علماء اور وقت کی قدر دانی

علماء اور وقت کی قدر دانی

مولانا خالد سیف الله رحمانی

وقت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خود الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کتنے ہی مقامات پر وقت کی قسم کھائی ہے ، کبھی رات اور صبح کی قسم کھائی گئی ( سورہٴ لیل، مدثر، تکویر) کبھی رات کے ساتھ شفق کی قسم کھائی گئی (انشقاق) ، کبھی فجراور اس کے ساتھ دس راتوں کی (الفجر) ، کبھی دن کی روشنی اور رات کے چھاجانے کی (الضحٰی)اور کبھی خود زمانہ کی (العصر)۔ دنوں کی آمد و رفت اور سورج و چاند کے طلوع و غروب سے اوقات کا علم ہوتا ہے ، قرآن مجید نے جابجا الله کی نعمت کی حیثیت سے ان کا ذکر فرمایا ہے ۔

الله تعالیٰ قیامت میں انسان سے اس کی عمر کے بارے میں بھی سوال فرمائیں گے کہ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی ، جس میں نصیحت حاصل کرنے والے لوگ نصیحت حاصل کرسکیں ؟ ﴿اولم نعمر کم مایتذکر فیہ من تذکر﴾ (الفاطر ) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن آدمی سے سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں گذاری اور اپنی جوانی کو کس مقصد میں صرف کیا ؟ حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکہ میں مبتلا ہیں : صحت اور فراغت ِوقت ۔

وقت کی قدردانی اور اس کا صحیح استعمال یوں تو ہر شخص کا فریضہ ہے؛ لیکن علماء کو اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، افسوس کہ موجودہ دور میں نوجوان فضلاء اپنا ڈھیر سارا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر اور نامنصفانہ وغیر مفید تنقید وتبصرہ میں گزار دیتے ہیں، نوجوانوں میں چوں کہ قوت عمل زیادہ ہوتی ہے، امنگ ہوتی ہے، کام کا جذبہ ہوتا ہے، اگر وہ سلامت طبع کے ساتھ اپنے اوقات کا صحیح استعمال کریں تو امت کے لیے متاع گراں مایہ ثابت ہو سکتے ہیں، پھر تو اُن کو شکایت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ ان کو کوئی مقام نہیں دیا جاتا، امت خود ان کو اپنے سروں کا تاج بنائے گی۔

سلف ِصالحین جنھوں نے اعلیٰ درجہ اور بلند قیمت علمی کام کیے ہیں ، اپنے وقت کے ایک ایک لمحہ کو وصول کرتے تھے اور ایک منٹ کا ضائع ہونا بھی ان کو گوارا نہیں تھا ، وہ آخر دم تک اپنے وقت کو مشغول رکھتے تھے ، امام ابویوسف اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی القضاة ہیں ، ان کے بارے میں اہل تذکرہ نے قاضی جراح سے نقل کیا ہے کہ وہ مرضِ وفات میں امام صاحب کی عیادت کے لیے پہنچے ، آپ پر بے ہوشی طاری تھی ، ابراہیم بیٹھے رہے ، کچھ دیر میں ہوش آیا ، امام صاحب نے پوچھا کہ حج میں جمرات کی رمی پیدل کرنا افضل ہے یا سواری پر ؟ ابراہیم نے استاذ سے عرض کیا : اس حال میں بھی آپ فکر و تحقیق کو نہیں چھوڑتے ، امام ابویوسف نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ، ابراہیم نے کہا: سوار ہوکر رمی کرنا افضل ہے ، امام ابویوسف نے کہا :یہ غلط ہے ، ابراہیم نے کہا:پھر پیدل رمی کرنا افضل ہوگا ، فرمایا :یہ بھی غلط ، ابراہیم نے عرض کیا :جو رائے صحیح ہو اسے آپ ہی ارشاد فرمائیں ، فرمایا: جس رمی کے بعد کوئی اور رمی ہو ، اس کو پیدل کرنا افضل ہے اور جس کے بعد اور کوئی رمی نہ ہو اسے سوار ہوکر ، ابراہیم وہاں سے اٹھے اور امام صاحب کے گھر کے دروازے ہی پر پہنچے تھے کہ اہل خانہ کے رونے کی آواز آئی ، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ امام ابویوسف کا انتقال ہوگیا ہے ، یہی امام ابویوسف ہیں جن کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے سترہ سال تک اپنے استاذ امام ابوحنیفہ کی مجلس میں اس طرح شرکت کی کہ کبھی فجر کی نماز فوت نہیں ہوئی ، یہاں تک کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن بھی ، بلکہ صاحب زادے کا انتقال ہوگیا تو تجہیز و تکفین کا انتظام اپنے اعزہ اور پڑوسیوں کے حوالہ کرکے درس میں شریک رہے اور درس سے محرومی کو گوارہ ا نہیں کیا ۔ (مناقب مکی )

ایک بڑے محدث عبید بن یعیش گذرے ہیں ،جو امام بخاری اور امام مسلم کے اساتذہ میں ہیں ، ان سے حافظ ذہبینے نقل کیا ہے کہ تیس سال تک رات میں اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھایا ؛ بلکہ خود حدیث لکھنے میں مصروف رہتے اور بہن منھ میں لقمہ دیتی جاتیں ۔ (سیر اعلام النبلاء) احمد بن یحییٰ شیبانی عربی لغت ، ادب ، گرامر اور قراء ت وغیرہ کے بڑے نامی گرامی عالم تھے اور ثعلب کے نام سے مشہور تھے ، ان کا حال یہ تھا کہ اگر دعوت دی جاتی تو داعی سے فرماتے :کھانے کے وقت ان کے لیے چمڑے کے تکیہ کی مقدار جگہ خالی رکھی جائے ، جس میں وہ کتاب رکھ کر مطالعہ کریں ، (الحث علی طلب العلم للعسکری ) امام ثعلب کا معمول تھا کہ راستہ چلتے بھی ہاتھ میں کتاب رہتی اور مطالعہ کرتے جاتے ؛ چناں چہ اسی طرح چل رہے تھے کہ گھوڑے نے ٹکر دی ، گڑھے میں گر پڑے اور ایسی چوٹ آئی کہ دوسرے ہی دن وفات ہوگئی۔ (وفیات الاعیان لابن خلکان )

اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اہل علم نے اتنا عظیم تصنیفی اور تالیفی کام انجام دیا ہے کہ سن کر اور پڑھ کر حیرت ہوتی ہے اور آج ان کتابوں کو ایک شخص کا پڑھ لینا بھی دشوار ہے ، امام ابن جریر طبری بہت ہی بلند پایہ مفسر ، محدث اورفقیہ ہیں ، انھوں نے اپنی عظیم الشان تفسیر3 ہزار اوراق میں 283تا 290ھ یعنی صرف سات سال کے عرصہ میں مکمل کی ، پھر ایک تفصیلی تاریخ لکھنی شروع کی ، جس سے 303ھ میں فارغ ہوئے ، یہ دونوں کتابیں تین تین ہزار گویا چھ ہزار اوراق پر مشتمل ہیں ، طبری کی یہ تفسیر11 ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے ، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ طبری کی تصنیفات کا حساب لگایا جائے تو یومیہ14 ورق یعنی 28صفحات کا اوسط ہوتا ہے ۔حافظ ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں لکھا ہے کہ انھوں نے جو روشنائی خریدی ، اس کا حساب کیا گیا تو وہ سات سو درہم کی تھی۔

وقت کی حفاظت کرنے والے بزرگوں میں علامہ ابن عقیل بھی ہیں ، جو بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کی سب سے اہم کتاب الفنون ہے ، جس کے بارے میں بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس کی سو جلدیں تھیں ، اس کا کچھ حصہ ڈاکٹر جارج مقدسی مستشرق نے دو جلدوں میں1970-71ء میں شائع کیا ہے ، امام ابن جوزی تاریخ اسلام کے بڑے مصنفین میں ہیں ، وہ ان لوگوں کو بہت ناپسند کرتے تھے جو چاہتے کہ ان کے پاس ملاقاتیوں اور ہم نشینوں کی بھیڑ لگی رہے ، خود بھی بے مقصد آنے والوں سے بہت نالاں رہتے اور مجبوراً جن لوگوں سے ملاقات کرنی ہوتی ، ان سے ملاقات کے اوقات کو اس طرح استعمال فرماتے کہ اس وقت حسب ِضرورت کاغذ کاٹتے جاتے ، قلم تراش لیتے اور لکھے ہوئے اوراق باندھ لیتے، اس کا نتیجہ تھا کہ بقولِ حافظ ابن رجب شاید ہی کوئی فن ہو، جس میں ابن جوزی کی کوئی کتاب نہ ہو ، ابن جوزی کی تصنیفات پانچ سو سے اوپر ہیں اور اُن میں سے بعض بیس جلدوں اور بعض دس جلدوں پر مشتمل ہیں ، ابن جوزی کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے جن قلموں سے حدیثیں تحریر کی تھیں ، ان کے ڈھیر سارے تراشے جمع ہوگئے تھے ، انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرے غسل کا پانی اسی سے گرم کیا جائے ؛ چناں چہ پانی گرم کرنے کے بعد بھی قلم کے تراشے بچے رہے ۔مشہور مفسر اور صاحب ِنظر امام رازی کھانے کے وقت پر بھی افسوس کا اظہار کرتے کہ اس وقت علمی مشغلہ فوت ہوجاتا ہے ، مشہور محدث علامہ منذری کے صاحب زادے رشید الدین کا انتقال ہوگیا ، جو اُن کو بہت محبوب تھے تو اپنے جواں مرد بیٹے کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی ، مدرسہ کے دروازہ تک جنازہ کے ساتھ خود چلے اور وہاں سے الله کے حوالے کرکے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے ۔

ابن النفیس میڈیکل سائنس کی یادگار شخصیتوں میں ہیں ، جسم میں دورانِ خون کا نظام سب سے پہلے انھوں نے ہی دریافت کیا ، طب میں آپ کی کتاب الشامل تقریباً 30 جلدوں میں ہے ، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کا حال یہ تھا کہ سفر و حضر اور صحت و بیماری کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیتے ، ان کے شاگرد ابن قیم نے ان کی تصنیفات کی تعداد پر جو رسالہ لکھا ہے وہ خود22 صفحات کا ہے ، اخیر دور کے اہل علم میں علامہ شوکانی کا حال یہ تھا کہ روزانہ دس اسباق پڑھاتے ، فتاویٰ بھی لکھتے ، فریضہ قضا بھی انجام دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ114 اہم تصنیفات آپ کی یادگار ہیں ، علامہ شہاب الدین آلوسی کا حال یہ تھا کہ روزانہ چوبیس اسباق پڑھاتے ، افتاء کا کام بھی کرتے اور اس کے ساتھ انھوں نے روح المعانی کے نام سے ایسی عظیم الشان اور مبسوط تفسیر لکھی ہے، جس کی پورے عالم نے داد دی ہے ۔

ہندوستان کے علماء میں مولانا عبدالحئی فرنگی محلی نے صرف 39سال کی عمر پائی؛ لیکن ان کی تصانیف کی تعداد تقریباً 110ہے اور ہر کتاب گویا اپنے موضوع پر حرفِ آخر ہے، مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ہزار کے قریب ہے، مولانا عبدالحئی حسنی نے الثقافة الاسلامیة فی الھند، مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی نے علماء سلف اور مشہور محقق شیخ عبدالفتاح ابو غدہ نے اپنی نہایت اہم اور فاضلانہ تصنیف قیمة الزمن عند العلماء میں سلفِ صالحین کے ایسے کتنے ہی واقعات نقل ہیں، یہ ہمارے لیے مایہ عبرت اور مشعل راہ ہیں۔