حقوق العباد سے بے فکری

حقوق العباد سے بے فکری

مولانا مفتی عاشق الہیٰ بلند شہریؒ

حقوق العباد کا معاملہ بہت اہم ہے عام طور پر لوگوں کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی، دین داری بس نماز او رکرتہ اورداڑھی میں رہ گئی۔ حضرت سفیان ثوری رحمة الله علیہ فرماتے تھے اگر کوئی شخص الله تعالیٰ کی سترنافرمانیاں لے کر قیامت کے میدان میں پہنچے تو یہ اس سے ہلکا جرم ہے کہ کسی بندے کا ایک حق اپنے ذمے لے کر میدان ِ قیامت میں حاضر ہو۔ کیوں کہ الله تعالیٰ بے نیاز ہے۔ اس سے معافی کی امید رکھی جائے، لیکن بندے چوں کہ محتاج ہیں، اس لیے ان کے حقوق کی ادائیگی کا دھیان رکھنا اور حقوق العباد سے پاک ہو کر جانا بہت زیادہ اہم اور نہایت ضروری ہے۔ بندوں سے وہاں معاف کرانے کی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔ بندے وہاں محتاج ہوں گے، کسمپرسی کا عالم ہو گا، ذرہ ذرہ سہارا سہارا تلاش کرتے ہوں گے اورہر صاحب حق اپنا پوراپورا حق وصول کرنا چاہے گا۔ میراث کے بارے میں تو دین داری کے مدعی پیر فقیر عالم جاہل عموماً مبتلائے معصیت ہیں۔ مرنے والا مر جاتا ہے او راس کا مال شرعی اصول کے مطابق ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ یتیموں اوربیواؤں کے حصے دوسرے ہی لوگ کھا جاتے ہیں او رمرنے والوں کی بیویوں اور بیٹیوں کو میراث کے شرعی حصے نہیں دیے جاتے، ہاں! بدعت کے کاموں میں میراث کے مشترک مال سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اجرت پر قرآن مجید پڑھوایا جارہا ہے، جو حرام ہے، تیجے چالیسویں ہو رہے ہیں، جو بدعت ہیں اور ان میں ریا کار ی بھی مقصود ہوتی ہے، یتیموں بیواؤں کا مال بدعات او رخرافات میں خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور شریعت کے مطابق میراث تقسیم کرنے سے جان چراتے ہیں۔

عموماً یہ ہوتا ہے کہ جہاں دو بیویوں کی اولاد ہوئی ان میں سے جس بیوی یا جس بیوی کی اولاد کے قبضہ میں مرنے والے کی املاک اور اموال میں سے جس قدر بھی ہو، لے اُڑاتا ہے، یہ بالکل نہیں سوچا جاتا ہے کہیہ مرنے والے کا مشترک مال ہے۔ شریعت کے مطابق اس کی دونوں بیویوں سے اس کی جو اولاد ہے ان سب کے حصے ہیں، مرنے والے نے جتنا بھی مال چھوڑا ہے خواہ کسی بھی بیوی اور کسی بھی اولاد کے قبضہ میں ہو، شرعاً سب میں میراث کا قانون جاری ہوتا ہے، اگر تقسیم نہ کیا جائے او رجس کے قبضہ میں جو ملا ہے وہ مستحقین کو نہ پہنچایا جائے تو جس کے پاس بھی اپنے حصہ سے زیادہ ہو گا وہ حرام کھانے کے گناہ کا مرتکب ہو گا، یہ مال کی محبت آخرت کے عذاب میں مبتلا کر دے گی۔ سورة الفجر میں اہل دنیا کا حال بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:﴿کَلَّا بَل لَّا تُکْرِمُونَ الْیَتِیْمَ، وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ، وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَّمّاً، وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبّاً جَمّاً﴾․ (الفجر:89/17)

(بلکہ بات یہ ہے کہ تم یتیم کا احترام نہیں کرتے او رمسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتے اور میراث کا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال سے بہت ہی محبت رکھتے ہو)۔

یہ مال کی محبت ہی یتیم کا اکرام نہیں کرنے دیتی۔ یتیم پر ظلم بھی ہوتا ہے، اس کا میراث والا حصہ بھی دبا لیا جاتا ہے اور دوسرے طریقوں سے بھی اس کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اگر سمجھتے ہیں کہ یتیم خانوں میں جو مال چندہ کرکے جمع کیا جاتا ہے اس میں جو خیانت ہو وہ یتیم کا مال کھانے میں شامل ہے، حالاں کہ میراث تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے گھر گھر یتیموں کا مال کھایا جارہا ہے۔ سورہٴ نسا ء میں ہے:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً﴾․(النساء:4/10)

(بلاشبہ جو لوگ ظلماً یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھرتے ہیں او رعنقریبدہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے)۔

قرض بُری بلا ہے، اکابر کا یہ مقولہ تو مشہور ہی ہے کہ:” القرض مقراض المحبة“ یعنی قرض محبت کی قینچی ہے۔ لفظ قرض کا لغوی معنی ہی کاٹنے کا ہے، بہت سے لوگوں کو قرض لینے کی عادت ہوتی ہے، ضرورت بلا ضرورت قرض لیتے رہتے ہیں او رجب بہت سے قرضے چڑھ جاتے ہیں تو ڈھیٹ ہو جاتے ہیں اور ہر ایسے آدمی کی تاک میں رہتے ہیں جس سے قرض مل سکتا ہو، جہاں کہیں نئے آدمی سے میل جول ہوا بس اُسے داغ دیا۔ اب وہ بے چارہ آگے پیچھے پھرتا ہے ،ادائیگی کا نام نہیں، جب قرض لیا تھا تو دوسرا منھ تھا، عاجزی کے ساتھ مانگ رہے تھے، بھیگی بلی بنے ہوئے تھے، اب جب قرض دینے والا مانگنے کو آتا ہے تو اس کی صورت دیکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ اس کو دیکھا اور بخار چڑھ گیا اوربعض تو بڑی بے باکی سے کہہ دیتے ہیں کہ میں نہیں دیتا، جو چاہے کر لے۔

قرض بہت ہی مجبوری میں لیا جائے او رجیسے ہی انتظام ہوجائے فوراً ادا کر دے، پیسوں کی آمد پر ادائیگی منحصر نہ رکھے۔ گھر کی چیزیں بیچ کر محنت مزدوری کرکے، جس طرح ممکن ہو جلد قرضہ ادا کرے اور قرض خواہ کے تقاضے سے پہلے خود جاکر ادا کر دے۔

قرض کی ادائیگی کا انتظام ہوتے ہوئے ادا نہ کرنا اس کو حدیث میں ”مطل“ فرمایا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”مطل الغنی ظلم“ یعنی جس کے پاس ادائیگی کا انتظام ہو اس کا ٹال مٹول کرنا، قرضہ ادا نہ کرنا یہ ظلم کی بات ہے۔ جس شخص نے نیکی کی ،تمہاری ضرورت کے وقت کام آیا اور ادھار دے دیا اس کو یہ سزا دے رہے ہیں کہ تقاضوں کے لیے بار بار آئے، واپس چلا جائے او رانتظام ہوتے ہوئے نہ دیا جائے، شرعاً اور عقلاً ظلم کی بات ہے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”یغفر للشھید کل ذنب إلا الدَّین․“ (رواہ مسلم)
(یعنی قرض کے علاوہ شہید کا ہر گناہ بخش دیا جاتا ہے )۔

شہادت کتنی بڑی نیکی ہے، جان تک دے دی، اس سے بڑھ کر اورکیا ہو گا، لیکن حقوق العباد پھر بھی معاف نہیں، جس کسی کا کوئی کچھ اپنے اوپر واجب ہو ،خواہ قرض لیا ہو، خواہ اور کسی سبب سے کسی کا کوئی حق واجب ہو گیا ہو، جلد سے جلد ادا کردے، اپنی عبادتوں نماز، روزہ اور ذکر اذکار کی مشغولیت سے دھوکہ نہ کھائے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے زیادہ عبادت کر لی ہے، حق داروں کے حقوق اس میں سے دے دیں گے، یہ بڑی بے وقوفی کی بات ہے۔ دنیا میں ذرا سی حقیر دنیالی او راس کے بدلہ میں نماز روزے دے کر خود دوزخ میں چلے گئے، یہ کیا سمجھ داری ہے؟ حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہ فرماتے تھے کہ دو پیسے کے عوض سات سو مقبول نمازیں دینی ہوں گی۔ مزید فرمایا کہ میں نے مولوی نصیرالدین سے کہہ دیا ہے ( یہ حضرت شیخ کے کتب خانہ کے مینجر تھے) کے لین دین میں حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھو، میری تو سات سو نمازیں مقبول نہیں ہیں، اب تو اپنے بارے میں سوچ لے تیری کتنی مقبول ہیں!!

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے ارشاد فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم تو مفلس اُسے سمجھتے ہیں جس کے پاس روپیہ نہ ہو او رمال نہ ہو۔ یہ سن کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ میری اُمت کا حقیقی مفلس وہ ہو گا جو قیامت کے روز نماز اورروزہ اور زکوٰة لے کر آئے گا یعنی اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں گی روزے بھی رکھے ہوں گے، زکوٰة بھی ادا کی ہوگی اور ان سب کے باوجود اس حال میں میدان ِ حشر میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا ناحق مال کھایا ہو گا اور کسی کا ناحق خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا اور چوں کہ قیامت کا دن فیصلہ کا دن ہو گا اس لیے اس شخص کا فیصلہ اس طرح کیا جائے گا کہ جس جس کو اس نے ستایا ہو گا او رجس جس کی حق تلفی کی تھی سب کو اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ کچھ اس کی نیکیاں اس حق دار کو دی جائیں گی او رکچھ دوسرے حق داروں کو دی جائیں گی۔ پھر اگر حق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو اس کے سر حق داروں کے گناہ ڈال دیے جائیں گے۔ پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

نیز حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کرر کھا ہو کہ اس کی بے آبروئی کی ہو یا کوئی اور حق تلفی کی ہو تو آج ہی ( اس دنیا میں اس کا حق ادا کرکے یا معافی مانگ کر) اس سے پہلے معاف کرالے، جہاں نہ دینار ہو گا نہ درہم ۔ پھر فرمایا کہ اگراس کے کچھ عمل اچھے ہوں گے تو بقدر ظلم اس سے لیے جائیں گے ( جو اصحاب حقوق کو دیے دیے جائیں گے) او راگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس ظالم کے سر ڈال دی جائیں گی۔

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ صرف پیسہ کوڑی دبا لینا ہی ظلم نہیں ہے، بلکہ گالی دینا، غیبت کرنا، تہمت لگانا، بے جا مارنا، بے آبروئی کرنا بھی ظلم او رحق تلفی ہے بہت سے لوگ اپنے بارے میں سمجھتے ہیں کہ ہم دین دار ہیں، مگر ان باتوں سے ذرا نہیں بچتے۔ واضح رہے کہ الله تعالیٰ اگرچاہے تو اپنے حقوق توبہ استغفار سے معاف فرما دیتا ہے، لیکن بندوں کے حقوق اس وقت معاف ہوں گے جب ان کو ادا کرے یا صاحب حق سے معاف کرالے۔