صحت دنیا کی ان چند بیش قیمت نعمتوں میں شمار ہوتی ہے کہ جب تک یہ قائم ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی ، جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتی ہے، ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی، اگر ہم غور کریں تو آج دنیا کے لاکھوں لوگ طرح طرح کی بیماریوں کے شکار ہیں، پہلے زمانے میں لوگ بیمار کم ہوتے تھے، لیکن آج غذا اورماحول کی خرابی کی وجہ سے بیماریاں ہر وقت انسانوں پر حملہ آور ہو رہی ہیں، کبھی ہم ہسپتالوں میں جائیں یا کسی مریض کی عیادت کریں تو ہماری عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں کہ ہمارے ہی علاقے میں لوگ کیسی کیسی خطرناک، مہلک اور تکلیف دہ بیماریوں میں مبتلا ہیں، شوگر، کولیسٹرول، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، نیمو نیا، فالج، ہڈیوں اور پیروں میں درد، پیٹھ میں ڈسک کا مسئلہ وغیرہ بیماریوں کا تو ذکر ہی کیا، یہ بیماریاں تو اتنی عام ہوچکی ہیں کہ الله کی پناہ او رکتنی بیماریاں ایسی ہیں جن کا ہم نے شاید نام بھی نہ سنا ہو، کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہسپتالوں میں تڑپ تڑپ کر اپنی زندگی کی ساعتوں کو گن رہے ہیں اور پھر چند دنوں میں ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کا خرچہ اتنا کہ اچھے اچھے مال داروں کی بھی کمر ٹوٹ جائے، کئی لوگ ڈاکٹروں کے پاس با ربار جاکر اور گولیاں کھا کھا کر تھک جاتے ہیں، لیکن نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، اس لیے کہ شفا کا تعلق خزانہٴ غیب سے ہے، لیکن اسبابی دنیا میں ہمیں علاج کرانا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
لیکن جب ہم ان مختلف پیچیدہ امراض او رمہلک بیماریوں کو دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہماری صحت کے متعلق الله تعالیٰ کا ہم پر خصوصی کرم او ربہت بڑا احسان ہے، لیکن اس کے باوجود اکثر افراد اس نعمت عظمی کی قدر نہیں کرتے ،جیسا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: دونعمتوں کے حوالے سے عموماً لوگ دھوکے میں مبتلا رہتے ہیں، پہلی صحت کی نعمت اور دوسری خالی اور فارغ اوقات۔ (بخاری ومسلم) یہی ایک حدیث انسان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک جملے میں انسانیت کو زندگی بھر کے لیے کیسا سبق دے گئے، کاش کہ ہم لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔
ایک تحقیق اور ریسرچ کے مطابق ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتاہے، یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں، مگر ہماری قوت مدافعت، ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتی رہتی ہے، مثلاً ہمارا منھ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کم زور کر دیتے ہیں، لیکن ہم جب تیز چلتے ہیں یا واکنگ کرتے ہیں تو ہمارا منھ کھل جاتا ہے، ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں، یہ تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیم سے بچ جاتا ہے۔ اور یہ قدرت کے ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں۔ لیکن اس فطری نظام کے علاوہ احادیث میں ایسے اذکار اور دعاؤں کی ترغیب آئی ہے جو انسان کو تکالیف، نقصانات اور ہر قسم کی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، ہم صحت کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں اور مشقتوں کا بار اپنے سر پر اٹھائے پھرتے ہیں تو کیوں نہ ہم چند اذکار ودعاؤں کا اہتمام کر لیں جن سے مختلف قسم کی بیماریوں اور وبائی امراض سے اپنے جسم او رمال دونوں کی حفاظت کرسکیں اور ثواب کے ذخیرے سے بھی اپنے نامہٴ اعمال کو مالا مال کر سکیں، مثلاً:
جوشخص روزانہ صبح اور شام اس دعا کو پڑھتا ہے”بسم الله الذي لا یضر مع اسمہ شيء في الأرض ولا في السماء وھو السمیع العلیم
“ تو کوئی بھی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ (ترمذی)
سیّدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا:” الله کے رسول! مجھے رات کو بچھو کے کاٹنے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی“ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم شام کے وقت کہہ دیتے کہ:” أعوذ بکلمات الله التامات من شر ما خلق
“ تو تمہیں وہ نقصان نہ پہنچاتا۔“ (مسلم)
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے تم صبح اور شام کے وقت تین قل ( یعنیقل ھو الله أحد، قل أعوذبرب الفلق، قل أعوذ برب الناس
) تین بار پڑھا کرو، یہ تمہیں ہر چیز سے کافی ہو جائیں گے۔ (ابوداؤد)
تین تین بار صبح وشام یہ دعا پڑھنا بھی سنتے ہے:” اللھم عافني في بدني، اللھم عافني في سمعي، اللھم عافني في بصري، لا إلہ إلا أنت․
“
ہمارے شہر کے مرکز میں ایک بڑی عمر کے فرد جماعت میں آئے ہوئے تھے، لیکن بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی ان کی صحت نوجوانوں کے لیے بھی قابل رشک تھی، تو ایک صاحب نے ان سے اس کا راز پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اس دعا کو پڑھنے کی برکت ہے۔ واقعی صبح وشام کے جملہ اذکار کی پابندی اور تین تسبیحات یعنی استغفار، درود شریف اور سوم کلمہ کا صبح شام سوسو بار اہتمام کرنا کئی آفات ومصائب سے حفاظت اور زندگی میں سکون واطمینان کا ذریعہ ہے۔