تعصُّب ناسور سے بھی بدتر!

تعصُّب ناسور سے بھی بدتر!

مولانا حافظ زبیر حسن

حضرت جبیر بن مطعم رضی الله عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنا پر مرے“۔(سنن ابی داؤد) عصب کا لفظی معنی ہے”بدن کا پٹھہ“ اور عصبہ عربی زبان میں والد کی طرف کے رشتہ داروں کوکہتے ہیں، کیوں کہ معاشرہ میں عموماً ددھیال (باپ کے رشتہ دار) ہی کی وجہ سے خاندان کا معیار سمجھا جاتا ہے او رانہی رشتہ داروں کی طاقت کو اگلی نسل اپنی طاقت سمجھتی ہے، اس لیے عصبیت اور تعصب کا مفہوم اہل لغت نے یہ بیان کیا کہ ”اپنیآباء واجداداوراپنی قوم پر فخر کرنا، ان کی حمایت کرنا“ لیکن اسلامی اصطلاح میں تعصب کا مفہوم رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا، جب حضرت واثلة بن الاسقع رضی الله عنہ نے پوچھا یا رسول الله!”ما العصبیة؟“(عصبیت کیا ہے؟) فرمایا:”ان تعین قومک علی الظلم“ (عصبیت یہ ہے کہ تو ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرے) اسلامی احکام کے مطابق خاندان، قبیلوں، برادریوں، ذاتوں، علاقوں، صوبوں اور شہروں کی تقسیم او ران کی بناء پر انسانوں کی تقسیم فطرت کے عین مطابق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورتمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو، الله کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار ہے“۔ (الحجرات:13) تفسیر مظہری میں امام بغوی رحمہ الله سے روایت ہے کہ یہ آیت فتح مکہ کے موقع پر اس وقت نازل ہوئی جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال حبشی رضی الله تعالیٰ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا۔ قریش مکہ جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے، ان میں سے ایک شخص نے کہا”خدا کا شکر ہے کہ میرے والد پہلے ہی وفات پاگئے ہیں ،ان کو یہ برادن نہیں دیکھنا پڑا، حارث بن ہشام نے حضرت بلال رضی الله عنہ کے رنگ کے حوالے سے سخت کلمات کہے۔ ابوسفیان بولے میں کچھ نہیں کہتا، کیوں کہ مجھے خطرہ ہے کہ میں کچھ کہوں گا تو آسمان کا مالک ان کو خبر کر دے گا، چناں چہ جبرئیل امین تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی۔

بہرحال یہ بات واضح ہوئی کہ خاندان، برادری اور وطنی ولسانی تقسیم خلاف فطرت اور خلاف اسلام نہیں، لیکن آج اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اس تقسیم کا مقصد الله تعالیٰ نے ”لتعارفوا“ بتایا ،یعنی اس تقسیم کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کی شاخت کر سکیں، ایک دوسرے سے تعارف ہو سکے کہ یہ شخص فلاں ملک سے، فلاں صوبہ کے، فلاں شہر کے، فلاں قبیلہ اوربرادری کے فلاں خاندان سے ہے۔ لیکن اب یہ تقسیم تعصب کے لیے استعمال ہونے لگی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اپنے خاندان یا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت میں داخل نہیں۔ مسند احمد او رابن ماجہ میں عبادة بن کثیرشامی سے ایک فلسطینی عورت نسیلہ نامی کی اپنے والد سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے تو کیا یہ عصیبت میں داخل ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، لیکن عصبیت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم کی حمایت کرے حالاں کہ وہ قوم ظلم کر رہی ہے۔“ اگر قوم پر ظلم ہو رہا ہو تو اپنی قوم کی طرف سے ایک حد تک دفاع کرنا بھی جائز ہے۔ ابوداؤد میں سراقہ بن مالک بن جعشم رضی الله عنہ سے روایت ہے ”ہمیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے خاندان کی طرف سے (ظلم کی ) مدافعت کرے، جب تک وہ اس دفاع میں گناہ کا مرتکب نہ ہو“ یعنی اپنی قوم، اپنے خاندان پر ہونے والے ظلم کا دفاع کرسکتا ہے، لیکن اس میں بھی اپنی طرف سے ظلم نہ ہونے دے۔

اسلام میں ایک خاندان کو دوسرے خاندان کے نسب کی وجہ سے برا نہیں کہا جاسکتا۔ ارشاد نبوی ہے” انساب ایسی چیز نہیں کہ تم ان کی وجہ سے کسی کو برا کہو“(راوہ احمد) اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے آباء واجداد پر فخر کرنے سے بھی منع فرمایا۔ قومی ، نسلی اور علاقائی تعصب آج جس تیزی سے آگ کی طرح پھیل رہا ہے، یہ محض اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ الله رب العزت نے قوم او رخاندان اور قبیلوں کی تقسیم کا مقصد محض تعارف بتایا اور الله تعالیٰ نے اس کے بعد فوراً یہ ارشاد فرمایا۔” بے شک الله کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا … وہ شخص ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گار ہو“۔(الحجرات) لہٰذا ضرورت ہے کہ ہر قسم کے تعصب سے ذہنوں کو پاک کرکے یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ عزت وذلت کا معیار تقویٰ ہے، الله رب العزت ہمیں ہر طرح کے تعصب سے اوراس کے بھیانک نتائج سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!