
علماء کو دین کے تمام شعبوں کا جامع ہونا چاہیے
آپ لوگ مقتدا بننے والے ہیں، اس لیے آپ کے اندر سب شعبے دین کے ہونا چاہییں، عالم وہ ہے جو علوم کے تمام شعبوں کا عالم ہو، حسین وہ ہے جس کی ناک، کان، آنکھ سب ہی حسین ہوں، سب چیزیں موزوں یا متناسب ہوں، اگر سب چیزیں اچھی ہوں مگر آنکھوں سے اندھا یا ناک کٹی ہو تو وہ حسین نہیں۔ اسی طرح دین دار وہ ہے جو دین کے تمام شعبوں کا جامع ہو۔ (تجدید تعلیم ص: 227)
علماء وطلبہ سے خاص خطاب
میں علماء وطلبہ سے خاص طور پر خطاب کرتا ہوں کہ آپ حضرات جو علم پر ناز کیے بیٹھے ہیں اور علم کے فضائل اور درجات عالیہ کا مستحق اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور موقع بے موقع عوام کے سامنے ”فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم“ پڑھ دیا کرتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ فضائل کون سے علم کے ہیں؟ مطلق علم یا علم مع العمل کے؟ اگر عالم بے عمل کے لیے کتاب وسنت میں وعیدیں نہ ہو تیں تو تمہارا ناز کسی درجہ میں تسلیم کیا جاتا، مگر ان وعیدوں کے ہوتے ہوئے نفس علم کیسے باعث فخر ہوسکتا ہے؟ (الافاضات ص: 53)
محض کتابیں پڑھ لینے سے آدمی عالم نہیں ہوجاتا، بلکہ علم دوسری چیز کا نام ہے، جب ڈاکٹری کی کتابیں پڑھ لینے سے ہر شخص طبیب نہیں بن جاتا، بلکہ جس کو علاج کا ملکہ (مہارت) حاصل ہو جائے وہی طبیب ہوتا ہے، اسی طرح بعض لوگوں کو حدیث وقرآن اور فقہ کی کتابیں پڑھ لینے سے علم کی حقیقت حاصل نہیں ہوتی، محض الفاظ یاد ہو جاتے ہیں، علم کی حقیقت حاصل ہونے کے لیے کتابوں کے سوا ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہے، جس کو اس زمانہ کے ایک شاعر نے خوب کہا ہے۔
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
یعنی صحبت اہل اللہ کی بھی ضرورت ہے اور اس سے آج کل کے اکثر علماء کورے ہیں۔ الا ما شاء اللہ اس طرف توجہ ہی نہیں، اسی واسطے حقیقی علم والے بہت تھوڑے ہیں۔ (التواصی بالحق۔ ص:36)
مولوی اس ناز میں ہیں کہ ہم قال اقول یعنی عربی کتابیں خوب جانتے ہیں، مگر اس سے کیا ہوتا ہے؟ مقصود تو کچھ اور ہی ہے عربی داں ہونا کچھ کمال نہیں، خداداں ہونا چاہیے۔ (انفاس عیسیٰ: 1/411)
بڑا ناز ہے علم پر کہ ہم عالم ہوگئے۔ یا درکھو! بغیر اپنے کو مٹائے ہوئے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور مٹانے کے یہ معنی ہیں کہ تم اپنے کو مٹادو کہ ہم کچھ نہیں، جب تک یہ بات پیدا نہ ہو سمجھ لو کہ تم برباد ہو، کورے ہو، کچھ نہیں ہو۔ (الافاضات: 4/ 381)
ہم عالم ہو کر اکمل تو ہو سکتے ہیں، لیکن افضل ہونا خدا ہی کو معلوم ہے، ایک شخص عالم ہے اور ایک جاہل تو یہ عالم اکمل تو ہے، مگر افضل ہونا خدا ہی کو معلوم ہے کہ افضل جاہل ہے یا عالم؟ کیوں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ عالم کے لیے افضل ہونا بھی لازم ہے، ممکن ہے کہ اس جاہل کے قلب میں ایسی کوئی چیز ہو کہ وہ علم سے کہیں زیادہ خدا کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو تو اپنی اکملیت کی بنا پر اپنے کو افضل سمجھنا برا ہے، یہی علوم ہیں جو کامل کی صحبت میں میسر ہوتے ہیں۔ (الافاضات الیومیہ۔ ص: 368)
فرمایا، ایک مرتبہ متعدد علماء کا مجمع تھا اور کبر وتواضع کے متعلق اس پر بحث تھی کہ ایک عالم اپنے کو کمتر کیوں سمجھ لے یہ تو تکلیف مالا طاق ہے، کیوں کہ جب علم وفضل پڑھا ہے تو یہ کیسے سمجھے کہ میں پڑھا ہوا نہیں؟ ایک حافظ اپنے کو غیر حافظ کیسے سمجھ سکتا ہے؟
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے نہایت جامع اور مختصر جواب ارشاد فرمایا کہ کسی کمال کے سبب اکمل سمجھنا تو جائز ہے، مگر افضل بمعنی مقبول سمجھنا جائز نہیں، پس یہ سمجھنا کہ میں عالم ہوں، اس میں کوئی حرج نہیں، مگر اس پر اپنے آپ کو مقبول عند اللہ سمجھنا یہ بڑا خطرناک ہے۔ پس یہ سمجھنا کہ ممکن ہے کہ باوجود اس کے جاہل ہونے کے اس میں ایسی کوئی خوبی ہو جس سے وہ اللہ تعالیٰ کو پسند آجائے اور ہم گو بڑے عالم ہوں، مگر ہم میں کوئی ایسی برائی ہو جس سے ہم ان کو پسند نہ آئیں، پھر ہم ہیں کس کام کے؟ (ملحوظات جدید ملفوظات۔ ص: 127)
حقیقی علم و حقیقی عالم
قرآن نے علمائے بنی اسرائیل کے بارے میں پہلے تو ﴿وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَالَہُ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾ کہا، پھر فرمایا: ﴿وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہِ أَنْفُسَہُمْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ﴾ پہلے ﴿وَلَقَدْ عَلِمُوا﴾ (بے شک جان لیا ان لوگوں نے) ان کی اصطلاح کے موافق فرمایا، کیوں کہ وہ بھی محض جان لینے اور لکھ پڑھ لینے کو علم کہتے تھے، پھر ﴿لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ﴾ (کاش کہ یہ لوگ جان لیتے) اپنی اصطلاح کے مطابق فرمایا، جس میں ان سے علم کی نفی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اصطلاح شریعت میں علم الفاظ ومعانی کا نام نہیں ہے، ورنہ تو یہ علم علمائے بنی اسرائیل کو حاصل تھا، اس سے نفی ان سے کیوں کر ہوسکتی ہے؟ بلکہ علم کے ساتھ جب عمل بھی ہو اس وقت وہ عالم کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔
چناں چہ ایک حدیث میں ہے ”ان من العلم لجہلا“ (بے شک بعض علم جہالت ہوتے ہیں) اور ظاہر بات ہے کہ ایک چیز علم وجہل نہیں ہوسکتی، اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ”ان من العلم عند الناس لجہلا عند اللّٰہ“کہ بعض علم جس کو عرفاً علم سمجھا جاتا ہے وہ خدا کے نزدیک جہل ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں محض دانستن نا دانستن (جاننے، نہ جاننے) کا نام علم نہیں، بلکہ ان کی حقیقت کچھ اور ہے، وہ وہی ہے جس کو ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ بعض علم حجة اللّٰہ علی العبد ہے، جب کہ وہ اس کے مطابق عمل نہ کرے، پس اب دیکھنا چاہیے کہ ہم جو اپنے کو عالم وفقیہ سمجھتے ہیں، ہمارا عمل اس کے موافق کہاں تک ہے؟ ہماری حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں اور جلسوں میں جو علم کے فضائل ہم بیان کرتے ہیں اس سے مقصود اپنی فضیلت کا ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ہم اس درجہ کے ہیں، ہماری تعظیم کرنا چاہیے، مگر علماء کو اس طرز سے شرم کرنا چاہیے۔ (العبد الربانی ملحقہ حقوق وفرائض۔ ص: 57)
علم نافع وعلم ضار
علم پڑھ کر جس میں خشیت پیدا نہ ہو، اس سے وہ جاہل اچھا ہے، جس میں خشیت ہو۔ علم کی مثال اس کے نافع اور مضر ہونے میں تلوار کی دھار کی سی ہے، اس سے دوست بھی کٹتا ہے اور دشمن بھی کٹتا ہے، اگر تلوار چلانے والا ماہرفن نہ ہو تو کبھی اس سے اپنے ہی کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس طرح کہ ہاتھ تو مارا دشمن کے اور وہ خالی گیا اور لوٹ کر اپنے ہی پر پڑ گیا۔ اسی طرح علم بڑی ہی نازک چیز ہے، اس میں امن بھی اور خوف بھی ہے، گو غالب امن ہے، مگر حسن استعمال کی ضرورت ہے، اس کو دیکھ لیجیے کہ جتنے گم راہ فرقے بنے ہیں یہ لکھے پڑھے اور تعلیم یافتہ ہی لوگوں کی بدولت بنے ہیں۔ کسی جاہل کا معتقد کون ہوگا؟! (افاضات الیومیہ۔ ص: 253)
آج کل کے علماء کے کمال کی پرواز
آج کل جس کو بھی ذرا بولنے کا سلیقہ ہو جائے اور دو چار تقریریں کر دے وہی لوگوں کے نزدیک عالم اجل اور فاضل بے بدل، بلکہ علامہ زماں ہوجاتا ہے، خواہ در حقیقت جاہل اور بددین ہی ہو۔ (الفصل والوصل ص: 414)
آج کل جہاں کسی نے عربی کی دو چار کتابیں پڑھ لیں اسے مولوی کہنے لگتے ہیں، حالاں کہ یہ شخص حقیقت میں مولوی نہیں، اصل مولوی وہ ہے جو احکام شریعت اچھی طرح سمجھ کر، ان کے مطابق ظاہراً وباطناً عامل ہو، جو اللہ والا ہو اور اللہ والا شریعت سے جاہل نہیں ہو سکتا، تو محض عربی کی کتابیں پڑھ لینے یا عربی بول لینے اور لکھ لینے سے یا چرب زبانی اور ذہانت کی باتیں کر لینے اور عربی کتابوں سے انسان مولوی نہیں ہوسکتا۔ (تعمیم التعلیم ص: 27)
آج کل بعض لوگوں کو اس کا خبط ہو گیا ہے کہ وہ عربی میں تقریر کر لینے کو بڑا کمال وفخر سمجھتے ہیں، میں کہا کرتا ہوں کہ تم کیسے بھی صاحب علم ہو جاؤ، حتی کہ ابو العلم ہو کر بھی ایسی عربی نہیں بول سکتے، جیسی ابوجہل بولا کرتا تھا، اگر عربی میں گفتگو کر لینا ہی علم ہے اور یہ کوئی بڑا کمال ہے، تو ابوجہل تم سب سے بڑا عالم (اور باکمال) ہونا چاہیے۔ حالاں کہ وہ ابوجہل ہی رہا۔ عربی بول لینے سے عربی میں تقریر کر لینے سے وہ ابو العلم تو کیا ہوتا، ابن العلم بھی نہ ہوا۔ (مطاہر الاقوال۔ ص: 66)
اصل چیز عمل ہے
اصل چیز عمل ہے، بغیر عمل سب بے کار ہے، خواہ علم ظاہر ہو یا علم باطن، اصل فضیلت عمل ہی کو ہے، عمل ہی سے دین کی تکمیل ہوتی ہے۔ دیکھیے! صحابہ رضی اللہ عنہم کو کتابی علم کہاں تھا؟ مگر قبولیت اظہر من الشمس ہے۔ (اس کی وجہ یہی ہے کہ) علم سے زیادہ ان کے پاس عمل تھا۔ (افاضات۔ ص 3/211)
عمل کے بغیر یہ تحقیقات ونکات کچھ کام نہ آئیں گے
میں علماء سے یہ بھی کہتا ہوں کہ آپ کی یہ تقریریں اور نکات واسرار سب رکھے رہ جائیں گے اور سالکین سے بھی کہتا ہوں کہ یہ مواجید واذواق اور معارف وحقائق بغیر تعلق صادق کے بے کار ہیں۔
حضرات! نو کر کا فیشن کام نہیں آتا کہ وہ بنا ٹھنا رہے اور باتیں بنایا کرے، بلکہ اس کی خدمت کام آتی ہے۔
امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت جنید رحمة اللہ علیہ کو کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: ساری عبادتیں اور اسرار ونکات اور اشارات غائب ہو گئے، ان سے کچھ کام نہ چلا، بس وہ چھوٹی چھوٹی چند رکعتیں کام آئیں جو آدھی رات میں پڑھ لیا کرتے تھے۔
صاحبو! بڑی چیز یہ ہے کہ انسان اصل عمل اور مقصود کو لازم سمجھے، اگر مقصود کے ساتھ غیر مقصود بھی حاصل ہو جائے تو نور علی نور ہے، ورنہ کچھ نفع نہیں، اگر مقصود حاصل نہ ہوا۔ آج کل غضب یہ ہے کہ علماء صوفیاء سب غیر مقصود کے درپے ہیں، مقصود سے اکثر غافل ہیں، بلکہ کوسوں دور ہیں۔ (غایة النجاح فی آیة النکاح، حقوق الزوجین۔ ص: 52)
علم کے بعد عمل واخلاص اور قال کے بعد حال کی ضرورت، معرفت ومحبت کی اہمیت
خدا تعالی کو عمل کے ساتھ باطن کی بھی خبر ہے، وہ سب کے باطن کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس میں اخلاص ہے اور کس میں نہیں، محض علم پر ناز نہ کرنا،کیوں کہ یہ علم تو شیطان اور بلعم باعور کو بھی حاصل تھا، شیطان بقول مشہور ملائکہ کا معلم (استاذ) بھی تھا، بلعم باعور اپنی قوم کا واعظ بھی تھا اور دونوں شخص علم کے ساتھ عمل ظاہر کے بھی جامع تھے۔ بڑے عابد اور جفاکش مجاہدہ کرنے والے تھے، مگر ان کے باطن میں اخلاص اور خدا تعالیٰ کی محبت ومعرفت پوری نہ تھی۔ اس لیے یہ علم وعمل سب بے کار ہو گیا۔ پس عمل کے ساتھ ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہوئی، جس کا نام حال باطنی ہے۔ بغیر حال کے علم وعمل قابل اعتبار نہیں اور یہ حال کتب بینی سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ کسی صاحب حال کی جوتیاں سیدھی کرنے سے نصیب ہوتا ہے۔ غرض علم وعمل اور حال ان تینوں کا حاصل کرنا ضروری ٹھہرا۔ اور محض علم وعمل حاصل ہو گیا مگر حال نہ ہو تو اس کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ﴾، یعنی خدا تعالیٰ با طن کو بھی دیکھتے ہیں، محض ظاہری عمل کو نہیں دیکھتے۔
محض قیل وقال سے کچھ نہیں ہوتا اور اس سے حال حاصل نہیں ہوتا، ہاں! اگر اس کے بعد کسی صاحب کو لپٹ جائے تو پھر یہ علم رسمی بہت کارآمد ہے، جاہل صوفی سے عالم صوفی افضل ہوتا ہے۔
حال وہ چیز ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل کامل نہیں ہو سکتا، بغیر حال کے عمل کی ایسی مثال ہے جیسے ریل گاڑی کو دو آدمی ٹھیلتے ہوں، آخر کب تک ٹھیلیں گے اور کیا اس طرح منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں؟ بہت مشکل ہے۔ (حقوق وفرائض)
اخلاص کی اہمیت
اخلاص کا لفظ سب نے سنا ہو گا، مگر اس کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کسی کو فکر نہیں، ہم لوگ بھی اپنی حالت پر غور کر کے نہیں دیکھتے کہ ہم میں کیا کمی ہے، اخلاص اتنی ضروری چیز ہے کہ عبادت تک اس کے بغیر معتبر نہیں، جب عبادت کے ساتھ اخلاص کا ہونا ضروری ہے تو اس سے اخلاص کی عظمت اور زیادہ معلوم ہوگئی کہ عبادت جیسی چیز بھی اس کے بغیر ہیچ ہے۔ (دعوات عبدیت ص 57 ج 2، الدین الخالص)
اخلاص کی حقیقت
اخلاص کے معنی لغت میں خالص کرنے کے ہیں اور شریعت میں اس کے معنی وہی ہیں جو ورود شرع سے پہلے تھے، خالص گھی وہ ہے جس میں کوئی دوسری چیز نہ ملی ہو،ا خلاص عبادت کے معنی بھی یہ ہوئے کہ عبادت کو غیر عبادت سے خالی کیا جائے۔ یعنی کوئی ایسی غرض اس میں نہ ملی ہو جس کا حاصل کرنا شرعاً مطلوب نہ ہو۔(التبلیغ ص 132 ج 2)
اخلاص کی علامت
علامہ شعرانی رحمة اللہ علیہ نے اخلاص کی ایک علامت لکھی ہے، وہ یہ کہ جو کام تم کر رہے ہو، اگر کوئی دوسرا اس کام کا کرنے والا تم سے اچھا اس بستی میں آجائے اور وہ کام ایسا ہو جو علی العین واجب نہ ہو، جیسے مسجد ومدرسہ کا اہتمام یا وعظ کہنا، پیری مریدی کرنا، کسی نیک کام کے لیے چندہ کرنا وغیرہ وغیرہ تو تم کو اس کے آنے کی خوشی ہو، رنج نہ ہو، بلکہ خود تم لوگوں کو اس کے پاس بھیجو کہ وہاں جاؤ، وہ مجھ سے بہتر ہیں اور سارا کام خوشی کے ساتھ دوسرے کے حوالہ کر کے خود ایک گوشہ میں بیٹھ جاؤ اور دل میں خدا کا شکر کرو کہ اس نے ایسے آدمی کو بھیج دیا جس نے تمہارا بوجھ بٹوا لیا۔ اگر یہ حالت ہو تب تو واقعی تم مخلص ہو، مگر اب تو اگر کسی عالم کی بستی میں کوئی دوسرا چلا آئے، جس کی طرف عوام کا رجوع ہونے لگے تو جلتے مرتے ہیں اور دل سے یہ چاہتے ہیں کہ اس شخص سے کوئی ایسی بات ظاہر ہو جس سے عوام بدگمان ہو جائیں اور اس کو چھوڑ دیں۔ سمجھتے ہیں کہ بس تمام لوگوں کو ہماری ہی طرف رجوع کرنا چاہیے، کسی اور کی طرف رخ بھی نہ کرنا چاہیے، اس حالت میں تم ہر گز مخلص نہیں ہو، بلکہ اخلاص سے مفلس ہو۔
علم دین حاصل کرنے میں تصحیح نیت کی ضرورت
دین کے دو شعبے ہیں: ایک علم، دوسرا عمل، تو جیسے عمل میں اخلاص ضروری ہے۔ ایسے ہی علم میں بھی ضروری ہے۔ اب دیکھیے! تحصیل علم میں تمہاری کیا نیت ہوتی ہے؟ ایسے بہت کم ہیں کہ جن کی نیت یہ ہو کہ غیر مرضیات حق (یعنی حق تعالیٰ کی ناراضگیوں) سے بچیں اور خدا تعالیٰ اس سے خوش ہوگا۔ جب علم میں اخلاص نہیں تو عمل میں کہاں سے آئے؟ اول علم میں اخلاص پیدا کرنا ضروری ہے، اول تو اس کی کوشش کرنا چاہیے کہ پہلے ہی سے علم حاصل کرنے کی نیت خالص ہو اور اگر کسی کی نیت خالص نہ ہو تو اس کو چھوڑنا ہرگز نہیں چاہیے، امید ہے کہ کبھی اخلاص حاصل ہو جائے گا۔ (الدین الخالص ص: 48)
علم بے عمل کی مثال
امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جس شخص کو بہت سے علوم حاصل ہوں اور عمل نہ کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سپاہی، اس کے پاس بہت سے ہتھیار ہوں اس کو راہ میں دشمن ملے اور مقابلہ ہو، لیکن وہ ان اسلحہ کا استعمال نہیں کرتا تو کیا دشمن پر غالب ہوگا؟
یہ علوم بمنزلہ ہتھیار کے ہیں، شیطان کے دفع کرنے کے لیے ، مگر صرف ہتھیاروں کے لگانے سے خوش نہ ہونا چاہیے، جب ان پر عمل ہی نہیں تو کیا فائدہ؟
ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشاد ہے: ﴿فَرِحُوا بِمَا عِندَہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ (وہ لوگ اس علم ہی کی وجہ سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے) اگر کوئی خارش والا خارش کے بہت سے نسخے یاد کرے تو اس سے کیا نفع، جب تک کہ ان کو کوٹ پیس کر کام میں نہ لایا جائے۔ (ترک مالا یعنی ملحقہ حقیقت تصوف ص: 555)
درس و تدریس میں حسن نیت
اے عزیز طلبہ! آپ لوگوں کا پڑھنا بھی تبلیغ ہے، اگر نیت اچھی ہو ”انما الاعمال بالنیات“ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اگر آپ کی نیت یہ ہو کہ پڑھنے سے فارغ ہو کر امر بالمعروف (یعنی تبلیغ دین) کروں گا، تو یہ پڑھنا بھی تبلیغ ہی کا شعبہ ہے۔ اور اگر یہ نیت نہ ہو تو پھر تبلیغ نہیں۔ دیکھو! اگر کوئی شخص نماز کی نیت نہ کرے تو نماز نہیں ہوتی، ایسے ہی روزہ ہے، اگر نیت نہ کرے اور دن بھر فاقہ کرے تو روزہ نہیں ہوتا۔ غضب کی بات ہے کہ ہم رات دین پڑھتے پڑھاتے ہیں، مگر اعمال و طاعات کی نیت نہ کرنے کی وجہ سے ثواب سے محروم ہیں۔
درس وتدریس تبلیغ کا (بہت) بڑا فرد ہے، اگر کتابیں مدون نہ ہوتیں تو بڑا خلط مبحث ہوتا، دین میں بڑا فساد پھیلتا۔ اگر کتابیں نہ ہوں تو سلف کی باتیں ہم تک پہنچنے کی کوئی صورت نہیں، خدا کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنی عنایت ورحمت سے کتابیں مدون کرادیں، مدارس قائم کر دیے، اس کے سامان مہیا کر دیے، بغیر مدارس قائم کیے کتابوں کی تعلیم ممکن نہیں، لہٰذا یہ بدعت نہیں، بلکہ سنت ہے، کیوں کہ اس درس وتدریس سے مقصود تبلیغ ہی ہے۔
سویہ درس و تدریس تبلیغ کا اتنا بڑا فرد ہے مگر ہم تبلیغ کی نیت نہ کرنے سے اس کے ثواب سے محروم ہیں۔ ”إِنَّمَا الاعمال بالنیات“ سے معلوم ہوتا ہے کہ نیت نہ کرنے سے اعمال کا ثواب نہیں ملتا، گو عمل متحقق ہو جائے۔ اور بعض اعمال تو بلانیت کے ہی نہیں ہوتے، کیوں کہ اعمال دو قسم کے ہیں، بعض اعمال تو ایسے ہیں کہ ان کا تحقق بھی بلانیت کے نہیں ہوتا اور بعض ایسے ہیں کہ ان کا تحقق تو ہو جاتا ہے، مگر ثواب نہیں ملتا۔ جیسے پڑھنا پڑھانا کہ اس کا تحقق بلانیت کے بھی ہو جاتا ہے، مگر ثواب نہیں ملتا۔ بخلاف نماز روزہ کے کہ ان کا تحقق ہی بلانیت نہیں ہوتا۔ (دعوت تبلیغ ص91، آداب تبلیغ)
تحصیل علم میں خلوص پیدا کرنے کا طریقہ
ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ کسی اپنے مرید کے گھر گئے، وہاں ان کے گھر روشن دان دیکھا پوچھا، یہ کیوں رکھا ہے؟
اس نے جواب دیا روشنی کے واسطے۔ انہوں نے فرمایاکہ روشنی تو بغیر نیت کے بھی آتی ہے، اگر اس کے رکھنے میں یہ نیت کر لیتا کہ اس میں سے اذان کی آواز آیا کرے گی تو تجھے اس کا ثواب ملتا رہتا اور روشنی تو خود ہی آجاتی۔ (حقیقت تصوف و تقوی۔ ص:610)
مکلف بہ (یعنی جس چیز کا مکلف بنایا گیا ہے) وہ یہ ہے کہ نیت کو خالص کرو، علوم میں بھی، اعمال میں بھی، تحصیل علوم میں لوگوں نے خرابیاں کر رکھی ہیں۔ (مثلا یہ کہ) ہم نے فقہ اس لیے سیکھی تھی کہ فتوی لکھیں گے، مفتی کہلائیں گے، یا حدیث پڑھتے ہیں تاکہ وعظ کہیں گے، لوگ ہم کو نذرانے دیں گے، دانت گھسائی دیں گے یا بعضوں نے مباحثہ کے لیے پڑھا تھا کہ بڑی عزت ہوگی، اس تفصیل کی مجھے اس وقت اس لیے ضرورت ہوئی کہ تحصیل علوم میں لوگوں نے خرابیاں کر رکھی ہیں اور اس وقت مخاطب اہل علم ہیں۔
تو ان کو یہ نیت کرنا چاہیے علم حاصل کر کے ہم احکام الہی پر خود کار بند ہوں گے اور لوگوں کو ہدایت کریں گے اور میں وصیت کرتا ہوں کہ نوکری کی نیت نہ کرو، گوان شاء اللہ تعالیٰ وہ ملے گی ضرور، مگر نیت اس کی مت رکھو اور بعد میں جب مل جائے تو کر لو اور پڑھانے پر تنخواہ لینا بھی جائز ہے اور یہ جواز حنفیہ کے اصول پر بھی ہے۔ (الدین الخالص۔ ص: 54)
کسی قسم کی نیت نہ ہونا بھی ایک طرح کا خلوص ہی ہے
میں صاف کہتا ہوں کہ خلو ذہن یعنی ذہن خالی ہونا اور کسی قسم کی نیت نہ ہونا یہ بھی اخلاص ہی ہے، اگر کوئی نیت حاضر نہ ہو تو اس کے سوچنے میں دیر کرنے کی ضرورت نہیں، بے فکر ہو کر کام کر لو، تم ریا کا رنہ ہو گے، بلکہ مخلص ہو گے۔ (ارضاء الحق ص:122)
تحصیل علم میں فساد نیت ہو تب بھی اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے
میں یہ نہیں کہتا کہ اگر نیت خالص نہ ہو تو تحصیل علم ہی چھوڑ دو۔ نہیں، پڑھنا تو بہر حال ضروری ہے، کیوں کہ اگر تحصیل (علم حاصل کرنے) کے وقت اخلاص نہیں ہے، تا ہم امید ہے کہ علم حاصل کر لینے سے، پھر عمل بھی نہ چھوڑو کہ کبھی عمل کرتے کرتے اس کی برکت سے بھی اخلاص پیدا ہو جاتا ہے،کیوں کہ ان دونوں میں تجاذب (کشش اور جاذبیت) بھی ہے۔ کبھی عمل سے بھی نیت درست ہو جاتی ہے، جیسا کہ علم سے بھی اکثر یہ بات ہو جاتی ہے تو اگر نیت خالص نہ ہو تب بھی چھوڑ نہ دے، کیوں کہ آئندہ حاصل ہو جانے کی امید تو ہے، بزرگوں کا قول ہے ”تعلمنا العلم لغیر اللّٰہ فابی العلم الا ان یکون للّٰہ“ (ہم نے علم غیر اللہ کے لیے پڑھا تھا، مگر وہ مانا ہی نہیں، لہٰذا وہ اللہ ہی کا ہو کر رہا)۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مثلا قرآن میں کوئی آیت وعید کی پڑھی، جس میں علم سے دنیا کمانے کی مذمت تھی۔ (مثلا یہ حدیث پاک: من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ اللّٰہ لا یتعلمہ الا لیصیب بہ عرضاً من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة) یعنی جس نے علم دین جس سے اللہ کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے، اس کو دنیا حاصل کرنے کے لیے حاصل کیا تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوش بو بھی نہ پائے گا۔ جب یہ حدیث سنی تو قلب میں ایک کھٹکا پیدا ہوا کہ میں بھی تو اسی مرض میں مبتلا ہوں تو اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور روتا ہے۔ پس اس طرح عالم باعمل ہو گیا۔ یہ معنی ہیں ”ابی العلم“ کے کہ علم خدا کا کر کے رہتا ہے اور علم سے کبھی نہ کبھی اخلاص ہو ہی جاتا ہے۔ اس لیے اول تو اس کی کوشش کرنا چاہیے کہ پہلے ہی سے تحصیل علم میں نیت خالص ہو۔ اگر کسی کی نیت ابھی خالص نہ ہو تو اس کو چھوڑنا ہرگز نہیں چاہیے، امید ہے کہ کبھی اخلاص پیدا ہو جائے گا۔ اسی لیے اہل اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص کام کرتا ہے، گو ریا ہی سے ہو، تو اس شخص سے اچھا ہے جو کام کرتا ہی نہیں، کیوں کہ کبھی نہ کبھی ریا بھی جاتی رہے گی اور عمل رہ جائے گا۔
علم دین حاصل کرنے میں امام غزالی رحمة اللہ علیہ جیسی نیت ہونی چاہیے
ایک روز بادشاہ مدرسہ نظامیہ کو دیکھنے کے لیے تشریف لائے اور مخفی طور سے طلبہ کے خیالات کی آزمائش کی کہ دیکھیں علم دین پڑھنے سے ان کی کیا غرضیں ہیں۔ چناں چہ ایک طالب علم سے پوچھا کہ آپ کس لیے پڑھتے ہیں؟ اس نے کہا: میں اس لیے پڑھتا ہوں کہ میرا باپ قاضی ہے، میں اگر عالم بن جاؤں گا تو میں بھی قاضی ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد دوسرے سے پوچھا۔ اس نے کہا: میرا باپ مفتی ہے، میں مفتی بننے کے لیے پڑھتا ہوں۔ غرض جس سے پوچھا اس نے کوئی غرض دنیا ہی کی بتلائی، بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ افسوس ہے کہ علم دین دنیا کے لیے پڑھا جارہا ہے اور ہزاروں روپیہ مفت میں برباد ہو رہا ہے۔
ایک گوشہ میں امام غزالی رحمة اللہ علیہ بھی خستگی کی حالت میں بیٹھے کتاب دیکھ رہے تھے، اس وقت تک یہ طالب علم تھے، نہ کوئی جانتا تھا، نہ شہرت تھی، ان سے دریافت کیا کہ تم کیوں پڑھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے دلائل عقلیہ ونقلیہ سے معلوم کیا ہے کہ ہمارا ایک مالک حقیقی ہے، جو آسمان وزمین کا مالک ہے اور مالک کی اطاعت ضروری ہوتی ہے کہ اس کی مرضیات پر عمل کرے اور نامرضیات سے بچے۔سو میں اس لیے پڑھتا ہوں کہ اس کی مرضیات و نا مرضیات کی اطلاع حاصل ہو۔ بادشاہ سن کر خوش ہوئے اور ظاہر کیا کہ میں بادشاہ ہوں اور کہا کہ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اس مدرسہ کو توڑ دوں گا، مگر تمہاری وجہ سے یہ مدرسہ رہ گیا۔
پس تحصیل علم اس غرض سے ہونی چاہیے جو امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے ظاہر کی اور جس کی غرض تحصیل دنیا اور باعث حب دنیا ہو گا اس کے علم سے کچھ نفع نہ ہوگا۔ (دعوات عبدیت ص: 20، ج 3 ذم ھوٰی)
بغیر خلوص کے علم دین فائدہ سے خالی نہیں
ان لوگوں کو جواب سمجھ میں آگیا ہوگا جو کہتے ہیں کہ انگریزی سیکھنا برا ہے تو آج کل کے طالب علموں کو عربی سیکھنا بھی اچھا نہیں، کیوں کہ اس میں ان کی کون سی نیت اچھی ہے؟ دونوں سے مقصود دنیا ہے۔ بس دونوں بُرے ہوئے، یہ سب تلبیسات ہیں، دونوں ہرگز برابر نہیں، کیوں کہ علوم محمودہ حدیث وقرآن عربی پڑھنے والے کی زبان سے ادا ہوں، کان بھی سنے گا، اس میں غور وفکر بھی کرے گا تو اس کے ساتھ ایک ہادی تو موجود ہے، کبھی تو اثر پڑے گا اور اصلاح ہو جائے گی۔ مگر انگریزی میں کوئی امید بھی اصلاح کی نہیں۔ بڑا کھلا فرق ہے۔
اول تو اس کی کوشش کرنا چاہیے کہ پہلے ہی سے تحصیل علم میں نیت خالص ہو اور اگر کسی کی نیت ابھی خالص نہ ہو تو اس کو چھوڑنا ہر گز نہیں چاہیے، امید ہے کہ کبھی اخلاص حاصل ہو جائے گا، اسی لیے اہل اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کام کرتا ہے، گو ریا ہی سے ہو اس شخص سے اچھا ہے، جو کام کرتا ہی نہ ہو کیوں کہ کبھی نہ کبھی ریا بھی جاتی رہے گی اور عمل رہ جائے گا۔ مثلاً ایک شخص بے چبائے کھانا کھاتا ہے تو اس سے یہ نہ کہا جائے کہ کھاتے کیوں ہو؟ ہاں! یہ ضرور کہا جائے گا کہ اچھی طرح چبا کر کیوں نہیں کھاتے؟ (دعوات عبدیت، ص 77 ج19، الدین الخالص)
علماء کی فضیلت عمل کی وجہ سے ہے
آپ حضرات علم کی دولت کی وجہ سے حضرات انبیاء کے وارث ہیں، چناں چہ ارشاد ہے ”العلماء ورثة الانبیاء“ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس کو ہر ذی علم نے بڑی خوشی سے تسلیم کر لیا ہے۔ اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام میں کمال علمی کے ساتھ کوئی دوسرا کمال عملی بھی تھا یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب اثبات میں دیا جائے گا، کیوں کہ اگر انبیاء علیہم السلام میں بھی کمال عملی نہ مانا جائے تو پھر کس کے اندر مانا جائے گا؟ کیوں کہ وہ حضرات تو افضل المخلوقات ہیں۔ پس یہ کہنا ضروری ہوگا کہ انبیاء میں اس درجہ کمال عملی تھا کہ کسی دوسرے میں ہونا ممکن نہیں۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی تو اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وراثت کی وجہ صرف کمال علمی ہے یا کمال عملی بھی اس میں داخل ہے؟ ہم جو غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف کمال علمی وجہ وراثت نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ جو عالم بے عمل ہیں، ہم ان میں کوئی شان مقبولیت نہیں پاتے، حالاں کہ وارث نبی ہونے کے لیے مقبول ہونا ضروری ہے۔ مثلا ابلیس کہ وہ بہت بڑا عالم ہے اور دلیل اس کے عالم ہونے کی یہ ہے کہ وہ علماء کے اِغواء کی تدبیر کرتا ہے اور بسا اوقات اس میں کام یاب بھی ہو جاتا ہے اور یہ امر ظاہر ہے کہ کسی شخص کے خیالات کو وہی بدل سکتا ہے کہ جو کہ خود بھی کم از کم اس کے برابر ماہر تو ہو جس کے خیالات بدلنے کی کوشش ہے۔ قانون دان کو وہی شخص دھوکہ دے سکتا ہے جو کہ خود بھی قانون جانتا ہو تو شیطان کا علماء کے اِغواء میں کام یاب ہونا صاف بتلا رہا ہے کہ وہ بھی بہت بڑا عالم ہے، لیکن اس کا جو انجام ہے وہ سب کو معلوم ہے۔
علمائے بنی اسرائیل جن کی نسبت ﴿اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتَابَ﴾ ارشاد ہے، مگر ان کی بد انجامی کا ذکر خود قرآن پاک میں مذکور ہے اور جگہ جگہ ان لوگوں کی مذمت فرمائی گئی ہے، حتی کہ کسی فرقے کی اتنی مذمت قرآن پاک میں نہیں جتنی بنی اسرائیل کی ہے، پس معلوم ہوا کہ صرف کمال علمی وراثت کی وجہ نہیں، بلکہ عمل کی بھی ضرورت ہے، کیوں کہ بدوں عمل کے قبولیت نہیں ہوتی اور غیر مقبول وارث انبیاء نہیں ہو سکتا۔ اس کو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں نہایت واضح فرما دیا ہے، فرماتے ہیں: ”العلماء ورثة الانبیاء، وان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا در ہما، ولکن ورثوا العلم، فمن اخذہ اخذ بحظ وافر“۔
اس حدیث میں علم کو حظ وافر فرمایا ہے اور علم حظ وافر اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب مقرون با عمل ہو، نری صفت علم کو حظ وافر نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ اس کا وبال جان ہونا خود حدیث میں مذکور ہے۔ ”ان من العلم لجہلا“۔
اسی طرح کلام مجید میں ارشاد ہے: ﴿وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَالَہُ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہِ أَنْفُسَہُمْ لَوْ کَانُو یَعْلَمُونَ﴾․ تو حدیث میں ایسے علم کو جہل فرمانا اور آیت میں ”علموا“ کے بعد ”لو کانوا یعلمون“ فرمانا صاف بتلاتا ہے کہ یہ علم کسی درجہ میں بھی قابل اعتبار نہیں۔ پس اچھی طرح واضح ہو گیا کہ علم بلا عمل حظ وافر نہیں ہوسکتا،کیوں کہ جو علم عقاب سے نہ بچا سکے وہ حظ وافر کیا ہوگا؟ حظ وافر وہی علم ہوگا جو کہ مقرون بالعمل ہو، مطلق علم وراثت کی وجہ نہیں ہوگا۔ (دعوات عبدیت ص: 9، 10 ج13)
زیادہ افسوس علماء کی جماعت پر ہے
اول تو مسلمانوں میں نفس عمل ہی کی کمی ہے اور اگر کچھ عمل کیا جاتا تو وصف میں بالکل ناقص۔ اور زیادہ افسوس علماء کی جماعت پر ہے، اس لیے کہ جانتے ہیں، پھر کوتاہی کرتے ہیں۔ ذرا اپنے قلب کو ٹٹول کر دیکھیں۔ ہم کو غور کرنا چاہیے کہ آیا ہم میں عملی شان پائی جاتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں پائی جاتی تو وراثت کا دعویٰ ہم کو چھوڑ دینا چاہیے۔ (دعوات عبدیت ص: 15 ج13)
علماء کی بدعملی کا عذاب
حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص کو دیکھا جائے گا کہ اس کی آنتیں باہر نکلی پڑی ہیں اور وہ ان کے گرد گھوم رہا ہے، لوگ اس سے اس سزا کا سبب پوچھیں گے۔ کہے گا کہ میں اپنے علم پر عمل نہ کرتا تھا۔ ایک علم بندے کے لیے حجت ہے اور ایک علم خدا کی حجت ہے بندے پر، تو ایسا علم کیا مایہٴ ناز ہوسکتا ہے؟ (دعوات عبدیت ص:11 ج 13)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ”ویل لمن لا یعلم، ولو شاء اللّٰہ لعلمہ، وویل لمن یعلم ولا یعمل سبع من الویل“ (رواہ سعید بن منصور فی سننہ کذافی العزیزی ص: 417 ج 3)
یعنی جاہل کے لیے ایک ہلاکت ہے اور عالم کے لیے سات گونہ ہلاکت ہے۔ آخر اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے کیا کوئی دوسری مخلوق پیدا ہوگی؟ کیا یہ تعلیمات ہمارے واسطے نہیں ہیں؟ (التبلیغ ص136، ج 12)
بے عمل عالم پوری جماعت کی بدنامی کا سبب بنتا ہے
علماء کی جماعت میں اگرچہ سب ایسے نہیں ہیں، لیکن ان کے لیے کسی ایک کا ایسا ہونا بھی موجب شکایت ہے، کیوں کہ تباہی ان ہی تک مقصور (منحصر) نہیں رہتی، بلکہ اس ایک کو دیکھ کر دوسرے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ علماء کی جماعت میں اگر ایک شخص بھی لا ابالی (بد عمل، بے پروا) ہوتا ہے تو اس کا اثر سب پر پہنچتا ہے اور یہ اثر دو طرح ہوتا ہے: ایک یہ کہ اس کو دیکھ کر دوسرے عوام بد عملی پر جرات کرتے ہیں، دوسرے یہ کہ سب علماء سے بدگمان ہو جاتے ہیں اور اس طرح سے علماء پر اعتراض کی نوبت آتی ہے اور پھر اعتراض سے بدزبانی تک نوبت آجاتی ہے۔ اس میں اگرچہ اکثر عوام غلط ہیں، کیوں کہ ﴿لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی﴾ لیکن زیادہ تر اس کا سبب ہم ہیں اور وہ اعتراضات مخالفین کے نہیں ہوتے کہ ان کو حسد یا بغض پر محمول کر لیا جائے یا یہ کہا جائے کہ اعتراضات تو انبیاء پر بھی ہوئے ہیں، پھر ہم کو اعتراضات کی کیوں پروا ہو؟کیوں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام پر اعتراضات کفار کی طرف سے ہوئے تھے اور علماء پر ان کے موافقین جو ان کا دم بھرتے ہیں اعتراض کرتے ہیں، یہ بہت بڑا عیب ہے کہ اپنے لوگ اعتراض کرنے پر مجبور ہوں، ہماری حالت بے حد محل تاسف ہے۔
اس سے عوام الناس پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے، یعنی ان کو کہنے کی گنجائش ملتی ہے کہ علماء ایسے ہوتے ہیں، اگر خلوص تقویٰ نہ اختیار کیا جائے تو اسی مصلحت سے اختیار کر لیا جائے کہ اس سے عوام بگڑیں گے، ورنہ ایسے لوگ ﴿یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللہ﴾ کے مصداق کہے جاسکتے ہیں، کیوں کہ روکنا جس طرح مباشرةً ہوتا ہے کہ ہاتھ سے روکے تو اس طرح تسبب بھی ایک قسم کا روکنا ہے، اس کو بھی صد عن سبیل اللہ کہا جائے گا، کیوں کہ سبب معصیت بھی معصیت ہوتا ہے اور اس معصیت کے ساتھ اس کا بھی شمار ہوتا ہے۔ (دعوات عبدیت ص: 15، 18، ج3)
بے عمل عالم بھی ادب و قدر کے قابل ہے
یہ مطلب نہیں ہے کہ عام لوگ علمائے بے عمل کی تحقیر و اہانت کیا کریں، نعوذ باللہ۔ ہر گز نہیں، بلکہ ان کو مثل بد پرہیز طبیب کے سمجھیں کہ طبیب اگر پرہیز نہ کرے گا تو اپنے آپ مرے گا۔ مگر مریض کو تو اس کے بتلانے کے موافق ہی عمل کرنا چاہیے، اگر فریقین نے اس کی تدبیر کے موافق عمل کر لیا تو اس کو ضرور شفاء ہو جائے گی، طبیب ہر حالت میں قابل تعظیم ہی ہے۔ نیز عالم بے عمل اس وکیل سرکاری کے مانند ہے جو خود قانون کی خلاف ورزی کا نتیجہ بد خود دیکھے گا، مگر وہ چوں کہ قانون سے واقف ہے، اس لیے مقدمات میں اس کی رائے لینے سے فائدہ ہی ہوگا، پس عوام کو ان سے پوچھ کر ہی عمل کرنا چاہیے۔
البتہ جو عالم غلط مسائل بتاتا ہو اور نفسانی غرض سے جس نے پوچھا اس کے موافق فتوی دیتا ہو تو اس سے پر ہیز کرے، وہ خائن طبیب اور جھوٹا وکیل اور رہزن ہے اور عالم بے عمل اگر صحیح بتلاتا ہو تو اس کی زبان کو سن لیا کرے اور اس پر عمل کیا کرے، مگر اس کی صحبت اختیار نہ کرے، صحبت کسی عالم باعمل، کامل متبع سنت کی اختیار کرے، تاکہ آخرت کی طرف رغبت اور عمل کا شوق پیدا ہو۔ (آداب المتعلمین بحوالہ حکیم الامت تھانوی ص 111)
نوافل و مستحبات کی طرف سے اہل علم کی بے رغبتی
اکثر طالب علم میں یہ مرض پیدا ہو جاتا ہے کہ مستحبات کی قدر نہیں رہتی، جب تک میں نے منیة المصلی نہیں پڑھی تھی تو نفلیں پڑھا کرتا تھا، جب منیہ پڑھ لی اور اس میں مستحب کی تعریف پڑھی تو نفس کے کید میں آکر یہ خیال ہوا کہ اگر امر مستحب نہ کریں گے تو کچھ مواخذہ تو ہوگا ہی نہیں، اس لیے بہت سے مستحبات ترک ہونے لگے، نفس میں عجیب عجیب کید ہیں۔ نفس شیطان سے بھی بڑھ کر ہے، کیوں کہ اس کو بھی نفس ہی نے تو خرابی میں ڈالا تھا۔
طالب علموں کی تو یہ حالت ہے، جہاں کسی عمل کے استحباب کا حکم معلوم ہوا، بس فضائل کو چھوڑ دیا، جہلاء تو مستحبات کو کر بھی لیتے ہیں، مگر لکھے پڑھے بالکل نہیں کرتے، الا ماشاء اللہ، یہ نفس کا بڑا کید ہے، جس نے اہل علم کو بہت سی برکات سے محروم کر رکھا ہے۔ اس سے بچنا چاہیے اور مستحبات وفضائل کی بھی بے قدری نہ کرنا چاہیے۔ (التبلیغ ص 17 ج8)
نوافل کی اہمیت
لوگ نفل کو ایک زائد چیز سمجھتے ہیں، خاص کر اہل علم اس غلطی میں زیادہ مبتلا ہیں، کیوں کہ طالب علموں کو شروع سے نفل کا حکم یہ بتایا جاتا ہے کہ جس کے کرنے میں ثواب ہو اور نہ کرنے میں کچھ گناہ نہ ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب یہ بات ہے تو یہ عمل نہ کرنے میں کیا بات ہے؟ یہاں تک بھی غنیمت تھا۔ مگر غضب یہ کہ اس کا ترجمہ دوسرے لفظوں میں یوں کر لیا کہ نفل کوئی مہتم بالشان نہیں۔ چلیے چھٹی ہوئی، گو یا شریعت میں نوافل کا بیان ہی فضول ہے۔
خوب سمجھ لیجیے کہ نفل بے کار اور فضول چیز نہیں، بلکہ متمِّم فرائض ہونے کی وجہ سے ایک مہتم بالشان چیز ہے، نیز خاص محبت کی ایک بڑی علامت ہے، میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، فرض کرو ایک ملازم ہے، جس کو کھانا پکانے کے واسطے رکھا گیا ہے اور وہ ایسا قانونی ہے کہ کھانا پکا کر چل دیتا ہے اور ایک دوسرا ملازم ہے کہ اسی کام کے لیے وہ بھی رکھا گیا ہے۔ مگر اس کی حالت یہ ہے کہ جب کھانا پکا چکتا ہے تو آقا کو پنکھا جھلنے لگتا ہے اور بھی خدمت کر دیتا ہے ان دونوں میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟
ضرور فرق ہے، اس دوسرے آدمی کی قدر آقا کے دل میں یقینا زیادہ ہوگی، بلکہ اس کی ان زائد خدمات کی قدر بعض دفعہ اصل کام سے بھی زیادہ ہوتی ہے، کیوں کہ منصبی کام کا تو ضابطہ ہے کہ خانہ پری ہے اور نوکر سے زبردستی اور ٹھوک بجا کر لیا جاتا ہے اور یہ زائد خدمات محبت اور خلوص کی دلیل ہے، محبت اور خلوص کا نتیجہ دوسرے کی طرف سے بھی محبت اور خلوص ہی ہوتا ہے تو اس دوسرے شخص سے آقا کو خاص محبت ہوگی اور بلفظ دیگر یہ دوسرا نو کر محبوب ہوگا اور پہلا آدمی نو کر اور مزدور ہوگا۔ یہ حقیقت ہے نفل کی۔
پس اسی طرح جو شخص احکام شرعی میں سے صرف فرائض کو ادا کرے، پانچ وقت کے فرائض ہی پڑھے اور زکوة بقدر واجب ہی دے دیا کرے، کوئی نفل اور خیر خیرات نہ کرے تو وہ ضابطہ کا نوکر ہے، اس سے ٹھوک بجا کر کام لیا جائے گا اور ذرا سا بھی قصور ہوگا تو گرفت سے نہ چھوڑا جائے گا۔ اور کسی طرح یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کو حق تعالی سے محبت ہے۔
صاحبو! محبت کی علامت سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ آدمی نفلی طاعات کی کثرت کرے، پس نفل بھی ایک ضروری چیز ہوئی، اب تو سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ نوافل کس درجہ کی چیز ہے۔ (التبلیغ۔ وعظ امید رحمت ص114 ج1)
طالب علم اور تہجد کا اہتمام
حضرت امام احمد بن حنبل کا واقعہ ہے کہ ایک طالب علم آپ کا مہمان ہوا۔ رات کو سوتے وقت آپ نے اس کے پاس لوٹے میں پانی بھر کر رکھ دیا۔ صبح کو جب آپ وہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ لوٹے میں اسی طرح پانی رکھا ہے، تب آپ نے اس مہمان طالب علم سے فرمایا کہ میں نے لوٹے میں پانی بھر کر اس لیے رکھ دیا تھا کہ تم تہجد کے لیے اٹھو گے، تم کو وضو کے لیے پانی تلاش کرنے کی دقت نہ ہو، مگر میں نے دیکھا کہ پانی اسی طرح رکھا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ تم تہجد کے پابند نہیں۔ بہت افسوس کی بات ہے طالب علموں کو اس کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، اگر طلباء اور علماء ہی پابند نہ ہوں گے تو اور کون ہوگا؟ (بزم جمشید ۔ ص: 38)
طلباء سے گزارش
(طلبہ) اگر چاشت، اشراق کے وقت کم از کم دو رکعتیں پڑھ لیا کریں اور رات کو اٹھ کر تہجد کی دو رکعتیں پڑھ کر مطالعہ کتب میں مشغول ہو جایا کریں اور حدیث پڑھنے والے بجائے فضول باتوں کے چلتے پھرتے زبان سے درود شریف پڑھتے رہا کریں تو بتائیے کہ ان کی تعلیم میں کون سا حرج واقع ہوتا ہے؟ اگر خیال کیا جائے تو انشاء اللہ ایسی صورتیں خود بخود ذہن میں آنے لگیں گی جن سے طلبہ میں نور عبادت و حلاوت ذکر بھی پیدا ہو جائے اور تعلیم میں بھی کوئی کمی کسی قسم کی نہ آنے پائے۔
سمجھنے کی بات ہے کہ فہم سلیم اور نور ذکاوت عمل اور تقویٰ سے جس قدر پیدا ہوتا ہے اس کے بدوں حاصل نہیں ہو سکتا تو اس کا اہتمام تعلیم کے لیے مفید ہوگا یا مضر؟ میں نہیں خیال کر سکتا کہ اس کو مضر کیوں سمجھا جاتا ہے؟
البتہ باقاعدہ سلوک سے اور صوفیاء کے خاندانی ذکر سے ضرور منع کیا جائے، اس سے حالات وکیفیات کا غلبہ ہونے لگتا ہے تو تعلیم ناقص رہ جاتی ہے، مگر جو اذکا ر احادیث میں وارد ہیں، اختصار کے ساتھ ان کی پابندی کرنا اور بلا ناغہ تلاوت قرآن کرتے رہنا وغیرہ یہ تو کسی طرح خارج نہیں ہو سکتے۔ (آداب المتعلمین، بحوالہ حضرت حکیم الامت تھانوی میں: 109)
نوافل و مستحبات کا حکم
سنن ومستحبات کے متعلق یہ اعتقاد جما ہوا ہے کہ ان کے کرنے میں ثواب اور نہ کرنے میں گناہ نہیں، اس لیے ان کے ناغہ ہونے کو سہل سمجھتے ہیں، حالاں کہ نصوص میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سنن زائدہ اور مستحبات کا یہ حکم قبل شروع کے ہے اور شروع کرنے کے بعد ان کا حکم بدل جاتا ہے، چناں چہ ایک حکم تو عین وقت اشتغال کے ساتھ مختص ہے، وہ یہ کہ شروع کرنے کے بعد مستحب کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے اور ایک حکم عام ہے، جو وقت اشتغال کے ساتھ مختص نہیں، وہ یہ ہے کہ جس مستحب کو معمول بنالیا جائے اور کچھ عرصہ تک اس پر مواظبت (پابندی) کر لی جائے اب اس کا ناغہ کرنا اور مواظبت چھوڑ دینا مکروہ ہے، اس کی دلیل بخاری کی ایک حدیث ہے، جو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ”یا عبد اللّٰہ، لا تکن مثل فلان، کان یقوم من اللیل ثم ترکہ“ یعنی اے عبداللہ! تم فلاں شخص کی طرح نہ ہونا جو رات کو نماز کے لیے اٹھا کرتا تھا، پھر چھوڑ دیا۔
اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی اس حالت پر ناگواری اور کراہت ظاہر فرمائی ہے، معلوم ہوا کہ مستحب کو معمول بنا کر ترک کردینامذ موم ومکروہ ہے۔ اسی لیے بزرگوں کا ارشاد ہے کہ فرائض وواجبات کے علاوہ نوافل وغیرہ کا اتناہی پابند ہو جس کو نباہ سکے، ورنہ شروع ہی نہ کرے، اس سے بڑی بے برکتی ہوتی ہے۔ انسان کی عادت ہے کہ جب ایک کام کا پابند ہو، پھر اس میں فتور ہونے لگے تو اس کا خلل ممتد ہو جاتا ہے۔ چناں چہ اس عمل پر تو پھر عمر بھر پابندی نصیب نہیں ہوتی اور اس سے گزر کر دوسرے اعمال میں بھی اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ آج تو تہجد میں فتور ہے، کچھ دنوں میں صبح کی نماز کی بھی پابندی نہ رہے گی، نماز قضا ہونے لگے گی اور یہ سارا فساد ایک مستحب کی پابندی چھوڑنے سے ہوا۔ (التبلیغ ص: 179 ج16)