اسلام دین ِ اعتدال

اسلام دین ِ اعتدال

مولانا خالد سیف الله رحمانی

الله تعالیٰ نے دنیا میں جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں، عام طور پر ان میں افرادط وتفریط انسان کے لیے ناگوار خاطر اور دشوار ہوتی ہے، یہاں تک کہ انسان کے لیے مفید ترین چیزیں بھی اگر حدِ اعتدال سے بڑھ جائیں یا حد ِ ضرورت سے کم ہوجائیں تو انسان کے لیے رحمت کے بجائے زحمت اورانعام ِ خداوندی کے بجائے عذاب ِ آسمانی بن جاتی ہیں، ہوا انسان کے لیے کتنی بڑی ضرورت ہے؟ لیکن جب آندھیاں چلتی ہیں تو یہی حیات بخش ہوا کتنی ہی انسانی آبادیوں کو تاخت وتاراج کرکے رکھ دیتی ہیں، پانی زندگی وحیات کا سرچشمہ ہے، لیکن جب دریاؤں کی متلاطم موجیں اپنے دائرے سے باہر آجاتی ہیں تو کس طرح سبزہ زارکھیتوں اور شاد وآباد بستیوں کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جاتی ہیں، قدرت کی اکثر نعمتوں کا یہی حال ہے، اس لیے الله تعالیٰ نے اس کائنات کا نظام اعتدال پر رکھا ہے، مثلاً ایک زمین کے نظام کشش ہی کو لے لیجیے، زمین میں جو قوت کشش اس وقت موجود ہے، اگر اس سیکم ہو جائے تو سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انسان کا قدوقامت بلی اور چوہے کی طرح ہو جائے اور بڑھ جائے تو انسان اونچے درختوں، بلکہ تاڑ کے درختوں کے ہم قامت ہو جائے۔ غور کیجیے کہ اگر انسان کا قد اتنا چھوٹا یا اتنا بڑا ہو جائے تویہ کتنی پریشان کن بات ہوگی؟ الله تعالیٰ نے سورج اور زمین کے درمیان ایک متوازن فاصلہ رکھا ہے، یہ فاصلہ بڑھ جائے تو زمین برف سے ڈھک جائے گی او رگھٹ جائے تو زمین پرناقابل ِ برداشت گرمی ہوگی، قدرت کا پورا نظام اعتدال پر قائم ہے اور یہ ترازو رب کائنات نے خود اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، اسی لیے قرآن نے الله تعالیٰ کو ”رب العالمین“ قرار دیا ہے۔

جیسے الله تعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو اعتدال پر قائم فرمایا ہے، اسی طرح الله اپنے بندوں سے بھی اعتدال چاہتے ہیں او رافراط وتفریط کو ناپسند فرماتے ہیں، قرآن کہتا ہے کہ الله تعالیٰ تمہیں عدل کا حکم دیتے ہیں:﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ﴾․(سورة النحل، آیت:90)

عدل کی روح اعتدال ہے اور جادہٴ اعتدال سے ہٹ جانا ہی انسان کو ظلم کی طرف لے جاتا ہے، اعتدال زندگی کے کسی ایک شعبہ سے متعلق نہیں، بلکہ یہ زندگی کے ہر مرحلہ میں مطلوب ہے، قرآن وحدیث پر نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ گفتار ورفتار، خوشی وغم، سلوک وبرتاؤ اور الله تعالیٰ کی عبادت … ہر شعبہٴ زندگی میں افراط وتفریط ناپسندیدہ ہے اور اعتدال مطلوب ومحبوب ہے۔

اگر انسان چل رہا ہو تو اس کی رفتار معتدل ہونی چاہیے او راس میں اترانے کا انداز نہیں ہونا چاہیے، یہ چال کا اعتدال ہے، قرآن کہتا ہے کہ تم زمین میں اترا کر نہ چلو، کہ تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ کی بلندیوں کو چھو سکتے ہو :﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا﴾․الاسراء:37) بول چال میں اعتدال چاہیے، نہ ایسی پست آواز ہو کہ مخاطب سن بھی نہ سکے، نہ اتنی بلند ہو کہ حد اعتدال سے گذر جائے، قرآن کہتا ہے کہ آواز حسب ضرورت پست ہونی چاہیے، گدھے کی آواز بہت بلند ہوتی ہے، لیکن سب سے ناپسندیدہ:﴿وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیرِ﴾․(سورة لقمان، آیت:19)

لباس وپوشاک میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایسے لباس کو پسند نہیں فرمایا جس کے پیچھے جدبہٴ تفاخر کار فرما ہو، آپ خود سادہ لباس استعمال فرماتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے سادہ لباس استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی، لیکن یہ بھی مقصود نہیں کہ آدمی ایسے پھٹے کپڑے پہنے جو اس کے مصنوعی فقر کا مظہر ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب الله تعالیٰ کسی کو نعمت سے سرفراز فرمائے تو اس پر اس نعمت کا اثر نظر آنا چاہیے، غرض کہ نہ افراط ہو اور نہ تفریط، ایک طرف آپ صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا بہ تاکید حکم فرمایا، (ترمذی، حدیث نمبر:2763) دوسری طرف حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ چہرے کی چوڑائی اور لمبائی والے حصہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کچھ داڑھی تراشا بھی کرتے تھے۔ (ترمذی، حدیث نمبر:2762)

دعا کے بارے میں فرمایا کہ آواز بہت بلند نہ ہو، بلکہ ایک حدتک پست ہو، بہت بلند آواز میں دعا کرنے کو زیادتی قرار دیا گیا ہے:﴿ادْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ﴾․ (الاعراف:55) بالغ لڑکی کو خود اپنے نکاح کاحق دیا گیا ، ارشاد ہے کہ بے شوہر خاتون بہ مقابلہ ولی کے خود اپنی ذات کی زیادہ حق دار ہے۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر2098) لیکن چوں کہ ولی کی شرکت کے بغیر عورت کی ناتجربہ کاری اسے نقصان پہنچا سکتی ہے، اس لیے یہ بھی فرما دیا گیا کہ ولی کی شرکت کے بغیر نکاح کا انعقاد بہتر نہیں:”لانکاح الابولی“․(ابوداؤد،حدیث نمبر:2085)

اگر کوئی شخص ظلماً قتل کیا گیا ہو تو حکم فرمایا گیا کہ مقتول کا ولی قاتل سے انتقام لے سکتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ یہ بھی قاعدہٴ قانون اور اصول کے دائرہ میں ہو اور قتل میں حدود سے تجاوز نہ ہو:﴿وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِف فِّی الْقَتْلِ﴾․(الاسراء:33) انفاق اسلام میں کس قدر مطلوب اور پسندیدہ عمل ہے؟ لیکن قرآن نے یہاں بھی اعتدال پر قائم رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ نہ اپنے ہاتھ بالکل باندھ لو اور نہ اتنا خرچ کرو کہ خود تمہارے لیے حسرت اور لوگوں کی ملامت کا سبب بن جائے:﴿وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلَیٰ عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا﴾․(الاسراء:29) ایک صحابی اپنی پوری جائیداد الله کے لیے وقف کرنا چاہتے تھے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعتدال کا حکم دیا اور غلو کو منع فرمایا، حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ مسلسل روزے رکھتے اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو علم ہوا تو ناپسندیدگی ظاہر کی اور فرمایا: کبھی روزے رکھو اور کبھی نہ رکھو، نماز بھی پڑھو اورسوؤ بھی، کیوں کہ تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے، تمہاری جان کا بھی، اورتمہاری بیوی کا بھی۔ (بخاری، حدیث نمبر:1977) اسی طرح کی بات آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی الله عنہ سے بھی ارشاد فرمائی، (دیکھیے، ابوداؤد ،حدیث نمبر:1369) اگر کسی شخص کو روزہ رکھنے کی طرف بڑی رغبت ہو تو اسے صوم داؤدی رکھنے کا حکم دیا گیا، یعنی حضرت داؤد علیہ السلام کے طریقہ پر عمل کرنے کا حکم ہوا، حضرت داؤد علیہ السلام کا عمل یہ تھا کہ ایک دن روزہ رکھتے او راگلے دن نہیں رکھتے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو روزہ رکھنے کا سب سے معتدل طریقہ قرار دیا: ”وھواعدل الصیام وھو صیام داود“․ (ابوداؤد، حدیث نمبر:2427)

حلال وحرام میں بھی الله تعالیٰ نے اعتدال کا حکم فرمایا، جہاں اس بات کو منع کیا گیا کہ آدمی حرام کو اپنے لیے حلال کر لے، وہیں یہ بھی حکم فرمایا گیا کہ جن چیزوں کو الله تعالیٰ نے حلال کیا ہو، دین میں غلو کا راستہ اختیار کرتے ہوئے حلال کو بھی حرام نہ کر لیا جائے:﴿لاتُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوا﴾․(المائدہ:87) جہاد میں دین وایمان اورنفس وجان کا علانیہ دشمن سامنے ہوتا ہے، لیکن اس موقع پر بھی راہ ِ اعتدال کی راہ نمائی کی گئی کہ جو تم سے برسرِ جنگ ہو تمہار ی جنگ ان ہی لوگوں تک محدود ہونی چاہیے اور اس سے آگے تجاوز نہیں کرنا چاہیے:﴿وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ﴾․ (البقرة:190)انسان جوش انتقام میں جادہٴ انصاف سے ہٹ جاتا ہے اورحد اعتدال سے گذر جاتا ہے، اس لیے فرمایا گیا کہ اگر کسی نے تم پر ظلم کیا ہو تو تمہارے لیے اس کے ظلم کے بقدر ہی اقدام کی گنجائش ہے، جواب میں تمہارے لیے انصاف کے دائرہ سے آگے بڑھ جانا درست نہیں: ﴿فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَیٰ عَلَیْکُمْ ﴾(البقرة:194)

جب نفرت کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور کسی گروہ کی طرف سے زیادتی کا واقعہ پیش آتا ہے تو فطری طور پر غضب کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور یہ آگ انصاف کے تقاضوں کو سوکھے پتوں کی طرح جلا کر رکھ دیتی ہے، قرآن نے خاص طو رپر تاکید کی کہ گواعدائے اسلام نے تمہیں مسجد ِ حرام سے روک رکھا ہے، لیکن ان کی یہ برائی بھی تمہیں انصاف کا دامن چھوڑ دینے اورانتقام کی نفسیات سے مغلوب ہو کر تمہارے آمادہٴ ظلم ہو جانے کا باعث نہ بنے(المائدہ:2)… تنقید او راحترام میں بھی میانہ روی مطلوب ہے، یہ جائز نہیں کہ کسی کی فکر پر تنقید کرتے ہوئے اس کی ذاتیات کو بھی نشانہ بنایا جائے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھی ایسا نہیں کیا اور اس بات سے بھی منع کیا گیا کہ احترام میں غلو کی صورت پیدا ہو جائے، اسی لیے غیر الله کو سجدہ کرنے او رکسی کے سامنے اپنے آپ کو جھکانے سے منع کیا گیا۔

عام طور پر دو چیزیں انسان کو راہِ اعتدال سے منحرف کردیتی ہیں، محبت اور عداوت، محبت انسان سے بصیرت ہی نہیں، بصارت بھی چھین لیتی ہے او راسے اپنے محبوب کی برائیوں میں بھی بھلائیاں نظر آتی ہیں، یہی حال نفرت وعداوت کا ہے، دشمن میں رائی جیسی برائی ہو تو وہ پہاڑ محسوس ہوتی ہے اور پہاڑ جیسی خوبی ہو تو وہ رائی سے بھی حقیر نظر آتی ہے، اسلام سے پہلے جو قومیں گم راہ ہوئیں، ان کی گم راہی کا باعث یہی ہوا، غلو آمیز محبت یا انکارونفرت، اسلام نے اسے اس میں بھی اعتدال کا حکم دیا ہے، دشمن بھی ہو تو اس کی غیبت اور بہتان تراشی سے منع فرمایا گیا، دوست او رمرکز عقیدت ہو تب بھی اس کی تعریف میں غلو او رمبالغے اور تملق وخوشامد کو ناپسند کیا گیا، قرآن مجید کہتا ہے کہ کسی سے عداوت ہو، تو اس کو بھی حد اعتدال سے باہر نہ جانے دے، ممکن ہے کہ کل ہو کر الله تعالیٰ تمہارے او راس کے درمیان محبت پیدا فرمادے!﴿عَسَی اللَّہُ أَن یَجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِینَ عَادَیْتُم مِّنْہُم مَّوَدَّةً﴾․(الممتحنة:7) رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ اسے مزید واضح فرمایا، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ راوی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : اپنے دوست سے حد اعتدال میں رہتے ہوئے دوستی کرو، بعید نہیں کہ کسی دن وہی تمہارا دشمن بن جائے او راپنے دشمن سے بھی بغض میں اعتدال رکھو، کیا عجب کہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔ (ترمذی، حدیث نمبر:1998) غرض کہ دوستی اور وشمنی میں بھی اعتدال ہو۔

جو قوم دنیا کے لیے عدل او راعتدال کی امانت لے کر آئی تھی اورجس سے دنیا کی قوموں نے میانہ روی کا سبق سیکھ کر تہذیب وثقافت کی منزلیں طے کیں اور شہرت وناموری کے بام کمال تک پہنچیں، آج وہی امت افراط وتفریط، بے اعتدالی اور غلو کا عنوان بن گئی ہے، زندگی کا کون سا شعبہ ہے، جس میں ہم نے بے اعتدالی کو اختیار نہیں کیا، تعمیری کاموں میں ہمارا بخل اور بے فائدہ کا موں میں ہماری فضول خرچی دونوں کی مثال نہیں ملتی۔ احترام وعقیدت میں ذرہ کو آفتاب بنانا اور اختلاف وعداوت میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ انتشار بنانا ہمارا طرہٴ امتیاز سمجھا جاتا ہے، ہمارا ایک گروہ حکومت ِ وقت کے اشارہ پر آگ کو پانی کہنے میں بھی نہیں شرماتا، اورہمارا ایک طبقہ چنگاری جیسے واقعہ پر خود شعلہ بن جاتا ہے، لوگوں کے ساتھ سلوک کے معاملہ میں ہماری بے اعتدالی دن رات کا مشاہدہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ افراط وتفریط آخرت میں الله کی پکڑ اور دنیا میں قوموں کی رسوائی کا سامان ہے اوراعتدال ومیانہ روی آخرت میں سرخ روئی اور دنیا میں کام یابی کی کلید!!