علمائے دیوبند کی دینی خدمات

علمائے دیوبند کی دینی خدمات

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب زید مجدہم

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿إِنَّ الدِّینَ عِندَ اللَّہِ الْإِسْلَامُ﴾․(سورة آل عمران،الآیۃ:19)
وقال الله سبحانہ وتعالیٰ:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾․(سورة الحجر،الآیۃ:9)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب فضائل القرآن، باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، رقم:5027)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّ الدِّینَ عِندَ اللَّہِ الْإِسْلَامُ﴾ بے شک دین او رمذہب تو الله تعالیٰ کے ہاں اسلام ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی طریقہ، اس کے علاوہ کوئی مذہب ، اس کے علاوہ کوئی راستہ ،الله کا راستہ نہیں ہے، الله کو پسند نہیں ہے۔ ایسے ہی الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ﴾ اور بے شک ہم ہی نے قرآن کو بتدریج نازل کیا ہے، ﴿وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون﴾ اور بے شک ہم ہی البتہ ضرو ربالضرور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ“․ تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور قرآن کو سکھائے۔
میرے دوستو! جس خطے میں ہم رہتے ہیں یہ برصغیر کہلاتا ہے، اس برصغیر میں اب پاکستان ہے، ہندوستان ہے، بنگلادیش ہے، افغانستان ہے، ایران کا کچھ علاقہ ہے، نیپال ہے۔

چوں کہ ہم یہاں رہتے ہیں اس لیے بنیادی اور مرکزی طور پر گفت گو تو میں یہیں کے حوالے سے کروں گا، لیکن بنیاد اور جڑ اسلام کی، مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ ہے، سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی، آپ صلی الله علیہ وسلم پلے بڑھے اورجوان مکہ مکرمہ میں ہوئے، چالیس برس آپ نے مکہ مکرمہ میں زندگی گزاری ، آپ سب کے محبوب تھے، آپ امین بھی تھے، آپ صادق بھی تھے۔

چالیس برس کی عمر میں آپ کو نبوت اور رسالت کا تاج پہنا یا گیا اور وہ تاج بھی ایسا پہنایا گیا کہ وہ تاج آخری تاج تھا، کسی او رکو وہ تاج نہیں پہنایا جائے گا، یہ تاج ختم نبوت کا تاج ہے کہ اب آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، آپ آخری نبی ہیں اور قیامت تک کے لیے نبی ہیں اوراگرکوئی خدانخواستہ آپ کو آخری نبی نہیں مانتا تو وہ کافر ہے، ملعون ہے، مردود ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم چالیس برس کی عمر سے پہلے سب کے ہاں محبوب تھے، لیکن جیسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے چالیس برس کی عمر میں ختم نبوت، ختم رسالت کا اعلان فرمایا اورآپ نے فرمایا:’’ایھا الناس قولوا: لا إلہ إلا الله تفلحوا“․(السنن الکبری للبیہقی، باب الدلیل علی أن الکعبین ھما الناتئان فی جانبی القدم، رقم الحدیث:361، والمعجم الکبیر للطبراني،ر قم الحدیث:4582)
لا إلہ إلا الله کا مطلب کیا ہے؟ الله کے علاوہ اورکوئی الله نہیں، بیت الله کے اندر کفار نے تو360 بت رکھے ہوئے تھے، وہ تو ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے، ان بتوں کو انہوں نے دیوتا او رخدا بنایا ہوا تھا۔
چناں چہ ایک دم وہ چالیس سالہ محبت ختم ہوگئی او ران کے دلوں سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی وہ صداقت اور امانت بھی ختم ہو گئی، آپ صلی الله علیہ وسلم تو ہمیشہ کے لیے صادق او رامین تھے، ان کے ماننے یانہ ماننے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
لیکن کفار جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو صادق او رامین کہتے تھے، اب انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ساحر، شاعر، کاہن کہنا شروع کیا اورمخالفت شروع کردی، میں یہ کہنا چاہتا ہوں، اس بنیاد کو پیش کرنے کے بعد کہ یہ مخالفین کون تھے؟ مکہ مکرمہ کا اشرافیہ، وہاں کے سردار، وہاں کے طاقت ور لوگ کہ یہ نہیں ہوسکتا اور پھر انہوں نے جو مخالفت کی وہ مخالفت اتنی خوف ناک تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو طرح طرح سے ستایا گیا، مسجد الحرام میں آپ صلی الله علیہ وسلم سجدے میں ہیں، او راونٹ کی اوجھڑی آپ صلی الله علیہ وسلم پر لا کر ڈال دی گئی۔ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الجہاد، باب ما لقی النبی صلی الله علیہ و سلم من أذی المشرکین والمنافقین، رقم:4649)
آپ صلی الله علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے ڈالے گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم پر کچرا ڈالا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو شعب ابی طالب میں تین سال تک قید کیا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا اور شعب ابی طالب میں آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے درختوں کے پتے کھائے، کھجور کی گٹھلیاں چبائیں، فاقے برداشت کیے۔
اور آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ساتھ یہ سب کچھ کرنے والے کون ہیں؟ اشرافیہ! یہ ہمیشہ یاد رکھیں اور بالآخر آپ صلی الله علیہ و سلم کو نعوذبالله قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے اور صحابہ کرام کو جو اس وقت ایمان لائے انہیں مکہ چھوڑنے پر مجبور کیاگیا۔
چناں چہ صحابہ کرام نے حبشہ کی جانب دو ہجرتیں کیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو بھی مکہ چھوڑنا پڑا اور مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور آج تک آپ صلی الله علیہ و سلم وہیں آرام فرما ہیں۔
چناں چہ یہ بنیاد ہے ، اب آپ اس خطے برصغیر میں آجائیے، یہاں بھی اسلام کو عروج حاصل تھا،ا گرچہ یہاں کفر بھی تھا ،شرک بھی تھا، لیکن مسلمان بادشاہوں نے یہاں پر حملے کیے اور اس پر فتح حاصل کی اور یہاں اسلام کا دور دورہ ہوا۔
محمد بن قاسم رحمة الله علیہ ایران کے راستے یہاں تشریف لائے اور یہاں سے اس خطے میں اسلام کی تاریخ شروع ہوئی اور پھر او ربڑے بڑے بادشاہ آئے او رایک طویل دور ہے، جس میں اسلام کا جھنڈا یہاں بلند رہا اور مساجد، مدارس، مکاتب، خانقاہیں، دین اوراہل دین کے چرچے اس خطے کے اندر عظیم الشان انداز میں رہے۔
بالآخر بعض مسلمان حکم رانوں کی غلطیوں کے نتیجے میں، ان کی بدعملی کے نتیجے میں ان کے طرز حکم رانی کے غلط ہونے کے نتیجے میں اسلامی حکومت کم زور سے کم زور تر ہونا شروع ہوئی اور دنیا جہاں کے لٹیرے اس پر حملہ آور ہوئے، اس دور میں ہندوستان کو، سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، امیر ترین ملک تھا، شرح خواندگی 90 فی صد سے زیادہ تھی، لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، لوگ علوم سے واقف تھے، طب یہاں اپنے عروج پر تھی، ہندسہ اور انجینئرنگ یہاں عروج پر تھی اور اہل علم کی پورے ملک کے پر اشراف او رنگرانی تھی، بڑی بڑی عظیم الشان خدمات یہاں انجام دی گئیں۔
چناں چہ ہندوستان میں انگریز آیا اور اس نے یہاں تسلط اور غلبہ حاصل کیا انگریز نے سلطنت مسلمانوں سے غصب کی تھی اور لوٹی تھی، تو مسلمانوں کو اس نے سب سے پہلا نشانہ بنایا، چناں چہ اس کے نتیجے میں علمائے اسلام کوہزاروں کی تعداد میں پھانسی پر لٹکایا گیا، ان کو قیدوبند میں ڈالا گیا اور بڑے حضرات کو مالٹا کی جیل میں، جسے کالا پانی کہا جاتا ہے وہاں کی جیل میں ڈالا گیا اور مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنا دشوار اور دوبھر ہو گیا، اسلام کے جتنے نشانات اور علامتیں تھیں، ان تمام نشانات اور علامتوں کو مٹانے اور کھرچنے کی او رجڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
چناں چہ اس دو رمیں بھی اس ظلم وستم کے خلاف، اس غاصبانہ قبضے کے خلاف جو جدوجہد کی وہ علمائے حق نے کی۔ پھانسیوں پر علماء چڑھے، جیلوں میں علماء ، کالا پانی علماء گئے، مصیبتیں علماء نے اٹھائیں اور کسی نے نہیں اٹھائیں اور وہ تاریخ کا ایک سنہری دور ہے کہ جب وہ جدوجہد، وہ سلسلہ جاری تھا، حضرت سید احمد شہید رحمۃالله علیہ، حضرت شاہ اسماعیل رحمۃ الله علیہ اور ان کے بعد امیر المجاہدین حضرت حاجی امداد الله صاحب مہاجر مکی رحمۃالله علیہ او رپھر ان کے شاگرد حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃالله علیہ، بانی دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ، پھر حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ الله علیہ، پھر حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمۃ الله علیہ، ان کے بعد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ الله علیہ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری رحمۃ الله علیہ، پھر حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ الله علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله کے ساتھی حافظ ضامن شہید رحمۃ الله علیہ۔
ان تمام حضرات، نے عملی جہاد کیا، دست بدست جہاد کیا، دو بدو جہاد کیا، آمنے سامنے جہاد کیا او رجوان کے بس میں تھا، ان سے بن پڑا ،وہ انہو ں نے سب کچھ کیا، لیکن ظاہر ہے کہ بہت تھوڑے تھے اورمقابلہ بہت بڑی عالمی سلطنت سے تھا۔ تو علماء نے اپنے جہاد کی حکمت عملی تبدیل کی، جہاد ختم نہیں ہوا ،بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاد ختم ہو گیا، جہاد ختم نہیں ہوا، جہاد کی حکمت عملی تبدیل کی، آپ جانتے ہیں ، طلباء حدیث میں پڑھ چکے ہیں، الحرب سجال۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الجہاد، باب قول الله عزوجل:﴿قل ھل تربصون بنا إلا احدی الحسنین﴾، رقم:2804)
جنگ ڈول کی مانند ہوتی ہے، ڈول ابھی میرے ہاتھ میں ہے، تھوڑی دیر بعد وہ کسی اور کے ہاتھ میں ہو گا، تھوڑی دیر بعد کسی اورکے ہاتھ میں ہو گا، اسی طرح جنگ کی نوعیتیں بدلتی رہتی ہیں، کبھی پانسہ پلٹ جاتا ہے، کبھی پانسہ الٹ جاتا ہے، جنگ ختم نہیں ہوتی۔
چناں چہ دارالعلوم دیوبند کا قیام اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا، چناں چہ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ آج الحمدلله ثم الحمدالله پوری دنیا… پوری کرہ ارضی کو دیکھیں، مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک ، پورے عالم میں جو شعور، آگاہی، الله تعالیٰ کی طرف رجوع کا مسنون طریقہ، آپ صلی الله علیہ وسلم سے مسنون محبت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع اس خطے ، برصغیر میں موجو دہے، پوری دنیا میں نہیں۔
آ پ پوری دنیا کا جائزہ لیں، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے ایک بیان میں فرمایا کہ: میں نے پوری دنیا کے سفر کیے فرمایا کہ: آپ سب جانتے ہیں کہ میں کوئی تاجر تو ہوں نہیں، نہ میں ڈاکٹر ہوں، نہ میں انجینئر ہوں، یہ سارے سفر دین کے لیے تھے،علم کے لیے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے پوری دنیا میں اسلام کی وہ کیفیات اورنوعیتیں جو ہمارے اس خطے میں ہیں، اس کی جھلک بھی کہیں نظر نہیں آئی، نہ علما میں، نہ مشائخ میں، ایسے علماء کہیں نہیں، ایسے مشائخ کہیں نہیں، ایسے مدارس کہیں نہیں ہیں، ایسی خانقاہیں کہیں نہیں ہیں، ایسی دین کے ساتھ وابستگی، عوام کے اندر جو یہاں ہے، وہ کہیں نہیں ہے۔
یہ خود بخود نہیں ہوا، اس کے پیچھے قربانیاں ہیں، اس کے پیچھے پھانسیاں ہیں، اس کے پیچھے جیلیں ہیں، اس کے پیچھے فقروفاقہ ہے، اس کے پیچھے بہت عظیم الشان خدمات ہیں۔
چناں چہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ الحمدلله اس خطے میں، جس کا میں نے نام لیا کہ ہمارا پاکستان ہے، ہندوستان ہے، بنگلادیش ہے، افغانستان ہے اورایران کا کچھ حصہ ہے، آپ کو آج بھی الحمدلله قدم قدم پر مدرسہ ملے گا، پاکستان کا سروے کیا گیا مرحوم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ،اس سروے کا نتیجہ یہ ہے کہ پورے پاکستان میں پچاسی فی صدمدارس علمائے دیوبند کے ہیں اور بقیہ 15 فی صد مدارس دیگر حضرات کے ہیں۔

وہ سروے یہ بتاتا ہے کہ پورے پاکستان میں، چاہے وہ بڑے بڑے شہر ہوں، بڑے بڑے قصبات ہوں، دیہات ہوں، چھوٹی چھوٹی بستیاں ہو، جنگلات ہوں، صحرا ہوں، پہاڑ ہوں، بہت بڑا علاقہ ایسا ہے جہاں سرکاری سکول موجود نہیں ہے، لیکن مسجد اور مدرسہ موجود ہے اور اس مسجد اور مدرسے کے اندر، چاہے خوف ناک سردی ہو، طوفانی ہوائیں چل رہی ہوں، برف پڑ رہی ہو، ہمارے ملک کے اندر ایسے علاقے موجود ہیں، اس وقت بھی ایسے علاقے ہیں جہاں برف ہے، جہاں برفانی ہوائیں اس وقت چل رہی ہیں، لیکن کبھی بھی فجر کی اذان کا ناغہ نہیں ملے گا، یہ نہیں ہے کہ مؤذن کہے کہ آج تو برف باری ہو رہی ہے لہٰذا اذان نہیں ہوگی، میں تو گھر سے نہیں نکل سکتا، میں تو نہیں جاسکتا، کہیں کسی مسجد میں نماز کا ناغہ آپ کو نہیں ملے گا، مدرسے میں مدرس اور استاد چھوٹے چھوٹے بچوں کو الف، ب، ت، ث پڑھا رہا ہے، نماز سکھا رہا ہے۔
میرے دوستو! یہ الله تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے اور الله تعالیٰ کے عظیم الشان فضل کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس ملک کے رہنے والے عوام، عام مسلمان کا بہت بڑا حصہ ہے اس کے اندر، میں نے شاید آپ کو سنایا تھا کہ پرویز مشرف کے زمانے میں ایک سازش کے تحت عالمی طاغوت، عالمی شیاطین کی سازش کے تحت مدارس کو بند کرنے، انہیں محدود کرنے، انہیں کم زو رکرنے کی مہم چلائی گئی اور وہ مہم سرکاری سطح پر چلائی گئی، پورا سرکاری خزانہ اس میں استعمال کیا گیا اور بیرونی عالمی طاغوت کی مدد اس میں شامل کی گئی۔
چناں چہ ان مدارس کے مقابلے میں ماڈل مدرسہ قائم کیا گیا کہ یہ مدرسے بند کریں گے اورہم ماڈل مدرسہ بنائیں گے، چناں چہ اس زمانے میں مرحوم ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق مذہبی امورکے وفاقی وزیر تھے، وہ کراچی آئے او ر حضرت والدماجد قدس الله تعالیٰ سرہ سے ملاقات کے لیے جامعہ فاروقیہ آئے، جب یہاں اندرآئے تو الحمد لله ثم الحمدلله ہر طرف طلباء کا ہجوم تھا اور میں جامعہ کے صحن میں اعجاز الحق صاحب سے باتیں کر رہا تھا، اعجاز الحق صاحب نے میری طرف متوجہ ہونے کے بجائے چاروں طرف طلباء کے ہجوم کو بار بار دیکھا، او رمجھ سیکہنے لگے کہ مولانا! میں وفاقی وزیر ہوں، اورمذہبی امور کا وزیر ہوں، ماڈل مدرسے میری وزارت کے تحت ہیں اورحکومت پاکستان کا خزانہ میرے پیچھے ہے اور عالمی طاقتوں کے خزانے میرے ساتھ ہیں، لیکن بہت محنت اور کوششوں کے بعد ہم اب تک صرف تین مدرسے قائم کرسکے ہیں اور وہ مدرسے بھی ہم نے تعمیر نہیں کیے ، بلکہ ایک مدرسہ ہم نے کراچی کے حاجی کیمپ میں قائم کیا ہے اور دوسرا سکھر کے حاجی کیمپ میں قائم کیا ہے اور تیسرا راولپنڈی کے حاجی کیمپ میں قائم کیا ہے اور وہاں طلباء نہیں ہیں، یہ سب کیا ہے؟! آپ کے ساتھ نہ حکومت کا خزانہ ہے، نہ عالمی قوتوں کا خزانہ ہے، کچھ بھی نہیں ہے ،یہ سب کیا ہے ؟!
میں نے کہا وزیر صاحب! ناراض تو نہیں ہوں گے؟ کہنے لگے نہیں، میں نے کہا جس دروازے سے، آپ جامعہ میں داخل ہوئے ہیں، اگر ہم آج اس گیٹ کے اوپر حکومت پاکستان لکھ دیں تو کل سے یہ جامعہ فاروقیہ بھی ختم ہو جائے گا۔ کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا اس لیے کہ طلباء بھی او ران مدارس کے ساتھ عاشقانہ والہانہ محبت کرنے والے اس ملک کے عوام بھی یہ کہیں گے کہ اب یہ مدرسہ ، مدرسہ نہیں رہا اور اب یہ بھی سرکاری ہو گیا، ایسا ہے یا نہیں ہے ؟ !
یہ مدارس خالص اور خالص الله کی مدد سے چل رہے ہیں اوریہاں کے عوام جن پر ہمارے اکابر نے محنت کی، اس منبر سے، اس محراب سے، اس مسجد سے جو محنت ہو رہی ہے ،پورے ملک کی مساجد میں علما کام کر رہے ہیں، خدمت انجام دے رہے ہیں، تفصیلات بتار ہے ہیں، دن رات کام کر رہے ہیں او رحکومت سے ایک پیسہ نہ صرف یہ کہ وہ حاصل نہیں کرتے، بلکہ اگر کر لیں تو پھر وہ مدرسے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
میرے دوستو! ان مدرسوں سے جیسے آپ محبت کرتے ہیں اس محبت میں اضافہ کریں، ان کے ساتھ تعاون کریں اور یاد رکھیں کہ تعاون صرف پیسوں سے نہیں ہوتا، محبت کی نظروں سے ان طلباء کو دیکھیں جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مہمان ہیں، یہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر، اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر، اپنے گاؤں ، گھر کو چھوڑ کر صرف قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے حالت سفر میں ہیں، ایک مہینہ دومہینہ نہیں، ایک سال دو سال نہیں، دس دس سال، بارہ بارہ سال یہ قرآن کے علوم حاصل کرتے ہیں، یہ حدیث کے علوم حاصل کرتے ہیں ، یہ الله تعالیٰ کے مہمان ہیں اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے مہمان ہیں، اور یہ علماء ان پر کام کر رہے ہیں دن رات کام کر رہے ہیں، میں اس سے پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس سال جو ہمارا تعلیمی سال گزرا ہے اس گزرے ہوئے تعلیمی سال کے اختتام پر سالانہ امتحان میں، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے علماء نے پوری امت مسلمہ کو او راس خطے کے رہنے والوں کو ایک لاکھ حافظ قرآن فراہم کیے۔
لوگ پوچھتے ہیں مدرسے کیا کر رہے ہیں؟! مدرسہ یہ کر رہا ہے، مدرسے حفاظ تیار کر رہے ہیں، مدرسے قراء تیار کر رہے ہیں ، مدرسے علماء تیار کر رہے ہیں، مدرسے مفتی تیار کر رہے ہیں، خدانخواستہ، پھر خدانخواستہ اگر یہ علماء نہ ہوں تو میرے دوستو! آج ہماری نماز جنازہ کون پڑھائے گا! ہمارے نکاح کون پڑھائے گا، ہمارے بچوں کے کان میں اذان کون دے گا؟ ہمیں نکاح اور طلاق کے مسئلے کون بتائے گا؟ ہمیں حلال اور حرام کے بارے میں کون بتائے گا؟ ہمیں کون الله سے جوڑنے کی محنت کرے گا؟ کون رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے آشنائی اورآگاہی فراہم کرے گا؟!
میرے دوستو! علماء کی، اہل علم کی، ان مدارس کی ان مساجد کی، ان طلباء کی ہم دل وجان سیخدمت کریں ان کے ساتھ مالی تعاون کرنے کی اگر اہلیت نہیں ہے، کوئی بات نہیں، آپ محبت سے دیکھیں، آپ خوش ہوں، آپ دعائیں کریں کہ اے الله! آپ نے ہمیں یہ نعمت عطا فرمائی کہ ایسے ایسے مدارس موجود ہیں، ایسے ایسے علماء موجود ہیں، ہمارے اس پورے علاقے میں صبح شام جو قرآن پڑھا جارہا ہے، صبح شام جو حدیث پڑھی جارہی ہے، دین کے حوالے سے جو محنتیں ہو رہی ہیں، اس کے نتیجے میں کتنی خیر پیدا ہو رہی ہے، کتنی بلائیں دور ہو رہی ہیں، کتنی آفات الله تعالیٰ دور فرمارہے ہیں، ہمارے گھروں او رہماری زندگیوں میں کیسا چین اور سکون آرہا ہے۔
میرے دوستو!یہ طے ہے کہ اس کے نتیجے میں الله تعالیٰ خیر وبرکت نازل فرماتے ہیں۔
ہم اس کی کوشش کریں کہ کم ازکم ہمارا بچہ یا بچی قرآن کریم درست اور صحیح قراء ت کے ساتھ تصحیح الفاظ اور تصحیح مخارج کے ساتھ اپنے بچپن میں،اس ادارے میں پڑھے، الحمدلله یہاں ساڑھے سات سو کے قریب بچے اور بچیاں محلے اور جامعہ کے ارد گرد رہنے والوں کی پڑھنے کے لیے آتے ہیں، اپنے بچوں کو مزید بھیجیں، زیادہ سے زیادہ بھیجیں، حافظ قرآن بنائیں، عالم بنائیں۔
میرے دوستو! اس بہت بڑے چشمے سے، جو بہہ رہا ہے، جس کے فیوض وبرکات پورے عالم میں جارہے ہیں، ہم یہاں کے رہنے والے بھی اس سے استفادہ کریں، الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔