حسن ادب اور اس کی اہمیت

idara letterhead universal2c

حسن ادب اور اس کی اہمیت

مولانا ابو المآثر محمد حبیب الرحمن اعظمی

 
بڑوں کا ادب واحترام اور اساتذہ وشیوخ کا اکرام وخدمت گزاری اور ان کا پاس ولحاظ ہمیشہ سے اکابر دین وعلمائے سلف کا امتیازی وصف رہا ہے، مگر آج آزادی کے غلط تصور اور مغرب زدگی کے اثر سے یہ چیزیں رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہیں، آج سے پچیس تیس سال پہلے ہمارے دینی مدارس کے طلبہ میں جو شائستگی وتہذیب، جو متانت وسنجیدگی اور جو ادب واحترام پایا جاتا تھا آج اس کی جھلک بھی کہیں مشکل ہی سے نظر آتی ہے، یہ کمی بڑی افسوس ناک کمی ہے، علوم دینیہ کے حاملین کو اسلامی تہذیب، اسلامی آداب اور اسلامی اخلاق کا حامل ہونا چاہیے، ہمارے لیے ہمارے اکابر واسلاف کی روش قابل تقلید ہے، اسی میں ہماری عزت وسربلندی ہے اور اسلاف کی مستحسن روش ہی پر چل کر ہم اسلام کے تقاضے کو پورا کرسکتے ہیں، ہمارے مذہب نے جس طرح عقائد وعبادات اور معاملات واخلاق کے سبق ہم کو بتائے ہیں، اسی طرح اس نے ہم کو آداب بھی سکھائے ہیں، نیک روش، اچھے چال چلن اور عمدہ طور طریق کی تعلیم بھی دی ہے اور دوسرے امور دین کے ساتھ ساتھ ادب ووقار سیکھنے اور سکھانے کی تاکید بھی کی ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: إن الھدی الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جزء من خمسة وعشرین جزء ا من النبوة․ رواہ احمد (عمدہ روش، اچھے انداز اور میانہ روی نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزء ہے، یعنی یہ چیزیں انبیاء علیہم السلام کی عادات و خصائل میں سے ہیں۔) اسی لیے علماء نے فرمایا یُسنُّ أن یتعلم الأدب والسمت والفضل والحیاء وحسن السیرة شرعا وعرفا․ (الآداب الشرعیة: ص472، ج1) یعنی ادب ووقار، فضل وحیا اور حسن سیرت سیکھنا شرعًا وعرفًا مسنون ہے۔
 
نیز حدیث نبوی میں وارد ہے: لأن یوٴدب الرجل ولدہ خیر لہ من أن یتصدق بصاع (ترمذی) آدمی اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو یہ ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے اور فرمایا: ما نحل والد ولدا من نحلة أفضل من أدب حسن، کسی باپ نے اپنی اولاد کو عمدہ ادب سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دیا اور ارشاد ہے کہ بیٹے کا ایک حق باپ پر یہ بھی ہے کہ اس کو اچھا ادب سکھائے۔ (عوارف) ایک اور حدیث میں ہے تعلموا العلم، وتعلموا للعلم السکینة والوقار، وتواضعوا لمن تعلمون منہ․ (طبرانی) علم سیکھو اور علم کے لیے سکون ووقار سیکھو اور جس سے استفادہ کرو اس کے لیے تواضع کرو۔ اس مضمون کا ایک اثر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (الآداب الشرعیہ: ص 51 ج2، ص254 ج1) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے: تأدبوا ثم تعلموا․ (الآداب الشرعیہ ص 557، ج3) ادب سیکھو، پھر علم سیکھو، ابو عبد اللہ بلخی رحمہ اللہ نے فرمایا أدب العلم أکثر من العلم علم کا ادب علم سے زیادہ ہے، امام ابن المبارک نے فرمایا کہ آدمی کسی قسم کے علم سے باعظمت نہیں ہوسکتا جب تک اپنے عمل کو ادب سے مزین نہ کرے، حضرت علی رضی اللہ عنہ آیت کریمہ ﴿قوا أنفسکم وأھلیکم نارا﴾کی تفسیر أدبوھم وعلموھم سے فرماتے تھے، یعنی اپنے اہل واولاد کو آگ سے بچانے کا مطلب یہ بیان فرماتے تھے کہ ان کو ادب سکھاوٴ اور تعلیم دو، عبد اللہ بن المبارک فرماتے ہیں کہ مجھ سے مخلد بن الحسین نے فرمایا کہ ہم بہت ساری حدیثوں کے سننے اور پڑھنے سے زیادہ محتاج ادب سیکھنے کے ہیں۔ (الآداب الشرعیة ص 558 ج3) حضرت حبیب ابن الشہید (جو امام ابن سیرین کے شاگرد ہیں) اپنے لڑکے سے کہا کرتے تھے کہ بیٹے! فقہاء وعلماء کی مجلسوں میں بیٹھ کر ان سے ادب سیکھو، یہ چیز میرے نزدیک بہت ساری حدیثوں کے جاننے سے زیادہ پسندیدہ ہے، حضرت فضیل بن عیاض نے بعض طلبہ حدیث کی کچھ خفیف حرکتیں دیکھیں تو فرمایا کہ اے وارثان انبیاء! تم ایسے رہو گے؟ حضرت وکیع نے بعض طلاب کی کچھ نازیبا باتیں اور حرکتیں سنیں اور دیکھیں تو فرمایا یہ کیا حرکت ہے؟ تم پر وقار لازم ہے۔ (آداب شرعیہ ص 243، ج1) ایک بار عبد اللہ بن المبارک سفر کر رہے تھے، لوگوں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ فرمایا بصرہ جارہا ہوں، لوگوں نے کہا، اب وہاں کون رہ گیا ہے جس سے آپ حدیث نہ سن چکے ہوں؟ فرمایا ابن عون کی خدمت میں حاضری کا ارادہ ہے، ان کے اخلاق اور ان کے آداب سیکھوں گا۔ عبد الرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ ہم بعض علماء کی خدمت میں علم حاصل کرنے نہیں جاتے تھے، بلکہ صرف اس مقصد سے حاضری دیتے تھے کہ اُن کی نیک روش، ان کا طرز وانداز سیکھیں گے۔ علی ابن المدینی وغیرہ متعدد ائمہ حدیث یحییٰ بن سعید قطان کے پاس بعض اوقات صرف اس لیے حاضر ہوتے تھے کہ ان کی روش وانداز دیکھیں، اعمش کہتے ہیں کہ طالبین علم فقیہ (استاد) سے ہر چیز سیکھتے تھے، حتی کہ اسی کی سی پوشاک اور جوتے پہننا سیکھتے تھے۔ (آداب) حضرت امام احمد کی مجلس میں پانچ ہزار سے زائد آدمی شریک ہوتے تھے، جن میں سے صرف پانچ سو کے قریب آدمی تو ان سے حدیثیں سن کر لکھتے تھے اور باقی سب لوگ ان سے حسن ادب اور وقار ومتانت سیکھتے تھے۔ (آداب ص 13 ج2)
 
ادب سیکھنے اور سکھانے کی اس اہمیت کو واضح کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی آداب کی بھی تھوڑی سی تفصیل پیش کردی جائے اور اسی کے ساتھ ساتھ استاد کا مرتبہ، عالم کا حق اور ان کے اجلال واحترام کے احکام بھی ذکر کردیے جائیں۔
 
استاد کا مرتبہ
 
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتا دیا میں اس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے یا آزاد کردے یا غلام بنائے رکھے۔ امام زر نوجی نے اس کو ذکر کرنے کے بعد خود فرمایا ہے:
رأیت أحق الحق حق المعلم
وأوجبہ حفظا علی کل مسلم
 
سب سے زیادہ واجب الرعایة اور ضروری حق ہر مسلمان کے ذمہ معلم (استاد) کا حق میں نے پایا۔
لقد حق أن یھدی إلیہ کرامة
لتعلیم حرف واحد ألف درھم
 
وہ اس لائق ہے کہ ایک حرف بتانے کی قدر دانی میں اس کو ایک ہزار درہم ہدیہ پیش کیا جائے۔
 
”شرح الطریقة المحمدیة“ میں ایک حدیث بھی بایں الفاظ مذکور ہے من علم عبدا آیة من کتاب اللہ فھو مولاہ، لا ینبغی أن یخذ لہ، ولا یستأثر علیہ أحدا (یعنی جو کسی کو قرآن پاک کی ایک آیت سکھاوے وہ اس کا آقا ہے، اس کو کبھی اس کی مدد نہ چھوڑنی چاہیے، نہ اس پر کسی کو ترجیح دینی چاہیے۔) نا چیز کہتا ہے کہ اس حدیث کی اسناد عواف المعارف میں یوں مذکور ہے: أخبرنا الشیخ الثقة أبو الفتح محمد بن سلیمان قال أما أبو الفضل حمید قال أنا الحافظ أبو نعیم قال ثنا سلیمان بن أحمد قال ثنا أنس بن أسلم قال ثنا عتبہ بن رزین عن ابی أمامة الباہلی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم․ (عوارف علی ہامش الإحیاء ص74 ج4) اور مجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے۔ (ص128 ج1)
 
شرح الطریقة المحمدیہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ استاد کا حق ادا کرنے کو ماں باپ کا حق ادا کرنے پر مقدم جانے، اس کے بعد یہ واقعہ لکھا ہے کہ جس وقت امام حلوانی بخارا چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے تو امام زرنجری کے علاوہ ان کے سب شاگرد سفر کر کے ان کی زیارت کو گئے، امام زرنجری ماں کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے نہ جاسکے، مدت کے بعد جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے غیر حاضری پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے یہی معذرت پیش کی، امام حلوانی نے فرمایا کہ خیر تم کو عمر تو ضرور نصیب ہوگی، مگر درس نصیب نہ ہوگا، یعنی درس میں برکت اور بکثرت لوگوں کا ان کے درس سے فائدہ اٹھانا نصیب نہ ہوگا، چناں چہ ایسا ہی ہوا اور ان کا حلقہ درس کبھی نہ جما۔ الآداب الشرعیہ میں ہے وذکر بعض الشافعیة فی کتابہ فاتحة العلم أن حقہ آکد من حق الوالد․ (ج 1ص 496) یعنی بعض شوافع نے اپنی کتاب فاتحة العلم میں لکھا ہے کہ معلم کا حق باپ کے حق سے زیادہ موٴکد ہے۔
 
استاد اور ہر عالم کے حقوق
 
مشائخ فرماتے ہیں کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد کے ذمہ یکساں ہی ہے اور وہ یہ ہے (1) بے علم یا شاگرد، عالم یا استاد سے پہلے بات شروع نہ کرے۔ (2) اس کی جگہ پر نہ بیٹھے۔ (3) اس کی بات غلط بھی ہو تو رد نہ کرے۔ (4) اس کے آگے نہ چلے۔
 
تعلیم المتعلم میں ہے کہ استاد کی تعظیم وتوقیر میں یہ بھی داخل ہے کہ (1) اس کے پاس مباح گفتگو بھی زیادہ نہ کرے۔ (2)جس وقت وہ تھکا ماندہ ہو اُس وقت اس سے کوئی سوال نہ کرے۔ (3) لوگوں کو مسائل بتانے یا تعلیم دینے کا کوئی وقت اس کے یہاں مقرر ہے تو اس وقت کا انتظار کرے۔ (4) اس کے دروازے پر جا کر دروازہ نہ کھٹکھٹائے، بلکہ صبر وسکون کے ساتھ اس کے از خود برآمد ہونے کا انتظار کرے۔
 
شرح الطریقة المحمدیہ میں منقول ہے کہ جو آدمی علم وفضل میں بڑا ہو اس سے یہ کہنا بھی بے ادبی ہے کہ نماز کا وقت آگیا یا یہ کہ چلیے نماز پڑھ لیں (یعنی جب کہ یہ کہنا اس بات کا موہم ہو کہ اس کو نماز کا خیال نہیں ہے، تم کو بہت خیال ہے، یہ ایہام بے ادبی ہے۔)
 
شرح الطریقہ میں یہ بھی منقول ہے کہ استاد کا ہاتھ چومنا بھی داخل تعظیم ہے اور ابن الجوزی نے مناقب اصحاب الحدیث میں لکھا ہے: ینبغی للطالب أن یبالغ فی التواضع للعالم ویذل نفسہ لہ ومن التواضع للعالم تقبیل یدہ یعنی طالب علم کے لیے زیبا ہے کہ عالم کے لیے تواضع میں مبالغہ کرے اور اپنے نفس کو اس کے لیے ذلیل کردے اور عالم کے لیے تواضع کی ایک صورت اس کا ہاتھ چومنا بھی ہے۔ (آداب شرعیہ ص 272، ج2)
 
استاد کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے آنے جانے کے وقت شاگرد کھڑا ہو جائے، استاد عالم کے لیے قیام کا جواز بلکہ استحباب آداب شرعیہ میں بھی مذکور ہے اور اس باب میں امام نووی کا ایک مستقل رسالہ ہے۔ شرح الطریقہ میں یہ بھی ہے کہ استاد کی کوئی رائے یا تحقیق شاگرد کو غلط معلوم ہوتی ہو تو بھی اس کی پیروی کرے، جیسا کہ حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کے قصہ سے ثابت ہے۔
 
استاد کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے سامنے تواضع سے پیش آئے، چاپلوسی کرے، اس کی خدمت کرے، اس کی مدد کرے اور علانیہ وخفیہ اس کے لیے دُعا کرتا رہے۔ (شرح الطریقہ)
 
امام غزالی نے احیاء العلوم میں یہ فرمایا ہے: ینبغی أن یتواضع للمعلم، ویطلب الثواب، والشرف بخدمتہ (ص38 ج1) چاہیے کہ معلم کے لیے تواضع کرے اور اس کی خدمت کر کے شرف وثواب کمائے، اس کے بعد ایک حدیث نقل کی ہے: لیس من أخلاق الموٴمن التملق إلا فی طلب العلم یعنی موٴمن کے اخلاق میں تملق (چاپلوسی) کی کوئی جگہ نہیں ہے، مگر طلب علم کی راہ میں۔ (رواہ ابن عدی من حدیث معاذ وأبی أمامة بإسنادین ضعیفین)
 
تعلیم المتعلم میں ہے کہ استاد کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کی اولاد اور متعلقین کی بھی توقیر کرے۔ (ص 7) ترغیب وترہیب منذری میں حدیث مرفوع ہے: تواضعوا لمن تعلمون منہ یعنی جس سے علم حاصل کرو اس کے لیے تواضع کرو، فردوس دیلمی کے حوالہ سے ایک حدیث نبوی منقول ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بڑوں کے آگے چلنا کبائر میں سے ہے، بڑوں کے آگے کوئی ملعون ہی چل سکتا ہے، پوچھا گیا یا رسول اللہ! بڑوں سے کون مراد ہیں؟ فرمایا علماء اور صلحاء۔ مراد یہ ہے کہ ان کی عظمت ومنزلت کا لحاظ نہ کر کے استخفافًا آگے چلنا مذموم وقابل نکیر ہے، شرح الطریقة المحمدیہ میں ہے کہ علم کے زوال کا ایک سبب معلم کے حقوق کی رعایت نہ کرنا بھی ہے اور فرمایا کہ استاد کو جس شاگرد سے تکلیف پہنچے گی وہ علم کی برکت سے محروم رہ جائے گا۔
 
کسی اور عالم کا قول ہے کہ جو شاگرد اپنے استاد کو نامشروع ارتکاب کرتے دیکھ کر اگر اعتراض وبے ادبی سے کیوں؟ کہہ دے گا، وہ فلاح نہ پائے گا، یعنی نا مشروع پر ٹوکنے کے لیے بے ادبی مباح نہیں ہے، دوسرے سے تنبیہ کرائے یا خود ادب واحترام کے ساتھ استفسار کی صورت میں کہے یا اس طرح کہے کہ نصیحتِ مسلم معلوم ہو۔
 
اجلال علم وعلماء
 
ابوداوٴد میں مروی ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بوڑھے مسلمان اور عالم وحافظ قرآن اور بادشاہ عادل کی عزت کرنا، خدا کی تعظیم میں داخل ہے، الآداب الشرعیة میں بروایت ابی امامہ یہ حدیث مرفوع منقول ہے کہ تین باتیں خدا کی تعظیم کی فرع ہیں، اسلام میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والے کی توقیر اور کتاب اللہ کے حامل کا احترام اور صاحب علم کا اکرام خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ (ص 256 ج1) اسی کتاب میں حضرت طاوٴس سے مروی ہے: من السنة أن یوقر أربعة: العالم وذو الشیبة والسلطان والوالد، یعنی عالم اور بوڑھے اور بادشاہ اور باپ کی توقیر سنت ہے، ایک اور حدیث مرفوع میں اہل علم کے استخفاف کو منافق کا کام بتایا گیا ہے۔ (مجمع الزوائد ص 127 ج1)
 
ایک اور حدیث میں ہے کہ جو ہم میں کے بڑے کی عزت نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور عالم کا حق نہ پہنچانے وہ میری امت سے نہیں ہے۔ ابن حزم نے لکھا ہے (اتفقوا علی إیجاب توقیر أھل القرآن والإسلام والنبی صلی اللہ علیہ وسلم وکذلک الخلیفة والقاضي والعالم) یعنی حاملین قرآن واسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اسی طرح خلیفہٴ وقت اور فاضل، عالم کی توقیر کو واجب قرار دینے پر اجماع ہے۔ (الآداب الشرعیة ص495، ج1)
 
امام مالک فرماتے ہیں کہ ہارون رشید نے میرے پاس آدمی بھیج کر سماع حدیث کی خواہش ظاہر کی، میں نے کہلا بھیجا کہ عالم کے پاس لوگ آتے ہیں، وہ لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا، رشید یہ جواب پا کر خود آئے اور آکر میرے پاس دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، میں نے کہا یا أمیر المومنین، إن من إجلال اللہ إجلال ذی الشیبة المسلم یعنی خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان کا احترام کیا جائے، ہارون کھڑے ہوگئے، پھر میرے سامنے شاگردانہ انداز سے بیٹھے، ایک مدت کے بعد پھر ملاقات ہوئی تو کہا یا أبا عبد اللّٰہ، تواضعنا لعلمک فانتفعنا بہ ہم نے آپ کے علم کے لیے تواضع کیا تو ہم نے اس سے نفع اٹھایا۔ (آداب شرعیہ ص 55 ج2)
 
امام بیہقی نے روایت کی ہے، خلیفہ مہدی جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور مام مالک ان کے سلام کو گئے تو مہدی نے اپنے دونوں لڑکوں ہادی اور رشید کو امام مالک سے حدیث سننے کا حکم دیا، جب شاہزادوں نے امام مالک کو طلب کیا تو انہوں نے آنے سے انکار کردیا، مہدی کو اس کی خبر ہوئی اور اس نے ناراضی ظاہر کی تو امام نے فرمایا کہ العلم أھل أن یوقر ویوٴتی أھلہ یعنی علم اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی توقیر کی جائے۔ اور اس کے اہل کے پاس آیا جائے۔ اب مہدی نے خود لڑکوں کو امام صاحب کے پاس بھیجا، جب وہ وہاں پہنچے تو شاہزادوں کے اتالیق نے امام سے خواہش ظاہر کی کہ آپ خود پڑھ کر سنا دیں، امام نے فرمایا کہ جس طرح بچے پڑھتے ہیں اور معلم سنتا ہے، اسی طرح اس شہر کے لوگ محدث کے پاس حدیثیں پڑھتے ہیں، جہاں خطا ہوتی ہے محدث ٹوک دیتا ہے، مہدی کو اس کی بھی خبر پہنچائی گئی اور اس نے اس پر بھی اظہار عتاب کیا، تو امام مالک نے مدینہ کے ائمہ سبعہ کا نام لے کر فرمایا کہ ان تمام حضرات کے یہاں یہی معمول تھا کہ شاگرد پڑھتے تھے اور وہ حضرات سنتے تھے، یہ سن کر مہدی نے کہا کہ تو انہیں کی اقتدا ہونی چاہیے اور لڑکوں کو حکم دیا کہ جاوٴ تم خود پڑھو، لڑکوں نے ایسا ہی کیا۔ (آداب شرعیہ ص 55، ج 2)
 
ایک مرتبہ امام احمد کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اثنائے گفتگو میں ابراہیم بن طہمان کا ذکر نکل آیا، ان کا نام سنتے ہی امام احمد سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ نازیبا بات ہوگی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم ٹیک لگائے رہیں۔ (آداب شرعیہ ص 26 ج2)
 
اجلال علم وتعظیم استاد کا لحاظ پہلے لوگوں میں
 
(۱) امام شعبی کا بیان ہے کہ حضرت زید بن ثابت سوار ہونے لگتے تو حضرت ابن عباس رکاب تھام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ علماء کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اسی طرح حضرت ابن عمر (صحابی) نے مجاہد (تابعی) کی رکاب تھامی، امام لیث بن سعد امام زہری کی رکاب تھامتے تھے، مغیرہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کی ہیبت ہم پر ایسی تھی جیسی بادشاہ کی ہوتی ہے اور یہی حال امام مالک کے شاگردوں کا امام مالک کے ساتھ تھا، ربیع کہتے ہیں کہ امام شافعی کی نظر کے سامنے ان کی ہیبت کی وجہ سے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی۔ (الآداب الشرعیہ ص 256، ج1)
 
(2) ثابت بنانی حضرت انس کے شاگرد اور تابعی ہیں، یہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاتے تو ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے، اس لیے حضرت انس اپنی لونڈی سے کہا کرتے تھے کہ ذرا میرے ہاتھوں میں خوش بو لگا دے، وہ آئے گا تو بے ہاتھ چومے نہ مانے گا۔ (مجمع الزوائد ص 130 ج1)
 
(3) سفیان بن عیینہ اور فضیل بن عیاض دونوں بزرگ حسین جعفی کے شاگرد تھے، ان میں سے ایک نے حسین کا ہاتھ دوسرے نے پاوٴں چوما۔ (آداب شرعیہ ص 272 ج2)
 
(4) امام احمد نے داوٴد بن عمر کی رکاب تھامی تھی۔
 
(5) خلف احمر کا بیان ہے کہ امام احمد میرے پاس ابو عوانہ کی مرویات سننے کے لیے آئے، میں نے بہت کوشش کی کہ ان کو بلند جگہ پر بٹھاوٴں، مگر انہوں نے فرمایا کہ میں تو آپ کے سامنے ہی (شاگردوں کی جگہ پر) بیٹھوں گا، ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم جس سے علم حاصل کریں اس کے لیے تواضع کریں۔ (آداب ص 25، ج2)
 
(6) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کسی صحابی کے پاس کسی حدیث کا پتہ چلتا تو میں خود ان کے دروازہ پر حاضر ہوتا تھا، وہ اگر سوئے ہوتے تو میں باہر ہی اپنی چادر سر تلے رکھ کر پڑ جاتا اور دھول پھانکتا رہتا، جب وہ برآمد ہوتے اور فرماتے کیسے تشریف لائے؟ آپ نے آدمی بھیج کر بلوا کیوں نہیں لیا؟ تو میں کہتا میں ہی اس کا حق دار ہوں کہ حاضری دوں۔ (آداب شرعیہ ص 27 ج2)
 
(7) حضرت ابراہیم نخعی نے حماد بن ابی سلیمان (استاد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ) کو ایک دن بازار سے گوشت لانے کے لیے بھیجا، راستہ میں اتفاق سے ان کے والد مل گئے، جو سواری پر چلے آرہے تھے، حماد کے ہاتھ میں زنبیل دیکھ کر انہوں نے ان کو بہت ڈانٹا اور زنبیل چھین کر پھینک دی، لیکن جب نخعی کے انتقال کے بعد طالبین حدیث حماد کے دروازہ پر حاضر ہوئے اور دستک دی تو حماد کے والد ہی ہاتھ میں شمع لے کر آئے، طلبہ نے کہا ہم آپ کے پاس نہیں آئے، بلکہ آپ کے صاحب زادہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، وہ الٹے پاوٴں اندر واپس آئے اور حماد سے کہا کہ بیٹا! تم ان لوگوں کے پاس جاوٴ، میں سمجھ گیا، زنبیل ہی نے تم کو یہاں تک پہنچایا۔ (تقدمہ نصب الرایہ ص 34)
 
(8) حماد بن سلیمان کی ہمشیرہ عاتکہ کہتی ہیں کہ امام ابوحنیفہ ہمارے گھر کی روئی دھنتے تھے، ہمارا دودھ اور ترکاری خریدتے تھے اور اسی طرح کے اور بہت سے کام کرتے تھے۔ اس واقعہ کو نقل کر کے علامہ کوثری فرماتے ہیں کہ طالب علمی میں اسلاف اس طرح خدمت گزاری کرتے تھے، اور اسی سے انہوں نے علم کی برکت پائی۔ (تقدمہ 34)
 
(9) خلال نے روایت کی ہے، امام احمد ایک بار حضرت وکیع کی خدمت میں آئے، اس وقت ان کے پاس علمائے کوفہ کی ایک جماعت حاضر تھی، امام احمد ادبًا وتواضعًا وکیع کے سامنے بیٹھ گئے، لوگوں نے کہا کہ شیخ تو آپ کی بہت عزت کرتے ہیں، امام احمد نے فرمایا کہ وہ میری عزت کرتے ہیں تو مجھ کو بھی تو ان کی تعظیم واحترام لازم ہے۔ (آداب ص 4 ج2)
 
(10) امام ابو عبید فرماتے ہیں کہ میں کبھی کسی محدث کے دروازہ پر حاضر ہوا تو اطلاع بھجوا کر داخلہ کی اجازت نہیں منگائی، بلکہ بیٹھا انتظار کرتا رہا، تا آں کہ وہ خود بر آمد ہوئے، میں نے ہمیشہ قرآن پاک کی اس آیت سے جو ادب مستفاد ہوتا ہے اس پر نظر رکھی ﴿ولو أنھم صبروا حتی تخرج إلیہم لکان خیرًا لھم﴾ یعنی کاش وہ لوگ صبر کرتے تا آں کہ آپ باہر نکلتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ (آداب شرعیہ ص 4 ج2)
 
(11) صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ بخارا کے ایک بہت بڑے امام اپنے حلقہٴ درس میں درس دے رہے تھے، مگر اثناء درس میں کبھی کبھی کھڑے ہو جاتے تھے، جب اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، کھیلتے کھیلتے وہ کبھی مسجد کے دروازے کے پاس بھی چلا آتا ہے تو میں اس کے لیے بقصد تعظیم کھڑا ہو جاتا ہوں۔ (تعلیم المتعلم ص 7)
 
(12) قاضی فخر الدین ارسابندی مرو میں رئیس الائمہ تھے، بادشاہ وقت بھی ان کا بے حد احترام کرتا تھا، وہ فرماتے تھے کہ میں نے یہ منصب صرف استاد کی خدمت کے طفیل میں پایا ہے، علاوہ اور خدمتوں کے تیس برس تک میں اپنے استاد قاضی ابو زید دبوسی کا کھانا پکایا کرتا تھا اور کبھی اس میں سے کھاتا نہ تھا۔
 
(13) خلیفہ ہارون رشید نے اپنے لڑکے کو علم وادب کی تعلیم کے لیے امام اصمعی کے سپرد کردیا تھا، ایک دن اتفاقًا ہارون وہاں جا پہنچے، دیکھا کہ اصمعی اپنے پاوٴں دھو رہے ہیں اور شاہزادہ پاوٴں پر پانی ڈال رہا ہے، ہارون نے بڑی برہمی سے فرمایا کہ میں نے تو اس کو آپ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ اس کو ادب سکھائیں گے، آپ نے شاہزادہ کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی گرائے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کا پیر دھوئے۔
 
استاد کے ساتھ عقیدت
 
(14) حضرت مرزا جان جاناں نے علم حدیث کی سند حضرت حاجی محمد افضل سے حاصل کی تھی، مرزا صاحب کا بیان ہے کہ تحصیل علم سے فراغت پانے کے بعد حضرت حاجی صاحب نے اپنی کلاہ جو پندرہ برس تک آپ کے عمامہ کے نیچے رہ چکی تھی مجھے عنایت فرمائی، میں نے رات کے وقت گرم پانی میں وہ ٹوپی بھگو دی، صبح کے وقت وہ پانی املتاس کے شربت سے بھی زیادہ سیاہ ہوگیا تھا، میں اس کو پی گیا، اس پانی کی برکت سے میرا دماغ ایسا روشن اور ذہن ایسا رسا ہوگیا کہ کوئی مشکل کتاب مشکل نہ رہی۔ (مقامات مظہری ص 29)
 
بات چیت میں تمیز اور ادب کی تعلیم
 
(15) سلطان نظام الدین اولیاء کا ارشاد ہے کہ ہمارے پیر حضرت فرید گنج شکر کے پاس عوارف المعارف کا جو نسخہ تھا اس کا خط باریک تھا اور غلط بھی بہت تھا، شیخ جب اس کو سامنے رکھ کر بیان فرماتے تو جگہ جگہ کچھ غور کرنا اور رکنا پڑتا تھا، مجھے یاد آیا کہ شیخ کے بھائی نجیب الدین متوکل کے پاس عوارف کا بہت عمدہ وصحیح نسخہ موجود ہے، لہٰذا میں نے اس کو شیخ سے کہا، شیخ کو یہ بات گراں گزری، چند دفعہ فرمایا کہ جی ہاں، اس فقیر کو غلط نسخہ کی تصحیح کی لیاقت نہیں ہے، پہلے تو میں نہیں سمجھا، لیکن جب میری سمجھ میں آیا کہ میری نسبت یہ فرما رہے ہیں تو میں کھڑا ہوگیا اور اپنے سر سے ٹوپی اتار کر اپنا سر شیخ کے قدموں میں ڈال دیا اور عرض کیا کہ معاذ اللہ! میری یہ غرض نہیں تھی، بلکہ میں نے وہ نسخہ دیکھا تھا، یاد آگیا، آپ سے عرض کیا، لیکن میری معذرت کچھ موٴثر نہیں ہوئی، شیخ کے بشرہ سے ناخوشی کا اثر بالکل پہلے جیسا ظاہر ہوتا تھا، میں سخت حیرانی وپریشانی کی حالت میں مجلس سے باہر آیا، اس دن جو غم مجھ کو تھا وہ کسی کو نہ ہو، جی چاہتا تھا کہ کنویں میں گر کے جان دے دوں، میرے اس اضطراب کی خبر شیخ کے صاحب زادہ مولانا شہاب الدین کو ہوئی، وہ مجھ سے بہت محبت فرماتے تھے، انہوں نے میرا حال بہت اچھے انداز میں شیخ سے بیان کیا، اس وقت شیخ خوش ہوئے اور مجھ کو بلا کر بڑی شفقت ومہربانی کا اظہار فرمایا اور ارشاد کیا کہ: ”یہ سب میں نے تمہاری حالت کے کمال کے لیے کیا تھا کہ پیر مشاطہٴ مرید ہے“۔
 
اس کے بعد شیخ نے اپنی خاص پوشاک سے مجھ کو سرفراز فرمایا۔ (اخبار الاخیار ص 29)
 
(16) امام احمد کے پاس حضرت عبد اللہ بن المبارک کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) آئے، تو امام نے ان کی طرف تکیہ بڑھا دیا اور اُن کی بڑی عزت کی، امام کا معمول تھا کہ کوئی قابل عزت آدمی آتا تو اپنا تکیہ (یا مسند) اس کی طرف بڑھا دیتے تھے، ایک بار ابوہمام آپ کے پاس سواری پر آئے تو امام نے رکاب تھام لی۔ (آداب شرعیہ ص 470 ج 1)
 
(17) ایک بار حضرت وکیع، امام سفیان ثوری کے لیے تعظیماً کھڑے ہوئے تو انہوں نے اعتراض کیا، حضرت وکیع نے فرمایا کہ آپ ہی نے یہ حدیث نبوی مجھے سنائی ہے إن من إجلال اللّٰہ إجلال ذی الشیبة المسلم امام سفیان خاموش ہوگئے۔ اور وکیع کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ (آدابِ شرعیہ ص 468ج1)
 
(18) محدث کبیر امام ابو زرعہ نہ کسی کے لیے کھڑے ہوتے نہ کسی کو اپنے مسند پر بٹھاتے تھے، مگر محدث ابن دارہ کے لیے یہ دونوں کام کرتے تھے۔ (آداب ص 468، ج1)
 
(19) سلیمان بن عبد الملک امیر الموٴمنین جب حج کو گئے تو اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر عطاء بن رباح کی خدمت میں مسائل پوچھنے کے لیے حاضر ہوئے، حضرت عطاء اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، سلیمان بیٹھے انتظار کرتے رہے، جب عطاء فارغ ہوئے تو انہوں نے سلیمان کی طرف رُخ بھی نہیں کیا، سلیمان اسی طرح مناسک حج پوچھتے رہے، جب پوچھ چکے تو اپنے بیٹوں سے کہا، اٹھو، چلو، پھر کہا بیٹو! علم حاصل کرنے میں سستی نہ کرو، میں اس حبشی غلام کے سامنے اپنے ذلیل ہونے کو نہیں بھول سکتا۔ (صفوة الصفوة ص119 ج 2)
 
(20) سعید بن مسلم کہتے ہیں کہ جلالت وعظمت میں علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے، ابن داب انساب واخبار کے حافظ تھے اور خلیفہ ہادی کے ندیم، مگر اس کے ساتھ یا اس کے سامنے کھانا نہیں کھاتے تھے، سبب پوچھا گیا تو کہا کہ میں ایسی جگہ کھانا نہیں کھاتا جہاں ہاتھ نہ دھو سکوں۔ (خلفاء وملوک کے سامنے ہاتھ دھونا دربار کے آداب کے خلاف تھا) ہادی کو معلوم ہوا تو اس نے ان کو اپنے سامنے ہاتھ دھونے کی اجازت دی، چناں چہ اور سب لوگ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد باہر جا کر ہاتھ دھوتے تھے اور ابن داب ہادی کے سامنے ہاتھ دھویا کرتے تھے۔ (معجم الادباء، ص 155، ج 16)
 
(21) حاکم خراسان عبد اللہ بن طاہر کے صاحب زادے طاہر اپنے باپ کی زندگی میں حج کو آئے تو اسحاق بن ابراہیم نے اپنے گھر پر علمائے مکہ کو مدعو کیا، تاکہ طاہر ان سے مل لے اور ان سے کچھ کچھ پڑھے، اس دعوت کو اور سب لوگوں نے تو قبول کیا اور ہر قسم کے اہل علم شریک مجلس ہوئے مگر ابو عبید نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ العلم یُقصد یعنی علم کے پاس خود آنا چاہیے، اسحاق اس جواب پر خفا ہوگیا اور عبد اللہ بن طاہر کی طرف سے ابو عبید کو جو دو ہزار درہم ماہانہ وظیفہ ملتا تھا اس کو بند کردیا اور ابو عبید کے جواب کی اطلاع ابن طاہر کے پاس بھیج دی، ابن طاہر کو جب یہ اطلاع پہنچی تو اس نے اسحاق کو لکھ بھیجا کہ ابو عبید نے بالکل سچی بات کہی ہے اور آج سے میں ان کا وظیفہ دو چند کرتا ہوں، تم اس پر عمل کرو اور ان کا بقایا ادا کرو۔ (معجم الادباء، ص 261، ج16)
 
تذکرہ السامع کی ایک فصل کا خلاصہ
 
قاضی القضاة امام بدر الدین بن جماعة نے تعلیم وتعلم کے آداب اور استاد وشاگرد کے باہمی برتاوٴ کے باب میں ایک نہایت جامع اور نفیس کتاب لکھی ہے، اس کے تیسرے باب کی دوسری فصل کا عنوان یہ ہے الفصل الثانی فی آدابہ مع شیخہ وقدرتہ وما یجب علیہ من عظیم حرمتہ․ (ترجمہ: دوسری فصل استاد ومقتدا کے ساتھ ادب اور اس احترام عظیم کے بیان میں جو شاگرد پر واجب ہے) یہاں پر ہم اسی فصل کے مضامین کا خلاصہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔
 
(1) لازم ہے کہ شاگرد اپنے جملہ امور میں اپنے استاد کا مطیع ومنقاد رہے، اس کی رائے وتدبیر سے باہر نہ ہو، جس طرح بیمار حکیم حاذق کے ہاتھ میں ہوتا ہے اسی طرح اپنے کو اس کے ہاتھ دے دے، جس بات کا قصد کرے اس میں اس سے مشورہ کرے۔ اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کے احترام میں مبالغہ کرے اور اس کی خدمت کو قرب خداوندی کا موجب جانے اور یقین کرے کہ استاد کے سامنے ذلیل ہونا عزت ہے، اس کے لیے جھکنا فخر ہے اور اس کے لیے تواضع سر بلندی۔ امام شافعی رحمہ اللہ کو کسی نے ملامت کی کہ علماء کے لیے اس قدر کیوں تواضع کرتے ہیں؟ تو فرمایا۔
أھین لھم نفسی فھم یکرمونھا
ولن تکرَم النفُس التی لاتھینا
 
یعنی میں اپنے کو ان کے آگے ذلیل کرتا ہوں تو وہ میری عزت افزائی کرتے ہیں اور جس نفس کو تو ذلیل نہ کرے اس کی عزت نہیں ہوسکتی۔
 
حضرت ابن عباس نے باوجود اپنی بزرگی ومرتبہ کے (کہ خاندان نبوت میں سے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی) حضرت زید بن ثابت انصاری کی رکاب اپنے ہاتھ سے تھامی۔ اور فرمایا کہ ہم کو اپنے علماء کے ساتھ ایسا ہی برتاوٴ کرنے کا حکم ملا ہے، حضرت امام احمد (باوجود اپنی دینی وعلمی عظمت وامامت کے) جب خلف احمر لغوی کی مجلس میں جاتے تو فرماتے کہ میں آپ کے سامنے ہی بیٹھوں گا (یعنی شاگردوں کی طرح بیٹھوں گا، برابر نہیں بیٹھ سکتا) ہم کو یہی حکم ہے کہ جس سے علم سیکھیں اس کے لیے تواضع کریں۔
 
(2) اپنے استاد کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھے اور اس کے کمال کا پختہ اعتقاد رکھے، سلف میں بعض حضرات یہ دعا کرتے تھے کہ خداوندا! میرے استاد کا عیب مجھ پر ظاہر نہ ہو کہ اس سے مبادا بے اعتقادی پیدا ہو کر میرے پاس سے اس کے علم کی برکت جاتی رہے۔
 
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں امام مالک کے سامنے ورق بھی بہت آہستہ الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو سنائی نہ دے، امام ربیع فرماتے ہیں کہ امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی پینے کی جرأت نہ ہوئی۔
 
خلیفہ مہدی کا کوئی لڑکا قاضی شریک کے پاس آیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا، پھر اس نے ایک حدیث پوچھی، شریک نے کچھ توجہ نہیں کی، اس نے پھر پوچھا، انہوں نے پھر توجہ نہیں کی، تب اس نے کہا کہ آپ خلفاء کی اولاد (شاہزادوں) کی بے حرمتی کرتے ہیں، شریک نے فرمایا کہ ہاں! مگر علم اللہ کے نزدیک اس سے کہیں برتر ہے کہ میں اس کو برباد کروں۔
 
اپنے استاد کو دور سے نہ پکارے اور یا سیدی یا استادی اور ایہا العالم، ایہا الحافظ کہہ کے پکارے، عربی میں جمع کا صیغہ ما تقولون اور مارأیکم اختیار کرے، اس کی غیبت میں بھی تعظیمی القاب کے ساتھ اس کا ذکر کرے، تنہا نام نہ لے۔
 
(3) اس کا حق پہچانے اور کبھی اس کا احسان نہ بھولے، امام شعبہ کا ارشاد ہے کہ میں ایک حدیث بھی کسی سے سن لیتا ہوں تو اس کی زندگی بھر کے لیے اس کا غلام بن جاتا ہوں، تعطیم استاد میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اس کی غیبت کرے تو تم تردید کرو اور استاد کی حمایت کرو اور اگر یہ نہ کرسکو تو اس مجلس سے اٹھ جاوٴ۔
 
شاگرد کو چاہیے کہ استاد کی زندگی بھر استاد کے لیے دعا کرے اور مرنے کے بعد اس کی اولاد اور رشتہ داروں اور اس کے دوستوں کا لحاظ کرے اور بالقصد اس کی قبر کی زیارت، اس کے لیے استغفار اور اس کی طرف سے صدقہ کرے اور اس کے چال ڈھال کی پیروی کرے، علم ودین میں اس کی عادات کا لحاظ اور خواہ عبادت ہو یا عادت ہر ایک میں اس کے حرکات وسکنات کی اقتدا کرے۔ جس طرح سے امام ابوداوٴد، امام احمد کے اور وہ وکیع کے اور وہ سفیان کے اور وہ منصور کے اور وہ ابراہیم نخعی کے اور وہ علقمہ کے اور وہ حضرت ابن مسعود کے اور وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے، نشست وبرخاست میں رفتار وگفتار میں۔
 
(4) استاد سے سخت مزاجی یا بد خلقی بھی صادر ہو تو صبر کرے اور اس کی وجہ سے اس کے آنے جانے میں یا عقیدت میں فرق نہ پڑنے پائے، لازم ہے کہ اس کے فعل کی کوئی عمدہ تاویل کرے اور اس کی سختی وبد مزاجی کے موقع پر اپنے ہی کو قصور وار قرار دے اور معاملات میں سبقت کرے اور اپنی حرکت سے توبہ واستغفار کرنا ظاہر کرے۔ اسی میں شاگر د کی دنیا وآخرت کا نفع ہے، امام ابن عمران نے فرمایا کہ جو عالم پر خفا ہوتا ہے اس کی مثال اس شخص کی ہے جو جامع مسجد کے کھمبوں پر خفا ہو۔
 
ابن عیینہ سے کسی نے کہا کہ یہ طالب علم لوگ اتنی دور دور سے آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ ان پر خفا ہوتے ہیں، کہیں وہ آپ کو چھوڑ کر چل نہ دیں؟ ابن عیینہ نے کہا وہ تمہارے ہی جیسے احمق ہوں گے اگر میری بدخلقی کی وجہ سے اپنے نفع کی چیز چھوڑ دیں۔
 
امام ابو یوسف نے فرمایا کہ انسان پر عالم کی مدارات واجب ہے یعنی اس کی تندی وسختی کو اپنی نرمی سے دفع کرنا۔
 
(5) استاد کوئی اچھی بات بتائے یا کسی بری بات پر تنبیہ کرے تو اس کی شکر گزاری ضروری ہے اور جب وہ کوئی نکتہ بتائے تو تمہیں اگر پہلے سے وہ معلوم ہے جب بھی یہ ظاہر نہ کرو کہ یہ تو مجھ کو پہلے سے معلوم ہے۔
 
(6) استاد کے دروازہ پر ادب کے ساتھ آہستہ دستک دے، پہلے ناخنوں سے دستک دے، نہ کام چلے تو انگلیوں سے، ہاں! اگر دور رہتا ہو تو بقدرِ ضرورت دستک کی آواز بڑھا سکتا ہے، استاد کے پاس گیا اور وہاں کچھ لوگ اس سے بات کر رہے ہو اور اس کو دیکھ کر خاموش ہوگئے تو یہ جلدی سے اٹھ کر چلا آئے، الا یہ کہ استاد خود مزید ٹھہرنے کے لیے کہے، استاد سو رہا ہے تو اس کو جگائے نہیں، بلکہ انتظار کرے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر بیٹھے ان کا انتظار کرتے رہتے تھے، لوگ کہتے کہ جگا دیا جائے، تو فرماتے کہ نہیں، حالاں کہ کبھی کبھی دیر تک انتظار کرنے کی وجہ سے دھوپ کی تکلیف برداشت کرنا پڑتی۔
 
(7) استاد کے سامنے نہایت ادب سے بیٹھے، جس سے تواضع وخضوع اور سکون، خشوع مترشح ہوتا ہو اور ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہو، بلا ضرورت دائیں بائیں اوپر نیچے نہ دیکھے، کوئی شور سن کر مضطرب نہ ہو جائے، استاد کے پاس بیٹھا ہوا آستین نہ چڑھائے، ہاتھ پیر سے نہ کھیلے، ڈاڑھی اور منھ پر ہاتھ نہ رکھے، ناک نہ کریدے، دانتوں پر ناخن سے نہ مارے، زمین پر ہاتھ نہ پٹکے، اس پر لکیر نہ بنائے، انگلی نہ چٹخائے، گھنڈی یا بٹن سے نہ کھیلے، اس کے سامنے کسی چیز سے ٹیک نہ لگائے، کسی چیز پر ہاتھ ٹیک کے نہ بیٹھے، ہاتھ پر ٹیک لگائے پیچھے کو جھکا ہوا نہ رہے، اس کی طرف پیٹھ یا پہلو نہ کرے، زیادہ بات نہ کرے، بے ضرورت کھنکھارے نہیں، نہ تھوکے، نہ بلغم نکالے، چھینکے تو منہ چھپا کے، بہت آہستہ سے۔
 
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصیحتیں طلباء کو
 
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حقوق عالم کے باب میں جو نصیحتیں کی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ عالم کو کوئی کام پیش آئے تو تم اس کا کام کرنے کے لیے سب سے آگے بڑھو، اس کی مجلس میں آہستہ آہستہ بات کرو، خدا کے واسطے اس کی توقیر کرو، اس سے لغزش ہوجائے تو اس کی معذرت قبول کرو۔
دوسرے بزرگوں نے فرمایا کہ استاد کے پہلو میں نہ بیٹھو، وہ کہے تب بھی نہ بیٹھو، مگر جب جانو کہ نہ بیٹھنے سے اس کو صدمہ ہوگا تب مضائقہ نہیں ہے۔
 
(8) اس کے ساتھ بڑے ادب سے گفتگو کرے، علماء نے فرمایا ہے کہ اس سے لِمَ (کیوں؟) نہ کہے، اسی طرح لا نسلم (ہم نہیں مانتے) یا من نقل ھذا؟ (اس کو کس نے نقل کیا ہے؟) یا أین موضعہ؟ (یہ کہاں لکھا ہے؟) یہ الفاظ نہ بولے۔
 
بعض سلف نے فرمایا کہ جو اپنے استاد سے لِمَ (یعنی یہ کیوں؟) کہے وہ کبھی فلاح نہ پائے گا، استاد سے بات کرنے میں اس کا خیال رکھے کہ اس طرح کے الفاظ نہ آنے پائیں، سمجھا؟ ہے نا؟ وغیرہ
 
(9) جو بات تم کو معلوم ہے اس کو بھی استاد کی زبان سے اس طرح سنو جیسے تمہیں معلوم نہ تھی اور اس کی طلب تھی اور اس پر خوشی کا اظہار کرو، بلکہ اگر اس کو شروع کرنے کے بعد تم سے پوچھے کہ تم کو معلوم ہے تو یوں جواب دو کہ میں حضرت کی زبان سے اس کو سننا چاہتا ہوں یا جناب جو بات فرما دیں گے وہ زیادہ صحیح ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔
 
(10) استاد کو کوئی خط، درخواست یا استفتاء وغیرہ تہہ کیا ہوا نہ دے کہ ا س کو کھولنے کی زحمت ہو، اسی طرح کتاب دے تو الٹی نہ دے، کوئی خاص مقام دکھانا ہو تو وہ مقام نکال کر دے اور جگہ بتا دے، استاد کوئی چیز دیتا ہو تو اس طرح نہ لے کہ خود استاد کو ہاتھ بڑھانا یا کھسکنا پڑے، اسی طرح کوئی چیز اس سے لینے کے لیے کھسک کر نہ جائے، بلکہ کھڑے ہو کر اور اپنے پیر یا ہاتھ وغیرہ سے استاد کے کپڑوں کو نہ دبائے، قلم دے تو روشنائی میں ڈبو کر، دوات سامنے رکھے تو کھول کر، استاد کے سامنے خود مصلّٰی پر نہ بیٹھے، استاد مجلس سے کھڑا ہو تو فوراً اس کا جوتا پیش کرے یا سیدھا کرے یا کسی اعانت کا محتاج ہو تو اس اعانت کے لیے شاگردوں کو مبادرت کرنی چاہیے۔
 
(11) استاد کے ساتھ رات کو آگے اور دن کو پیچھے چلے، مگر جب کہ اس کے خلاف میں کوئی دوسری مصلحت ہو تو خلاف میں مضائقہ نہیں، نامعلوم مقامات میں جیسے کیچڑ کی جگہ نالی وغیرہ کے پاس خود آگے بڑھ جائے، آگے چلے تو ہر تھوڑی دیر کے بعد مڑکر استاد کو دیکھ لے، استاد کی رائے غلط بھی ہو تو یہ نہ کہے کہ غلط ہے یا یہ رائے ٹھیک نہیں ہے، بلکہ اس طرح کہے کہ مجھ کو یوں کرنے میں مصلحت معلوم ہوتی ہے۔ (تذکرة السامع والمتکلم از ص 87 تا ص112)
 
الآداب الشرعیہ ص179 ج 2 میں ابن الجوزی کے حوالہ سے چند آداب مذکور ہیں:
جب محدث کوئی ایسی حدیث بیان کرے جس کو سامع (طالب علم) پہلے سے جانتا ہے تو اس کو اس میں مداخلت نہ کرنی چاہیے، حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی بعض نوجوان مجھ سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں اور میں اس کو اس طرح سنتا ہوں جیسے وہ میرے کان میں نہیں پڑی ہے، حالاں کہ میں اس کو اس نوجوان کی پیدائش سے پہلے سن چکا ہوں۔ ابن وہب بھی اپنی عادت یہی بیان کرتے تھے، حضرت عطاء کی مجلس میں ایک شخص نے ایک حدیث بیان کرنی شروع کی، ایک دوسرا شخص بیچ میں دخل دینے لگا تو انہوں نے فرمایا ما ھذہ الأخلاق؟ ما ہذہ الأخلاق؟ میں تو بعض آدمیوں کی زبانی ایک حدیث سنتا ہوں اور اس کو بیان کرنے والے سے زیادہ جانتا ہوں، پھر بھی اس طرح سنتا ہوں جیسے مجھے کچھ نہیں معلوم۔ (صفة الصفوة ص 121 ج 2)
 
خالد بن صفوان نے کہا کہ جب تمہارے سامنے کوئی آدمی تمہاری سنی ہوئی حدیث یا جانی ہوئی خبر بیان کرے تو یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں اس کو جانتا ہوں اس میں شرکت نہ کرو، مثلا بیچ بیچ میں بول نہ پڑو کہ ایسا کرنا خفیف حرکت اور بے ادبی ہے۔
 
جب طالب علم کو کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو صبر کرے، تا آنکہ استاد کی بات ختم ہو، اس کے بعد ادب اور نرمی سے پوچھے، درمیان میں ان کی بات نہ کاٹے، ایک حکیم نے اپنے لڑکے کو نصیحت کی کہ حسن کلام کی طرح حسن استماع بھی سیکھنے کی ضرورت ہے اور حسن استماع یہ ہے کہ متکلم کو اپنی بات پوری کرنے کی مہلت دو اور اپنا منھ اور اپنی نگاہ اس کی طرف متوجہ رکھو اور کوئی بات تمہیں معلوم بھی ہو تو دخل مت دو، خاموشی سے سنو۔
 
دوسرے سے کوئی مسئلہ یا بات پوچھی جارہی ہو تو تم مجیب نہ بن جاوٴ۔ لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا إیاک إذا سئل غیرک أن تکون المجیب․ خبردار! دوسرے سے سوال ہو تو تم مجیب نہ بنو۔ ابن بطہ کہتے ہیں میں ابو عمر زاہد کی مجلس میں تھا، کسی نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، میں نے پیش قدمی کر کے جواب دے دیا، تو ابو عمر نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آپ فضولیات کے ماہر معلوم ہوتے ہیں، یہ سن کر میں بہت شرمندہ ہوا۔
 
اسی کتاب الآداب الشرعیہ میں ہے کہ ابو عبید فرماتے تھے علم کا شکریہ بھی ہے کہ تم جب کسی سے علمی مذاکرہ کرو اور اس مذاکرہ سے تم کو نئی معلومات حاصل ہوں تو بعد میں جب کبھی ان معلومات کا ذکر آجائے تو تم کو صاف صاف کہنا چاہیے کہ مجھے ان کی نسبت کچھ معلوم نہ تھا، تاآں کہ فلاں سے مذاکرہ ہوا تو اس نے مجھے یہ بتایا، ایسا کرو گے تو علم کا شکریہ ادا ہوگا، اس طرح نہ بیان کرو کہ گویا تم اپنی طرف سے یہ تحقیق بیان کر رہے ہو۔ (ص 179، ج2)
 
اسی کتاب میں امام شافعی سے منقول ہے کہ اس علم کو کوئی حکومت اور عزت نفس سے حاصل کر کے فلاح نہ پائے گا۔ ہاں! جو اس کو ذلت نفس اور عسرت برداشت کر کے اور علم کی خدمت اور تواضع کر کے حاصل کرے وہ فلاح پائے گا (آداب ص 27 ج 2) اصمعی سے منقول ہے کہ جو آدمی شاگردی کی ذلت تھوڑی دیر برداشت نہ کرے وہ جہالت کی ذلت میں عمر بھر گرفتار رہے گا، ابن المعتز نے کہا کہ جو طالب متواضع ہوگا اسی کو زیادہ علم حاصل ہوگا، جس طرح پست جگہ میں زیادہ پانی اکٹھا ہوتا ہے۔ حضرت زین العابدین مسجد میں آتے تو انبوہ میں گھس کر زید بن اسلم (حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام) کے حلقہ میں جا بیٹھتے، کسی نے ٹو کا تو فرمایا کہ علم کی شان یہی ہے کہ اس کے پاس آیا جائے اور طلب کیا جائے جہاں کہیں بھی ہو۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایک دن امام اعمش کسی طالب علم پر غضب ناک ہوگئے، دوسرے طالب علم نے کہا مجھ پر اس طرح خفا ہوتے تو میں ان کے پاس بھی نہ آتا، یہ سن کر امام اعمش نے فرمایا کہ تمہاری طرح وہ بھی احمق ہے کہ میری کج خلقی کی وجہ سے اپنے نفع کی چیز چھوڑ بیٹھے؟ (آداب ص 28، 29، ج2)
علامہ ابن الجوزی نے فرمایا کہ اپنے سے زیادہ عمر یا علم والے کی موجودگی میں تحدیث نعمت نہ کرے، امام شعبی جب ابراہیم نخعی کے ساتھ ہوتے تھے تو ابراہیم کلام نہیں فرماتے تھے، امام سفیان ثوری نے ابن عیینہ سے ایک بار فرمایا کہ آپ حدیث کیوں نہیں سناتے، یعنی روایت حدیث کا مشغلہ کیوں نہیں اختیار فرماتے؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ جب تک زندہ ہیں اس وقت تک تویہ نہ کروں گا۔ حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ میں عہد نبوی میں لڑکا تھا، جو سنتا تھا محفوظ ہوجاتا تھا، یعنی معلومات کی کمی نہیں ہے، مگر میں خاموش رہتا ہوں کہ مجھ سے معمر صحابہ موجود ہیں، ابن ہبیرہ نے کہا کہ اس سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ نو عمروں کے لیے شیوخ کی توقیر متعین ہے۔ (الآداب الشرعیہ ص 147 ج2)
 
ابن معین نے فرمایا کہ جو شخص ایسے شہر میں حدیث بیان کرے (حلقہٴ تحدیث قائم کرے) جہاں اس سے بہتر محدث موجود ہو وہ احمق ہے، انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جس شہر میں علی بن مسہر جیسا محدث موجود ہو وہاں میں محدث بنوں تو میں اس لائق ہوں کہ میری ڈاڑھی مونڈ دی جائے۔ (آداب ص 70 ج 2)
بہت اختصار کے ساتھ چند متفرق باتوں کو یکجا کر کے میں نے یہاں پیش کیا ہے، اگر استیعاب کا ارادہ کیا جائے تو بہت طوالت ہوجائے گی۔ وفی ھذا القدر کفایة․

مقالات و مضامین سے متعلق