خود جاگو، اوروں کو جگاؤ!

خود جاگو، اوروں کو جگاؤ!

مولانا خواجہ نصیرالدین قاسمی

علم؛ انسانیت کا وصف ِامتیازی ہے، اسی سے اسے عزت وشرافت اور دوسری مخلوقات پر فوقیت وبرتری حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک علم کی اس قدر اہمیت ہے کہ اسے عالمِ ازل میں فرشتوں پر برتری کا ذریعہ بنایا اور آخری امت کے لیے سب سے پہلی وحی علم حاصل کرنے کی اتاری، بلکہ کتاب اللہ میں اسے مقامِ احسان وامتنان میں ذکر فرمایا، علم حق تعالیٰ کی ذات وصفات پر یقین، آیاتِ قدرت اور اس کی وحدانیت پر وثوق کا ذریعہ ہے، اس کے فرامینِ عالی شان اور تعلیماتِ نبوی تک رسائی علم ہی کے ذریعہ ہوتی ہے علم ہی ہر طرح کی ضلالت وگم راہی اور جہالت وسفاہت کا تریاق ہے، اور علم ہی سے دارین میں سر خ رُوئی حاصل ہوتی ہے، اسی وجہ سے دین کا علم حاصل کرنا افضل العبادات اور احسن الاعمال میں سے ہے، شریعت نے مسلمانوں کو دین کا علم حاصل کرنے کی بہ طور خاص تاکید کی، انھیں احکامِ الٰہی پر عمل کا پابند بنایا اور صاف لفظوں میں یہ اعلان کیا کہ علم کے بغیر کوئی عمل نہ صحیح ہوسکتا ہے، نہ مقبول۔

مسلمان سن ِبلوغ سے لے کر وفات تک زندگی کے تمام مراحل میں احکامِ دین کا مکلف ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں اسے سوچنا اور غور کرنا ہے کہ اس کا کوئی قول وعمل، کوئی نقل وحرکت مرضی رب کے خلاف تو نہیں ہورہی ہے؟ کون سے امور اس کے لیے حلال، جائز اور درست ہیں اور کن امور کو شریعت نے حرام، ناجائز اور غلط قرار دیا ہے؟ جب تک اس کا علم نہیں ہوگا وہ اپنے مقصد ِحیات (عبدیت وبندگی) میں کام یاب نہیں ہوگا۔

حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں جہالت عروج پر تھی اور کفریات وشرکیات کا دور دورہ تھا، قوم مالکِ حقیقی کے بجائے اصنام وکواکب، اشجار واحجار کو اپنا معبود بنائی ہوئی تھی، اخلاقی ومعاشرتی خرابیاں عروج پر تھیں، ان سب مفاسد کی اصلاح کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کے ساتھ ساتھ تعلیم وتعلم کو فروغ دیا، ہر مسلمان کے لیے تعلیم کو ضروری قراردیا اور اس کے فضائل بیان فرمائے، تاکہ امت میں علم دین کے حاصل کرنے کا شوق وذوق پیدا ہو اور بہت سی معاشرتی واخلاقی خرابیاں ختم ہوں، یہی وجہ ہے کہ عہدِ نبوی میں جو اسلام قبول کرتا وہ قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتا اور نبی علیہ السلام کی بافیض مجالس سے فائدہ اُٹھاتا اور اپنی ظلوم وجہول زندگی کو علم کے نور سے منور کرتا۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کو طلب علم پر زور دیتے ہوئے فرمایا:

طلب العلم فریضة علی کل مسلم․ ہر مسلمان (مرد وعورت) پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔( ابن ماجہ)

شارحِ مشکوة ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث شریف میں علم سے مراد علم شریعت ہے۔

امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ علم سے مراد ایسا علم ہے جس کا حاصل کرنا بندہ کے لیے ضروری ہے، جیسے خالق تعالیٰ کی معرفت، اس کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت ونبوت کا علم، نماز کا طریقہ (وغیرہ) ان کا حاصل کرنا فرض عین ہے اور تفصیلی علم حاصل کر کے مقامِ افتاء واجتہاد کو پہنچنا فرضِ کفایہ ہے۔

حضرت ابو ذر غفاری کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے علم کا فائدہ بتاتے ہوئے فرمایا:ایک آیتِ قرآنی سیکھو!یہ تمہارے لیے سورکعت (نفل) پڑھنے سے افضل ہے اور دین کا ایک مسئلہ سیکھ لو! اس پر عمل ہو یا نہ ہو، یہ تمہارے لیے ہزار رکعت (نفل) پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ مجھ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ، فرائض (اسلام یا میراث) کا علم حاصل کرو اور لوگوں کو سکھاؤ، قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ، اس لیے کہ میں تو جانے والا ہوں اور (میرے بعد) علم اُٹھ جائے گا اور فتنے ظاہر ہوجائیں گے، یہاں تک کہ دو آدمیوں میں فرائض کے علم میں اختلاف ہوگا، مگر وہ کسی فیصل کو نہیں پائیں گے۔“(دارمی، دار قطنی)

ان ہدایات وترغیبات کااثر یہ ہوا کہ صحابہ کرام میں حصول علم کا بہت شوق پیدا ہوا، مرد عورت، بچے بوڑھے، شہری ودیہاتی سبھی کو علم حاصل کرنے کی فکر ہوئی اور احکام شریعت سے آگاہی کا داعیہ پیدا ہوا، صحابہ کرام نے آپس میں یوں نظام بنالیا تھا کہ کوئی مجلس نبوی میں اپنے کسی کام سے حاضر نہ ہوسکے تو مجلس میں موجود صحابہ کرام بعد میں انہیں تعلیمات نبوی سکھادیا کریں۔ اس طرح علم کا نورانی ماحول بنتا گیا، ہر طرف علمی حلقے اور دینی مجالس قائم ہونے لگیں اور لوگ مستفید ہونے لگے۔

دوسری طرف قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو تنبیہ وتاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانے کی فکر کریں۔

﴿یا أیھا الذین آمنوا قوا أنفسکم وأھلیکم ناراً﴾․(التحریم :6)

اے ایمان والو!خود کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔

امام قشیریفرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول پر حضرت عمر نے پوچھا یا رسول اللہ!ہم اپنے آپ کو تو بچائیں گے، لیکن اپنے اہل و عیال کو کیسے بچائیں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُنہیں اُن باتوں سے منع کرو جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور اُن باتوں کی ہدایت دو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے۔(تفسیر قرطبی)

حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے:﴿قواأنفسکم وأھلیکم نارا﴾ کا مطلب ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی سے بچو، اپنے اہل و عیال کو قرآن کریم کی تعلیم دو، اللہ تعالیٰ تم کو جہنم سے بچائے گا ۔

حضرت قتادہ فرماتے ہیں:مطلب یہ ہے کہ اُنھیں اللہ کی اطاعت کا حکم دو، اس کی نافرمانی سے روکو، تمہیں چاہیے کہ تم اُن پر اللہ کے احکام نافذ کرو اور ان کو اسی کا حکم دو اور (احکام پر عمل کرنے میں) ان کی مدد کرو اور جب تم اُنہیں اللہ کی کسی نافرمانی میں پاؤ تو اس سے روکو اور ان کو اس پرتنبیہ کرو ۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بچوں کی اچھی تربیت کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:کسی والد نے اپنی اولاد کو ئی تحفہ ایسا نہیں دیا جو اچھے ادب ( یعنی علم) سے بڑھ کر ہو ۔ (ترمذی:1952)

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:بچے جب سات سال کے ہوجائیں تو نماز کا حکم دواور جب دس سال کے ہوجائیں اور نماز چھوڑیں تو اُنھیں (ہلکی سی تنبیہی مار)مارو، اور اُن کے بسترے ایک دوسرے سے الگ کرو۔ (ابو داؤد:495)فقہاء نے فرمایاکہ نماز کا ذکر بہ طور مثال کے فرمایا۔

مطلب یہ ہے کہ دین کے احکام بتانا سات سال کی عمر سے شروع کردو اور دس سال کی عمر میں احکامِ شریعت میں بے پروائی پر تنبیہ کرو اور اخلاقی بے راہ روی میں مبتلا ہونے کے اسباب سے دور رکھو۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ماتحتوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:”تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، اس سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، حکم راں اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے، وہ اُن کے بارے میں مسئول ہوگا اور آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا“۔(بخاری:2409)

معلوم ہوا کہ علم دین کا خود حاصل کر لینا کافی نہیں ہے، اپنے اہل وعیال کو دین دار بنانا اور انہیں علم دین سے آراستہ کرنا بھی گھر کے سربراہ کی ذمہ داری میں داخل ہے اور اس پر عائد اسلامی فریضہ ہے ، نہیں تو انجام کاردوزخ میں جلنا ہوگا۔

چناں چہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام اپنے اہل وعیال اور عزیز واقارب کو دین سکھانے کی برابر فکر کرتے رہے، انھیں اللہ کے حقوق وفرائض ، تقوی وطہارت اور آدابِ زندگی وحسن معاشرت کی تعلیم دیتے رہے اور اس فریضہ کی ادائیگی سے کبھی غافل نہ ہوئے، معاشرہ کے تمام ہی افراد کے لیے حصول علم کے مواقع فراہم کیے اور جو لوگ تعلیم پاتے رہے وہ اگلوں کو دین سکھلاتے رہے۔

حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:کتاب اللہ سیکھو اور اس کی حفاظت کرو، اُسے (تجوید کے ساتھ) عمدہ لب ولہجہ میں پڑھو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی الله علیہ وسلم کی جان ہے! یہ رسی سے بندھی ہوئی حاملہ اونٹنیوں سے بھی زیادہ (بہت جلد سینوں سے) نکل جانے والا ہے۔ (مسند احمد:17317)

مالک بن حویرث فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں بیس دن رہے، جب گھر کی یاد آئی اور واپسی کی اجازت کے لیے حاضرہوئے تو اجازت دے دی اور فرمایا کہ ”جاؤ!اپنے اہل وعیال میں رہو، انھیں بھلی باتیں سکھاؤ اور علم سکھاؤ…“۔(دارمی:1288)

صحابیات نے ایک دفعہ بارگاہِ رسالت ماٰب صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مرددین سیکھنے میں ہم پر غالب آگئے ہیں، آپ ہمارے لیے بھی دین کی مجلسیں منعقد فرمائیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک دن مقرر کیا اور اس میں وعظ فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری: 151)

شرحِ زرقانی میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہمارے لیے بہترین ہم نشیں کون ہے؟ یا یہ کہ ہم کس کی مجالس میں شریک ہوا کریں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کی مجالس میں، جنہیں دیکھ کر رب کی یاد آئے، ان کی گفت گو تمہارے علم میں اضافہ کا سبب ہو اور ان کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔

اہل وعیال اور برادرانِ اسلام کے دین کی فکر انبیائے سابقین علیہم السلام اور ان کے متبعین کرتے آئے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے لیے اور اپنی ذریت کے لیے اقامت صلوٰة اور دوسری خیر کی دعائیں، حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے اہل کو نماز وزکوٰة جیسی طاعات کی تلقین کرنا، حضرت یعقوب علیہ السلام کی اپنے بچوں کے عقائد وایمان کی سلامتی کی فکر، حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو نصائح وغیرہ قرآن مجید میں مذکور ہیں۔

مذکورہ بالا تفصیل سے دو باتیں سامنے آئی ہیں، ایک یہ کہ ہر مسلمان پر ضروری علم دین کا حاصل کرنا فرض ہے، دوسرے یہ کہ اپنے اہل وعیال اور ماتحتوں کو بھی دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔

ان دونوں ذمہ داریوں میں کوتاہی کا نتیجہ امت بھگت رہی ہے، امثال وشواہد، واقعات وحالات کی تفصیل میں گئے بغیر سرسری نظر ڈالیں کہ ایمانیات، مثلاً باری تعالیٰ کی ذات وصفات، توحید ورسالت، موت مابعد الموت کے احوال ، سفر معراج کے حقائق، معجزات انبیا،کرامات اولیاء، احوال برزخ سے متعلق عقائد میں کم علمی کے سبب امت ارتداد والحاد کے نرغے میں ہے، نماز، روزہ ، زکوٰة ، حج، قربانی، انفاق فی سبیل اللہ کے ضروری احکام کا صحیح علم نہ ہونے سے عبادات نقص وکمی اور غفلت ولا پرواہی کی نذر ہوگئی ہیں۔ آپسی لین دین، خرید وفروخت، نکاح وطلاق، اجارہ ورہن وغیرہ معاملات میں دین وشریعت کے پاس ولحاظ نہ ہونے سے فریب ودھوکہ دہی، جھوٹ وخیانت، بحث ومباحثہ، لڑائی جھگڑے، ظلم وزیادتی عروج پر ہے۔ حقوق العباد کا علم نہ ہونے اور اس کی ادائیگی میں بے پروائی کی وجہ سے عائلی زندگی میں ہر ایک دوسرے سے نالاں وناراض اور حقوق طلبی کے لیے دست وگریباں ہے۔ اخلاق وآداب سے ناواقفیت نے بد عنوانی کو مسلم سماج کی پہچان بنادیا ہے۔ کبرو غرور، غیظ وغضب، حقد وحسد، تحقیروتذلیل، ریا،نمود، خودرائی وخود ستائی جیسی مہلک بیماریوں نے فہم وفراست ، نصح وخیر خواہی، تواضع وعاجزی ، ہمدردی وغم خواری جیسی اعلیٰ صفات سے مسلمانوں کو محروم کردیا ہے۔ مختصر یہ کہ دین اور اسلامی تعلیمات سے دوری نے امتِ مسلمہ کو ہلاکت وتباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔

ہماری اس پستی کا علاج ان نبوی تعلیمات میں ہے، جنہیں مضمون کے ابتدا میں ذکر کیا گیا ہے کہ علمائے کرام اپنے بیانات میں دین کی اہمیت وافادیت کو بیان کریں، اس کی ضرورت کا احساس قوم میں پیدا کریں، اشاعت دین کے مفید ومؤثر اسباب وذرائع اختیار کریں، عام مسلمان قرآن کریم کی تعلیم حاصل کریں، تمام شعبہائے حیات سے متعلق احکام دین اور مامورات ومنہیات کو جانیں، اخلاقِ حسنہ اور صفاتِ عالیہ سے خود کو آراستہ کریں، صحابہ کرام نے جس طرح دین سیکھنے کے لیے اپنی مصروفیات سے وقت نکالا ہے، اسی طرح اپنی مصروفیات سے وقت فارغ کریں، دین سیکھنے کے مواقع وذرائع سے فائدہ اٹھائیں، اپنے گھروں میں خواتین کے ہفتہ وار یا پندرہ روزہ دینی مجالس کا انتظام کریں، تاکہ وہ بھی دین سیکھیں یا خود سیکھ کر انھیں بھی سکھائیں، اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو حافظ عالم ضرور بنائیں ، باقی بچوں کے لیے قرآن مجید کی با تجوید تعلیم اور دینی احکام ومسائل کے سکھانے کا انتظام کریں، ان کی اخلاقیات کی نگرانی کریں، بری باتوں سے روکیں،بھلیباتیں بتائیں، برے دوستوں اور بری محفلوں میں شرکت سے روکیں، انٹرنیٹ کی برائیوں سے بھی باز رکھیں، گم راہ کرنے والی ویب سائٹس سے دور رکھیں، انھیں عقائد اسلام اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنتیں بتائیں، اہل اللہ کی صحبتوں اور مجلسوں میں شریک کریں، بچیوں کو پردہ کرنے کے احکام ضرور بتائیں، محرم نامحرم کا فرق سمجھائیں، الغرض دین سیکھنے سکھانے کی جو ممکنہ کوششیں اور تدبیریں ہوسکتی ہیں وہ اپنائیں تو امید ہے کہ بے دینی ، الحاد ولادینیت کی تیز آندھیوں سے ہماری نسلیں اپنے آپ کو بچاپائیں گے #
        علم کی شمع ہاتھ میں لے کر
        سب کو اپنے ساتھ میں لے کر
        منزل منزل بڑھتے جاؤ
        خود جاگو، اوروں کو جگاؤ
حق تعالیٰ دین کا صحیح علم اور اہل وعیال کو دین دار بنانے کے فریضے کو بہ حسن وخوبی انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہِ سید المرسلین، وصلی اللہ علی النبي الکریم ․