دین وعلم کا رشتہ

دین وعلم کا رشتہ

مولانا ابوالحسن علی ندوی

ایک مقدس دائمی رشتہ!
سیدنا محمد صلی الله علیہ وسلم کے ابدی احسانات اور آپ کی بعثت ودعوت کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ نے دین وعلم کے درمیان ایک مقدس دائمی رشتہ پیدا کر دیا اور ایک دوسرے کے مستقبل او رانجام کو ایک دوسرے سے وابستہ کر دیا اور علم کی ایسی عزت افزائی کی اور اس کا ایسا شوق دلادیا جس پر کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکتا، جس کے طبعی نتیجہ میں اسلامی تاریخ میں ایسی علمی وتصنیفی تحریک پیدا ہوئی کہ دین اور آسمانی پیغام کے تحت قائم ہونے والی تہذیبوں اور دوسرے زمانوں میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں خالق کائنات نے نوع بشری کو علم عطا کرنے کے احسان کا ذکر کیا ہے او راس میں قلم کو اس کا عظیم وسیلہ قرار دیا، جس سے علم کا تاریخی سفر وابستہ ہے اور جس سے تصنیف وتعلیم کی عالم گیر تحریک جاری ہوئی اورعلم ایک فرد سے دوسرے فرد، ایک قوم سے دوسری قوم، ایک زمانہ سے دوسرے زمانہ او رایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتا رہا۔ دنیا میں علم کی اشاعت اور انسانی ضرورت کے مطابق اس کی عمومیت کا فخر اسی کو حاصل ہے اور ا س کی گردش وجنبش سے مدارس وجامعات اور علمی اداروں اور کتب خانوں کی دنیا آباد ہے۔

جہاں تک بشری قرائن وقیاسات کا تعلق ہے اس بات کا کوئی تاریخی وعقلی قرینہ نہ تھا کہ پہلی وحی کے ذیل میں( قلم) کا ذکر بھی آسکتا ہے! کیوں کہ یہ وحی ایک امّی انسان پر، ایک اَن پڑھ قوم کے درمیان او رایک پسماندہ علاقہ میں ہو رہی تھی، جہاں وہ پارہٴ چوب جس کا نام ( قلم) ہے، سب سے زیادہ نادر ونایاب شے کی حیثیت رکھتا تھا، اسی لیے عربوں کا لقب ہی ( اُمیین) پڑ گیا تھا۔

ایک غیر متوقع آغاز!
غار حرا میں نبی امّی صلی الله علیہ وسلم پر یہ پہلی وحی اترتی ہے (جب چھ سو سال کے طویل وقفہ کے بعد زمین کا آسمان سے، بلکہ آسمان کا زمین سے وحی ونبوت کے ذریعہ رابطہ قائم ہوا تھا) تو اس میں عبادت کا حکم اور الله کی معرفت اور اطاعت وغیرہ کوئی ایجابی یابتوں کے ترک کرنے یا جاہلیت اور اس کے عادات واطوار پر نکیر جیسی کوئی سلبی بات نہیں کہی گئی، اگرچہ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر اہم تھیں اور اپنے اپنے موقع پر اس کی وضاحت وتبلیغ کی گئی، بلکہ کلمہ(اقرأ) سے اس وحی کا آغاز ہوا۔

اس طرح یہ تاریخی واقعہ ظہور پذیر ہوا، جس نے مؤرخین ومفکرین کے غور وفکر کے لیے نئے اور وسیع آفاق مہیا کیے اور یہ اس حقیقت کا بلیغ اور واضح اشارہ تھا کہ اس نبی اُمّی صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت اور مذاہب کی تاریخی میں ایک نیا دور شروع ہو گا، جو وسیع وعمیق معنوں میں قراء ت (خواندگی) اور پڑھنے لکھنے کا وسیع وترقی یافتہ دور اور علم کی حکم رانی کا عہد زرّیں ہو گا اور علم ودین دونوں مل کر نئی انسانیت کی تشکیل وتکمیل کریں گے۔

مگر اس (علم وتعلم) کا آغاز اس نبوت کی آغوش میں اور اس مالک کے نام سے ہو گا (جس نے اس کائنات اور انسان کو پیدا کیا ہے ) تاکہ وہ الله کے یقین اور اس کی صحیح معرفت کے رنگ میں رنگ ہوا اور اس کی روشنی ونگرانی میں اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ اس لیے فرمایا:﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ﴾آپ پڑھیے اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ، جس نے (سب کو) پیدا کیا ہے۔

اس کے ساتھ انسان اپنی حقیقت اور خلقت کو بھی جانتا ہو،تا کہ اپنی ہستی کو نہ بھولے اور حد سے نہ بڑھے اور علم وعقل، صنعت وحرفت اور تسخیر کائنات کے سلسلے میں اپنی فتوحات سے دھوکہ نہ کھائے، اس لیے فرمایا:﴿خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ﴾ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔

پھر قلم کی عزت افزائی کی او راس کی قدر وقیمت بڑھائی اور علم وقراء ت او رتعلیم وتربیت کے میدان میں اس کے کارنامے کا ذکر کیا، جس کا مکہ او رجزیرة العرب میں جاننا آسان نہ تھا، جہاں وہ صرف چند آدمیوں ہی کے پاس تھا ،اس لیے جزیرة العرب میں پڑھے لکھے شخص کو ”الکاتب“ کہا جاتا تھا، اسی سیاق میں فرمایا گیا:﴿الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَم﴾ جس نے قلم کے ذریعہ سے تعلیم دی۔

پھر انسان کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ دینی وکائناتی حقائق، علوم وصنائع، انکشافات وایجادات کی جدید ترین معلومات حاصل کرسکتا ہے او راپنے علم کی حدود بڑھا سکتا ہے، مگر ان سب کا ماخذ ومصدر تعلیم الہٰی اور انسان کی ایسی تخلیق ہے کہ وہ مجہول کو معلوم اور مفقود کو موجود کرسکے۔ اس لیے فرمایا گیا: ﴿عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دے دی جنہیں وہ نہیں جانتا تھا۔

دین کے مزاج کا تعین!
یہ محمد صلی الله علیہ وسلم پر نازل شدہ اصلی وحی اور سلسلہ وحی کا نقطہ آغاز تھا، جس کا بعد کے تمام مرحلوں او راس مزاج کی تعیین میں خاص دخل ہوتا ہے اور علم وفن، دعوت وتحریک یا مکتب فکر پر حاوی ہوتا ہے، چناں چہ اس دین اسلام اور علم وحکمت کی دائمی رفاقت وہم سفری رہی ہے اور یہ دین ہمیشہ تحصیل علم کے انسانی جذبہ او ران نئی مشکلات کے ( جو نسل وعقل انسانی اورایک صالح تمدن کو درپیش ہوتی ہیں) حل کرنے کی صلاحیت وقدرت کا ساتھ دیتا رہا ہے، وہ علم سے کبھی بیزار اور عقل کے عمل دخل سے کبھی خائف نہیں ہوا۔

علم وآگہی سے خائف مذاہب!
کچھ مذاہب ایسے بھی ہیں جوعلم کی موت میں اپنی زندگی اور اس کی شکست میں اپنی فتح محسوس کرتے ہیں، ان کی مثال اس حکایت سے سمجھ میں آتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایک بار مچھروں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے تیز ہوا کی شکایت کی کہ ہوا ہم پر بہت ظلم ڈھاتی ہے اور ہم اس کے ہوتے موجود نہیں رہ پاتے اور اس کے چلتے ہی ہم کو بھاگنا پڑھتا ہے، اس پر سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ مدعی علیہ کو حاضر ہونا چاہیے، چناں چہ ہوا کو بلایا گیا، مگر اس کے آتے ہی مچھر غائب ہو گئے، اس پر فرمایا ہم مدعی کی غیر موجودگی میں کیسے فیصلہ کریں ؟ یہی حال بہت سے مذاہب کا ہے، ہندوستان کے بعض قدیم مذاہب اور ان کے متعدد پیشواؤں کے طرز عمل بھی اس کی متعدد شہادتیں فراہم کرتے ہیں۔

یورپ میں عیسائی کلیسا اور علم کی نزاع وکش مکش کا قصہ تو بہت مشہور ہے او رامریکی مصنف ڈریپر کی کتاب (Conflict Bewtween Religion & Science) تاریخی دستاویزوں پر مشتمل بڑی معلومات افزا کتاب ہے، یورپ کے قرون وسطیٰ میں قائم ہونے والے تفتیشی محکموں اور تحقیقی عدالتوں (Courts of Inquisition) او رکلیسا کے کشتگان ِ ستم کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے، ان لرزہ خیز سزاؤں سے، جو ان عدالتوں نے تجویز کیں، آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

مسیحی اعتقادات کی جانچ کی یہ مذہبی عدالتیں(Couts of Inquisition) جو رومن کیتھولک کلیسا کی جانب سے عہد ِ وسطیٰ میں اٹلی، اسپین، جرمنی او رفرانس میں قائم کی گئی تھیں، الحاد کے الزام میں گرفتار افراد کو سفاکانہ سزائیں دینے کے لیے مشہور تھیں ، اسپین میں عربوں کے زوال کے ساتھ 1490ء میں ان عدالتوں کا نظم ونسق حکومت نے سنبھال لیا تھا، سترہویں صدی سے ان کا زوال شروع ہوا، نیپولین نے 1808ء میں انہیں فتح کرنے کی کوشش کی، لیکن 1820 میں یہ پھر قائم ہو گئیں اور 1835ء تک کسی نہ کسی شکل میں چلتی رہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ کل کتنے لوگ ان عدالتوں کی بھینٹ چڑھے، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔

قرآن نے نازل ہو کر علم کو ایساعزّ ووقار بخشا او رعلماء کی ایسی قدر ومنزلت بڑھائی جس کی سابقہ صحیفوں اور قدیم مذہبوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی اور اس نے علم وعلماء کی ایسی تعریف کی جس کے ذریعہ اس نے انہیں انبیاء علیہم السلام کے درجہ کے نیچے او رتمام بشری درجات وطبقات کے اوپر پہنچا دیا، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ﴾(آل عمران:18)

الله کی گواہی ہے کہ کوئی معبود نہیں ہے بجز اس کے اور فرشتوں اوراہل علم کی (بھی گواہی یہ ہے) اور وہ عدل سے انتظام رکھنے والا معبود ہے، کوئی معبود نہیں بجز اس زبردست حکمت والے کے۔

﴿وَقُل رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا﴾․(طہ:114)
آپ کہیے کہ اے میرے پروردگار! بڑھا دے میرے علم کو۔

﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ﴾․ (الزمر:9)
آپ کہیے کہ کیا علم والے اور بے علم کہیں برابر بھی ہوتے ہیں۔

﴿یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ﴾․(المجادلة:11)
الله تم میں ایمان والوں کے او ران کے جنہیں علم عطا ہوا ہے درجے بلند کرے گا۔

﴿إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء ُ ﴾․(فاطر:28)
الله سے ڈرتے تو بس وہی بندے ہیں جو علم والے ہیں۔

حدیث نبوی میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے یہ چند اقوال کافی ہیں:” فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم․“(ترمذی)

عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ انسان پر ہے۔

” ان العلماء ورثة الانبیاء، وان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً، وانما ورثوا ھذا العلم، فمن اخذہ اخذ بحظّ وافر․“(ابوداؤد وترمذی)

علماء انبیاء کے وارث ہیں او رانبیائے کرام علیہم السلام نے دینار ودرہم نہیں، بلکہ یہ علم ہی میراث میں چھوڑا ہے، تو جس نے اسے حاصل کیا اس نے بڑا حصہ پایا۔

علم کی اس قدرحوصلہ افزائی اور ترغیب کے نتیجہ میں تاریخ اسلام میں ایسا علمی نشاط، بلکہ ایسا جوش وجذبہ اور علم کے لیے فدائیت وفنائیت کا ولولہ پیدا ہوا جس کے نتیجے میں اس عالمی وابدی علمی تحریک نے سب سے بڑی زمانی ومکانی مسافت طے کی او راس کی معنوی مسافت تو ان دونوں سے بھی بڑھی ہوئی ہے۔

علمی منتشر اکائیوں میں وحدت وربط!
علم کے صحیح مقصد کی طرف راہ نمائی اور اسے مثبت، تعمیری ومفید اور ذریعہ یقین بنانے کے سلسلے میں بعثت محمدی اور دعوت اسلامی کے رول کی اس سے زیادہ اہمیت اور قدر وقیمت ہے، جو اس نے علمی تحریک کی فعالیت ووسعت کے سلسلے میں ادا کیا ہے۔

علم کی کڑیاں بکھری ہوئی بلکہ بسا اوقات متضاد تھیں، علم طبعیات وحکمت ِ دین سے برسر پیکار تھے، حتیٰ کہ ریاضی وطب جیسے معصوم علم کے ماہرین بھی بعض اوقات سلبی والحادی نتیجے نکالتے تھے، چناں چہ یونان کے علماء (جنہوں نے کئی صدیوں تک فلسفہ وریاضیات میں اپنا امتیاز قائم رکھا تھا) یا تو مشرک تھے یا ملحد تھے اور یونان کے علوم اور مدارس فکر دین کے لیے خطرہ او رملحدین کے لیے سند او رنمونہ بنے ہوئے تھے، اس صورت حال میں یہ اسلام کا بڑا احسان تھاکہ اس نے ایسی وحدت قائم کی جو تمام علمی اکائیوں کو مربوط کر دیتی تھی اور اس کے لیے ایسا کرنا اس لیے آسان ہوسکا کہ اس کا علمی سفر صحیح نقطہ آغاز (Starting Point) سے ہوا تھا، اس نے اسے الله پر ایمان، اس سے مدد طلبی او راس پر اعتماد کے ذریعہ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ﴾ کی تعمیل میں شروع کیا تھا اور آغاز کی صحت اکثر اوقات انجام کی صحت وخیریت کی ضمانت پر ہو جاتی ہے، اسلام نے قرآن وایمان کے فیض وفضل سے ایسی وحدت کا انکشاف کیا جو تمام وحدتوں کو مربوط کر دیتی ہے اور وہ وحدت الله تبارک وتعالیٰ کی مغفرت ہے، جس کے بارے میں الله نے اپنے مومن بندوں کی تعریف کی ہے:
﴿وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾․(آل عمران:191)

اور وہ آسمانوں او رزمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں، اے ہمارے پروردگار! تونے یہ (سب ) لا یعنی نہیں پیدا کیا ہے، تو پاک ہے، سو محفوظ رکھ ہم کو دوزخ کے عذاب سے۔

زمانہ ماسبق کائناتی وحدتیں ( یعنی اس کے مظاہر اور حوادث وتغیرات) انسان کو متضاد نظر آتے اور اسے حیرت واضطراب میں ڈالتے تھے او رکبھی کفر والحاد او رخالق عالم اور مدبرکائنات کے اوپر طعن واعتراض تک پہنچا دیتے تھے، اسے دیکھتے ہوئے ایمان وقرآن پر مبنی ”اسلامی علم“ نے دنیا کو ایسی وحدت عطا کی جو کائناتی وحدتوں کو جمع کر دیتی ہے اور وہ الله کا غالب ارادہ اور اس کی حکمت ِ کاملہ ہے۔

ایک بڑے جرمن عالم ہیرالڈ ہو فڈنگ(Harald Hoffding) اس وحدت کی دریافت اور انسانی زندگی او رعلم واخلاق کے تاریخی سفر میں اس کے مؤثر کردار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”ہر مذہب کا ایمان توحید پر ہے، جس کا نظر یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے کی علّت ِ وجود ایک ہی ہے ( اس فکر سے لازمی طور پر پیش آنے والی مشکلات سے قطع نظر) یہ ایمان واعتقاد وفطرت انسانی پر بڑا مفید اور اہم اثر مرتب کرتا ہے اور اس کے ماننے والوں کے لیے یہ عقیدہ رکھنا آسان ہو جاتا ہے کہ ( بعض اختلافات وتفصیلات سے صرف ِ نظرکرتے ہوئے) عالم کی تمام چیزیں ایک قانون وحدت میں منسلک ہیں، کیوں کہ علّت کی وحدت ، قانون کی وحدت کا بھی تقاضا کرتی ہے۔

ازمنہٴ وسطیٰ کے دینی فلسفہ نے کثرت میں وحدت کا تصور لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دیا، جس سے غیر مہذب انسان طبعی مظاہر کی کثرت کے سبب اس سے غافل تھا او راس کثرت کے مشاہدہ میں اس لیے غلطاں وپیچان رہتا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ان میں ربط ذاتی پیدا کرنے کا کوئی سر رشتہ نہ تھا۔“

اس طرح علم بامقصد، مفید، الله تک پہنچنے کا ذریعہ بن گیا اور اس نے اپنی کوشش انسانیت کی خدمت او رتمدن ومعاشرہ کی سعادت کے لیے وقف کر دی اور یہ طرز فکر انسانی فکر وعمل کی دنیا پر سب سے بڑا احسان تھا، جس نے انسانیت کی قسمت بدل دی اور فکر انسانی کا رخ تبدیل کر دیا، مغربی علماء نے بھی علوم وفنون اور انسانی فکر پر قرآن کے اس احسان کا ذکر کیا ہے، ہم ان میں سے یہاں دو گواہیوں پر اکتفا کرتے ہیں۔

مشہور مستشرق مارگولیتھ(G.Margoliouth) جو اسلام کے خلاف اپنے تعصب کے لیے مشہور ہے، راڈول(J.M Rodwel) کے ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں لکھتا ہے:
”دنیا کے عظیم مذہبی صحیفوں میں قرآن ایک اہم مقام رکھتا ہے، حالاں کہ اس قسم کی تاریخ ساز تحریروں میں اس کی عمر سب سے کم ہے، مگر انسان پر حیرت انگیز اثر ڈالنے میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہے، اس نے ایک نئی انسانی فکر پیدا کی او رایک نئے اخلاق کی بنیاد ڈالی۔“

ایک او رمستشرق(Hartwig Hirschfeld) لکھتا ہے :
”ہم کو اس پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ قرآن علوم کا سرچشمہ ہے، آسمان، زمین ، انسانی زندگی، تجارت وحرفت جن کا اس میں ذکر کیا گیا ہے، ان پر متعدد کتابوں یا تفسیروں میں روشنی ڈالی گئی او ران پر بحث ومباحثہ کا دروازہ کھلا اور مسلمانوں میں بالواسطہ مختلف علوم کی ترقی کا راستہ ہموار ہوا، اس نے صرف عربوں ہی پر اثر نہیں ڈالا، بلکہ یہودی فلاسفہ کو بھی اس پر آمادہ کیا کہ وہ مذہبی ومابعد الطبعی مسائل پر عربوں کی پیروی کریں اور آخر کار عیسائی علم کلام کو عرب الہٰیات سے جس طرح فائدہ پہنچا اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

روحانیت کے میدان میں اسلام کی کوشش مذہبیات تک محدود نہیں رہی، یونانی فلکیات اور طبعی تحریروں سے واقفیت نے ان علوم کے مطالعہ کی طرف متوجہ کیا، محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو جو وحی ملی، اس میں اجسام فلکیہ کے گردش کرنے کا ذکر ان کی عبادت کے لیے نہیں، بلکہ الله کی نشانی او رانسان کی خدمت کے طورپر کیا گیا ہے، تمام مسلم اقوام نے فلکیات کا بڑی کام یابی کے ساتھ مطالعہ کیا، صدیوں تک وہی اس علم کے حامل رہے اور آج بھی اکثر ستاروں کے عربی نام او رمتعلقہ الفاظ مستعمل ہیں، یورپ میں عہد وسطیٰ کے ماہرین فلکیات عربوں کے شاگرد تھے۔

اسی طرح قرآن نے طبی علوم کی تحصیل کی ہمت افزائی کی اور عمومی طور پر فطرت کے مطالعہ اور غور فکر کی جانب توجہ مبذول کی۔“ (تہذیب وتمدن پر اسلام کے اثرات واحسانات)