جوئے کی حرمت اور اکل حرام کی قباحت

idara letterhead universal2c

جوئے کی حرمت اور اکل حرام کی قباحت

مولانا انوار الحق قاسمی

میسر: یعنی قمار اور جوا کیا ہے؟ جوا ایک عظیم گناہوں والا شیطانی عمل ہے۔ جوا انسانوں کے باہم بغض وعناد، لڑائی جھگڑے اور فتنہ وفساد کا سبب ہے۔ جوا ناپاک اور باطل طریقہ پر غیروں کا مال ہضم کر جانے کا ایک بدترین ذریعہ ہے۔ جو اجوے باز کو یادِ خدا اور اقامت نماز سے روکنے والا ایک فعل شنیع ہے۔ جوا روح کو مردہ اور آخرت کو تباہ کرنے والی ایک بری چیز ہے۔ جوا فطرت سلیمہ کے ہاں قابل نفرت اور شیطانی جال ہے۔ جوا تباہی قوم اور زوال اخلاق انسانی کا ہتھیار ہے۔ جوا انسان کو بھلے اور برے کاموں کی فکر سے غافل کر دیتا ہے۔ جوا میں فوائد کم اور مفاسد زیادہ ہیں۔ جوا بے شمار مفاسد اور مہلک خرابیوں میں گزرنے کا ایک آلہ ہے۔
”میسر“ لفظ کا لغوی مطلب ”آسانی“ یا ”سہولت“ ہے۔ یہ لفظ عربی زبان کے لفظ ”یسر“ سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں بائیں ہاتھ کے، اور محاورتاً بائیں ہاتھ کا کام آسانی سے ہو جانے کی وجہ سے ”آسانی“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لیے میسر کا مطلب وہ چیز ہے، جو آسانی سے حاصل ہو جائے یا دست یاب ہو۔ میسر کا ایک اور پہلو ”جوئے“ یا ”قمار بازی“ کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے، جہاں اسے ”آسانی سے حاصل ہونے والی دولت“ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ جوا کھیلنے سے حاصل ہوتی ہے اور قرآن کریم میں لفظ ”میسر“ جوا ہی کے معنی میں مستعمل ہے۔ میسر: یعنی قمار اور جوا کی تعریف یہ ہے کہ ”جس معاملے میں کسی مال کا مالک بنانے کو ایسی شرط پر موقوف رکھا جائے، جس کے وجود وعدم کے دونوں جانبین مساوی ہوں اور اسی بنا پر نفع خالص یا تاوان خالص برداشت کرنے کی دونوں جانبین بھی برابر ہوں۔ (شامی ص: 355 / ج: 5 کتاب الحظر والاباحة) مثلا یہ بھی احتمال ہے کہ زید پر تاوان پڑ جائے اور یہ بھی ہے کہ عمرو پر پڑ جائے۔ ہر قسم کے جوئے میں تین چیزیں مشترک ہوتی ہیں: (1) شرط پر لگائی گئی رقم یا چیز کا تعین۔ (2) شرط جیتنے یا ہارنے پر ہونے والے نفع یا نقصان کا تخمینہ۔ (3) کھیلنے والوں کا معاہدہ۔ جوے کی جتنی قسمیں اور صورتیں پہلے زمانے میں رائج تھیں یا آج رائج ہیں یا آئندہ ہوں گی،سب میسر، قمار اور جوا کہلائے گا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”المخاطرة من القمار“ یعنی مخاطرہ قمار میں سے ہے۔ (جصاص) ابن سیرین نے فرمایا: جس کام میں مخاطرہ ہو وہ میسر میں داخل ہے۔ (روح البیان) مخاطرہ کا معنی ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے، جو نفع و ضرر کے درمیان دائر ہو۔

تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ ”میسر“ میں جوئے کی تمام صورتیں داخل اور سب حرام ہیں۔

ابتداءِ اسلام میں عام رسوم جاہلیت کی طرح میسر، یعنی جوے کا بھی ایک عام رواج تھا، لوگ جوئے بازی کو غلط خیال نہیں کرتے تھے۔ مگر چوں کہ قباحت اس کی ذات میں تھی اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حرمت سے پہلے بھی اس سے محفوظ رہے اور چند صحابہ کرام کو جوئے سے حرمت سے پہلے بھی نفرت تھی اور انہیں محسوس ہوا کہ جوئے بازی مذہب اسلام کے خلاف ہے، اس لیے انہوں شراب اور جوئے سے متعلق ایک مشترکہ سوال کیا تو اس سوال پر خدائی جواب آیا: ﴿یسألونک عن الخمر والمیسر، قل فیھما إثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعہما﴾․ (سورة البقرة: 219)

ترجمہ: آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ فرمادیجیے: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں شراب اور جوئے کی صرف مذمت بیان کی گئی ہے، حرمت کا صریحی حکم سورہ مائدہ: 90 میں نازل ہوا ہے۔ ان دونوں کی مذمت اللہ نے یوں بیان فرمائی کہ جوئے اور شراب کا گناہ اس کے نفع سے زیادہ ہے، نفع تو یہی ہے کہ شراب سے کچھ سُرور پیدا ہوتا ہے یا اس کی خرید وفروخت سے تجارتی فائدہ ہوتا ہے اور جوئے میں یہ فائدہ ہے کہ اس سے کبھی مفت کا مال ہاتھ آجاتا ہے، لیکن شراب اور جوئے کی وجہ سے ہونے والے گناہوں اور فسادات کا کیا شمار؟!

جوئے کی حرمت کا حکم نازل فرماتے ہوئے خدائے پاک نے قرآن پاک میں یوں فرمایا ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (المائدة: 90) اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب جوا بُت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں، سوان (اعمال ذمیمہ) سے بالکل الگ رہو، تاکہ تم کو فلاح ہو۔ (سورہ مائدہ: 90)

قرآن کریم کی متذکرہ آیت مبارکہ میں خدائے رحمن نے ان چار چیزوں کو رجس فرمایا ہے۔ رِجس عربی زبان میں ایسی گندی چیز کو کہا جاتا ہے، جس سے انسان کی طبیعت کو گھن اور نفرت پیدا ہو۔ یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ذرا بھی عقل سلیم اور طبع نفیس رکھتا ہو تو خود بہ خود ہی ان چیزوں سے اس کو گھن اور نفرت ہوگی۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جو شخص نرد (چوسر) جوئے کے طور پر کھیلتا ہے، وہ خنزیر کا گوشت کھانے والے کی طرح ہے اور جو شخص نرد جوئے کے طور پر نہیں کھیلتا تو اس کی مثال خنزیر کی چربی کا تیل استعمال کرنے والے کی طرح ہے۔ (کتاب الآداب، فصل فی اللعب بالنرد وما جاء فیہ، ج: 14 ص: 372 ط: دار کنوز)

صحیح بخاری میں ہے: عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”من حلف فقال فی حلفہ: واللات والعزی، فلیقل: لا إلہ إلا اللّٰہ، ومن قال لصاحبہ: تعال أُقامرک فلیتصدق“․ (کتاب تفسیر القرآن ج: 6 ص: 141 ط: دار طوق النجاة )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے قسم کھائی لات اور عزیٰ کی تو اس کو چاہیے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہے اور جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ”آؤ جوا کھیلیں“ تو اس کو چاہیے کہ وہ صدقہ کرے۔

جوئے کی ممانعت کی حکمت کا تذکرہ کرتے ہوئے خدائے متعال نے فرمایا: ﴿إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ“ (سورة المائدة: 91)

ترجمہ: شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کر دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے، سو اب بھی باز آؤ گے؟۔ (از بیان القرآن)

جوئے میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ فائدہ یہی ہے کہ انسان بیٹھا بیٹھا آن واحد میں لکھ پتی، کروڑ پتی، ارب پتی اور نہ معلوم کون کون پتی بن جاتا ہے اور اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان جھٹکے میں غریب بن جاتا ہے، جس کا خمیازہ جوئے باز سمیت اس کی اولاد اور ماں باپ کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کے اور بھی کئی نقصانات ہیں: آدمی سب کی نظروں میں ذلیل وخوار ہو جاتا ہے، جوئے باز، سٹے باز کے نام سے بد نام ہوتا ہے، زندگی تباہ وبرباد ہو جاتی ہے، محنت سے جی چرانا شروع ہو جاتا ہے اور مفت خورہ بننے کی عادت پڑ جاتی ہے، وغیرہا۔

جوئے سے حاصل شدہ مال حرام ہے اور حرام اموال کے کھانے سے شریعت میں تاکید کے ساتھ روکا گیا ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ﴾ (النساء: 29)

ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ! اِلا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے)۔ (سورة النساء: 29)

علماء نے ناحق طریقے سے مال کھانے کے ضمن میں بے شمار چیزیں ذکر کی ہیں، جن میں سے ڈکیتی، چوری، رشوت، سود، جوا، غصب، خیانت، ناپ تول میں کمی بیشی، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، مال یتیم میں خرد برد اور جھوٹی قسم سے حاصل کیا گیا مال سر فہرست ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے مومن بندوں کو دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ! اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یارب! یارب! کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام ہو، اس کا پہننا حرام ہو تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟ (صحیح مسلم: 1015 جامع ترمذی: 2989)

چناں چہ مورخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ”مستجاب الدعاء“ لوگوں کی ایک جماعت تھی۔ جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا اس کے لیے بد دعا کرتے وہ ہلاک ہو جاتا۔ حجاج ظالم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اس نے ایک دعوت کی، جس میں ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا اور جب کھانے سے فارغ ہو چکے تو اُس نے کہا کہ میں ان لوگوں کی بددعا سے محفوظ ہو گیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ میں داخل ہو گئی۔ (فضائل رمضان: 29)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے لیے دُعا کیجیے کہ میں ”مستجاب الدعوات“ ہو جاؤں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اپنے کھانے کو پاک کرو! اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا۔ جس شخص کا بدن حرام مال سے بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اور کچھ بھی نہیں ہے“۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: 6495)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا؛ لیکن اس میں ایک درہم حرام کا تھا، تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا، اُس کی نماز قبول نہیں ہو گی“۔(مسند احمد: 5732)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت میں ہے کہ: ”جس نے حرام مال سے کرتا پہنا تو اس کی نماز قبول نہیں“۔ (مسند بزار: 819)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”منھ میں خاک ڈال لینا اس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص حرام مال اپنے منھ میں ڈالے“۔ (شعب الایمان: 5379)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”اگر کسی نے حرام مال جمع کیا، پھر اُس میں سے زکوة ادا کی یا صدقہ دیا تو اس کو اِس کا کچھ اجر نہیں ملے گا، بلکہ الٹا اُس کو اس کا وبال ہو گا“۔ (صحیح ابن حبان: 2267، 3216، مستدرک حاکم: 1440، شعب الایمان: 3202)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کو فرمایا کہ تم ایسا کام کر رہے ہو، جس سے پہلی امتیں ہلاک ہو چکی ہیں۔ (ترمذی: 1217)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”ناپ تول میں کمی بیشی سے ”قحط“ پڑ جاتا ہے، جس طرح ”زنا“ کی کثرت سے ”طاعون“ مسلط ہو جاتا ہے“۔ (ابن ماجہ: 4019، شعب الایمان: 10066)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ (صحیح مسلم: 101)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس نے دھو کہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور دھو کہ اور فریب (دونوں دوزخ کی) آگ میں (لے جانے والے) ہیں“۔ (المعجم الصغیر للطبرانی: 738)

حضرت ابوالحمراء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ”ایک شخص نے سوکھے گیہوں اوپر رکھ چھوڑے تھے اور گیلے اندر کر دیے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اٹھا کر دیکھا اور فرمایا کہ: ”جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ (ابن ماجہ: 2225)

حضرت معمر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”غلہ مہنگا کرنے کے لیے خطا کار شخص ہی روکتا ہے“۔ (ترمذی: 1267، صحیح مسلم: 1605)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس شخص نے چالیس دن سے زیادہ ”غلہ“ کو روکا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی واسطہ نہیں“۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 20396، مسند احمد: 4880 مسند ابی یعلی: 5146 مستدرک حاکم: 216 5) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”غلہ کو روکنے والا ملعون ہے“۔ (ابن ماجہ: 2153 سنن دارمی: 2586)

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جو شخص غلہ کی گرانی میں کوشش کرتا ہے اور نرخ میں دخل اندازی کر کے غلہ کا بھاؤ مہنگا کر دیتا ہے تو ایسا شخص اس قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی تہہ میں ڈالے“۔ (مسند ابو داؤد الطیالسی: 970، المعجم الاوسط للطبرانی: 8651، متدرک حاکم: 2168)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”جو شخص شدید ضرورت کے وقت غلہ کو روکے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کو ”جذام“ اور ”افلاس“ میں مبتلا کر دے گا“۔ (شعب الایمان: 10704، مسند ابی داؤد الطیالسی: 55)

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”بائع اور مشتری جب سچ بولتے ہیں تو برکت ہوتی ہے۔ جب کچھ چھپاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تو برکت ختم ہو جاتی ہے۔ جھوٹی قسم سے مال تو بک جاتا ہے، مگر برکت ختم ہو جاتی ہے“۔ (صحیح بخاری: 2079، صحیح مسلم: 1532)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جو شخص جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کی طرف نظر بھر کر بھی نہ دیکھے گا“۔ (صحیح بخاری: 2369)

جس مال کے حلال وحرام ہونے میں اشتباہ ہو اس کے بھی کھانے سے مسلمانوں کو گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ مشتبہ مالوں کا کھانا حرام خوری تک پہنچانے والا عمل ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کر لیا اور جو شخص شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے گزر رہے تھے، وہاں آپ نے ایک کھجور کا دانہ پڑا دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ: ”لَوْلَا اَنِّی أَخَافُ أَن تکون من الصَّدَقَةِ لأکلتہا…“ ”اگر مجھے اس کھجور کے بارے میں صدقہ کا خوف نہ ہوتا تو میں اسے کھالیتا“ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے شبہ کی وجہ سے وہ کھجور نہیں کھائی، باوجودیہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت تھی۔ اسی لیے ضرورت کے مواقع پر بھی انسان اپنے آپ کو مشتبہ سے بچالے، یہ کمالِ احتیاط ہے۔

مشتبہ مالوں کے معاملے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تو کیا ہی کہنا! ان کے بلند رتبے اور ذوق تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے! یہ حضرات مباح اور جائز اُمور کو بھی بسا اوقات ترک کر دیتے تھے کہ کہیں ہم ممنوع کی جانب نہ چلے جائیں۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بخاری شریف میں آتا ہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی، آپ نے اس چیز میں سے کچھ کھالیا، اس کے بعد غلام نے بتایا کہ مجھے یہ چیز اس طرح حاصل ہوئی تھی کہ اسلام کے دور سے پہلے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کو میں نے اپنے آپ کو کاہن ظاہر کر کے کچھ بتلایا تھا، جیسے نجومی کا ہن لوگ ہوتے ہیں، لوگوں کو مستقبل کے احوال وغیرہ بتلاتے رہتے ہیں، شریعت نے ان چیزوں سے سخت منع کیا ہے، ایسے لوگوں کے پاس جانا بھی جائز نہیں، چہ جائیکہ ان سے مستقبل کے احوال پوچھے جائیں یا ان پر یقین کیا جائے، شریعت میں اس کی سخت ممانعت ہے۔ بہر حال! غلام نے کہا کہ اس کہانت کے بدلہ میں اس شخص نے مجھے یہ چیز دی تھی، جو میں نے آپ کو کھانے کے لیے دی۔ بخاری شریف میں ہے: ”فَأَدخل أبوبکرٍ یدہ فَقَاءَ کُل شیء فی بطنہ…“ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً حلق میں انگلی ڈال کرقے کر دی کہ یہ چیز تو مشتبہ ہوگئی۔ دیکھیے! یہ لاعلمی میں جو کھا لیا یہ حرام نہیں تھا، مگر یہ ان حضرات کا تقویٰ تھا کہ جیسے ہی اشتباہ پیدا ہو گیا تو انہوں نے فوراً اپنے پیٹ سے اس چیز کو نکال دیا۔

اسی طرح حدیث کی کتابوں میں سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت زید بن اسلم رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دودھ نوش فرمایا تو انہیں بہت اچھا لگا، جس شخص نے انہیں دودھ پلایا تھا اس سے امیر المؤمنین نے پوچھا کہ یہ دودھ کہاں کا ہے؟ اس نے انہیں بتایا کہ ایک پانی پر (یعنی نام لے کر بتایا کہ فلاں جگہ جہاں پانی تھا) میں گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ زکوة کے بہت سے اونٹ موجود ہیں اور انہیں پانی پلایا جارہا ہے، پھر اونٹ والوں نے اونٹوں کا تھوڑا سا دودھ نکالا، اس میں سے تھوڑا سا دودھ میں نے بھی لے کر اپنی مشک میں ڈال لیا، یہ وہی دودھ ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منھ میں ڈالا اور قے کر دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل کمال تقویٰ اور انتہائی ورع کی بنا پر تھا، ورنہ جہاں تک مسئلے کی بات ہے، یہ تو اگر مستحق زکوٰة مال کا مالک ہو جانے کے بعد اسے کسی غیر مستحق زکوٰة کو ہبہ کر دے یا اسے تحفہ کے طور پر دے دے تو اسے استعمال میں لانا اور کھاناجائز ہے۔

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات یاد رکھی ہوئی ہے کہ جو چیز شک میں ڈالے اُس کو چھوڑ دیا جائے اور اُس چیز کی طرف بڑھا جائے جو شک میں نہ ڈالے؛ اس لیے کہ صحیح چیز میں اطمینان ہوتا ہے اور غلط چیز میں شک ہوتا ہے۔ (مشکوٰة شریف)

جس گھر میں حلال و حرام دونوں قسم کی آمدنی آتی ہو اور دونوں میں امتیاز ہوتا ہو، تو حلال آمدنی کا استعمال جائز اور حرام کا استعمال ناجائز ہوگا، تاہم اگر حلال وحرام دونوں قسم کی آمدنی مخلوط ہو اور امتیاز بھی ممکن نہ ہو تو حرام کی کثرت کی صورت میں کل مال کا استعمال ناجائز ہوگا۔ ”إن الحکم للغالب، وإذا کان الغالب ہو الحرام کان الکل حراما فی وجوب الاجتناب عنہا فی حالة الإختیار“․

مسلمانوں سے اب حلال وحرام اعمال وافعال اور اموال کے درمیان فرق و امتیاز کی کیفیت تقریباً ختم ہو رہی ہے اور لوگ حرام کام کو حرام اور ناجائز مال کو ناجائز تصور نہیں کر رہے ہیں اور سبھوں کو ایک ہی زمرہ میں شامل کر کے ہضم کرتے جارہے ہیں، جس کی بنا پر مسلمانوں کے قلوب سخت ہوتے جارہے ہیں اور باہمی رواداری ومحبت کا خاتمہ ہو رہا ہے اور نفرت کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے امت مسلمانوں کے دلوں میں اعمال محرمہ اور اموال ممنوعہ کی قباحت ونفرت ڈالنے کی کام یاب محنت کریں اور ان سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جگہ جگہ بڑے بڑے جلسے کیے جائیں، تب جا کر لوگوں میں کچھ سدھار ممکن ہے؛ ورنہ رفتہ رفتہ امت مزید تباہی کی طرف جاسکتی ہے۔

تعمیر حیات سے متعلق