ہے، آپ نے خریدا ہے؟ میں نے کہا جی خریدا ہے! کتنے کا خریدا ہے؟ میں نے کہا اتنے کا خریدا ہے۔
تو فرمایا: ﴿إنالله وإنا إلیہ راجعون﴾ آپ نے پیسے دے کر مصیبت خریدی ہے، آپ کو نہ باپ کی تمیز ہے، نہ آپ کو ماں کی تمیز ہے، نہ بیوی بچوں کی تمیز ہے کہ آپ فون پر مصروف ہیں اور باقی سب کھانے میں مصروف ہیں، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے … یہ سب چیزیں سکھائی جاتی ہیں۔
آپ مجھے بتائیے کہ آج شوہر ، سارا دن محنت ومشقت کرکے شام کو گھرآتا ہے، وہ کیا چاہتا ہے؟ سارا دن اس نے محنت کی ہے، تھکا ہوا ہے، پسینے سے شرابور ہے، جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کی کیا چاہت ہوتی ہے کہ بیوی اس کا استقبال کرے، اس سے اگر چائے کا وقت ہے تو گرما گرم چائے کا پوچھے، کھانے کا وقت ہے تو گرم گرم کھانے کا پوچھے، اسے اپنا گھر صاف ستھرا نظر آئے، بچے صاف ستھرے ہوں۔
لیکن اب کیا ہے کہ میاں تھکا ہارا گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیگم صاحبہ ا سمارٹ فون میں مصروف ہیں، وہ سلام کرتا ہے تو سلام کا جواب بھی نہیں ملتا ،وہ چائے کا کہتا ہے، حالاں کہ اسے کہنا بھی نہیں چاہیے، یہ عورت کی ذمہ داری ہے، لیکن کہنے کے باوجود جواب میں” ہوں“ آتا ہے اور موبائل میں مصروف ہیں، آپ مجھے بتائیں کہ ہمارے اندر اس سے اشتعال آئے گایا نہیں آئے گا؟ غصہ پیداہو گا یانہیں ہوگا؟ اور یہ تو ایک چھوٹی سی مثال میں نے دی ہے، آج ہمارا مسلمان بچہ، آٹھ سال ، دس سال، بارہ سال، بیس سال آپ پوچھیں بیٹا! آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ کوئی کسی برازیلین، ارجنٹائن کے فٹبالر کا نام لیتا ہے، وہ بنوں گا، کوئی ہندوستان کے کسی فنکار، گلو کار کا نام لیتا ہے کہ میں وہ بنوں گا، کسی کے منھ سے یہ نہیں نکلتا کہ میں ابوبکر صدیق بننا چاہتا ہوں، میں فاروق اعظم بننا چاہتا ہوں، میں عثمان ذوالنورین بننا چاہتا ہوں، میں علی المرتضی بننا چاہتا ہوں، کوئی بچی یہ نہیں کہے گی کہ میں خدیجة الکبری بننا چاہتی ہوں، میں فاطمة الزہرا بننا چاہتی ہوں، بڑوں بڑوں سے بھی، اگر آپ صرفخلفائے راشدین کے نام پوچھ لیں تو وہ بھی بہت اٹک اٹک کر یا بے ترتیب بتا دیں گے، عشرہ مبشرہ کے نام پوچھیں؟
میرے دوستو! یہ ہے ہمارا مستقبل، ہم نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی کہ ہم نے اپنے بچوں کو کیا بنانا ہے؟ ہم اندھے او ربہرے ہو کر، بے شعور ہو کر، مادیت کی دوڑ میں بھاگ رہے ہیں، پیسہ پیسہ، آج کسی بھی شخص کی جو تعریف ہے، آج کسی بھی شخص کا جو معیار ہے وہ پیسہ ہے، وہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم والی صفات نہیں، وہ خلفاء راشدین والی صفات نہیں، صرف پیسہ، بھائی پیسہ تو قارون کے پاس بھی بہت تھا، اس کی تو خزانے کی صرف چابیاں اسی اونٹوں پر لد کر جاتی تھیں، بڑے بڑے دنیاوالے آئے، چلے گئے، یہ تو کوئی معیار نہیں، یہ توبہت گھٹیا بات ہے کہ میرے پاس اتنا پیسہ ہے یا فلاں کے پاس اتنا پیسہ ہے، یا فلاں کے پاس اتنی جائیداد یں ہیں، صفات کیا ہیں؟ حضرت بلال رضی الله عنہ کیا مال دار تھے؟! نہیں، لیکن ایسی صفات تھیں، ایسی صفات تھیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ جن کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لو کان بعدی نبی لکان عمر․(سنن الترمذی، ابواب المناقب، رقم الحدیث:3686)
میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لیکن اگر میرے بعد کسی میں نبی بننے کی استعداد اور صلاحیت ہو سکتی تھی تو وہ عمر ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ جب حضرت بلال رضی الله عنہ تشریف لاتے تو کھڑے ہوجاتے تھے اورفرماتے: جاء سیدنا بلال، ہمارے سردار بلال
آج ہمار ی محفل میں کوئی غریب آدمی آجائے، ہاں! پیسے والا آجائے تو اس کے لیے سب کچھ۔ تو معیار کیا ہے؟ پیسہ، صفات معیار نہیں، ہم اپنی آنے والی نسلوں میں ان صفات کو منتقل نہیں کر رہے، ہم انہیں وقت نہیں دے رہے، ہم انہیں بٹھا کر نہیں سمجھارہے، اس کا نتیجہ کیا ہے؟ یورپ اور امریکا میں تو عرصہ ہوا ،آج نہیں ،عرصہ ہوا ظاہر ہو چکا، وہاں کوئی باپ کو باپ نہیں سمجھتا ،وہاں ماں کو کوئی ماں نہیں سمجھتا، وہاں کوئی بیٹی کو بیٹی نہیں سمجھتا، ان کی جو ترقی ہے وہ صرف مادی ترقی ہے، وہ روحانی او راخلاقی ترقی نہیں، انہوں نے لوہے پر محنت کی ،انہوں نے مادے پر محنت کی، وہ چمک دمک آپ کو نظر آئے گی، لیکن اولاد والدین میں کوئی تعلق ہے؟ بھائی او ربھائی میں بھی کوئی تعلق ہے؟ کوئی بیٹا اپنی ماں کو ماں سمجھتا ہے ؟!
ابھی کچھ دن پہلے میں پڑھ رہا تھا، بیلجیم کے بارے میں، وہاں کا جو دارالخلافہ ہے برسلز، برسلز کے اندر مسلمان بھی رہتے ہیں، ہمارے مراکشی مسلمان، الجزائر کے مسلمان، تیونس کے مسلمان، ترکی کے مسلمان ، اچھی خاص تعداد میں ہیں توایک گھر عیسائیوں کا تھا، اس کے بالکل متصل مراکشی مسلمان کا گھر تھا، تو جوکرسچن کا گھر تھا، اس کرسچن کی ماں کی عمر 90 برس تھی او راس کے گھر والے اس کی خدمت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے چنا ں چہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اسے اولڈ ہاوس میں جمع کر دیتے ہیں، برابر میں جو مراکشی مسلمان گھرانہ تھا، ان کے بڑے کو پتہ چلا کہ ان کے پڑوسیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی والدہ کو اولڈہاوس میں جمع کریں گے تو وہ فوراً گئے او ران سے کہا کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ آپ اپنی ماں کو اولڈ ہاوس میں جمع کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا جی ہم ان کی خدمت نہیں کرسکتے، تو اس مراکشی مسلمان نے کہا کہ بھائی !میری ماں کی عمر بھی 90 برس ہے، ہم اس کی خدمت کرتے ہیں اور جی جان سے کرتے ہیں، تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنی ماں کو اولڈ ہاوس میں جمع نہ کرائیں، آپ وہ مجھے دے دیں، اپنی ماں مجھے دے دیں،جیسے ہم اپنی ماں کی خدمت کرتے ہیں ایسے ہی ہم اس کو بھی اپنی ماں سمجھیں گے او راس کی خدمت کریں گے، تو انہوں نے تو جان چھڑانی تھی دے دی، یہ لے آئے، اس کو نہلایا، اچھے صاف ستھرے کپڑے پہنائے، خوش بو لگائی او راپنی ماں کو جہاں بٹھاتے تھے وہاں دوسری جگہ اس کے لیے بنائی اس کو بٹھایا او راپنے سارے بچے بچیوں سے کہا کہ اب یہ بھی ہماری دادی، نانی ہے، جیسے اپنی دادی کو سلام کرتے ہو، اس کے ہاتھ چومتے ہو، اس سے پیار کرواتے ہو، اب یہ سارا ان سے بھی کروانا ہے اور سب کو مل کر اس کی خدمت کرنی ہے، چناں چہ سب نے خدمت شروع کر دی، تیسرے دن اس نوے سالہ خاتون نے اسلام قبول کر لیا، یہ ہے اسلام، یہ ہے ترقی، اس کو کہتے ہیں ترقی، جہازاُڑانا، ریل چلانا، ٹھیک ہے انسان کی ایک ضرورت ہے، لیکن اگر یہ نہیں تو پھر وہ سب فضول ہے، اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دین سے دوری کی وجہ سے، دین اسلام سے دوری کی وجہ سے، آج مسلمان کی زبان پر تو ہے ان الله مع الصابرین الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، لیکن کیا ہم صبر کرتے ہیں؟! ہم اپنی ماں کے سامنے صبر کرتے ہیں؟ ہم اپنے باپ کے سامنے، بھائی کے سامنے، بیوی کے سامنے صبرکرتے ہیں؟!
پاکستان میں ہم مسلمان گزشتہ چالیس سال سے جس چیز میں تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں وہ ہے عدم برداشت، مجھے تو بعض دفعہ ایسا لگتا ہے کہ ہر آدمی چولھے پر بیٹھا ہوا ہے۔
غصہ، غضب اور اس غصے او رغضب کا نتیجہ کیا ہے؟ قتل، اس غصے اور غضب کا نتیجہ کیا ہے؟ طلاقیں، اس غصے اور غضب کا نتیجہ کیا ہے؟ گھروں کی تباہی، اس غصے اور غضب کا نتیجہ کیا ہے؟ ملک کی بربادی:﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاس(.
یہ جو خشکی او رتری میں آج فساد پھیلا ہوا ہے، یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت، یہ اپنے اعمال بدکا نتیجہ ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی آئے اور عرض کیا اے الله کے رسول! مجھے نصیحت فرمائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لا تغضب․ اس نے عرض کیا میں عمل کروں گا۔ کوئی اور نصیحت فرمائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لا تغضب․ اس نے عرض کیا اے الله کے رسول! میں عمل کروں گا، مجھے کوئی اور نصیحت فرمائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لا تغضب․ غصہ مت کرو۔
”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ: أن رجلاً قال للنبی صلی الله علیہ وسلم أوصنی، قال: لاتغضب․ فردّد مراراً قال: لا تغضب․“(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب ، رقم:6116، وسنن الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ماجاء فی کثرة الغضب، رقم الحدیث:2020، ومسند أحمد رقم الحدیث:8729، والمستدرک علی الصحیحین، ذکر جاریة بن قدامة، رقم الحدیث:6578)
آج ہر آدمی جیسے چولھے پر بیٹھا ہوا ہو، صبر، تحمل، برداشت، یہ سب تو ہمارا دین سکھاتا ہے، جب کہ آج ہر آدمی غصہ میں ہے، ماں پر غصہ، باپ پر غصہ، بھائی پر غصہ، بیوی پر غصہ، آپس میں غصہ ،پورا ملک غصے سے بھرا ہوا ہے۔
میرے دوستو! ہمیں سوچنا چاہیے، ہمیں اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیے، ہم اپنے عمل سے بچوں کو سمجھائیں، میں نے ایک دفعہ پڑھا تھا ،گاما پہلوان جو پورے ہندوستان کا سب سے بڑا پہلوان تھا، وہ راستے میں جارہا تھا کہ ایک عام آدمی نے ایک چھوٹاسا ترازو کا جو باٹ ہوتا ہے وہ گا ما پہلوان کے سر پر مار دیا، گاما پہلوان کے سر سے خون بہنے لگا ، اس نے مفلر لیا اور زخم پر لپیٹ لیا او رخاموشی سے گھر چلا گیا، لوگ اس کے گھر گئے او رکہا کہ گاما صاحب! آپ تو اتنے بڑے پہلوان ہیں ،اس نے پتھر مارا آپ کو، آپ تو اگر اس کوایک تھپڑ لگا دیتے تو وہ مر جاتا، تو گاما پہلوان نے کہا کہ میں گاما پہلوان طاقت کی وجہ سے نہیں بنا، برداشت کی وجہ سے بنا ہوں اور یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کے ایک فرمان کا مفہوم ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ طاقت ور وہ نہیں ہے جو کسی کو پچھاڑ دے، طاقت ور ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو لے۔
”عن أبي ھریرة رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: لیس الشدید بالصرعة، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، رقم:6114)
بری عادتوں میں غصہ نہایت ہی خطرناک اور بہت ہی بد انجام عادت ہے، غصہ کی حالت میں آدمی کو نہ الله تعالیٰ کی حدو دکا خیال رہتا ہے نہ اپنے نفع اور نقصان کا، تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ انسان پر شیطان کا غلبہ جیسا غصہ کی حالت میں ہوتاہے ایسا شاید کسی دوسری حالت میں نہیں ہوتا، گویا اس وقت انسان اپنے بس میں نہیں ہوتا، بلکہ شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے۔
لیکن واضح رہے کہ شریعت میں جس غصہ کی ممانعت اور سخت مذمت کی گئی ہے اس سے مراد وہی غصہ ہے جو نفسانیت کی وجہ سے ہو اور جس سے مغلوب ہو کر آدمی الله تعالیٰ کی حدود اور شریعت کے احکام کا پابند نہ رہے لیکن جو غصہ الله کے لیے او رحق کی بنیاد پر ہو اور اس میں حدود سے تجاوز نہ ہو، بلکہ بندہ اس میں حدود الله کا پورا پابند رہے تو وہ کمال ایمان کی نشانی ہے اورجلال خداوندی کا عکس ہے۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”مجھے غصہ کیوں نہ آئے لوگ غصہ دلانے والی حرکات میرے ساتھ کرتے ہیں؟! حضرت امام شافعی رحمہ الله نے طبقات کبری میں لکھا ہے:”من استغضب فلم یغضب فھو حمار“ کہ جس کو غصہ دلانے پر بھی غصہ نہ آئے وہ گدھا ہے اور جب اس غصہ کی کوئی معذرت کرے اور وہ قبول نہ کرے وہ شیطان ہے۔ میں نہ گدھا بننا چاہتا ہوں اور نہ شیطان“۔ (ملفوظات حکیم الامت:15/198)
نرمی سے اصلاح نہیں ہوتی
ایک جگہ حکیم الامت رحمہ الله فرماتے ہیں: تجربہ سے معلوم ہوا نرمی سے اصلاح ہوتی نہیں، اس لیے سختی برتتا ہوں، کوئی مجھے سمجھا دے ،میں اس طریق کو بدل دوں گا او رتجربہ کرکے دیکھ لوں گا، اگر مفید ہوا اختیار کر لوں گا۔ (ملفوظات حکیم الامت:15/6)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں میرا غصہ اتنا تھا کہ غصہ کی وجہ سے بخار آجاتا تھا، اب تو غصہ کچھ بوڑھا بھی ہو گیا ہے او رکچھ غصہ کو نافذ بھی کرسکتا ہوں۔ (ملفوظات حکیم الامت:26/216)
حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب رحمة الله علیہ فرماتے ہیں : غصہ فی نفسہ غیر اختیاری ہے، لیکن اس کے اقتضا پر عمل کرنا اختیاری ہے، اس لیے اس کا ترک بھی اختیاری ہے او راختیاری کا علاج بجز استعمال اختیار کے کچھ نہیں، گو اس میں کچھ تکلف ومشقت بھی ہو، اسی استعمال کے تکرار اورمداومت سے وہ اقتضا ضعیف ہو جاتا ہے او راس کی ترک میں زیادہ تکلف نہیں ہوتا، البتہ اس اختیار کے استعمال میں کبھی قدرے تکلف ہوتا ہے۔ (اہل دل کے انمول اقوال،ص:363)
مقصد یہ کہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کامطالبہ یہ نہیں ہے کہ بندہ کے دل میں وہ کیفیت ہی پیدا نہ ہو جس کو غیظ ، غضب اور غصہ کے لفظوں سے تعبیر کیا جاتا ہے ،کیوں کہ کسی سخت ناگوار بات پر دل میں اس کیفیت کا پیدا ہو جانا تو بالکل فطری بات ہے او راس سے انبیاء علیہم السلام بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔
البتہ مطالبہ یہ ہے کہ اس کیفیت کے وقت بھی نفس پر پورا قابو ہے، ایسا نہ ہو کہ اس سے مغلوب ہو کر آدمی وہ حرکت کرنے لگے جو شان بندگی کے خلاف ہو۔
چناں چہ غصے کے وقت شریعت کی تعلیمات کے مطابق اعتدال میں رہنا اور حدود سے تجاوز نہ کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ان الغضب لیفسد الإیمان کما یفسد الصَّبر العسل․“ (شعب الإیمان للبیہقی، فصل فی ترک الغضب، رقم:7941)
غصہ ایمان کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے کہ ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے۔
غصہ کے وقت کیا کیا جائے؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إذا غضب احدکم وھو قائم فلیجلس، فإن ذھب عنہ الغضب، وإلا فلیضطجع․“
جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو چاہیے کہ بیٹھ جائے، پس اگر بیٹھنے سے غصہ فرو ہو جائے تو فبہا، او راگر پھر بھی غصہ باقی رہے تو چاہیے کہ لیٹ جائے۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأدب، باب مایقال عند الغضب، رقم:4782، ومسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث:21348)
اسی طرح ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إذا غضب أحدکم فلیسکت․“ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو چاہیے کہ وہ اس وقت خاموشی اختیار کرے۔ ( مسند احمد، رقم الحدیث:2136)
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إن الغضب من الشیطان، وإن الشیطان خلق من النار، وانما تطفأ النار بالماءِ، فإذا غضب احدکم فلیتوضأ․“
غصہ شیطان کے اثر سے آتا ہے، (یعنی غصہ میں حدود سے تجاوز شیطان کے اثر سے ہوتا ہے) اور شیطان کی آفرینش آگ سے ہوئی ہے (یعنی شیطان اپنی اصل کے اعتبار سے آتشی ہے) اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ وضو کرے۔(شعب الایمان للبیہقی، فصل فی ترک الغضب، رقم:7938، وسنن أبي داود، کتاب الأدب، باب مایقال عند الغضب، رقم:4778)
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی موجودگی میں دو آدمیوں نے باہم گالی گلوچ کی، ان میں سے ایک دوسرے کو غصہ کی حالت میں گالی دے رہا تھا او راس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا، تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إنی لأعلم کلمة لوقالھا لذھب عنہ مایجد، لوقال أعوذبالله من الشیطن الرجیم․“
میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے، اگر یہ شخص” اعوذ بالله من الشیطن الرجیم“ کہہ لے۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، رقم:6115)
غصہ کو پی جانے کے فضائل
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ما تجرع عبد جرعة افضل عند الله عزوجل من جرعة غیظ یکظمھا ابتغاء وجہ الله تعالیٰ․“ (مسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث:6114، والمجعم الکبیر للطبراني، مسند عبدالله بن عمر، رقم الحدیث:13994)
کسی بندہ نے کسی چیز کا کوئی گھونٹ ایسا نہیں پیا جو الله کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے افضل ہو جسے کوئی بندہ الله کی رضا کی خاطر پی جائے۔
غصہ پی جائیے جونسی حور چاہیے لے لیجیے
اسی طرح ایک حدیث میں ہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من کظم غیظاً وھو یقدر علی أن ینفذہ دعاہ الله علی رؤوس الخلائق یوم القیامة حتی یخیرہ فی أی الحور شاء“․(سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، باب فی کظم الغیظ، رقم:2021، وسنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الحلم، رقم الحدیث:4186، ومسند احمد، رقم الحدیث:15637)
جوشخص پی جائے غصہ کو درآنحالیکہ اس میں اتنی طاقت او رقوت ہو کہ اپنے غصہ کے تقاضے کو نافذ اور پورا کرسکتا ہو ( لیکن اس کے باوجود وہ محض الله کے لیے اپنے غصہ کو پی جاتا ہے او رجس پر غصہ ہے اس کو کوئی سزا نہیں دیتا) تو الله تعالیٰ قیامت کے دن سار ی مخلوق کے سامنے اس کو بلائیں گے او راس کو اختیار دیں گے کہ حوران جنت میں سے جس حور کو چاہے اپنے لیے انتخاب کرے۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من کف غضبہ کف الله عنہ عذابہ یوم القیامة․“(شعب الإیمان للبیہقی، فضل فی ترک الغضب، رقم الحدیث:7958)
آج ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ ابھی باجوڑ میں جو واقعہ پیش آیا ہے کتنا خوف ناک ہے، اس کی تکلیف پتہ نہیں کب تک چلتی رہے گی، کتنی ہماری بہنیں بیوہ ہو گئیں، کتنے ہمارے بھائی یتیم ہو گئے، مجھے کسی نے بتایا کہ ایک جنازہ تو ایسا تھا جس میں صرف دو پاؤں تھے اور وہ دو پاؤں بھی جوتے سے پہچانے گئے کہ یہ فلاں کے پاؤں ہیں۔
یہ سب میرے دوستو! دین سے دوری کا نتیجہ ہے ،ورنہ دین اسلام تو دین رحمت ہے، دین ہمیں صبر سکھاتا ہے، دین ہمیں برداشت سکھاتا ہے۔ وہ ہمیں تحمل سکھاتا ہے، یہ جو جگہ جگہ خون بہہ رہا ہے پورے ملک میں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم جنگل میں رہ رہے ہیں، یہاں نہ کوئی والی ہے، نہ کوئی وارث ہے، نہ حکومت ہے، نہ حکمران ہیں، آپ اگر گھر سے یہاں زندہ سلامت آئے ہیں الله کا شکر ادا کریں، آپ کا کوئی وارث نہیں ہے، کوئی حکومت نہیں ہے۔
الله تعالیٰ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے، ہمارے علماء کی حفاظت فرمائے، کتنے قیمتی لوگ، کتنے معصوم لوگ… ان کے ساتھ یہ ظلم، یہ بربریت، یہ درندگی، خواہ وہ کسی کے ساتھ بھی ہو، خواہ وہ بلوچستان میں ہو، خواہ وہ کے پی کے میں ہو، خواہ وہ پنجاب، سندھ میں ہو، یہ ظلم اور زیادتی کا بازار اور اس پر مجرمانہ خاموشی اور یہ آج سے نہیں طویل عرصے سے ہے۔
آپ جامعہ فاروقیہ میں بیٹھے ہیں، جامعہ فاروقیہ کے پانچ اساتدہ شہید ہوئے، میرے بھائی جان رحمة الله علیہ اسی شاہ فیصل کالونی میں دن دھاڑے شہید کیے گئے، ہمارے طالب علم انہی گلیوں کے اندر کس مظلومانہ انداز میں پوری حکومت کی موجودگی میں، پولیس، رینجرز کی موجودگی میں ، پورے انتظام کی موجودگی میں شہید کیے گئے۔
سوائے الله تعالیٰ سے فریاد کرنے کے، سوائے الله تعالیٰ سے دعا کرنے کے اور الله تعالیٰ کی طرف رجوع اور انابت کرنے کے اور سوائے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرنے کے او رکوئی راستہ نہیں۔
یہ مدارس جہاں صبح سے لے رات تک قرآن پڑھا جارہا ہے ، احادیث پڑھی جارہی ہیں، الله کے دین کے لیے اپنے ماں باپ کو چھوڑا ہوا ہے، اپنے وطن کو چھوڑ کر، آسائشوں کو چھوڑ کر، مسافرت اختیار کی ہوئی ہے، یہ امید کی کرنیں ہیں، یہ امید کے چراغ ہیں، جو اس ملک کے اندر جل رہے ہیں او روشنی ان سے پھیل رہی ہے، باقی جو صورت حال ہے وہ مجھ سے زیادہ آپ بہتر جانتے ہیں۔
الله تعالیٰ ہم سب کو اپنی طرف رجوع او رانابت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ا لله تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی محبت او رکامل اتباع کی توفیق عطا فرمائے او رہمارے اس قیمتی ، انمول اور نہایت عظیم الشان ملک کی الله تعالیٰ جغرافیائی سرحدوں کی بھی حفاظت فرمائے، نظریاتی سرحدوں کی بھی حفاظت فرمائے، حکومتوں اور حکم رانوں کو بھی الله تعالیٰ اپنی طرف رجوع اور انابت کی توفیق عطا فرمائے۔