صدقہ فطر سے متعلق ضروری مسائل

صدقہ فطر سے متعلق ضروری مسائل

مسئلہ ۱۔بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں اس پر صدقہ فطر بھی واجب نہیں،حالاں کہ بہت سے لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ،مگر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔
مسئلہ ۲۔جو مسلمان اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہو یا زکوٰۃ تو فرض نہ ہو ،لیکن اس کے پاس ضروری سامان سے زائد اتنا سامان ہو کہ اس کی قیمت ساڑھے باون (٥٢) تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس پرصدقہ فطر واجب ہے ، چاہے وہ سامان تجارت کا ہو یا تجارت کا نہ ہو ( مثلاً گھریلو سامان ضرورت سے زائد ہو ) اور چاہے اس پر پورا سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو۔

 تجب علی حر مسلم مکلف مالک لنصاب أو قیمتہ وإن لم یحل علیہ الحول عند طلوع فجر یوم الفطر، ولم یکن للتجارۃ فارغ عن الدین وحاجتہ الأصلیۃ وحوائج عیالہ والمعتبر فیہا الکفایۃ لا التقدیر. وہي مسکنہ وأثاثہ وثیابہ. (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ص:٧٢٣، قدیمی)
مسئلہ ۳۔کسی کے پاس اپنی رہائش کا بڑا قیمتی مکان ہے اور پہننے کے قیمتی کپڑے ہیں مگر ان میں سچا گوٹہ ٹھپہ نہیں،نیزگھریلو سامان ہے جو استعمال میں آتا رہتا ہے مگر زیور اور روپے نہیں یا کچھ سامان ضرورت سے زیادہ بھی ہے مگر ان کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے کم ہے تو ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب نہیں۔

 تجب علی حر مسلم مکلف مالک لنصاب أو قیمتہ وإن لم یحل علیہ الحول عند طلوع فجر یوم الفطر، ولم یکن للتجارۃ فارغ عن الدین وحاجتہ الأصلیۃ وحوائج عیالہ والمعتبر فیہا الکفایۃ لا التقدیر. وہي مسکنہ وأثاثہ وثیابہ. (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ص:٧٢٣، قدیمی)
مسئلہ ۴۔کسی کے پاس زیور اور روپے نہیں، نہ سامان تجارت ہے، مگر کچھ اور سامان ضرورت سے زیادہ ہے جس کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاند ی کی قیمت کے برابر ہے تو ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں مگر صدقہ فطر واجب ہے۔
کسی کے پاس دو مکان ہیں، ایک میں خود رہتا ہے او رایک خالی پڑا ہے یا کرایہ پر دیا ہوا ہے تو شرعاً دوسرا مکان ضرورت سے زائد ہے۔ اگر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے،البتہ اگر اسی مکان کے کرایہ پر اس کا گزارہ ہو تو یہ مکان بھی ضروری سامان میں داخل ہو جائے گا اور اس پر صدقہ فطر واجب نہ ہو گا۔

وعن أبي یوسف رحمہ اﷲ تعالی یعتبر في وجوب صدقۃ الفطر أن یکفي ما وراء النصاب النفقہ ونفقۃ عیالہ سنۃ. وإذا کان لہ دار لایسکنھا ویؤاجرھا، أولا یؤاجر ھا یعتبر قیمتھا في الغني وکذا إذا سکنھا وفضل عن سکناہ شيء یعتبر فیہ قیمۃ الفاضل في النصاب.(الفتاوی الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ، فصل: في صدقۃ الفطر: ١/٢٢٧، رشیدیۃ)
مسئلہ ۵۔کسی کے پاس ضروری سامان سے زائد مال اور سامان ہے، مگر وہ قرض دار بھی ہے تو قرضہ منہا کرکے دیکھیں کیا بچتا ہے ؟ اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زائد بچتا ہو تو صدقہ فطر واجب ہے اوراس سے کم بچے تو واجب نہیں ۔

''تجب۔۔۔ علی کل حر مسلم۔۔۔ ذي نصاب فاضل عن حاجتہ الأصلیۃ کدینہ وحوائج عیالہ''. (الدر المختار، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر: ٢/٣٥٨،٣٦٠، سعید)
مسئلہ ۶۔عید الفطر کے دن صبح صادق کے وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے،لہٰذا اگر فجر کا وقت آنے سے پہلے ہی کسی کا انتقا ل ہوگیا تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں، اس کے مال میں سے نہ دیا جائے۔ اور جو بچہ عید کے دن فجر کے وقت سے پہلے پیدا ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے اور جو بچہ فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد پیدا ہوا ،اس کی طرف سے صدقہ فطر واجب نہیں۔

وقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثاني من یوم الفطر، فمن مات قبل ذلک لم تجب علیہ الصدقۃ، ومن ولد أو أسلم قبلہ وجبت، ومن ولد أو أسلم بعدہ لم تجب''.(الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر:١/١٩٢، رشیدیۃ)
مسئلہ ۷۔مرد پر صدقہ اپنی طرف سے اور اپنی چھوٹی (نابالغ)اولاد کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے، بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، اگر بیوی یا بالغ اولاد کے پاس اتنا مال ہو کہ جس سے صدقہئ فطر واجب ہوتا ہے تو وہ اپنا اپنا صدقہ فطر خو دادا کریں، البتہ اگر مرد اپنی بیوی اور بالغ اولاد کی طرف سے بھی ان کو بتا کر ادا کر دے تویہ بھی درست ہے، ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا۔

  یخرج ذلک عن نفسہ ۔۔۔و یخرج عن أولادہ الصغار ۔۔۔ولا یؤدي عن زوجتہ؛ لقصور الولایۃ والمؤنۃ ۔۔۔ولا عن أولادہ الکبار، وإن کانوا في عیالہ؛ لانعدام الولایۃ؛ ولو أدی عنہم أو عن زوجتہ بغیر أمرہم أجزأہ استحسانا؛ لثبوت الإذن عادۃ''.(الھدایۃ: کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر: ١/٢٠٨، شرکۃ علمیۃ)
مسئلہ ۸۔ اگر چھوٹے (نابالغ) بچے کی ملکیت میں اتنا مال ہو جتنے کے ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے ، مثلاً اس کے کسی رشتہ دار کا انتقال ہو، اس کی میراث میں اس بچہ کو حصہ ملایا کس اور طرح سے بچے کو مال مل گیا تو باپ اس بچہ کا صدقہ فطر اس کے مال میں سے ادا کرے، اپنے مال میں سے دینا ضروری نہیں ۔

 ''ولو کان للولد الصغیر مال، أدی عنہ الأب من مال الصغیر استحسانا في قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمھما اﷲ تعالیٰ، وکذا الوصي''. (الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ: کتاب الصوم، فصل في صدقۃ الفطر: ١/٢٢٧، رشیدیۃ)
مسئلہ ۹۔ جس نے کسی وجہ سے روزے نہیں رکھے اس پر بھی یہ صدقہ واجب ہے او رجس نے روزے رکھے اس پر بھی واجب ہے، دونوں میں کچھ فرق نہیں ۔

''وفي تجنیس الملتقط من سقط عنہ صوم الشھر لکبر أو لمرض لا تسقط عنہ صدقۃ الفطر''.(الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، صدقۃ الفطر ١/١٩٢، رشیدیۃ)
مسئلہ ۱۰۔ بہتر یہ ہے کہ عید الفطر کی نماز کو جانے سے پہلے ہی یہ صدقہ ادا کر یا جائے اگر پہلے نہ دیا تو بعد میں ادا کر دیں، کسی نے عید کے دن سے پہلے ہی رمضان میں صدقہئ فطر دے دیا تب بھی ادا ہو گیا، اب دوبارہ دینا واجب نہیں۔
اگر کسی نے عید کے دن صدقہ  فطر نہ دیا تو معاف نہیں ہوا، اب کسی دن دے دینا چاہیے۔

''والمستحب أن یخرج الناس الفطرۃ یوم الفطر قبل الخروج إلی المصلَّی ۔۔۔ فإن قدموہا علی یوم الفطر جاز۔۔۔ وإن أخروہا عن یوم الفطر لم تسقط، وکان علیہم إخراجہا''. (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر: ١/٢١١ شرکۃ علمیۃ)
مسئلہ ۱۱۔ صدقہ فطر میں اگر گندم دیں یا خالص گندم کا آٹا دیں تو ایک شخص کی طرف سے ایک سیر ساڑھے بارہ چھٹانگ دیں، بلکہ احتیاطاً پورے دو کلو یا کچھ زیادہ دے دینا چاہیے کیوں کہ زیادہ دینے میں کچھ حرج نہیں، بلکہ بہتر ہے او راگر جو یا خالص جو کا آٹا دینا ہو تو اس کا دوگنا دینا واجب ہے ۔

''الفطرۃ نصف صاع من بر أو دقیق أو سویق أو زبیب، أو صاع من تمر أو شعیر. وقال أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ : الزبیب بمنزلۃ الشعیر، وہو روایۃ عن أبی حنیفۃ رحمہ اللّٰہ والأول روایۃ ''الجامع الصغیر''. (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر: ١/٢١٠، شرکۃ علمیۃ)
مسئلہ ۱۲۔ اگر گندم او رجو کے علاوہ کوئی اوراناج دینا ہو مثلاً چنا، جوار یا چاول وغیرہ تو اتنا دیںکہ اس کی قیمت اتنے خالص گندم یا اتنے خالص جو کے برابر ہو جائے جتنا اوپر بیان ہوا۔
اگر گندم یا جو نہیں دیے بلکہ اتنی خالص گندم یا جو کی قیمت دیے دی تو یہ سب سے بہتر ہے ۔وما سواہ من الحبوب لا یجوز إلا بالقیمۃ، وذکر في ''الفتاوی'': أن أداء القیمۃ أفضل من عین المنصوص علیہ، وعلیہ الفتوی کذا في ''الجوہرۃ النیرۃ''.

 مسئلہ ۱۳۔ قیمت چوں کہ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، لہٰذا ہر سال ادا کرنے کے وقت بازار سے خالص گندم کی قیمت معلوم کرکے عمل کیا جائے۔ آج کل راشن کا آٹا چوں کہ خالص گندم کا نہیں ہوتا، لہٰذا اس کی قیمت کا اعتبار نہیں۔

اوپر جو مقدار بیان کی گئی یہ ایک شخص کا صدقہ فطر ہے، جس مرد پر صدقہ  فطر واجب ہو اگر اس کی نابالغ اولاد بھی ہے تو ہر بچہ کی طرف سے بھی اتنا ہی صدقہ فطر واجب ہے۔

''وتجب عن نفسہ وطفلہ الفقیر، کذا في ''الکافي''.(الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر: ١/١٩٢، رشیدیۃ)

مسئلہ ۱۴۔ ایک آدمی کا صدقہ فطر ایک ہی فقیر کو دیں، یا تھوڑا تھوڑا کرکے کئی فقیروں کو دے دیں، دونوں طرح جائز ہے۔ اگر کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک ہی فقیر کو دے دیا تو یہ بھی درست ہے ۔

 وجاز دفع کل شخص فطرتہ إلی مسکین علی المذہب کما جاز دفع صدقۃ جماعۃ إلی مسکین واحد بلا خلاف.(الدر المختار، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر: ٢/٣٦٧،سعید)

مسئلہ ۱۵۔ صدقہ فطر ان ہی لوگوں کو دیا جاسکتا ہے جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔

''مصرف الزکاۃ والعشر۔۔۔ (وھو فقیر) ھو أیضا کصدقۃ الفطر والکفارۃ والنذر وغیر ذلک من الصدقات الواجبۃ. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف: ٢/٣٣٩، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی