عہد نبوی کا شہری نظام

idara letterhead universal2c

عہد نبوی کا شہری نظام

محترم اسد اللہ خاں شہیدی

 
مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقا کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی، جس کے حدودِ حکم رانی شمال میں عراق وشام کی سر حدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضر موت تک اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس وسلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور عملی طور سے پورے جزیرہ نمائے عرب پراسلام کی حکم رانی قائم ہوگئی۔
 
اگرچہ شروع میں اسلامی ریاست کانظم ونسق عرب قبائلی روایات پر قائم واستوار تھا، تاہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی، یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیاسیاسی تجربہ تھا؛ کیوں کہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے، یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں، جوایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علم بردار تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں مسلسل سیاسی چپقلش، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں، عربوں میں ناصرف مرکزیت کافقدان تھا؛ بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے، وہ کسی ”غیر“کی حکم رانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے، یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاسیاسی معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرما دی، جس کی اطاعت بدوی اور شہری تمام عرب باشندے کرتے تھے، اس کا سب سے بڑا، بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ”قبیلہ یا خون“ کے بجائے ”اسلام یا دین“معاشرہ وحکومت کی اساس تھا، اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیا لوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا، جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنی ضروری تھی۔
 
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب راہِ ہجرت میں قدم رکھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پرسورہٴ بنی اسرائیل کی ایک آیت کثرت سے رہتی تھی: ترجمہ: ”اے اللہ! (نئی منزل میں) صدق وصفا سے داخل کر اور جہاں سے نکالا ہے وہاں کا نکلنا بھی صدق وصفا پر مبنی ہو (نئی جگہ دین پھیلانے کے لیے) غلبہ عطا فرما“۔ (سورہ بنی اسرائیل: 80)
 
چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاقبول فرمائی، اسلامی مملکت کے قیام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوغلبہ عطا فرمایا۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ کااہتمام کیا، اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین، انصار، یہود، عیسائی اور دیگر قبائل کوجمع کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ گفتگو فرمائی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی، ابتدائی موٴرخین نے اسی کو صحیفہ کانام دیا ہے، یہ حکم رانِ وقت کا ایک فرمان تھا، ساتھ ہی تمام لوگوں کا اقرار نامہ بھی تھا،جس پران لوگوں کے دستخط تھے، اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے، ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیاہے، وہ لکھتے ہیں:
 
”مدینہ میں ابھی نِراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنو النضیر وبنو قریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے، ان میں باہم کئی کئی نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہوکر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے۔ ان میں مسلسل جنگوں سے اب دونوں تنگ آچکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے، لیکن شہر میں امن پسند طبقات کوغلبہ ہورہاتھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کوبادشاہ بنادیں، حتی کہ بخاری اور ابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاج شہر یاری کی تیاری بھی کا ریگروں کے سپرد ہوچکی تھی، بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کر کے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی، مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کاالگ راج تھا اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتاتھا، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا، تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہوچکے تھے، مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا، اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے، ان حالات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت اور متعدد فور ی ضرور تیں تھیں:
 
1- اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کاتعین۔
 
2- مہاجرینِ مکہ کے قیام اور گزربسر کاانتظام۔
 
3- شہرکے غیر مسلم عربوں او رخاص کریہودیوں سے سمجھوتہ۔
 
4 – شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کااہتمام۔
 
5- قریشِ مکہ سے مہاجرین کوپہنچے ہوئے جانی ومالی نقصانات کا بدلہ۔
 
ان ہی اغراض کے مد نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی،جسے اسی دستاویز میں کتاب وصحیفہ کے نام سے یاد کیا گیاہے، جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں، اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا“۔ (ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تحریریں: مرتب قاسم محمود،ص: 253)
 
اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے:
 
1- آبادیوں میں امن وامان قائم رہے گا؛تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔
 
2- مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی۔
 
3- فتنہ وفساد کوقوت سے ختم کیاجائے گا۔
 
4- بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیاجائے گا۔
 
5- حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا۔
 
6- میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیاجائے گا۔
 
اس معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے،الگ الگ دفعات مرقوم ہیں، یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم ونسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا، یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عالم گیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی، جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ900 کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی، اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا۔ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ڈاکٹر حمید اللہ)
 
اس عالم گیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی۔
 
اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں:
1- امن و امان کاقیام۔
2- تعلیم و تربیت کی سہولتیں۔
3- روزگار، سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی۔
 
قرآن حکیم نے بار بار نشان دہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور زمین پراللہ کاکنبہ ہیں، انسان فطرتاً مل جل کر رہنا چاہتاہے اور دنیا کے تمام وسائل ہمارے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، اس لیے صاف اور سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، فرائض اور حقوق کی ایک بڑی تفصیل ہمارے سامنے ہے، معلم کتاب وحکمت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تشریح اور ان کی تفصیل فرما چکے ہیں۔
ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کاسیلاب امڈ پڑاتھا اور آخر کار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ (صحیح بخاری) ان نوواردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا تھا، اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو آبادی (کالونائزیشن) اور شہری منصوبہ بندی (ٹاوٴن پلاننگ) میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا، نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا، پھر مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی وتمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آکر جمع ہو رہے تھے، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیداہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں … جیساکہ عام طور پرایسے حالات میں ہوتاہے… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کامستحق ہے، جدید شہروں میں آبادی کے دباوٴ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے، ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس راز سے آگاہ کیاکہ محض سنگ وخِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ وبازار بنا دینے کانام شہری منصوبہ نہیں، بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی، روحانی بالیدگی، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے، اعلی انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کاسبب بنے۔
 
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیاتھا، مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی تعمیر کاپہلا مرحلہ تکمیل کوپہنچا، دوسرے مرحلہ کا آغاز نووارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیا گیا، یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یااس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا۔
 
مدینة الرسول،ایک لحاظ سے ”مہاجر بستی“ تھی، گو سارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہوتو مکانات اور تعمیرات کاسلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیاہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایاجائے، عوالی میں رہنے والے بنو سلمہ نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نامنظور کردیا اور انھیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی، ریاست کی نوآبادی اسکیم کایہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے، بے سروسامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے، بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایاجاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظا م بھی سرکار ی طور پر کیاجا تا، بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یامکان مہیاکرنا بھی حکومت کا فرض تھا، گویا مہاجرین کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی۔
 
مہاجرین کی عارضی رہائش کاانتظام مسجد کے اندر کیمپ لگاکر یا صفہ میں کیا جاتا، اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پر مشتمل ہوتا تو انھیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا، تا آں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہو جاتا، آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے: اولا ًیا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیاجاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلیں، مگر خیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا، جب کہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی اورنہ ہی منظم تھی۔
 
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموما ًبڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے، ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا، البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا، اندازہ ہوتاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علیحدہ رہائش کے لیے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے۔ (ماخوذ از ادب مفرد: امام بخاری)
 
توسیعِ شہر
 
تعمیرات کا سلسلہ ایک عرصہ تک تواتر کے ساتھ جاری رہا، یہاں تک کہ بنی قینقاع کے اخراج( 3 ھء)کے بعد، مکانات کی خاصی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ آجانے کے سبب، رہائشی قلت بہت حد تک دو ر ہوگئی، مگر یہ مسئلہ ختم نہ ہوا، کیوں کہ رہائشی سہولتوں کے مقابلہ میں نوواردوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے 2ھء (بنو قریظہ کی فتح) تک یہ مسئلہ سنگین نوعیت کا تھا، اس کے بعد اسلامی حکومت کی آمدنی کے وسائل بھی پیدا ہوگئے، مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی کسی قدر سنبھل گئی، یہودیوں کے بہت سے مکانات بھی مل گئے، لہٰذا معاملہ کی سنگینی بڑی حدتک کم ہوگئی، تاہم آباد کاری کا کام فتحِ مکہ اور اس کے بعد بھی جاری رہا، فتح کے ساتھی ہی چوں کہ ہجرت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا، اس لیے مدینہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ رک گیا، تاہم کئی لوگ فتحِ مکہ کے بعد بھی مدینہ میں آکر آبا د ہوئے اور حصولِ تعلیم وغیرہ کے لیے آنے والوں کابھی تانتا بندھا رہا۔ (عہد نبوی کا نظام تعلیم: ڈاکٹر حمید اللہ)
 
عہد نبوی کے اواخر میں مدینہ کا شہر مغرب میں بطحا تک، مشرق میں بقیع الغرقد تک اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانات تک پھیل چکا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا، شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام زبردست اہمیت کا حامل ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں، جنھیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرہ کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملاہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر نو (مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہونے دیا اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد (500)پانچ سو ہاتھ مقرر کی اور فرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑ ھ جائے تو نیا شہر بسائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بھی اس اصول پرعمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے، ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یاتو اور زمینوں میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا، تاکہ اس طرح ایک طر ف زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جا سکے، دوسری طر ف یہ کہ قریظہ اور نضیر کی مفتوحہ بستیوں یاجوف مدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلا دیا، تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہم واریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرہ تخلیق کیا جاسکے، اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کام یابی حاصل کی۔ (نسائی، کتاب الصلاة)
 
آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انھیں زریں اصولوں پر جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے آزمایا تھا، عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشار کی شدت کو کم کرنے میں، ایک حد تک کام یابیاں حاصل کی گئی ہیں۔
 
مدینہ کی شہری ریاست
 
موجودہ دو رمیں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح ہوتے ہیں:
1- شہر کی گلیوں اور شاہ راہوں کابندوبست، مارکیٹوں کی تعمیر، رہائشی انتظامات۔
2- پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم۔
3- گندے پانی کی نکاسی، کوڑے کرکٹ کے پھینکوانے کا بندوبست۔
4- تعلیم، علاج، دیگر فلاحی اداروں، کھیل کے میدانوں کا قیام۔
5- چمن بندی اور شہر کی خوب صورتی اور تفریح گاہوں کا انتظام۔
6- ان کاموں کے لیے مالی وسائل اور کاموں کا احتساب۔
 
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اصول ملتے ہیں، جہاں تک محکمہٴ احتساب کا تعلق ہے، فارابی، ماوردی اور طوسی اسی کی موافقت میں ہیں، ماوردی نے محکمہٴ احتساب کی خصوصیات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ محکمہٴ انصاف او رمحکمہٴ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے، محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور برے کاموں کو روکے۔
 
قرآنی اصطلاح معروف کی تین قسمیں ہیں:
1- حقوق اللہ، 2-حقوق العباد، 3- وہ اعمال وہ افعال جن کا تعلق دونوں سے ہو۔
 
مدینة النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود انجام دیتے تھے۔ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے بازاروں میں نکلتے تو جگہ جگہ رک کر، ناپ تول کر، پیمانہ دیکھتے، چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے، عیب دار مال کی چھان بین کرتے، گراں فروشی سے روکتے، استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے، اس ضمن میں سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عبیدہ بن رفاعہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ،حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کی تعین کرتی ہیں۔
 
بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں، پلوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہ راہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتاہے۔بعض لوگ ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیر لیتے ہیں، بعض مستقل طورپر دیواریں کھڑ ی کر لیتے ہیں، فقہِ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں، صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی، اس سے کم گلی بھی نہیں ہوسکتی۔“ (صحیح مسلم)
 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے، سڑکوں پر سایہ دا ر درخت لگانے کا حکم ہے۔ ابوا للیث سمر قندی رحمة اللہ علیہ اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ ”کسی سمجھ دار آدمی کے لیے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ راستہ پر تھوکے یا ناک صاف کرے یا کوئی ایسا کام کرے، جس سے سڑک پر پیدل چلنے والے کے پا وٴں خراب ہو جائیں، اسلام کا قانون حق آسائش اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑک پر کوئی عمارت بنائی جائے“۔
 
موجود ہ دور میں ایک اہم مسئلہ ٹریفک کاہے، اس کے بار ے میں تعلیماتِ نبوی سے احکام ملتے ہیں، سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں تک کے لیے راستہ کی آزادی برقرار رکھی ہے، مدینہ کی شہری مملکت میں پینے کے پانی کا انتظام یہودیوں سے کنوئیں خرید کر کیا گیا، قبل از اسلام مدینہ کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا، بیت الخلا کااس زمانہ میں رواج نہ تھا، لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا۔
 
شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسائی کا سرکاری طور پر انتظام کیا گیا، مدینہ میں پینے کے لیے میٹھے پانی کے کنوئیں اور چشمے بمشکل دست یاب ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جوخود بھی مدینہ کی نو آبادی میں رہتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اہلِ مدینہ کے لیے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بئررومہ خرید کر وقف کردیا۔ (صحیح بخاری، باب فضائل)
 
اسلام جسم وجان کی پاکیزگی او رظاہر وباطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتاہے، وضو، طہارت، غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آپ e نے مسجدیں بناکر وہاں طہارت خانہ تعمیر کر نے کی ہدایت جاری کی، اسلام کے عمومی مزاج اور آپ e کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے۔ ہرمسجد کے ساتھ طہارت خانہ تعمیر کیے گئے۔ (ابن ماجہ)
 
ہم سایہ کے حقوق کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات ملتے ہیں، ان پر عمل درآمد سے انسانی معاشرہ کے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں، صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک کی روایت ہے: ”کوئی مسلمان، مسلمان نہیں ہے، جب تک وہ اپنے ہم سائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتاہے۔”
 
اس ایک ارشادِمقدس میں صفائی ستھرائی، صحت، شائستگی، خوش خلقی، صلح جوئی، ہم دردی، ایثار اتنی ساری باتیں آتی ہیں کہ شہری زندگی کے تمام ضوابط کی عمدگی سے پابندی ہوسکتی ہے۔
 
ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سختی سے منع فرما دیا، گلی یا کوچہ کی کم سے کم چوڑائی جھگڑا ہو جانے کی صورت میں سات ہاتھ ”ذراع“ مقرر کی گئی۔ (صحیح مسلم) جوفِ مدینہ کی آبادیوں میں گلیاں عام طور پر تنگ ہوتی تھیں، اس لیے مدینہ میں بھی کوچہ تنگ، مگر سیدھے تھے، باوجود یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکانات مختصر تھے، مگرعام طورپر آپ e نے کشادہ مکانات کوپسند کیا اور فرمایا ”خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہوں“۔ (امام بخاری۔ ادب مفرد)
 
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے، صفائی اورپاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیاہے، گھر، گھر کے باہرکا ہر مقام، اپنے جسم، اپنے کپڑوں کی پاکی کاحکم بار بار آیا ہے، مسجدوں کو پاکیزگی کے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے، سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجد نبوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے اس جگہ کوصاف کرتے تھے، وضو اور غسل کا نظام، غلاظت سے صفائی کے احکام، چوپال، کھلیانوں کی جگہ، دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک صاف رکھنا حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق بھی ہے اور اس میں شائستگی کا اظہار بھی ہے۔
 
حفظانِ صحت ہی کے اصول کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص ہونے پر زور دیاگیا ہے، ملاوٹ کر نے والوں کے لیے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے، پینے کے پانی کوصاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام بھی اسی عنوان کے تحت آتے ہیں، اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں، ان میں وباوٴں کے خلاف حفاظتی تدابیر اور ہر وقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے۔
 
سایہ، چمن بندی، عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے، مثلاً سورہٴ عبس میں ارشاد ربانی ہے کہ”ہم نے زمین سے اناج اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا،یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے لیے بنایا ہے“۔ (سور ہٴ عبس، آیت: 32 – 27)
 
ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سر زمین کہلاتا تھا اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر اور مسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے، مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے، جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا، مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے دروازہ کے بالمقابل حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کا وسیع وشاداب باغ بیرحاء تھا، جہاں حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم اکثر تشریف لے جاتے۔(صحیح بخاری، نسائی، ابن ماجہ)
 
مدینہ میں نکاسیِ آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا، کیوں کہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا، اکثر کہیں سے کوئی پہاڑ ی ندی، نالہ گزر تا تھا تو وہاں باندھ کے ذریعہ عمارات اور تعمیرات کو محفوظ بنادیاگیا تھا۔
 
ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید وفروخت کی سہولت کے لیے علاحدہ منڈی یابازار بنادیا گیا، خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنو قینقاع کے اخراج (3ھ)کے بعد قائم ہوئی ہوگی، کیوں کہ اس سے پیشتر عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اوردوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)
 
مدینے کا بازار مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ زیادہ فاصلہ پر نہ تھا، بازار خاصہ وسیع وعریض تھا اور آخر عہد نبوی میں نہایت بارونق اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا، تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے زبردست کوششیں کی،جن میں سب سے اہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تھا: ”مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج نہیں ہے“۔ (فتوح البلدان، بلاذری)
 
زمانہٴ جاہلیت میں خفارہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چنگی کی وجہ سے تجات میں بڑ ی رکاوٹیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دور رس نتائج کاسبب تھا اور دراصل اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی، بلکہ جزیرة العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں، مدینہ کی طرح آزادانہ درآمدات او ر برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزاد تجارت کی داغ بیل ڈالی اور جدید تحقیقات نے اس بات کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کردیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نہ صر ف اقوام وملل کے لیے، بلکہ پوری نو عِ بشر کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہے، جس کے ذریعہ بین الاقوامی طورپر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کوفائدہ پہنچایاجاسکتاہے، اس طرح اقوام خوش حال بن سکتی ہیں۔
 
تعلیمی اداروں کا قیام
 
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے من جملہ ان باتوں کے تعلیم پر بڑا زور دیاہے، تاریخِ اسلا م میں پہلا نصابِ تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ترتیب دیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بناکر اسلام کی پہلی اقامتی درس گا ہ کی بنیاد ڈالی تھی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود درس دیاکرتے تھے، اپنے دورِ خلافت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد میں مکتب قائم کرکے ان کی نگہداشت واخراجات کا ذمہ دار بھی حکومت کو بنایا،آج دورِ جدید میں شہری حکومت کی ذمہ داریوں میں تعلیم کی اشاعت اور فنون کی تربیت بھی شامل ہے۔
 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ علم انبیاء کا ورثہ ہے، مسلمان کو چاہیے کہ جہاں سے ملے لے لے۔

مقالات و مضامین سے متعلق