تَوْبَةٌعربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں رجوع کرنا اور لوٹنا۔ یعنی بندہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا تھا، اب اس نافرمانی کو چھوڑ کر وہ اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اسی لیے توبہ کو توبہ کہتے ہیں۔
امام نووی نے ارشاد فرمایا:”التوبة واجبة من کل ذنب“ یعنی ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے اور جس گناہ سے توبہ کی جاتی ہے، وہ دو قسم کے ہیں؛ ایک تو اللہ تعالیٰ کے حقوق، جس میں کسی بندے کا حق نہیں مارا گیا- اگر اس گناہ سے توبہ کررہا ہے تو اسے تین چیزوں کا اہتمام کرنا ہوگا تب اس کی توبہ توبہ کہلائے گی اور اگر ان تینوں میں سے ایک چیز بھی رہ گئی تو یہ توبہ، توبہ نہیں کہلائے گی۔ توبہ کرنے والا سب سے پہلا کام تو یہ کرے کہ جس گناہ سے توبہ کررہا ہے اس سے باز آجائے اور اس کو چھوڑ دے۔ دوسرے یہ کہ اب تک جو کیا،اس پر ندامت اور پچھتاوا ہو، یعنی دل میں درد اور تکلیف محسوس کرے۔فانی بدایونی کہتے ہیں:
ہم نے فانی ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات
جب مزاجِ یار کچھ برہم نظر آیا مجھے
یعنی دوست کے مزاج میں ذرا برہمی دیکھی تو صرف اپنی ہی نہیں،بلکہ ساری کائنات کی نبض ڈوبتی معلوم ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے تو جب محب اور عاشق کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض ہے، تو اس کو کسی کَل چین نہیں آتا اور اہلِ ایمان کو تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بڑی شدید محبت ہوتی ہے:﴿وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُباًّ لِلّٰہِ﴾․(البقرة:165)۔تیسری شرط یہ ہے کہ پکّا ارادہ اور عزمِ مصمم کرے کہ اب دوبارہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا۔ اس طرح کہ مرجاؤں گا، لیکن کبھی یہ کام نہیں کروں گا، خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ تب یہ توبہ، توبہ کہلائے گی۔
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یہ تین شرطیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی مفقود ہوگئی تو اس کی توبہ درست نہیں ہوگی۔ جیسے اگر دل میں یہ بات ہے کہ پھر سے گناہ کروں گا، تو پھر توبہ کا جو مطلب تھا لوٹنا تو وہ فرماں برداری کی طرف کہاں لوٹا؟ اس لیے یہ پکا ارادہ کرنا پڑے گا کہ کچھ بھی ہوجائے، دوبارہ یہ کام نہیں کروں گا۔ جب یہ تینوں باتیں ہوں گی تب یہ توبہ مکمل ہوگی۔
یہ تو حقوق اللہ کا معاملہ ہے۔ اگر حق بندے سے متعلق ہے تو توبہ کے قبول ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جو حق والا ہے، اسے اس کا حق ادا کردے۔ مثلاً کسی کا مال لیا تھا تو وہ ادا کردے۔ کسی کی غیبت کی تھی تو اس سے کہے کہ میں نے آپ کی غیبت کی تھی، مجھے معاف کردیں۔ اور وہ معاف کردے تو ہی یہ گناہ معاف ہوگا ،ورنہ نہیں۔ (البتہ یہ جب ہے کہ ایسا کرنے سے فتنے کا اندیشہ نہ ہو، ورنہ اس کے لیے دعائے خیر کرے اور اللہ کے حضور گڑگڑا کر معافی طلب کرے)۔ یہ توبہ کی کل چار شرطیں ہیں۔
جب انسان گناہ سے توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے وہ گناہ فرشتوں کو بھلادیتے ہیں۔ زمین کے جس حصے پر وہ گناہ کیا تھا، اس حصے سے وہ علامتیں مٹا دی جاتی ہیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے بھی یہ گناہ نکال دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے اعضا سے بھی بھلا دیے جاتے ہیں۔ دنیا میں تو یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے اگر کسی کو معاف بھی کردیا جائے تو بھی اس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے کہ وقت پر کام آئے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسا نہیں۔ وہ غنی ہے، اس کو کسی چیز کی پروا نہیں۔
توبہ میں ایک شکل تو یہ ہے کہ جب گناہوں سے توبہ کرنا چاہے تو گناہوں کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔ نمازیں چھوٹی ہیں، قضا ہوئی ہیں، ان سے توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائیں۔ یہ سب تو اجمالی توبہ ہوئی۔ تفصیلی توبہ یہ ہے کہ ان میں جن چیزوں کی تلافی ممکن ہے، ان کی تلافی میں لگ جائے، مثلاً اب تک نماز نہیں پڑھتے تھے تو حساب لگاکر ان کی قضا شروع کردے، وغیرہ۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اس سے پہلے توبہ کرلے کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو،اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔(الترغیب للمنذری) اور فرمایا کہ اگر تمھاری خطائیں اتنی ہوجائیں کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تم توبہ کرو، تو بھی اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور معاف فرمادے گا۔(ابن ماجہ) نیز فرمایا:آدم علیہ السلام کی کُل اولاد خطا وار ہے، لیکن ان میں سب سے بہتر خطا کرنے والا وہ ہے، جو خطا کے بعد توبہ کرلے۔ (ترمذی) اور فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول فرماتے ہیں، جاں کنی کا وقت شروع ہونے سے پہلے پہلے۔(ابن ماجہ) آپ صلی الله علیہ وسلم کاارشاد ہے: اگر تم میں سے کوئی شخص بھی کوئی گناہ نہ کرے تو اللہ تعالیٰ تم سب کو ہلاک کردے گا اور ایسی قوم کو لائے گاجو گناہ کریں گے اور پھر اللہ کے حضور توبہ کریں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان سب کو معاف کردے گا۔(مسلم) ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:بے شک! جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے:اے اللہ! مجھ سے گناہ ہوگیا، مجھے معاف فرمادے!تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:میرا بندہ جانتا ہے کہ میرا کوئی رب ہے، جو مغفرت بھی کرسکتا ہے اور پکڑ بھی کرسکتا ہے۔پس اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیتے ہیں۔ پھر وہ اسی (توبہ کیے ہوئے) حال میں رہتا ہے کہ (بہ تقاضائے بشریت) اس سے پھر گناہ سرزد ہوجاتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتا ہے کہ اے اللہ! مجھ سے تیری نافرمانی ہوگئی، مجھے معاف فرمادے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: بے شک میرے بندے کو معلوم ہے کہ میرا ایک رب ہے، جو مجھے معاف بھی کرسکتا ہے اور مجھے پکڑ بھی سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیتے ہیں۔ پھر وہ اسی حال میں رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس سے پھر کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے اور عرض کرتا ہے: اے اللہ!مجھ سے تیری نافرمانی ہوگئی!تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: بے شک میرا بندہ جانتا ہے کہ میرا ایک رب ہے، جو مجھے معاف بھی کرسکتا ہے اور پکڑ بھی سکتا ہے۔پس اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیتے ہیں۔ (الترغیب )
یہ روایات ان حضرات کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں،لیکن شیطان کے دھوکے میں آکر اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت سے ناامید ہوئے بیٹھے ہیں،نہ کہ ان حضرات کے لیے جو گناہوں پر جرات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات غفورٌ رحیم ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جس طرح غفور رحیم (بہت زیادہ مغفرت کرنے والی) ہے، اسی طرح شدید العقاب (سخت پکڑ کرنے والی) بھی ہے۔ اسی لیے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کوئی نیکی چھوٹی سمجھ کر چھوڑو مت، شاید وہی اللہ کی رضا کا سبب بن جائے اور کوئی گناہ چھوٹا سمجھ کر کرو مت، شاید اسی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائے۔پھر اللہ تعالیٰ جس طرح آخرت میں غفورٌرحیم ہے، اسی طرح دنیا میں بھی تو غفورٌ رحیم ہے، لیکن دنیا میں تو کوئی خود کو آگ میں اس بھروسے پر داخل نہیں کرتا، پھر کیوں آخرت کی آگ میں داخل کرتے ہیں، جو کہ دنیا کی آگ سے ستّر گنا خطر ناک ہے؟!
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے اور اپنے دامنِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین !