اس فقید المثال شخصیت کی زندگی کو – جو اس عالم آب و گل میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے صرف دو ڈھائی سال بعد آنکھیں کھولتی ہے، بچپن سے ہی یارانہ ہوجاتا ہے، فطرت کی سلامتی، وراست بازی کی وجہ سے تجارتی اسفار میں ساتھ رہتا ہے اور جب نوزائیدہ اسلامی مملکت کی داغ بیل پڑتی ہے تو وزیر معتمد، ومشیر خاص ثابت ہوتے ہیں- علامہ اقبال نے اس طرح سمیٹ کر رکھ دیاہے #
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
اول مسلمان
جب کہ آپ کی عمر 38 سال تھی، اسلام کا آفتاب طلوع ہوا، حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ بغرض تجارت یمن کے سفر پر تھے، لوٹے ہی تھے کہ مکہ کاپورا گروہِ:احباب، ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ نیآپ کے گرد گھیرا ڈال دیا،اور نوزائیدہ دین اسلام کی اطلاع دی۔ نیز فراست ابوبکری، وتجربہ صدیقی سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ عبداللہ کے یتیم بیٹے محمد نے دعویٰ کیاہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں اور ان پر حضرت جبرئیل وحی لے کر آتے ہیں، اس لیے لوگ بے چینی سے آپ کا انتظار کررہے ہیں، اس فتنے کی روک تھام میں تمہاری اصابت رائے کی ضرورت ہے اور اگر یہ فتنہ بعجلت تمام دبایا نہ گیا، تو آبائی اقدار کا تسلط ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست، تجارتی سفروں کے رفیق اور آپ کی پاکیزہ سیرت واخلاق کے عینی شاہد تھے، اپنی دور اندیشی ومعاملہ فہمی اور اصابت رائے کی قوت سے حقیقت تک پہنچ گئے، احباب سے فرصت پاکر درِ رسالت پر پہنچے، وحی و نبوت سے متعلق آپ کی زبان سے سنا اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
بعض روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ نبوت ملنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر تشریف لے گئے اور اسلام کی پیش کش کی، حضرت ابوبکر نے بلا چوں و چرا مان لیا، اسی لیے حضور اکرم علیہ الصلاة والسلام کہا کرتے کہ:جس پر بھی اسلام پیش کیا، کچھ نہ کچھ تردد کا اظہار ضرور پایا، سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بلاچوں وچرا قبول کرلیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جب پوچھاگیا تو انھوں نے حضرت حسان بن ثابت رضی الله عنہ کے اس قصیدے کا حوالہ دیا، جس میں حضرت حسان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی شان میں کہا ہے:
جب آپ کو کسی معتمد بھائی کی تکلیف یاد کرنی ہوتو حضرت ابوبکر کے کردار کو یاد کرلیجیے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل ہیں، دوسرے ہیں، جن کی مشکلات میں موجودگی کی تعریف کی گئی ہے، تمام لوگوں میں سب سے اول انسان ہیں، جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی ہے، غار حرا میں دو میں کے دوسرے ہیں اور جب پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے ان کے اردگرد چکر لگایا۔
صدیق وعتیق
اس فرد آہن میں کبھی جنبش نہیں آئی، ابتدا سے انتہا تک ایسی ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا کہ کبھی تو صدیقیت کے خطاب سے نوازاگیا، تو کبھی عتیق من النار کا اعزاز بخشاگیا۔
اس سلسلے میں گرچہ آرا مختلف رہی ہیں کہ عتیق وصدیق کا خطاب، آپ کے نام کا جز کب بنا…، لیکن صحیح بات تو یہی ہے کہ، اسلامی دور کا اعزاز ہے، جس سے آپ نوازے گئے، ذیل میں ہم ایسی روایتیں ذکر کرتے ہیں جن سے ہمارے دعوے کو تقویت ملتی ہے۔
امام ترمذی نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکر، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، تو حضور نے فرمایا:”أنت عتیق الله من النار“ کہ تم اللہ کی جانب سے جہنم کی آگ سے آزاد ہو، چنانچہ اسی دن سے ان کا نام عتیق پڑگیا۔
بزار اور طبرانی نے یہی روایت نقل کی ہے اور اس میں حضرت عائشہ کے بجائے حضرت عبداللہ بن زبیر ہیں اور آخر میں اتنا اضافہ اور ہے : ”وکان قبل ذلک اسمہ عبد الله بن عثمان“ کہ اس سے پہلے وہ عبداللہ بن عثمان کے نام سے جانے جاتے تھے۔
اسی طرح واقعہ معراج کی جب اطلاع، قریش مکہ کو ہوئی تو فاتحانہ انداز میں مذاق اڑایااور سمجھا کہ محمد کو جھٹلانے کا یہ موقع خوب ہاتھ آیا، دوڑے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے؛ دیکھو!اب تمہارے دوست محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نیا شوشہ چھوڑا ہے، کہتا ہے کہ راتوں رات بیت المقدس گیا، پھر وہاں سے آسمانی دنیا کی سیرکی، رب سے مناجات ہوئی اور پھر واپس بھی آگیا۔
حضرت ابوبکر نے صرف اتنا معلوم کیا کہ کیا واقعی انھوں نے یہی بات کہی ہے تو سب نے بیک زبان تصدیق کی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے کہا کہ اگر وہ کہتے ہیں تو بالکل سچ کہتے ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ کو صدیق کا لقب دیا۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کھاکر کہا کرتے تھے کہ ابوبکرکا نام صدیق،آسمان سے اترا ہے۔
ایں شہادت گہے الفت میں قدم رکھنا تھا
قبیلہ تیم جس سے آپ کا نسبی تعلق تھا، قریش میں کچھ زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا، اس پر مستزاد یہ کہ ابھی تک یہ قبیلہ اسلام کی حلاوت سے آشنا نہ تھا کہ وقت پرکچھ کام آسکے، نیز آپ کی جسمانی ساخت بھی حضرت عمروحمزہ رضی اللہ عنہما کی طرح مضبوط نہیں تھی کہ بچاؤ کیاجاسکے، لیکن ان سب کے باوجود، نئے دین کے دور رس تقاضوں کو صدیق کی ذات انگیز کیوں کرکرسکتی تھی، لہٰذا نہ دل میں مکہ کے سرداروں کا خوف آنے دیا، جو سارے عرب میں محض اس لیے باعزت سمجھے جاتے تھے کہ بیت اللہ کے پروہت اور متولی ہیں اور نہ ان کے دشمنانہ رویوں اور نہ مخالفانہ طرز سے آپ کے پائے مبارک میں لغزش آئی، بلکہ اپنی زندگی کا اصل مشن ہی تبلیغ اسلام کو بنالیا اور نئے دین کی اشاعت میں کسی قسم کا رخنہ آنے نہیں دیا، خواہ اس سلسلے میں انہیں کتنا کچھ بھی ستایاجاتا، لیکن آپ تھے کہ اسلام کی تبلیغ کیے جارہے تھے۔
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں عقبہ بن ابی مُعَیط آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں چادر کا گھیراڈال کر بل دینے لگا، حضرت ابوبکر کو جب معلوم ہوا تو دوڑے آئے، عقبہ کو پکڑ کر دھکا دیااور کہا کہ اے لوگو!کیا تم اس شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ یہکہتا ہے کہ اللہ ایک ہے۔
ایک اور موقع پر حضرت ابوبکر نے صحن حرم میں جہاں قریش کا مجمع تھا، علانیہ تبلیغ شروع کی، کافروں نے حضرت ابوبکر کو پکڑ لیا اور بے تحاشا مارنا شروع کیا، عقبہ بن ربیعہ نے چہرے پر جوتے اتنے مارے کہ پہچانا نہیں جاتاتھا، جب قبیلہ تیم کو معلوم ہوا تو آکر چھڑایا، گھر لے گئے، لیکن حالت نازک ہوگئی جس پر قبیلہ کے لوگوں نے عتبہ کو دھمکی بھی دی، شام تک بے ہوشی رہی، جب ہوش آیا تو سب سے پہلے حضور کی خیریت معلوم کی، اور اس وقت تک چین نہیں آیا، جب تک کہ خود آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دار ارقم میں ملاقات نہ کرلی۔
کچھ سعید روحوں کا قبول اسلام
آپ کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں، بلکہ رفتہ رفتہ اسلام پھیلنے لگا، اورایسے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے جو بعد میں چل کر، ستون اسلام ثابت ہوئے، ان سب میں آپ کی بے لوث تبلیغ کا اثر تھا، ان سعید روحوں میں جنھوں نے آپ کی وجہ سے اسلام قبول کیا، ان میں ممتاز حضرات یہ ہیں:
خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضرت حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ حضر ت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ حضرت زبیر بن العوّام رضی اللہ عنہ فاتح قادسیہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فاتح شام حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ۔
یہ سارے حضرات عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ جوحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں اسلام لائے،اسی لیے اپنے وغیر سب نے اس کا اعتراف کیاہے کہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو معاشرے میں اہمیت و تقویت حاصل ہوئی، پھر حضرت حمزہ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اسلام کی وجہ سے استحکام ہوا، محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
وہ (مستشرقین) کہتے ہیں کہ جس ایمان کا مظاہرہ ابوبکر نے کیا، اور جس طرح انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہر قول و فعل کی تصدیق کی، وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام یقینا خدا کی طرف سے ہے، کیوں کہ باطل مذہب اور ایک جھوٹا شخص کبھی اپنے ماننے والوں کے دلوں میں ایسا ایمان پیدا نہیں کرسکتاہے۔
اسلام کی خاطر مالی قربانی
روایتوں میں آتاہے کہ قبول اسلام کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ چالیس ہزار درہموں کے مالک تھے،لیکن ہجرت کے وقت صرف پانچ ہزار باقی رہ گئے تھے، انہیں انہوں نے راستہ کے خرچ کے لیے ساتھ رکھ لیاتھا، پورے پینتیس ہزار درہم حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہنے اسلام کی راہ میں خرچ کیے۔ ان غلاموں و باندیوں کو آزاد کرایا جو پہلے سے ہی غلامیت کی وجہ سے نامساعد حالات سے دوچار تھے، قبول اسلام نے، ان کے کافر آقاؤں کو ظالم و جابر بنادیا تھا، مگر یہ وہ نشہ تھا جو اذیتوں کی ترشی کی وجہ سے اتر نہیں سکتا تھا، حضرت ابوبکر رضی الله عنہنے ان ظالموں کو منھ مانگی قیمتیں دے کر متعدد غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرایا۔
ان میں مشہور ومعروف: مؤذن رسول حضرت بلال حبشی رضی الله عنہ ہیں، ان کی والدہ حمامہ، عامر بن فہیرہ، حضرت ابوفکیہ، حضرت زنیرہ، حضرت ام عبس، حضرت نہدیہ اور ان کی صاحب زادی اور بنی مؤمل کی لونڈی لبینہ یا لبیبہ رضی الله عنہم شامل ہیں۔
پھر آزاد کرنے کے بعد کبھی احسان نہ جتلایا، ایک موقع پر حضرت بلال سے اذان دینے کے لیے کہا تو حضرت بلال نے برجستہ کہا کہ اے ابوبکر! کیا تم مجھے اپنی خلافت کے زعم میں حکم دے رہے ہو یا پھر وہ احسان جتلارہے ہوجو تم نے خطیر رقم خرچ کرکے مجھے آزاد کرایاتھا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں تو حضرت بلال نے درخواست ٹھکرادی۔
ابوقحافہ جو حضرت ابوبکر کے والد تھے اور اب تک مسلمان نہ ہوئے تھے، کہا کرتے تھے کہ بیٹا!اگر ان کمزوروں کے بجائے، مضبوط جوانوں کو آزاد کرواتے تو وہ تمہارے لیے قوت بازو بنتے اور تمہاری پشت پناہی کرتے، حضرت ابوبکر نے جواب دیا:ابا جان!میں تو وہ اجر چاہتاہوں جو اللہ کے یہاں ہے۔ قرآن نے بالکل درست کہا ہے:
”اور اس سے دور رکھا جائے گا وہ نہایت پرہیزگار جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے، اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا اسے بدلہ دینا ہو، وہ تو اپنے رب کی رضاجوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے اور ضرور وہ اس سے خوش ہوگا“۔
مجھے تمہاری امان کی ضرورت نہیں
قریش مکہ کے مظالم، صرف غلاموں اور لونڈیوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ دست درازیاں، آزاد مردوزن کو پریشان کررہی تھیں، آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر آنے والا وقت ایک نئی مصیبت کا پیغام ہواکرتا تھا، اللہ پاک نے ایسے موقع پر ہجرت حبشہ کا اشارہ دیا اور مسلمان ایک صلح جو، نرم طبیعت بادشاہ نجاشی کی پناہ میں منتقل ہونے لگے، اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو اپنی جرأت ایمانی اور پراستقلال عزم وحوصلہ سے لیس ہوکر خدمت اسلام میں منہمک تھے، لیکن طرح طرح کی مصیبتوں سے تنگ آکر ہجرت حبشہ کا عزم کرکے نکلے، بکر الغماد تک پہنچے تھے کہ ابن الدغنہ (جوکہ مکہ کا کافر اور بااثر ورسوخ باشندہ تھا) سے ملاقات ہوگئی، ابن الدغنہ، حضرت ابوبکر کی اصابت رائے، غم خواری خاص و عام سے واقف ہی نہیں، متاثر تھا۔ پوچھنے لگا، ابوبکر!کہاں کا قصد ہے،؟حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا کہ میری قوم نے مجھے تکلیفیں پہنچائیں، یہاں تک کہ میرا شہر میرے لیے تنگ کردیا۔ اب اس شہر کو چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اس پر ابن الدغنہ نے اپنی امان میں لیا اور کہا ابوبکر جیسا انسان اس شہر سے باہر نہیں جاسکتا، جومہمانوں کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ غریبوں کے ساتھ خیرخواہی، مفلسوں و ناداروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، ابن الدغنہ ان کو واپس مکہ لایا۔ اور اپنی امان کا اعلان کردیا، لوگوں نے ملامت بھی کی۔
قوم اس بات پر راضی ہوئی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اپنے گھر میں ہی قرآن کی تلاوت کیا کریں گے، تاکہ قوم کے بچے اور عورتوں کو فتنہ میں مبتلا نہ کرسکیں۔
حضرت ابوبکررضی الله عنہ نے اپنے صحن ہی میں ایک جگہ تلاوت کے لیے مختص کرلی، لیکن آپ اس قدر رقیق القلب تھے کہ جب تلاوت فرماتے تو عورتیں اور بچے اپنی چھتوں پرچڑھ کر آپ کی تلاوت سنتے، جس سے وہ متاثر ہوتے جاتے تھے، قوم کویہ کیوں کر گوارا ہوسکتا تھا؟ فوراً ابن الدغنہ سے اس کی شکایت کی، ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے کہا کہ یاتو آپ میری امان میں رہیں یا تلاوت اس طرح نہ کریں، جس پر حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے کہاکہ مجھے تمہاری امان کی ضرورت نہیں ہے، مجھے میرے اللہ کی امان کافی ہے، ابن الدغنہ نے بھی اس نقص امان کا اعلان قوم میں کردیا، پھر وہی ابتلاء وآزمائش شروع ہوگئی جو برسوں سے چلی آرہی تھی، بلکہ اس میں اوراضافہ ہوتا چلاگیا۔(جاری)