صبح صادق کے دھند لکے میں، روشن اور گرم دوپہر میں، گہما گہمی سے بھرپور سہ پہر میں، سرمئی، سرمئی شام میں اور پھر رات کی تاریکی میں، روزانہ دنیا کے گوشے گوشے میں، ایک آواز بلند ہوتی ہے، یہ آواز چودہ صدیوں سے اسی تسلسل کے ساتھ بلند ہورہی ہے، ہر دور میں اس آواز نے یکساں کلمات ادا کیے ہیں، ان کلمات میں ذرا سا بھی تغیر نہیں آیا!
یہ کلمات اس دین کے ماننے والوں کا سرمایہ افتخار ہیں، جسے لے کر ایک نبی امی فاران کی سر زمین پر اترا، ان کلمات میں جادو ہے، جو دلوں کو اسیر کرلیتا ہے، ان کلمات میں وہ رعب وجلال ہے جو بڑے بڑے کا پِتہ پانی کردیتا ہے۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔
روئے زمین پر سب سے پہلے ان کلمات کو بلند کرنے کی سعادت جس شخص کے حصے میں آئی وہ نہ دولت مند تھا، نہ ہی بااثر اور نہ اس کے حسن وجمال نے لوگوں کو متوجہ کیا تھا، بلکہ وہ ایک حبشی النسل غلام تھا، جس کی رنگت سیاہ تھی، آنکھیں سرخ اور ہونٹ موٹے تھے، لیکن اس کا دل نہایت حسین تھا۔
حسین دل والے یہ غلام جنہیں اللہ تعالیٰ نے عزت وشرف کی بلندیوں پر فائز کیا، حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ صرف دنیا کے پہلے مؤذن ہونے کا اعزاز حاصل ہے، بلکہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص بھی تھے۔ آپ کی خوش نصیبی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
”بلال کس قدر اچھا آدمی ہے کہ وہ تمام مؤذنوں کا سردار ہے“۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے والد رباح اور والدہ حمامہ قبیلہ بنو جمح کے غلام تھے۔ یہ سرزمین عرب کا وہ تاریک دور تھا جب انسان اخلاقی پستیوں کی گہرائیوں میں جا گرا تھا۔ اور اس پر گم راہی مسلط ہو چکی تھی۔ اس دور میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ غلاموں کا طبقہ تھا، جسے بنیادی انسانی حقوق ملنا تو درکنار، چین سے جینے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔
رب کائنات نے جب اپنے پسندیدہ بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نور نبوت سے سرفراز کیا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً 28 سال تھی، آپ رضی اللہ عنہ اپنے آقا امیہ بن خلف کی بکریاں چرانے پہاڑوں میں لے جایا کرتے تھے، ایک دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر غار حرا کی طرف ہوا، جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عزیز ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جاتا دیکھا تو انہیں بلایا اور فرمایا ”میں اللہ کا رسول ہوں، تمہاری نظر میں اسلام کے متعلق کیا رائے ہے؟“ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پر شکوہ شخصیت سے حد درجہ متاثر ہوچکے تھے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نشین انداز گفتگو! بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منہ سے نکلا ”میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو اچھا پاتا ہوں“۔
بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس لوٹ گئے، لیکن دل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لگا رہا، دوسرے روز یہ پھر بکریاں لے کر وہیں پہنچ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ اور پر اثر باتیں سنیں تو دل بے قرار ہو گیا، جو سچائی آپ رضی اللہ عنہ میں قدرت نے پہلے ہی ودیعت کر دی تھی وہ دین اسلام کی صورت میں آپ کے سامنے آگئی تھی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے کلمہ شہادت پڑھ لیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان پہلے سات خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کے لیے اسلام نے اپنے دروازے کھول دیے۔
یہ اسلام کا دور اولین تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے فی الحال تبلیغ دین رازداری کے ساتھ فرمارہے تھے، لیکن اسلام کا جو منفرد اور پاکیزہ رنگ ہے وہ زیادہ عرصہ تک کفار مکہ سے پوشیدہ نہ رہ سکا، انہوں نے جلد ہی چوکنا ہو کر دیکھنا شروع کیا کہ ان کے بعض ساتھیوں اور بعض خواتین میں ایک تبدیلی سی آگئی ہے۔
امیہ بن خلف کو بھی بہت جلد خبر مل گئی کہ اس کا غلام بلال بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں شامل ہوگیا ہے۔ غلام اور اس کی یہ مجال کہ آقا کے دین سے روگردانی کرے۔ امیہ کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب کیا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیے۔ اب اذیتوں اور تکالیف کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، جو ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔
مکہ کے علاقے حرہ کی زمین اپنی گرمی کی وجہ سے مشہور ہے، یہ دھوپ میں تانبہ کی طرح گرم ہو جاتی ہے، امیہ نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حرہ کی اس زمین پر لٹا دیا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا، لیکن بلال کی زبان سے احد احد (اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے) کے سوا کچھ نہیں نکلتا تھا، امیہ نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنا تو اس نے مردہ جانوروں کی کھال لی اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس میں لپیٹ کر سی دیا اور پھر تپتی دھوپ میں ڈال دیا۔ گرمی کی شدت سے کھال سوکھ گئی اور اس نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم کو جکڑ لیا، لیکن آپ بدستور خدائے واحد کا کلمہ بلند کرتے رہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دہکتے انگاروں پر لٹا دیا۔ امیہ کہتا بلال! اب بھی محمد کے خدا سے باز آ۔ لیکن جواب وہی تھا ”احد، احد“۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حالت میں دیکھا کہ امیہ نے ان کو ایسی تپتی ہوئی زمین پر لٹا رکھا تھا کہ اس پر گوشت رکھ دیا جاتا تو وہ گل جاتا، لیکن بلال اس حالت میں بھی اللہ کے سوا دوسرے کسی معبود کا انکار کرتے تھے۔
امیہ کے طیش کا عالم اب کیا پوچھنا! اس نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گلے میں رسی باندھ دی اور مکہ کے شریر لڑکوں کے حوالے کر دیا، لڑکے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ کی گھاٹیوں میں گھسیٹتے پھرتے، پھر جلتی ریت پر لا کر اوندھے منھ ڈال دیتے اور ان پر پتھروں کا ڈھیر لگا دیتے۔ اسلام کے اس سچے عاشق کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو شدید زخمی نہ ہو چکا ہو، تشدد کا یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنوجمح کے محلے میں ہی رہائش پذیر تھے، وہ آتے جاتے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ظلم ہوتا دیکھتے۔ ایک دن ان سے نہ رہا گیا، وہ امیہ کے پاس گئے اور اس سے کہا ”امیہ! اس بے گناہ اور بے کس غلام پر ظلم تو نہ کرو، تمہارا اس میں کیا نقصان ہے وہ خدائے واحد کی عبادت کرتا ہے؟ اگر تم اس پر احسان کرو تو یہ احسان آخرت کے دن تمہارے کام آئے گا“۔
امیہ نے حقارت سے کہا ”میں تمہارے خیالی یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔ میرے جو جی میں آیا کروں گا“۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ تحمل کے ساتھ اسے سمجھاتے رہے کہ دیکھو! تم طاقت ور ہو، اس مجبور غلام پر ظلم وستم کرنا تمہارے شایان شان نہیں، اس طرح عربوں کی قومی روایات کو بٹہ نہ لگاؤ۔ امیہ نے کہا ”اگر تم اس غلام کے اتنے ہی ہم درد ہو تو اسے خرید کیوں نہیں لیتے؟“ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ”بولو کیا لوگے؟“ امیہ بولا ”تم اپنا غلام فسطاس رومی مجھے دے دو اور اسے لے جاؤ“ فسطاس بڑے کام کا غلام تھا اور امیہ کا خیال تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلال جیسے کم زور غلام کے بدلے اتنا صحت مند اور کار آمد غلام دینے پر رضامند نہ ہوں گے، لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً بولے ”مجھے منظور ہے“۔ امیہ حیران رہ گیا، تاہم اس نے ایک شرط اور لگا دی، بولا ”فسطاس کے ساتھ چالیس اوقیہ چاندی بھی لوں گا“۔ (ایک اوقیہ چاندی 40درہم)
حضرت ابوبکر اس پر بھی راضی ہو گئے، جب وہ بلال کو لے کر چلنے لگے تو امیہ ہنس کر کہنے لگا ”ابن ابی قحافہ“ تمہاری جگہ میں ہوتا تو اس غلام کو درہم کے چھٹے حصے کے عوض نہ خرید تا“ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ”امیہ! تم اس غلام کی قدر وقیمت سے واقف نہیں۔ مجھ سے پوچھو تو یمن کی بادشاہی بھی اس کے مقابلے میں ہیچ ہے“۔ یہ کہا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آزاد کر دیا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت مسرت کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی ”یا رسول اللہ میں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آزاد کر چکا ہوں“۔
اب بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آزاد تھے، وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے، حکمت ودانائی کی باتیں سیکھتے اور دین اسلام کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کرتے۔
ہجرت کا حکم ہوا تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مکہ سے مدینے پہنچے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کا بھائی چارہ کروا دیا تھا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابو رویحہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا گیا۔ حضرت بلال کو حضرت ابو رویحہ رضی اللہ عنہ سے اس قدر محبت ہو گئی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد پر جانے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا ”بلال! آپ کا وظیفہ کون وصول کرے گا؟ “جواب ملا ”ابو رویحہ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو برادرانہ تعلق قائم کر دیا ہے وہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا“۔
مدینہ منورہ میں اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈال دی گئی تو ایک سال بعد یہ سوال اٹھا کہ نماز با جماعت کے لیے لوگوں کو کس طرح اکٹھا کیا جائے؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہر نماز کے وقت ایک پرچم بلند کر دیا جائے۔ کچھ نے کہا ناقوس بجایا جائے۔ کچھ لوگ کہنے لگے آگ روشن کی جائے، تاکہ اسے دیکھ کر لوگ نماز کے لیے آجائیں۔ کچھ کا مشورہ یہ تھا کہ ایک شخص جاکر لوگوں کے گھروں پر اطلاع دے آیا کرے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان طریقوں کو پسند نہیں فرمایا، ابھی یہ بحث جاری تھی کہ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے مجھے ایک شخص نے خواب میں اذان کے کلمات سکھائے ہیں۔ انہوں نے وہ کلمات دہرائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الہٰی کے مطابق ان کلمات کو پسند فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس قسم کا خواب دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اپنا خواب بیان کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اذان دو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کے کلمات سکھائے اور ہدایت کی کہ دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کر اذان کہو، تاکہ تمہاری آواز بلند ہو اور دور تک پہنچے۔ مدینہ کی فضاؤں میں نغمہ توحید گونج اٹھا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلام کے پہلے موذّن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز میں لحن تھا کہ جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان سنتا مسحور ہو کر رہ جاتا، جب نمازی آجاتے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت ادب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جاکر کہتے، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! نماز تیار ہے۔
مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی تو اس کے ایک سرے پر چبوترہ بنا کر اس پر چھت ڈال دی گئی، اس چبوترے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم رہنے لگے جو تمام وقت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنا چاہتے تھے اور علم حاصل کرنے کے خواہش مند تھے، ان اصحاب کو اصحاب صفہ کہا جانے لگا، کیوں کہ صفہ عربی میں چبوترے کو کہتے ہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی انہیں اصحاب صفہ میں سے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ شام چلے گئے تھے، اور 20 ہجری میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سفر حیات مکمل کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو دمشق میں باب الصغیر کے قریب دفن کیا گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی خبر جب عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو وہ روتے روتے نڈھال ہوگئے، بار بار کہتے تھے: ”آہ!
ہمارا سردار بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہمیں داغ جدائی دے گیا“۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحیح معنوں میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد (سیکریٹری) کا درجہ حاصل تھا۔ سفر ہو یا قیام، دکھ ہو یا سکھ، امن ہو یا جنگ، غرض ہر حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے کاموں میں سے لے کر امور مملکت تک کو سنبھالتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا سودا سلف لے آتے، قرضوں کی فراہمی اور ادائیگی کے انتظامات کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کے آرام کا خیال رکھتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔