رزق میں بے برکتی کے اسباب!

رزق میں بے برکتی کے اسباب!

محترم سجاد سعدی

مال کی بے جا محبت ، جمع کرنے کی ہوس ،اس پر اترانا تو بے شک بہت بڑی برائی ہے اور اسلامی زندگی میں اس کا کوئی جواز نہیں، لیکن اچھے کاموں میں خرچ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ حلال مال کمانا ایک پسندیدہ کام ہے، تاکہ معاشرے میں غربت اور بے روز گاری کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔ آج ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے مشکل ترین دنیوی ذرائع استعمال کرنے کے لیے تو تیار ہیں، مگر الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ روزی میں برکت کے آسان ذرائع کی طرف توجہ نہیں کرتے، جو نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔ گھمبیر معاشی ومعاشرتی مسائل نے لوگوں کو بے حال کردیا ہے۔ شاید کوئی گھر ایسا ہو کہ جہاں حالات کا رونا نہ رویا جاتا ہو اور بے روز گاری وتنگ دستی تو گویا ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ رزق میں برکت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے رزق میں بے برکتی کے اسباب تلاش کیے جائیں ،تا کہ رزق میں بے برکتی کے اصل حقائق تک رسائی ہو۔ رزق کی بے قدری اور بے حرمتی سے کون سا گھر خالی ہے، بنگلے میں رہنے والے ارب پتی سے لے کرجھونپڑی میں رہنے والے مزدور ومحنت کش تک سب اس حوالے سے غفلت اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ شادی ودیگر تقریبات میں قسم قسم کے کھانے ہوں یا گھروں میں برتن دھوتے وقت بچا کچھا کھانا… یہ جس طرح ضائع کیا جاتا ہے اس سے کون نا واقف نہیں؟

کاش رزق میں تنگ دستی کے اس عظیم سبب پر ہماری نظر ہوتی اور اصلاح کی کوشش کی جاتی تو بہت اچھا ہوتا، کیوں کہ یہ بیماری عام ہے ،جس میں ہماری اکثریت مبتلا ہے۔ آج کل کئی دکان دار کاروبار میں بندش ختم کرانے کے لیے تعویذ ، عملیات اور دعا کے ذرائع تو اپناتے ہیں، مگر روزی میں برکت کے زائل ہونے کے ایک بڑے سبب خریدوفروخت میں بے احتیاطی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ تجارت میں قسم کی کثرت سے پرہیز کرو، کیوں کہ اس سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے، لیکن مال میں برکت نہیں رہتی۔ جس طرح روزی میں برکت کے ذرائع موجود ہیں ،اسی طرح اس میں تنگی کے اسباب بھی پائے جاتے ہیں، اگر ان سے بچا جائے تو روزی میں برکت ہی برکت ہوگی۔ انشاء اللہ

تنگ دستی اور بے برکتی کے اسباب!
نمازمیں سستی کرنا، گناہ کرنا، خصوصاً جھوٹ بولنا ، نیک اعمال میں ٹال مٹول کرنا ، بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا، ماں باپ کے لیے دعائے خیر نہ کرنا، اندھیرے میں کھانا کھانا، دروازے میں بیٹھ کر کھانا، بغیر دسترخوان بچھائے کھانا، دانتوں سے روٹی کترنا، چینی یا مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن استعمال میں رکھنا ، کھانے کے بعد جس برتن میں کھانا کھایا اسی میں ہاتھ دھونا، کھانے پینے کے برتن کھلے چھوڑ دینا، دسترخوان پر گرے ہوئے کھانے وغیرہ کے ذرے اٹھانے میں سستی کرنا، گھر میں مکڑی کے جالے لگے رہنے دینا، چراغ کو پھونک مار کر بجانا، ٹوٹی ہوئی کنگھی استعمال کرنا وغیرہ۔ روزی میں برکت کے طالب کو چاہیے کہ وہ بے برکتی کے اسباب پر نظر رکھتے ہوئے ان سے نجات کی ہر ممکن کوشش کرے اور یہ بھی واضح ہو کہ کثرت گناہ کی وجہ سے رزق میں برکت ختم ہوجاتی ہے ، اس لیے گناہوں سے بچنے کی ہر صورت کوشش کریں، کیوں کہ کثرت گناہ آفات کے نزول کا سبب بھی ہے۔ مشائخ فرماتے ہیں کہ دو چیزیں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں، مفلسی اور چاشت کی نماز، یعنی جو کوئی چاشت کی نماز کا پابند ہوگا وہ کبھی مفلس نہ ہوگا۔ غربت، بیروزگاری،اور تمام مشکلات کا خاتمہ اس وقت ہوگا جب خوش حالی کے ذرائع کو اپنا یا جائے گا۔

خوش حالی لانے والی سات چیزیں!
قرآن پاک کی تلاوت کرنا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا، غریبوں اور مجبوروں کی مدد کرنا ، گناہوں پر نادم ہو کر معافی مانگنا، ماں باپ اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرنا، صبح کے وقت سورہٴ یسین اور رات کے وقت سورہٴ واقعہ پڑھنا۔ اگر آج ہم صدق دل سے بے برکتی والی چیزوں سے اجتناب کرنے اور برکت والی چیزوں کو اپنا نے کا تہیہ کر لیں تو ہمارے گھر سے بے برکتی کا خاتمہ اور برکت کا نزول ہوگا، ورنہ خسارہ ہی خسارہ رہے گا۔

باہمی تعلقات میں خرابی کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، مثلاً: اولاد، رشتہ داروں، ازواج، دوست اور قریبی ساتھیوں کے متعلق اندازے اخذ کر لیتے ہیں کہ ہم سے وہ بہت اچھا رویہ اپنائیں گے یا فلاں موقع پر کچھ دیں گے یا کچھ کہہ دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ تو جب وہ ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتے تو ہم مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں، شک وشبہات پیدا ہوتے ہیں ، ذہن میں طرح طرح کی کھچڑی پکتی ہے”ایسا اس لیے ہوتا ہے یا یہ وجہ ہوگی وغیرہ وغیرہ“ پھر اس مایوسی سے اجنبیت اور دوری ہونے لگتی ہے اور ہم لوگوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں، حالاں کہ اس کا زیادہ سبب ہم خود ہیں۔ خوش حالی کے دور میں ہمارے ملنے جلنے والے لوگ بڑھ جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ سب ہم سے مخلص ہوں، بعض نام نہاد دوست صرف دولت کے ساتھ ہوتے ہیں، جن میں خلوص ہوتا ہے نہ درد مندی، دراصل جنہیں ہم سے محبت کرنا ہوتی ہے وہ ہمارے دنیاوی لوازمات ( گھر، لباس ، گاڑی، بنگلہ ، زیور، بینک بیلنس ) کے بغیر بھی محبت کرتے ہیں۔ اگر انسان کی تمام کوششیں صرف اپنی ذات کی خوشی حاصل کرنے کے لیے، اپنے آرام، اپنے کھانے پینے اور تفریح کے لیے ہوں تو کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ انسان بڑے پیمانے پر لوگوں سے تعلقات رکھتا ہے اور ہر طرح سے دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور عملی طور پر زندگی گزارنا بے حد دشوار ہوجاتا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہم پر بھروسا کریں تو خود اپنے اہل خانہ، رشتہ داروں کے ساتھ قابل اعتماد ہوجائیں، ایسا رویہ اپنائیں کہ وہ بلا تکلف اپنے حالات ہم سے کہہ سکیں ، دوسروں کو اپنے سخت رویے اور حاکمانہ ذہنیت سے مرعوب کرنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں یا کرنے والے ہیں وہ سب لوگ بے چوں چراں مان لیں گے اور ہماری بات سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ اپنے رویہ سے ، اپنی گفتگو سے بے زاری اور عداوت کو ختم کریں، اگر اتفاق سے کسی کو تکلیف پہنچ جائے تو فوراً معذرت کر لیں۔ لوگوں کے مسائل کو درد مندی اور خیر خواہی سے سنیں، اچھے کاموں کی خوش دلی سے داد دیں ،تاکہ دوسروں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین!