اسلامی تجارت اور مسلم معاشرہ

اسلامی تجارت اور مسلم معاشرہ

مفتی محمد عبدالحمید قاسمی

شریعت میں تجارت او رمعاملات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط اور بے جانہ ہو گا کہ دنیا کے کسی مذہب ونظام نے معیشت وتجارت کو وہ مقام اور اہمیت نہیں دی جو مذہب اسلام نے دی ہے ، اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جن میں خرید وفروخت کرنے والوں کے درمیان کسی قسم کا دھوکا نہ ہو اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی قسم کے دھوکے، فریب یا فراڈکا اندیشہ ہو، دین اسلام نے بیع (خرید وفروخت) کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، جب آپ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اعلان ِ نبوت سے پندرہ بیس سال پہلے سے تجارت سے وابستہ تھے اور بطور صادق وامین پورے جزیرہٴ عرب میں معروف ومشہور تھے۔

تجارت میں بے پناہ برکت ہے اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے تجارت کی ہے، اس لیے یہ سنت بھی ہے، جس طرح اسلام میں ہر کام کے اصول موجود ہیں اسی طرح تجارت کے بھی کچھ اصول وضوابط ہیں، جن پر عمل کرکے ہی کام یابی حاصل کی جاسکتی ہے، تجارت میں سب سے زیادہ جس چیز کی اہمیت ہے وہ اخلاق وکردار کی پاکیزگی کی ہے، آج آپ دنیا کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اکثر کا تعلق تجارت سے ہے۔ کاروبار میں لوگوں کو دھوکہ دینے اور بددیانتی کرنے کے مواقع زیادہ ملتے ہیں، لیکن جو تاجر اس کے باوجود دھوکا نہیں دیتا،دیانت داری کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہ خوف ِ خدا، تقویٰ اور طہارت قلب کا باعث بنتا ہے، اس سے نیک نامی ہوتی ہے اور نیک نامی خدا کا ایک اَن مول تحفہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

اسلامی تجارت قرآن وحدیث کی روشنی میں
قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے رسولوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ﴾ (سورة المؤمنون)۔”یعنی اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزوں میں سے ( جو چاہو)کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو مجھے اس کا پورا پورا علم ہے“۔ اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰٰ نے پاکیزہ اور حلال رزق کو نیک اعمال پر مقدم فرمایا ہے، معلوم ہوا کہ نیک اعمال کا صدورحلال رزق پر موقوف ہے۔ کہیں الله تعالیٰ نے مال کو باطل، حرام، ناجائز، جبرواکراہ اور زبردستی کے طریقے پر کھانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ ﴾․(سورة النساء:29)

”یعنی اے ایمان والو! تم اپنے مالوں کو غلط طریقے سے مت کھاؤ، الایہ کہ آپس کی رضا مندی سے تجارت کی صورت میں ۔“

ایک موقع پر ناپ تول کے سلسلے میں خصوصی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَأَوْفُوا الْکَیْلَ إِذَاکِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ ذَٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا﴾․ (سورة الاسراء:35)

”اور جب کسی کو کوئی چیز پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو اور تولنے کے لیے صحیح ترازو استعمال کرو۔یہی طریقہ درست ہے اور اسی کاا نجام بہتر ہے۔“

کہیں الله تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا:﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِین، الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُون، وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ﴾․(سورة المطففین:3-1)

”یعنی بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ، جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کو ئی چیز ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اورجب وہ کسی کو ناپ کریاتول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں“۔

ان آیتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی گئی ہے جو دوسروں سے اپنا حق وصول کرنے میں تو بڑی سرگرمی دکھاتے ہیں ، لیکن جب دوسروں کا حق دینے کا وقت آتا ہے تو ڈنڈی مارتے ہیں۔ یہ وعید صرف ناپ تول ہی سے متعلق نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کے حقوق کو شامل ہے اور اس طرح ڈنڈی مارنے کو عربی میں ”تطفیف“ کہتے ہیں۔ (آسان ترجمہ قرآن)

ذیل میں چند احادیث بالترتیب وبا حوالہ پیش خدمت ہیں، جس میں فضائل تجارت، طریقہٴ تجارت کے آداب، اصول وضوابط اور خلاف شرع تجارت میں پیش آنے والی وعیدوں کا تدکرہ ہے اور تقریباً بیع اور تجارت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

حضرت ابو سعید خدری نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سچے اور امانت دار تاجر، انبیاء، صدیقین اور شہداء کے زمرے میں ہوں گے۔ (ترمذی:2/145) حضرت صخر الغامدی کی روایت ہے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے الله! تو میری امت کے لیے صبح کے وقت میں جانے میں برکت عطا فرما ۔حضرت صخر تاجر آدمی تھے تو جب اپنے تاجروں کو بھیجتے تھے تو صبح سویرے بھیجتے تھے، اس طرح وہ مال دار ہو گئے اور مال زیادہ ہو گیا۔ (ترمذی:1/145) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے ،رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا کچھ تخفیف کر دی تو قیامت کے دن الله اس کو اپنے عرش کے سایہ میں رکھیں گے جس دن کوئی سایہ سوائے الله تعالیٰ کے سائے کے نہیں ہو گا۔ (ترمذی:1/156)

حضرت رفاعہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تاجر حضرات قیامت کے دن نافرمان لوگوں میں اٹھائے جائیں گے، سوائے اس تاجر کے جس نے الله کا خوف کیا، نیکی کی اور سچائی اختیار کی۔ (ترمذی:2/145) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو بہتر طور پر ادا کرنے والے ہوں۔ (مشکوٰة:251)

حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے ایک آدمی مر گیا تو اس سے سوال ہوا تم کیا کرتے تھے؟ اس نے جواب دیامیں لوگوں سے خریدوفروخت کرتا تو میں مال دار سے درگزر کا معاملہ کیا کرتا تھا اور تنگ دست کو معاف کر دیا کرتا تھا۔ اس بات پر اس کی مغفرت ہو گئی۔ ( بخاری:1/322)

حضرت جابر بن عبدالله کی روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله اس شخص پر رحم کرے، جو نرم ہو بیچنے اور خریدنے یا تقاضا کرنے میں ۔ (بخاری:1/278)

حضرت ابوہریرہ  سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پا س سے گزرے تو اس ڈھیر میں اپنا ہاتھ داخل فرمایا اور جب انگلیوں کو کچھ تری محسوس ہوئی تو آپ نے اناج کے مالک سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اناج بارش سے بھیگ گیا ہے تو آپ نے فرمایا تو تم نے اس گیلے اناج کو اوپر کیوں نہیں رکھا، تاکہ لوگ دیکھ لیتے؟ پھر فرمایا جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

حضرت مقدام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر نہیں کھایا اور الله کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام تو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ (بخاری:1/227)

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میر ی جان ہے تم میں سے کوئی رسی لے اور اس سے اپنی پشت پر لکڑیاں کاٹ کر لائے یہ کہیں بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی آدمی کے پاس جائے اوراس سے سوال کرے، وہ اسے دے دے یا منع کر دے۔ (بخاری:1/199)

حضرت ابن مسعود بنی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز بنی آدم کے پیر اپنے رب کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے عمر کس چیز میں گزاری؟ جوانی کس چیز میں گنوائی؟ مال کہاں سے کمایا، مال کہاں خرچ کیا؟ جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟ (ترمذی:2/64)

پورے دین کا خلاصہ پانچ چیزوں میں ہے، اعتقادات، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات۔ تجارت کا معاملات، معاشرت( آپس میں رہن سہن کے طور طریقے) او راخلاقیات سے گہرا تعلق ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ ان کے بغیر تجارت کا تصور ہی ممکن نہیں، گویا کہ دین کا ایک بہت بڑا حصہ تجارت سے متعلق ہے۔ لیکن مسلم معاشرہ خصوصاً معاملات کے شعبہ میں سب سے پیچھے ہے، حال یہ ہوچکا ہے کہ مسلمان، مسلمان سے خرید وفروخت کرنے کو تیار نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان تاجر مہنگا بیچتا ہے اور ساتھ میں کم قیمت دینے کا احساس بھی جتلاتا ہے او رکبھی گاہک کے ساتھ بے التفاتی اور سخت رویہ بھی اختیار کرتا ہے، جب تاجر کے دل میں اسلامی تجارت کے اصول وضوابط کو چھوڑ کر محض رقم بٹورنے اور مال جمع کرنے کا جذبہ کار فرما ہو جاتا ہے تو حلال ، حرام، جائز، ناجائز کا کوئی پاس ولحاظ باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا ناپ تول میں کمی کرنا، جھوٹ بولنا، خیانت کرنا، دھوکا دینا، عیب چھپانا، نقلی چیز کو اصلی چیز بتا کر فروخت کرنا، مبیع یا ثمن کے ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا، مال دار کو مہلت نہ دینا، تنگ دست سے درگزر کا معاملہ نہ کرنا، خرید وفروخت میں نرمی سے پیش نہ آنا، رقم یا مبیع کا تقاضا کرنے میں سختی سے پیش آنا جیسے اعمال کاصدور ہوتا ہے، جس کانتیجہ آپسی دشمنی، نااتفاقی، تجارت کی برکتوں سے محرومی، ظلم وزیادتی، اخلاق کے زوال اور ایک دوسرے پر عدم ِ اعتماد کی شکل میں سامنے آتا ہے، جو اصل میں معاشی اعتبار سے معاشرہ کا سب سے بڑا نقصان ہے۔

گزارش
حلال وحرام کے ساتھ مشتبہ چیزوں کی بھی رعایت ملحوظ رکھیں اور شرعیت میں جو حقوق الله اور حقوق العباد مال سے متعلق ہیں ان کو اہتمام سے ادا کریں، کیوں کہ یہی تجارت اجر وثواب کا باعث ہے، نیز کوئی بھی تجارت خلاف شرع نہ ہو ،تجات میں غیر مسلموں کی نقالی اور ان کے طور طریقوں کو فروغ نہ دیں، بلکہ آپ ملازمت اور تجارت کے جس شعبہ میں بھی خدمت انجام دے رہے ہیں کسی عالم یا مفتی سے اسلامی احکام سے مکمل واقفیت حاصل کرکے ہی ملازمت وتجارت کریں۔ نیز برکتوں کے حصول کے لیے صبح سویرے ہی کاروبار وتجارت کا آغاز کریں۔ مال دار حضرات قومی وملی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنی دکانوں ، مکانوں او رکمپنیوں میں خاص طور پر غریب مسلمانوں کے لیے روز گار فراہم کریں یا مال دار حضرات قومی وملی فریضہ سمجھ کر الله تعالیٰٰ کی عطا کردہ نعمت کا شکر بجالاتے ہوئے غریب او رمتوسط طبقہ کے وہ مسلمان جو کسی فن میں مہارت رکھتے ہوں، مگر محض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تنگ دستی کا شکار ہوں تو ان کو بیع مضاربت یا قرض کے طور پر مال دے کر ان کی معاشی تنگی کو دور کرنے کا ذریعہ بنیں، نیز پیشہ ور مسلمان فقراء ،جو صحت مند ہیں اور جن کے اعضا صحیح سلامت ہیں ، ان کو بھیک مانگنے کی وعیدیں سنا کر حتی المقدور تجارت کرنے پر زور دیا جائے او رایسے لوگوں کا تعاون کرکے ان کو تقویت پہنچانے سے گریز کیا جائے اور صحیح مستحقین تک وہ تعاون پہنچایا جائے، خرید وفروخت کے وقت مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلمانوں کے ساتھ بھی نرم لہجہ سے گفت گو کریں اور اخلاق کے ساتھ پیش آئیں، جوموجودہ زمانہ کا ایک اہم تقاضا بھی ہے، تاکہ غیرمسلم، مسلمان او راسلامی تجارت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیں یا کم ازکم اسلام کے خلاف اپنی آواز پست کر لیں۔

خلاصہ
اگر حلال طریقہ پر مال حاصل کیا جائے اور صحیح راستہ سے خرچ کیا جائے تو یہ اسلام میں عین مطلوب ہے، کیوں کہ بہت سے حقوق مال ہی سے متعلق ہیں، مال یہ ایسی چیز ہے جو بعض دفعہ انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے، اسی لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ تجارت کریں، کسی چیز کا بھی کاروبار ہو اس کو اسلامی اصول وضوابط اور ایمان داری کے ساتھ کریں، جس کے بعد برکتوں کا نزول ہو گا اور اس سے ہماری معیشت مضبوط ومستحکم ہو گی ان شا ء الله۔ دعا ہے کہ الله تعالیٰ ہم سب کو شریعت کے مطابق تجارت کرکے اس کے فضائل حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!