اسلام کی بابت مغرب کا تعصب

اسلام کی بابت مغرب کا تعصب

مولانا طارق علی عباسی

اسلام کا پیغام ہدایت کائنات کے لیے ہے اور اللہ جل مجدہ نے اسلام کی فطرت ہی میں یہ عنصر رکھ دیا ہے کہ وہ چار دانگِ عالم میں پھیلے۔ یہ اسلام کی خوبی ہے کہ اسلام کو دبایا نہیں جاسکتا، نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی میدانِ عمل سے ہٹایا جاسکتا ہے ۔ قرآنِ حکیم نے یہ صاف بتلایا ہے کہ اسلام ہر دین پر غالب ہو کر رہے گا، چاہے کسی کافر یا مشرک کو برا لگے۔ ان سب سچائیوں کو جاننے کے باوجود آخر وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی وجہ سے مغرب اسلام سے خوف زدہ ہے اور اسلام کے نام سے وحشت کھاتا ہے؟ مغرب آخر کیوں اسلام کے خلاف تعصب پھیلاتا ہے؟ آخر کیوں وہ اسلام کے بارے انسانیت کو گم راہ کرنے میں سر گرم ہے؟

اس بات کو جاننے کے لیے دورِ حاضر میں ماہرین نفسیات نے عقلی اور دماغی بیماری کے جراثیم (اسلاموفو بیا) کا انکشاف کیا ہے۔ اس مرض میں مبتلا ہو کر انسان اسلام دشمنی کی آگ میں جھلسنے لگتا ہے، اسلام کو اپنے واہموں اور شوشوں سے نشانہ بناتا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں اسلاموفوبیا کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ اسلام کے سیاسی طاقت بن جانے کے خوف کا نام اسلام فوبیا ہے۔ مغر ب اسلام کا پوری دنیا پر مکمل طور ر غلبہ پا جانے سے ڈرتا ہے، اس لیے سازش کے تحت اس طرح کے نام اور اصطلاحات وضع کر کے سب کو ڈرارہا ہے اور مختلف انداز میں اس واہمے کا پر چار کرکے ورغلا رہا ہے ، جو کہ حقیقت میں مکر اور فریب ہے۔

آج کے دور میں مغربی میڈیا اور اس کے مقلدین کا بنیادی ایجنڈاہے کہ اسلام کی مخالفت کا زہر مختلف تہذیبوں میں دھیرے دھیرے انڈیلا جائے اور سب کو اسلام کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ مغرب چاہتا ہے کہ اسلام کو مغرب کے رنگ میں رنگا جائے، اسلامی تعلیمات کا نمونہ مغربی طرز کا بنایا جائے۔ یہ خبطی مقصد ہے۔

دینِ اسلام کے خلاف زہر آلود بغض اسی لیے ہے کہ اسلام جاہلانہ رسوم کو مٹانے پر زور دیتا ہے اور مشرکانہ اعمال وبدعات کی کمر توڑتا ہے، خواہشات کو رضائے مولیٰ پر نچھاور کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور خود ساختہ ادیان کی رگیں کاٹ کر توحید کا علم بلند کرتا ہے، ختمِ نبوت کا عقیدہ پیش کرتا ہے، اسلام انسانیت کو شریعت کے اس لازوال کینوس میں لانے کے لیے سر گرم ہے جو سب کے لیے ابرِ رحمت ہے، اسلام ہر موڑ پر انسانیت کی فلاح وصلاح کا علم بردار ہے۔

اسلام سے اسلام دشمنوں کی دشمنی عہدِ قدیم سے ہے، جس کی شہادت قرآن حکیم کی سورہٴ بقرة کی آیت ایک سو بیس میں مذکور ہے کہ یہود ونصاری ہر گز آپ سے خوش نہیں ہوں گے، تا آنکہ آپ ان کی ملت کو نہ اپنالیں۔ یہود، عیسائی اور دیگر کفار مل کر ہمیشہ مسلمانوں کو کم زور کرتے رہے ہیں، حالاں کہ یہ خود آپس میں بھی ایک دوسرے کے سخت دشمن ہیں، مگر اسلام کے مقابلے میں یہ سب ایک ہیں اور الکفر ملة واحدة کا مصداق ہیں۔

قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو ان قوموں کو سورہٴ فاتحہ میں مغضوب علیہم اور ضالین کہا گیا ہے۔ چوں کہ بنی اسرائیل میں بے شمار انبیا ئے کرام پیدا ہوئے اور ان کی نافرمانی کی پاداش میں بنی اسرائیل سے ہمیشہ کے لیے یہ نوعیتِ ملت اور ولایتِ قبلہ چھین لی گئی اور بنو اسماعیل کو سونپی گئی۔ بعثت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کا جو زمانہ تھا، وہ ان کو مہلت تھی، مگر انہوں نے اس آخری موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ دشمنی پر اتر آئے۔ ایسا سمجھیے کہ یہود ونصاری کی گھٹی میں ہی اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت سیدنا محمد علیہ الصلوة والسلام کی دشمنی پڑی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے کتبِ تاریخ میں بڑے بڑے واقعات درج ہیں کہ یہود ونصاری مختلف ادوار میں اسلام کو نشانہ بناتے رہے۔

آج مغرب نے عالم ِ اسلام میں جو ظلم برپا کیا ہے، اس سے کون واقف نہیں؟ آج کے دور میں مغرب کا اسلام اور مسلمانوں سے ناواقف ہونا اس بنا پر نہیں کہ مغرب اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتا، بلکہ اس معنی میں ہے کہ تعصب وضد میں آنکھ الٹا دیکھا کرتی ہے، ذہن وسعتِ فہم سے کام نہیں لیتا، جس سے تنگ نظری، تعصب وعناد جیسے امراض جنم لیتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیماتِ صحیحہ موجود ہوتے ہوئے بھی نظر وہاں نہیں جاتی۔

اسلام سے متعلق مغرب اپنے تصورات کو بنا دلیل حقیقت سمجھ کر اور ان کو اپنے نظریات قرار دے کر غلط فہمی کا شکار ہے۔ میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلام کا غلط اور خوف ناک چہرہ ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے، اس سلسلے میں ہمیں بحیثیت مسلمان اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہمیں اپنے کردار کے حسن سے اسلام کی دعوت دینی ہے۔ اپنے احوال وافعال اور نظامِ زندگی کی درستگی کے ذریعے مرکز دعوت بننا ہے۔ ہماری نئی نسل کو یہود وعیسائیت اور دیگر اسلام دشمنوں سے واقف ہونے کے لیے قرآن وحدیث اور اپنی درخشاں تاریخ سے باخبر رہنا ہوگا، ورنہ وہ کسی غلط نتیجہ پر پہنچیں گے۔ مغرب اسلام کے بارے میں لوگوں کو گم راہ کررہا ہے کہ اسلام قوموں کی ثقافتوں اور تہذیبوں کو یا ان کی اقدار کو نقصان پہنچاتا ہے، حالاں کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

اسلام سلیم الفطرت روایات کا امین ہے۔ بدفطرتی کے مقابلے میں فطرت کو رائج کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام دیگر مذاہب اور ان کے ماننے والوں کو تکریم سکھلاتا ہے، ان کی عبادت گاہوں، جان ومال کے تحفظ کا حکم دیتا ہے۔ اسلام کی رواداری مثالی تاریخ رکھتی ہے، اس کی نظیر کوئی مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ اسلام ہر زمانے میں قابلِ عمل اور زندگی کے ہر شعبے اور طریقے میں رائج ہونے والا دین ہے، اس لیے مغرب کا یہ الزام فرسودہ ہے کہ اسلام جدیدیت کے ساتھ نہیں چل سکتا ۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام اعتدال پسند ی کی تعلیم دیتا ہے۔ امنِ عامہ کا فروغ اسلام کی بنیادی خصوصیات میں سے ہے۔ اس کے برعکس مغرب نے مذہب کو زندگی کے تمام شعبوں سے اکھاڑ ڈالا ہے۔ سیاسیات، اقتصادیات، معاشرت واخلاق، علم وفن… غرض کہ ان کے ہاں کوئی شعبہ حیات ایسا نہیں جس میں مذہبی عنصر شامل ہو اور جس سے وہ مستفیض ہوتے ہوں۔ مغرب نا پسند کرتا ہے کہ مذہب ان کی زندگی میں داخل ہو اور وہ اس کی راہ نمائی میں چلیں۔ مغرب قدیم جاہلیت کی شدید شکل ہے۔ مغرب بڑا عیار ہے، بھیس بدلنے میں دیر نہیں کرتا۔ مغرب خواہشات کا مجموعہ ہے اور ظاہر بات ہے کہ خواہشاتِ نفسانیہ طوق کی مانند ہوتی ہیں، جس کو مغرب نے پہنا ہوا ہے۔ پھر آپ خود ہی بتائیے کہ ایسا انسان کیوں کر مذہب کی طرف لوٹے گا؟ عبدیت کے تقاضے کیسے پورے کرے گا؟ دین اسلام کو اپنے لیے خطرہ کیوں نہیں جانے گا؟ ایسے لوگوں کے دلوں میں اسلام سے متعلق محبت کی بجائے نفرت ہی پیدا ہوگی اور وہ خود کو دشمن ثابت کریں گے،الا ماشاء اللہ!

جب مغرب کے ہاں مذہب فقط شخصی معاملہ قرار پائے اور وہ حسب مزاج ہی استعمال کیا جائے، تو اس کے بعد بھی کہنے کو کچھ باقی بچتا ہے؟ کیا اب بھی کوئی عقل مند یہ سوال اٹھائے گا کہ مغرب کو اسلام سے کیا خطرہ ہے؟ اور مغرب اسلام کے نام سے وحشت زدہ کیوں ہے؟