ترقی غلط فہمی اور درست مفہوم

ترقی غلط فہمی اور درست مفہوم

مولانا محمد عاشق الہٰی البرنیؒ

 

دورِ حاضر میں جن چیزوں میں ترقی سمجھی جاتی ہے اس میں اصل الاصول تو اغیار کی تقلید اور مشابہت ہے او راسی کے ذیل میں مال کی کثرت اوراس کی محبت اور بے حیائی اور عصمت وعفت سے دشمنی اور بلند مکانات پر فخر اور فرنیچر اور تصاویر کی رغبت آجاتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ترقی ان چیزوں میں نہیں ہے، ترقی اس میں ہے کہ اخلاق بلند ہوں اور افعال واوصاف عمدہ ہوں۔

مال کی محبت
سب سے پہلے مال کی کثرت او راس کی محبت کو لے لیجیے، اس میں شک نہیں کہ مال انسانی ضرورت کی چیز ہے، جب دنیا میں رہنا ہے او رجینا ہے تو اپنے لیے او راپنے متعلقین کے لیے ”کسب حلال“ بھی ضروری ہو گا۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
”طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة․“
حلال مال کا طلب کرنا فرض کے بعد فریضہ ہے۔

اگر حلال مال تک کمائی محدود رہے، حلال ہی کمائیں، حلال خرچ کریں او رممنوعات میں نہ لگائیں اور حقوق الله وحقوق العباد کی ادائیگی کا خیال رکھیں تو ایسا مال دار بننا جائز ہے، البتہ اسراف وریا کاری حلال مال کے ذریعہ بھی حرام ہے ۔

لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب مال زیادہ ہو جائے تو دنیاوی رسوم اور رواجی اخراجات میں خرچ کرنے لگتے ہیں اور صریح گناہوں میں مال کھپاتے ہیں۔ مال زیادہ ہو تو فاسقوں فاجروں والا لباس پہننے لگتے ہیں ، گھر میں تصویریں سجالیں، گانے بجانے کا سامان خرید لیا، ٹیلی وژن لے آئے، بچوں کو معاشقے سکھانے لگے، ڈرامے دکھانے لگے، ان کو گانوں کا شوقین اور بے حیائی اور بے شرمی کا خوگر بنا دیا، بڑی بڑی فیس ادا کرکے ان کو انگلش اسکولوں میں داخل کرکے اسلام سے دور کر دیا، کافرانہ سج دھج سے مانوس کر دیا، کیوں کہ کافرانہ طور طریق میں او رکافروں کی مشابہت میں کوٹ پتلون اورٹائی میں ( جو اسراسر نصرانیت کا شعار ہے ) ترقی نظر آتی ہے او رقرآن وحدیث پڑھانے میں تنرل نظر آتا ہے۔ العیاذ بالله۔

سود ، قمار، رشوت
بڑا مال داربننے کے حرص میں حلال حرام کی تمیز نہیں کی جاتی،حلال عموماً زیادہ نہیں ملتا ہے ،حرام طریقوں سے رئیس کبیر بنتے ہیں۔

بہت سے لوگ لائف انشورنس یعنی بیمہٴ زندگی کراتے ہیں۔ یہ معاملہ قمار، یعنی جواہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ اگر کسی شخص نے جہالت کی وجہ سے کچھ اقساط جمع کی ہوں تو توبہ کرے او رجس قدر رقم جمع کی ہے صرف اسی قدر وصول کر لے، اس سے زائد اس کو یا اس کے وارثوں کو لینا حرام ہے اوربہت سے لوگ بینک سے سود لیتے ہیں یا سود دیتے ہیں او رخاصی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو عوام کو قرض دے کر سود وصول کرتے ہیں۔ جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ بیمہٴ زندگی حرام ہے او رسود کا لین دین بھی حرام ہے او رباعث ِ لعنت ہے تو مولویوں کو کوسنے لگتے ہیں او رکہتے ہیں کہ مولویوں کا یہی کام ہے کہ قوم کی ترقی کا جو بھی کوئی راستہ نکلتا ہے اس میں آڑے آجاتے ہیں اور فتوے ٹھوکنے لگتے ہیں۔ دوسری قومیں کہاں سے کہاں نکل گئیں؟ ان میں بڑے بڑے مال دار ہیں، سیٹھ ہیں۔ ان کے بینک جاری ہیں، مولویوں نے قوم کو تنگ دستی کے غار میں دھکیل دیا اور چناں ہے، چنیں ہے۔ مولویوں کا تو احسان یہ ہے کہ وہ یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ کام حرام ہے اورگناہ ہے، وہ اپنے پاس سے کچھ کہیں تو طعن وتشنیع کرنے کی کوئی وجہ بھی ہے، لیکن جب وہ قرآن وحدیث سے بیان کرتے ہیں تو جو لوگ مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں ان پر لازم ہے کہ مولویوں کی بات مانیں اور حرام سے بچیں۔

حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سود کا ایک درہم جس کو انسان کھا لے اور وہ جانتا ہو کہ یہ سود کا ہے تو یہ چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے اور دوسری حدیث میں یوں ہے کہ سود کے گناہ کے ستر حصے ہیں ،ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے زنا کرے۔ (مشکوٰة المصابیح، ص:246)

حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے لعنت بھیجی سود کھانے والے پر اور سودکھلانے والے پر او راس کے لکھنے والے پر او راس کے گواہوں پر اور فرمایا کہ (گناہ میں ) یہ سب برابر ہیں۔ (مشکوٰة المصابیح،ص:244)

اسلام کے دعوے داروں کا یہ حال ہے کہ طاعات وعبادات کے ذریعہ الله کی رحمتیں اور برکتیں لینے کو تیار نہیں، گناہوں کے ذریعہ ترقی کرنا چاہتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ گناہ کے ذریعہ جو مال ملے گا وہ حرام بھی ہو گا اور بے برکت بھی، نیز دنیا کی بربادی کا بھی ذریعہ ہو گا اور آخرت کے عذاب کا بھی سبب ہو گا۔ کافروں کی دیکھا دیکھی گناہوں کے ذریعہ مالیاتی ترقی کرنا بہت بڑی بھول ہے۔

کافر کے لیے تو دنیا ہی ہے۔ موت کے بعد تو اس کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔ ان کے لیے دنیا جنت ہے۔ ان کی مالیاتی ترقی اور لذتوں والی زندگی دیکھ کر حرص کرنا، رال ٹپکانا، اپنے ایمان واسلام کی ناقدری ہے۔

بہت سے لوگ یوں کہتے ہیں کہ جوا، بیمہٴ زندگی اور سود کے لین دین میں نفع ہے۔ مولوی لوگ نفع کی چیزوں سے منع کرتے ہیں۔ خدمت میں عرض یہ ہے کہ مولوی اپنے پاس سے منع کریں تب تو ان کو جا کر برا کہا جائے ۔ہر فائدہ کی چیز حلال نہیں ہوتی۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے : ﴿یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا﴾․(سورہ بقرہ، آیت:129)

وہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، آپ فرما دیجیے کہ ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔ اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔

کتنی واضح بات ہے کہ نفع ہوتے ہوئے بھی ان میں بڑا گناہ بتایا ہے۔ اہل دنیا صرف دنیا کے ظاہری موجودہ نفع کو دیکھتے ہیں، نہ اس کے دنیاوی انجام پر نظر رکھتے ہیں، نہ آخرت کی بربادی کا خیال کرتے ہیں کہ مال داری کی حرص میں رشوت کا لین دین بھی ہوتا ہے۔ ملازمت کی تنخواہ ایک ہزار ہے، لیکن ماہانہ آمدنی دس ہزار ہے۔ یہ دس ہزار رشوت کے ذریعہ وصول کیے جاتے ہیں او رملازمین جو مال دار ہوتے ہیں ان کے پاس رشوت ہی سے زیادہ مال جمع ہوتا ہے۔ حضرت ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سرور عالم صلی الله علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے رشوت لینے والے پر اور رشوت دینے والے پر اور اس پر جو ان دونوں کے درمیان واسطہ بنے۔ (مشکوٰة المصابیح:326)

اگر رشوتیں لے کر نئے نئے ڈیزائن کی خوب صورت بلڈنگیں کھڑی کر لیں۔ سود کی رقم سے لکھ پتی ہو گئے۔ حرام مال سے کارخانے چلا لیے او رکمپنی کھول کر منیجنگ ڈائریکٹر بن گئے، کیا یہ ترقی ہے؟ یہ کوئی ترقی نہیں ہے۔ ترقی یہ ہے کہ مال حلال کا ہو ۔ شریعت کے مطابق دنیاوی حلال ضرورتوں میں خرچ ہوتا ہو اور آخرت کے لیے ذخیرہ بنایا جاتا ہو۔

زیادہ مال کی ہوس میں لوگ اپنے ملکوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ یورپ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا کی طرف لپک رہے ہیں، وہاں مال زیادہ ہے، مگر بے دینی ہے، فحاشی ہے، عریانی ہے، آزادی ہے، جو سرا سر بربادی کا ذریعہ ہے، مگر ہری بھری دنیا آخرت کی کام یابی کے لیے سوچنے ہی نہیں دیتی۔ اولاد وہاں کے ماحول کے مطابق طور طریق اختیار کر رہی ہے اور آزادی وفحاشی، عریانی وبے حیائی میں سب مگن ہیں۔ وہاں کے قوانین کے مطابق اولاد کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ اگر موجودہ نسل کو کسی نے سنبھال بھی لیا تو آئندہ نسلوں کی تباہی تو بہرحال ہے ہی۔ آخر ایسے مال کی کیا ضرورت ہے؟ جو اپنی اولاد کو دین وایمان سے اور اعمال اسلام سے دور کر دے۔ اولاد کے لیے دوزخ کا سامان کر دینا تو اپنے ہاتھ سے ذبح کر دینے سے بھی زیادہ ظلم ہے، کیوں کہ ذبح کی تکلیف وقتی ہوتی ہے اور دوزخ کا عذاب سخت بھی ہے اور دائمی بھی (اگر ایمان پر موت آگئی ،لیکن اعمال کی وجہ سے عذاب ہو کر چھٹکارا ہوا تو اس کی مدت بھی تو کم نہیں ہے۔)

مذکورہ ملکوں میں جاکر بستے ہیں، نہ لباس اسلامی رہتا ہے، نہ سرور عالم صلی الله علیہ وسلم جیسی شکل وصورت بھاتی ہے، نہ حلال حرام کی تمیز رہتی ہے۔ حرام چیزیں بلا تکلف کھاتے ہیں او ربغیر بسم الله کا ذبح کیا ہوا گوشت تو وہاں بہت ہی عام ہے۔ وہاں محلوں میں کھانے پینے کی ضرورت کی چیزیں فروخت کرنے کے لیے دکانیں کھول لیتے ہیں، شراب اور سور کا گوشت اسلام کے نام لیوا بغیر کسی جھجک کے فروخت کرتے ہیں۔

حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے لعنت بھیجی شراب پر اور اس کے پینے والے پر او راس کے پلانے والے پر اور اس کے بیچنے والے پر او راس کے خریدنے والے پر اوراس کے بنانے والے پر او راس کے بنوانے والے پر او راس کے اٹھانے والے پر اور جس کے پاس لے جائی جائے اس پر۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

یورپ،امریکا، آسٹریلیا میں اسلام سے نسبت رکھنے والوں نے دکانیں کر رکھی ہیں۔ مذکورہ بالا چیزیں خریدتے اور فروخت کرتے ہیں، قصداً وارادةً لعنت کے کام اور لعنت کے کاروبار کرتے ہیں۔

إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ