اساتذہ کے حقوق وآداب

idara letterhead universal2c

اساتذہ کے حقوق وآداب

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی

﴿لقد منّ اللّٰہ علی الموٴمنین․․․ یعلمھم الکتاب والحکمة﴾․

(البتہ احسان کیا اللہ تعالیٰ نے موٴمنوں پر (الیٰ قولہ) سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت)

اس آیت کریمہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت بعثت پر منت ہونے کی علت میں تعلیم کتاب وحکمت کو ذکر فرمانا صاف دلیل ہے کہ جو شخص کسی کو دین کی تعلیم کرے وہ اس شخص کے حق میں نعمتِ الٰہی ہے اور اس کی قدر وتعظیم اس پر لازم ہے اور اس تعلیم میں سبق پڑھانا اور مسئلہ بتلانا وغیرہ سب داخل ہیں کہ یہ سب تعلیم کے طریقے ہیں، حتی کہ کسی کی تصنیف سے منتفع ہو جانا اس قاعدہ سے اس کے شاگردوں میں داخل ہوجانا ہے، اس کے حقوق بھی مثل استادوں کے ثابت ہوجائیں گے۔

﴿قال لہ موسیٰ ھل اتبعک﴾ الی آخر القصة․

(حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے کہا کہ کیا میں تمہاری پیروی کروں؟)

ان آیتوں میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ ہے، اس سے چند حقوق وآداب ثابت ہوتے ہیں، اول استاد کی خدمت میں خود شاگرد جایا کرے، ان کو تکلیف نہ دے کہ آکر پڑھا دیا کریں، اگر استاد کسی اعتبار سے شاگرد سے رتبے میں کم بھی ہو، تب بھی اس کا اتباع کرے۔

سوم:- جس بات کے پوچھنے کو وہ منع کریں نہ پوچھا کرے۔ اس کی مخالفت یا اس کو تنگ نہ کرے۔

چہارم:- اگر کبھی غلطی سے اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جاوے تو معذرت کر لے۔

پنجم: – اس کے تنگ ہونے یا مرض وغیرہ سے کسل مند ہونے کے وقت سبق بند کردے۔

استاد کے ساتھ گفتگو کے آداب ملحوظ رکھنا

﴿یایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا﴾

ترجمہ: اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! مت کہو راعنا اور کہو انتظار کرو ہمارا اور سنو۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ استاد کے ساتھ گفتگو میں بھی ادب ملحوظ رکھے۔ تابمعاملات چہ رسد۔

﴿انما الموٴمنون الذین آمنوا باللّٰہ ورسولہ واذا کانوا معہ علیٰ امرٍ جامعٍ لم یذھبوا حتی یستاذنوہُ﴾

ترجمہ: جز ایں نیست کہ موٴمن وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب ہوتے ہیں ساتھ رسول کے کسی اجتماعی بات پر تو نہیں جاتے جب تک اجازت نہ لے لیں۔

استاد کی خدمت میں بلا اجازت نہ جائے

اس آیت سے استاد کا یہ حق ثابت ہوا کہ اس کی خدمت سے بلا اذن نہ جائے، خواہ اذن صراحةً ہو یا دلالةً۔

تعلیم دین بھی احسان ہے

عن ابن عمر رضی اللہ عنہ: من صنع الیکم معروفا فکافئوہ، فان لم تجدوا ما تکافئونہ فادعوا لہ حتی تروا انکم قد کافأتموہ․ (رواہ احمد وابو داود والنسائی وابن حبان فی صحیحہ والحاکم فی مستدرکہ، کذا فی العزیزی)

ترجمہ: جو شخص تم پر احسان کرے اگر تم اس کی مکافات کر سکتے ہو تو کر دو، ورنہ اس کے لیے دعا کرو، یہاں تک کہ تم سمجھ لو کہ تم نے اس کی مکافات کردی۔

کیا کوئی شخص تعلیم دین کے معروف یعنی احسان ہونے سے انکار کرسکتا ہے؟ جب اس کا احسان ہونا مسلم ہوگیا تو اس کے مکافات میں اس کی ہر قسم کی خدمت مال سے جان سے داخل ہوگئی، جو حدیث ہذا میں مامور بہ ہے۔

اور جب کسی قسم کی استطاعت نہ رہے تو اس وقت اقل درجہ دعا ہی سے یاد رکھنا ضروری ہے۔

عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من لم یشکر الناس لم یشکر اللّٰہ․ (رواہ احمد والترمذی)

ترجمہ: جس نے آدمیوں کا شکر ادا نہ کیا، اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا۔

اس حدیث کے عموم میں استاد بدرجہ اولیٰ داخل ہے کہ بہت بڑی نعمت یعنی علم دین کا واسطہ ہے، اس کی حق شناسی میں کوتاہی کرنا بنص حدیث حق تعالیٰ کی ناشکری ہے، جس کا محل وعید ہونا نص قطعی سے ثابت ہے۔

قال تعالیٰ ﴿لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم (مقابل شکرتم) ان عذابی لشدید﴾ الآیہ

ترجمہ: اگر تم شکرکرو گے تو ہم اور زیادہ دیں گے اگر تم کفرانِ نعمت کرو گے تو یاد رکھو! ہمارا عذاب شدید ہے۔

یہ حدیثیں تو بعمومہا مدعا پر دال ہیں۔ آگے خصوص کے ساتھ دلالت کرنے والی احادیث منقول ہیں:

استاد اور شاگرد ایک دوسرے کو مغالطہ میں نہ ڈالیں

عن معاویہ b قال: ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن الا غلوطات․ (رواہ ابو داود)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (علوم میں) مغالطہ دینے سے منع فرمایا ہے۔

اس سے ایک ادب استاد کا ثابت ہوا، وہ یہ کہ بعض طلباء کی عادت ہے کہ خواہ مخواہ کتاب میں احتمالات نکال کر استاد کے سامنے بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں اور خود بھی سمجھتے ہیں کہ مہمل اعتراض ہیں، مگر اپنی ذہانت جتلانے اور استاد کا امتحان کرنے کے لیے ایسی نا معقول حرکت کرتے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ یہ مغالطہ ہوا کہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ مقامِ مشتبہ ہے، حالاں کہ خود اپنے نزدیک بھی مشتبہ نہیں اور اسی سے شاگرد کا بھی ایک حق ثابت ہوگیا، وہ یہ کہ بعض مدرسین کی عادت ہے کہ کسی مقام پر خود بھی شبہ ہے، مگر شاگرد پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کچھ گڑھ مڑھ کر تقریر کردیتے ہیں۔ گویا اس کو دھوکا دیتے ہیں کہ اس مقام کی یہی تقریر ہے، حالاں کہ خود بھی یہ اطمینان نہیں۔

علم دین پڑھانے والا سب سے زیادہ سخی ہے

عن انس بن مالک bرضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ھل تدرون من اجود جودا؟ قالوا: اللّٰہ ورسولہ اعلم․ قال: اللّٰہ اجودُ جودًا، ثم انا اجود بنی آدم، واجودھم من بعدی رجل علم علما فنشرہ یاتی یوم القیامة أمیراً وحدہ (رواہ البیھقی)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ انہوں نے (ازراہِ ادب) عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کا نبی دانائے حال ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ سخی اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر تمام بنی آدم میں سب سے زیادہ سخی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر سب سے زیادہ سخی وہ شخص ہے کہ جس نے علم دین سیکھا اور اس کو پھیلایا یہ شخص قیامت میں تنہا بمنزلہ ایک امیر کے آئے گا۔ (بیہقی)

اس حدیث میں بعد اللہ ورسول کے سب سے زیادہ صاحب جود اس عالم کو فرمایا جو علم کو شائع کرے، جس طریق سے بھی ہو، خواہ تدریس سے یا وعظ وتلقین سے، خواہ تصنیف سے اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی پر جود کرے اس کا کتنا حق ہوتا ہے؟ پس یہ مشیعین للعلم جن لوگوں پر جود خاص کر رہے ہیں اور وہ متعلمین ہیں باقسامہم ان پر ان کا کیسا کچھ حق ہوجائے گا؟!

اگر استاد کسی کتاب پڑھنے سے منع کرے تو شاگرد کو اس پر عمل کرنا چاہیے

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کتب امیر السریة کتابا وقال لا تقرأہ حتی تبلغ مکان کذا وکذا فلما بلغ ذلک المکان قرأہ علی الناس واخبرھم بامر النبی صلی اللہ علیہ وسلم․ (رواہ البخاری)

ترجمہ: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امیر لشکر کو حکم نامہ لکھ کردیا اور (ایک مصلحت کے سبب) یہ فرمایا کہ جب تک فلاں مقام پر نہ پہنچ جاوٴ اس کو مت پڑھنا، چناں چہ اسی کے موافق عمل کیا۔

اس حدیث سے ایک ادب ثابت ہوا جو طالب علموں پر لازم ہے، وہ یہ کہ استاد اگر کسی کتاب پڑھنے سے کسی خاص وقت میں منع کرے، مثلا اس کے نزدیک شاگرد کی استعداد سے زیادہ ہے، اس مصلحت سے اس وقت پڑھنے سے منع کرتا ہے تو طالب علم کو چاہیے اس پر عمل کرے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہر طرح مبارک ہی تھا اور اس کا پڑھنا اور جاننا ہر وقت عبادت تھا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مصلحت سے ایک وقت معین کے قبل تک اس کے مطالعہ سے منع فرمایا اور ان صحابی نے ویسا ہی کیا۔

شاگرد کے بے ڈھنگے سوال پر اگر استاد غصہ کرے تو صبر کرنا چاہیے

عن زید بن خالد الجھنی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سألہ رجل عن اللقطة فقال: اعرف وکاء ھا او قال وعاء ھا وعفاصھا ثم عرفھا سنة ثم استمتع بھا (إن کنت فقیراً ولا تصدق بھا) فان جاء ربھا فادھا الیہ․ قال: فضالّة الابل؟ فغضب حتی احمرت وجنتاہ او قال: احمر وجھہ فقال: ما لک ولھا؟ معھا سقاء ھا وحذاوٴھا ترد الماء وترعی الشجر، فذرھا حتی یلقٰھا ربھا․ (رواہ البخاری)

ترجمہ: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے لقطہ (گری ہوئی چیز کے پانے کا) مسئلہ دریافت کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا سر بند اور ظرف پہچان لے اور سال بھر تک اس کی تعریف کر، اگر کوئی مالک نہ ملے (اور تو محتاج ہو) تو اس سے نفع اٹھا (ورنہ صدقہ کردے) پھر اگر اس کا مالک آوے تو اس کو دے دے، اس سائل نے کہا کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس سوال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آثار غصہ نمودار ہوئے، حتی کہ رخسار ہائے مبارک سرخ ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تجھے اس سے کیا کام ہے؟ اس کے ساتھ اس کی مشک ہے اور اس کے موزے، پانی پر جاکر پانی پیتا ہے اور درختوں سے چارہ کھاتا ہے۔ (بخاری)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی بے ڈھنگے سوال پر استاد غصہ کرے تو شاگرد کو چاہیے کہ اس کو گوارا کرے، مکدر نہ ہو، جس طرح یہاں اس صحابی نے برا نہیں مانا۔

جہاں تک ہوسکے استاد کے ساتھ رہنے کی کوشش کریں

عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ فی حدیث طویل وان ابا ھریرة رضی اللہ عنہ کان یلزم رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بشبع بطنہ ویحضر مالا یحضرون ویحفظ مالا یحفظون․(البخاری)

ترجمہ: ایک طویل حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے پیٹ بھر غذا ملنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہمیشہ رہتے تھے، اس قدر اور لوگ حاضر نہ رہ سکتے تھے اور احادیث، اس قدر یاد کرتے تھے کہ اور لوگ نہ یاد کرسکتے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر پیٹ بھرائی کھانا مل جاوے تو حتی الامکان استاد سے جدا نہ ہو کہ اس کی عنایت بھی بڑھ جاتی ہے اور فوائدِ علمیہ بھی حاصل ہوتے ہیں اور اس کی خدمت کا بھی موقع ملتا ہے، چناں چہ حضرت ابوہریرہ t سے موقع پر خدمتیں لینا بھی احادیث میں وارد ہے۔

استاد کی تقریر کے وقت بالکل خاموش رہنا چاہیے

عن جریر رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ فی حجة الوداع: استنصت الناس․(رواہ البخاری)

ترجمہ: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں خطبہ کے وقت حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لوگوں کو چپ کرواوٴ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استاد کی تقریر کے وقت بالکل خاموش اور متوجہ رہنا چاہیے، کسی سے بات نہ کرے، کسی کی طرف التفات نہ کرے۔

اگر استاد کسی بات پر ناراض ہو تو ان کو خوش کرنا چاہیے

عن جابر رضی اللہ عنہ ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اتی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بنسخةٍ من التوراة، فقال: یا رسول اللّٰہ، ہذہ نسخة من التوراة، فسکت فجعل یقرأ ووجہ رسول اللّٰہ S یتغیر فقال ابوبکر رضی اللہ عنہ: ثکلتک الثواکل، ما تری ما بوجہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ فقال: اعوذ باللّٰہ من غضب اللّٰہ ورسولہ․ (الحدیث) (رواہ الدارمی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک نسخہ توراة کا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ نسخہ توراة کا ہے، آپ سن کر خاموش رہے، حضرت عمر نے اس کو پڑھنا شروع کیا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے عمر! رو ئیں تجھ کو رونے والیاں، کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوئے انور پر ناگواری کو نہیں دیکھتے؟! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھتے ہی فرمایا، پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کے غصے سے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کے غصہ سے (دارمی)

اس حدیث سے ایک حق استاد کا یہ ثابت ہوا کہ اگر وہ کسی بات پر غصہ کرے تو شاگرد کو معذرت کرنا اور اس کو خوش کرنا ضروری ہے۔ دوسرا حق شاگرد کا ثابت ہوا کہ اگر اس سے کوئی امر نامناسب صادر ہو تو اس کو متنبہ کرنا ضروری ہے اور اس سے اس کی اصلاح ہوتی ہے۔ تیسرا حق شریک علم کا ثابت ہوا کہ اس کی غلطی پر جس پر وہ خود مطلع نہ ہوا، خیر خواہی سے مطلع کردے کہ وہ اس کا تدارک کرے اور وہ بھی اس کو قبول کرے، جیسا حضرات شیخین سے واقع ہوا۔

اہل علم اور استاد کے ساتھ ادب وتواضع سے پیش آنا چاہیے

فی الترغیب والترھیب للمنذری عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ S: تعلموا العلم، وتعلموا للعلم السکینة والوقار، وتواضعوا لمن تعلمون منہ․ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم سیکھو اور علمِ کے لیے سکینہ اور وقار اختیار کرو اور جس سے علم سیکھتے ہو اس کے ساتھ تواضع اور ادب سے پیش آوٴ۔ (ترغیب وترہیب)

اس حدیث میں ترغیب علم واختیار وضع اہلِ علم کے ساتھ، استاد کے ساتھ ادب سے پیش آنے کا صریح امر ہے۔

استاد کے حقوق کے متعلق مختلف کوتاہیاں

اب بعد سَوقِ نصوص کے واقعات پر نظر کر کے کچھ کوتاہیاں اس باب کے متعلق عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

سو جاننا چاہیے کہ جو لوگ استاد کے حقوق ضائع کرتے ہیں، جیسا کہ تمہید مضمون میں بیان کیا گیا، مختلف اقسام ہیں، بعض تو خود زمانہ تحصیل علم میں بھی کوتاہیاں کرتے ہیں۔ پھر ان میں بعضے تو ظاہر حقوق میں بھی کوتاہیاں کرتے ہیں، جیسے ان کا ادب نہ کرنا، مثلا آنے جانے کے وقت سلام نہ کرنا، اس طرف پشت کر کے بیٹھنا یا ادھر پاوٴں پھیلا دینا اور جیسے اطاعت کم کرنا، مثلا کوئی بات مان لی، کسی بات کو ٹال دیا اور جیسے خلوص میں کمی کرنا، مثلا اس سے فریب کرنا، جھوٹ بولنا، اپنی خطا کی تاویل کرنا اور جیسے خدمت میں کمی کرنا، خواہ بدنی ہو، مثلا اس کو پنکھا جھلنا، اس کا بدن دابنا، ومثل ذلک اور خواہ مالی ہو، مثلا حق تعالی نے اپنے کو وسعت دی ہے اور استاد نادار ہے، اس وقت اس کی خدمت میں کچھ نقد یا متاع یا طعام بطور ہدیہ کے پیش کرنا، اس میں ایسے منکر ہیں کہ وہ بدنی خدمت کو عار اور ذلت سمجھتے ہیں۔ اور بعض مال سے دریغ کرتے ہیں، خصوصا اگر استاد ان کا تنخواہ دار ہو تو تنخواہ دے کر سب حقوق سے اپنے کو سبک دوش سمجھ بیٹھتے ہیں، واقعی پھر کوئی حق واجب تو نہیں رہتا، لیکن کیا واجب کے بعد تطوع کا کوئی درجہ نہیں، بالخصوص جب کہ اس میں اپنا ہی نفع ہو؟! تجربہ سے یہ معلوم ہوا کہ استاد کا دل جس قدر خوش رکھا جائے گا۔ اس قدر علم میں برکت ہوگی۔

استاد کا حق پورا نہ کرنے کے متعلق ایک عجیب حکایت

میں نے ایک جگہ کسی بہت بڑے عالمِ کی حکایت لکھی دیکھی ہے کہ ان کے استاد ان کے وطن کی طرف اتفاق سے آئے تھے، سو سب شاگرد ان کی خدمت میں سلام کے لیے حاضر ہوئے اوریہ عالم بوجہ اس عذر کے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت میں مشغول تھے حاضر نہ ہوسکے، چوں کہ ایسی مشغولی نہ تھی کہ حاضر ہونے سے ضروری خدمت میں کوئی حرج واقع ہوتا، کسی قدر سستی سے بھی کام لیا، استاد کو یہ کم توجہی ناگوار ہوئی اور یہ فرمایا کہ بہ برکت خدمت والدہ کے ان کی عمر تو طویل ہوگی، مگر ہمارے حقوق میں کمی کرنے کے سبب ان کے علم میں برکت نہ ہوگی، چناں چہ عمر تو بہت ہوئی، لیکن تمام عمر گزر گئی نشر علم کے اسباب ان کے لیے جمع نہ ہوئے۔ کچھ ایسے اتفاقات وقتا فوقتا پیش آتے رہے کہ کبھی شہر میں رہنا ہی نصیب نہ ہوا، ہمیشہ گاوٴں میں رہتے رہے، جہاں نہ درس وتدریس کا موقع ملا، نہ دوسرے طرق اشاعت علم کا۔

غرض کہ استاد کے تکدر سے علم کی برکت جاتی رہتی ہے اور اس کی خوشی سے برکت ہوتی ہے، پس جو حقوق واجب نہیں ہیں، ان کی رعایت کرنے سے اپنا یہ نفع ہے۔

اور کہ غور کرنے کے قابل بات ہے کہ اگر استاد بھی اسی قاعدہ پر عمل کرے کہ تعلیم واجب سے زیادہ ایک حرف نہ بتلاوے، ایک منٹ زیادہ نہ دے، تقریر ایک بار سے زیادہ ہر گز نہ کرے تو کیا اس طرح سے اس کو علم حاصل ہوسکتا ہے؟ وہ بے چارہ اس کی تعلیم وتفہیم میں واقعی خون جگر کھاتا ہے تو اس کو کیا زیبا ہے کہ اس کے حقوق میں ضابطہ سے ایک انگل نہ بڑھے؟! یہ تو نری بے حسی وقساوت ہے۔

کتابوں کا مطالعہ کرنا بھی استاد کے حقوق میں داخل ہے

اور بعضے ایسے موٹے موٹے حقوق کی تو رعایت کرتے ہیں، لیکن ایسے حقوق میں کوتاہی کرتے ہیں جن کے سمجھنے میں سلیقہ کی ضرورت ہے، مثلا مطالعہ کم دیکھنا جس سے یا عبارت پڑھنے میں غلطیاں ہونے سے یا مقام کے کم سمجھنے کے سبب استاد کو کئی بار تقریر کرنے کی ضرورت واقع ہو، یا اسی کم سمجھنے کے سبب فضول سوال کرنے سے استاد کو تنگی وانقباض وپریشانی ہو تو کیا محسن کا یہی حق ہے کہ اس کو بلا ضرورت پریشان کیا جائے اور یہاں بلا ضرورت ہی ہے، کیوں کہ مطالعہ کے اہتمام سے یہ سب خلجانات رفع ہوسکتے تھے، میں یہ نہیں کہتا کہ مطالعہ دیکھنے سے پھر عبارت میں غلطی یا فہم مطالب میں کمی نہیں ہوتی، ضرور پھر بھی ہوتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے استادوں کو ایسی بصیرت عطا فرمائی ہے کہ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس نے اپنی کوشش صرف کی ہے یا نہیں، پس باوجود بذل کے جو کمی رہ جاتی ہے وہ چوں کہ اس کی وسعت سے خارج ہے، اس سے طبعًا تنگ دلی نہیں ہوتی، اس میں اس شاگرد کو معذور سمجھاتا ہے اور بے پروائی اور سستی معلوم ہونے سے بے حد ناگواری ہوتی ہے۔

استاد کی تقریر کے وقت ادھر ادھر نہیں دیکھنا چاہیے

اور مثلا استاد کی تقریر کے وقت دوسری طرف التفات کرنا کہ استاد تو اس کی طرف متوجہ اور یہ دوسری طرف متوجہ! اس سے استاد کو بہت کوفت ہوتی ہے، خصوص ایسی حالت میں جب کہ کوئی سوال بھی کرے، ایسا کہ اگر توجہ سے تقریر سنتا تو پھر سوال ہی نہ کرتا، اس وقت استاد کو سخت شکایت ہوتی ہے کہ ناحق ہی مجھ کو پریشان کر رہا ہے۔

مہمل اور لغو اور ذہانت دکھلانے کے لیے سوال نہیں کرنا چاہیے

اور مثلاً ایسا سوال کرنا جس کا جواب یا جس کی لغویت خود بھی معلوم ہے، جس طرح بعض طلباء کی عادت ہے کہ محض اپنی ذہانت دکھلانے یا استاد کا امتحان لینے یا محض مشغلہ وتفریح کی غرض سے دوراز کار مہمل مہمل سوالات کیا کرتے ہیں۔

ایک حکایت

جیسے ایک طالب علم کی حکایت سنی ہے کہ انہوں نے حدیث میں پڑھا کہ طلوع شمس کے وقت نماز نہ پڑھو، تو آپ کیا فرماتے ہیں کہ لا تصلوا بھی عام اور طلوع شمس بھی عام، خواہ کسی مقام کا طلوع شمس ہو اور یہ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ ہر وقت کہیں نہ کہیں طلوع ہوتا ہی رہتا ہے، تو اس سے لازم آتا ہے کہ کسی شخص کو کسی وقت بھی نماز پڑھنا جائز نہ ہو، ہر چند کہ اس کو سمجھایا گیا کہ بھائی! جہاں کا طلوع شمس ہو وہیں کے لوگوں کو اس وقت کے اعتبار سے لا تصلوا کا حکم ہے، مگر ان بزرگوار نے مانا ہی نہیں۔ یہی فرماتے رہے کہ نہیں صاحب! دونوں ہی میں عموم ہے، ان سے کہا گیا کہ بھائی! اس سے تو نماز کی فرضیت ہی لغو ہوئی جاتی ہے، کہتے ہیں کہ خواہ کچھ ہو جائے انصاف ہے، کیا یہ سوال قابل پیش کرنے کے ہے؟ اور کیا سچ مچ اس پاگل کو یہ شبہ تھا، محض فضول دق کرنے کے لیے اس نے یہ حرکت کی اور بجائے اس کے کہ اس کے زعم کے موافق اس کی ذہانت ظاہر ہوتی اور الٹا اس کوڑھ مغز ہونا ثابت ہوگیا، ایسے طالب علموں کو کبھی علم نصیب نہیں ہوتا۔

غرض استاد کو کبھی پریشان نہ کرے، بلکہ ادب کی بات تو یہ ہے کہ اگر اور کسی سبب سے یا اور کسی کے سبب سے وہ پریشان ہو تو اس وقت یا تو سبق ملتوی کردے یا بجز بہت ہی ضروری بات کے زائد باتیں نہ پوچھے۔

اور مثلا تعین سبق یا مقدار سبق میں استاد کی رائے نہ مانے، جیسے بعض طلبا کی عادت ہے کہ باوجود استاد کی رائے معلوم ہونے کے پھر اپنی رائے پر اصرار کرتے ہیں کہ ہم تو فلاں ہی کتاب شروع کریں گے یا اتنا ہی سبق پڑھیں گے یا فلاں ہی شخص سے پڑھیں گے، ان امور میں تو طالب علم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ﴿ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون﴾ ترجمہ: یعنی کہاں تجربہ کار اور کہا نا تجربہ کار، اس کو تو اس پر عمل کرنا چاہیے۔

بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ ورسم منزلہا

یہ وہ حقوق ہیں کہ جن کے سمجھنے کے لیے سلیقہ کی ضرورت ہے، یہاں تک کہ یہ سب جزئیات ہوئیں ان اضاعات حقوق کی، جو زمانہ تحصیل علوم میں سر زد ہوتی ہیں۔

فراغت کے بعد کوتاہی

ایک قسم وہ ہے جو بعد مفارقت استاد کا کوئی حق اپنے اوپر نہیں سمجھتے یا سمجھتے ہوں، مگر عمل کا اہتمام نہیں کرتے اور اس بلا میں بہت زیادہ ابتلا ہے اور تو کیا کرتے کبھی خط بھیجنے کی اور استاد کی خیریت پوچھنے کی توفیق نہیں رہتی ، سمجھتے ہیں کہ اب کیا علاقہ رہا، کیا صاحب محسن کا حق صدور احسان ہی کے زمانہ تک ہوتا ہے، پھر نہیں رہتا؟ اگر یہ بات ہے، پس بالغ ہو جانے کے والدین کے حقوق بھی رخصت ہوجاویں گے، ولا قائل بہ․

پھر یہ کہ گو صدور احسان کا اس وقت استاد سے نہیں ہورہا ہے، لیکن اس احسان کے آثار کا ظہور وترتب تو اس وقت بھی ہورہا ہے، بلکہ زیادہ اسی وقت ہو رہا ہے، کیوں کہ جتنا کمال علمی اس وقت تمہارا ظاہر ہورہا ہے اس کا منشا ومبدا وہی انعام تعلیمی استاد ہی کا تو ہے۔ ونعم ما قیل فی نحو ھذا المعنی:

فعادوا فاثنوا بالذی کان أھلہ
ولو سکتوا اثنت علیہ الحقائب

غرض یہ نا سپاسی ہی ہے کہ اپنا کام نکالا اور الگ ہوئے، یہ تو پوری خود غرضی ہے، سپاس گزاری یہی ہے کہ ہمیشہ جب تک جان میں جان ہے وہ وقت یاد رکھے کہ جب یہ اس کے سامنے کتاب رکھ کر بیٹھتا تھا اور یہی سمجھے کہ گویا ابھی اس کے پاس ہے، پڑھ کر اٹھ کر آیا ہوں اور پھر پڑھنے کے لیے جانا ہے تو اس وقت جتنے حقوق کو یہ ضروری سمجھتا تھا جن کی بقدر ضرورت تفصیل بھی ہوچکی ہے وہی حقوق اب بھی باقی ہیں۔ ایسا کرنے سے انشاء اللہ تعالی یومًا فیومًا علوم وبرکات میں ترقی ہوگی۔ قال تعالی: ﴿لئن شکرتم لازیدنکم﴾․

بلکہ ان حقوق کو ایسا مستمر سمجھے کہ استاد کی وفات کے بعد بھی وہ حقوق ملحوظ رکھے جو اس وقت ادا کیے جاسکتے ہیں اور ان کا خلاصہ دو امر ہیں، ایک اس کے لیے ہمیشہ دعائے مغفرت کرنا، دوسرے اس کے اہل واقارب کی تعظیم وخدمت کرنا، اسی طرح استاد کے دوستوں اور معاصرین کا احترام کرنا اور اگر ان کو حاجت ہو تو ان کی خدمت کرنا۔

احادیث میں اس قسم کے حقوق والدین کے لیے آئے ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے جو بعد وفات نبویہ آپ کے اہل کی خدمت کریں گے اور آپ کی عزت سے محبت رکھیں گے۔ اب صرف ان مضیعین حقوقِ استاد میں سے وہ لوگ رہ گئے جن کو میں نے تمہید میں بد نصیب کہا ہے، یعنی جو نفسانی اغراض سے استاد کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ ان کی شان میں تقریراً یا تحریراً گستاخی کر کے ان اشعار کا مصداق بنتے ہیں۔

از خدا جوئیم توفیق ادب
بے ادب محروم گشت از فضل رب
ہر کہ گستاخی کند اندر طریق
باشد او در لجہٴ حیرت غریق
بذر گستاخی کسوف آفتاب
شد عزازیلے زجرأت غریق

استاد وہ چیز ہے کہ اگر بضرورت دینیہ بھی اس کے خلاف کرنا پڑے، تب بھی کافر باپ کی طرح دین کے باب میں تو اس کی موافقت نہ کرے لیکن ادب اور احترام اس کا ترک نہ کرے، کیوں کہ وہ بھی ایک قسم کا یعنی روحانی باپ ہے، گو تعارض کے وقت باپ سے یہ مرجوح ہو، مگر حقوق غیر متعارضہ میں تو اس کا بھی وہی حکم ہے، آخر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اسی تربیت وروحانیت وتعلیم دینی ہی کے سبب تو یہ ارشاد ہوا ہے:

﴿النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم وازواجہ امھاتھم، وفی بعض القراء ت: وھو أب لھم․

پس استاد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث ونائب ہے، گو اس درجہ میں نہ سہی، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق، علی الاطلاق آباء نسبیہ پر مقدم ہیں، اس وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق حقوق الہیہ ہیں جو سب پر مقدم ہیں۔ یہ مختصر بیان ہوا اقسام مضیعین حقوق وآداب اساتذہ کا۔

تنخواہ دینے سے استاد کے حقوق سے سبک دوش نہیں ہوجاتا

ان سب اقسام میں ایک ایک مشترک شکایت ہے، وہ یہ کہ جو اساتذہ کسی مدرسہ سے تنخواہ پاتے ہیں، ان کے حقوق اور بھی ضعیف سمجھتے ہیں۔

افسوس یہ نہیں سمجھتے کہ جو بناہے ان حقوق کی وہ تنخواہ پانے سے منعدم نہیں ہوگئی تو مبنی کیسے مقصود ہو جاوے گا؟ اول تو تنخواہ کیا اس احسان کا بدل ہوسکتی ہے؟ دوسرے وہ تنخواہ انہوں نے بھی دی ہو اس سے زیادہ اس نے ان کو دیا۔

اور اگر کہا جاوے کہ جب نیت اس کی دنیا کی تھی تو احسان کم ہوگیا، یہ بھی محض غلط ہے، ثواب خواہ کم ہو جاوے، مگر احسان تو ویسا ہی ہے اور شاید اس مقام پر بعض کو یہ خیال ہو کہ ہم فلاں استاد کے بہت حقوق ادا کرتے ہیں تو تتبع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ نرا استاد سمجھ کر حقوق کم ادا کرتے ہیں، جس استاد کے حقوق کچھ ادا ہوتے ہیں ان میں کوئی دوسرا کمال بزرگی وغیرہ کا سمجھ کر ایسا کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جہاں نری استادی ہو وہاں کیا ہوتا ہے؟ اگر وہاں بھی رعایت حقوق کی ہو تو قابل مدح وتحسین ہے اسی طرح بعض اساتذہ کو جاہ دینوی حاصل ہونے سے اس کی تعظیم وتکریم کی جاتی ہے، وہ بھی کوئی دلیل شاگرد کی خوبی کی نہیں، وہ اس سے خود اپنی بڑائی کا سامان کرتا ہے، چناں چہ اگر استاد جاہ شہرت میں شاگرد سے کم ہوتا ہے، بعض ناخلف اپنے کو اس کی طرف منسوب کرتے ہوئے عار کرتے ہیں، اگر ایسے استاد کا بھی حق ادا کرے تو مبارک حالت اور قابل قدر ہے۔

تعمیر حیات سے متعلق