سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام او رمفتیان ِ عظام ان مسائل کے بارے میں!
حکومت بلوچستان کوئٹہ شہر میں سڑکوں اور راستوں میں تنگی کے باعث تو سیع کر رہی ہے اور اس توسیع کی زد میں بہت سی مساجد آرہی ہیں جن کو منہدم کیا جائے گا، ان مساجد میں بعض جزوی اور بعض مکمل طور پر زد میں آرہی ہیں، بعض سڑکیں اور راستے انتہائی تنگ ہیں اور آبادی کا بوجھ بہت زیادہ ہے، ان تمام سڑکوں اور راستوں میں عوام الناس کو سخت تکلیف کا سامنا ہے،نیز ان مساجد کو حکومت اپنے خرچ پر دوبارہ باقی ماندہ حصے پر یا متبادل مقام پر تعمیر کرے گی۔بعض مقامات پر توسیع کی زد میں قبرستان بھی آرہے ہیں، بعض جگہوں پر کم اور بعض میں زیادہ، لہٰذا ان مسائل کے حل کے لیے شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔
جواب… واضح رہے کہ جس جگہ پر ایک دفعہ شرعی مسجد بنا دی جائے، تو وہ تا قیامت مسجد ہی رہتی ہے، اس کو فروخت کرنا، یا اس کا تبادلہ کرنا، یا اس کو کسی دوسرے کام میں استعمال کرنا جائز نہیں۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں مساجد کو منہدم کرکے اس کا کوئی حصہ سڑک، یا راستوں میں شامل کرنا جائز نہیں، اس لیے توسیع کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنا نقشہ مساجد کے تابع بنالیں، نہ یہ کہ مساجد کو اپنے نقشہ کے تابع بنا کر ان کو مہندم کرکے توسیع کی جائے۔
چناں چہ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحب (رحمہ الله)”امداد الفتاویٰ“ میں فرماتے ہیں کہ : مسجد میں بھی اور فناء مسجد (حصہ متعلقہ مسجد مثل وضوء خانہ وغیرہ) میں بھی دکانیں بناناجائز نہیں اور اسی سے ثابت ہو گیا کہ ممر ( گزر گاہ) بنانا بدرجہ اولیٰ ناجائز ہے،(2/663)
اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب (رحمہ الله) ”فتاویٰ رشیدیہ“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : راہ کو مسجد میں لانا بشرطیکہ چلنے والوں کو تنگی نہ ہو، درست ہے، فقط۔ والله تعالی اعلم باالصواب۔ اس کے عکس کو بھی بعض علماء نے درست کہا ہے، مگر بے تعظیمی مسجد کی درست نہیں، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔(1/216)
اور حضرت مولانا مفتی محمد کفایت الله دہلوی صاحب (رحمہ الله)”کفایت المفتی“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : جو جگہ ایک مرتبہ مسجد ہو جائے وہ ابدالآباد تک کے لیے مسجد ہو گئی، اس زمین سے کوئی کام علاوہ مسجد کے لینا جائز نہیں اور نہ اس کا معاوضہ لے کر اس کو سڑک میں دینا جائز ہے، مسجد خواہ ویران ہو یا آباد، دونوں حالتوں میں ایک ہی حکم رکھتی ہے، یہ کسی کو جائز نہیں کہ مسجد کا معاوضہ یا دوسری مسجد اس کے عوض لے کر مسجد کو سڑک میں دے دے۔ (10/104)
اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب (رحمہ الله)”امداد المفتیین“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : جو جگہ مسجد بن گئی اب قیامت تک وہ مسجد ہی رہے گی کسی طرح اس جگہ کو دوسرے کام میں لگاناحلال نہیں، خواہ ایک مسجد کے بدلے میں کوئی دس مسجدیں بناناچاہے ،تب بھی یہ مسجد مسجدیت سے خارج نہیں ہوسکتی، کذا فی الاشباہ والشامي، والدروغیرہ من کتب الفقہ المعتبرة․(2/636)
قبرستان چوں کہ مردے دفن کرنے کے لیے وقف ہوتا ہے، اس لیے اس کو منشائے واقف کے خلاف دوسرے کام میں استعمال کرنا جائز نہیں، لہٰذا صورت مسئولہ میں قبرستان کو سڑک یا راستوں میں شامل کرنا جائز نہیں۔
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا نکاح ہوا ہے، لیکن رخصتی نہیں ہوئی ہے، ایک دن میں کزن کی شادی میں گئی تھی جب وہاں سے وپس آئی تو شوہر نے غصے میں کال پر کہا کہ:” اگر تم میری اجازت کے بغیر کہیں گئی تو تم مجھ پر حرام ہو گی“۔ پھر مسیج میں بھی یہی الفاظ بھیجے تھے، یہ الفاظ اپریل میں کہے تھے، پھر ان الفاظ کے ایک مہینے ( یعنی کہ مئی میں ) بعد کہا کہ اگر ایمرجنسی ہو تو اجازت ہے جانے کی ، پھر جون میں ،میں پڑوسی کے گھر کسی ضرورت سے گئی تھی شوہر سے پوچھے بغیر، تو جب میں پڑوسی کے گھر سے واپس آئی تو شوہر سے کہا کہ طلاق ہوگئی ہے۔ شوہر نے کہا کہ میں نے تو کہا تھا کہ اگر ایمرجنسی ہو تو جاسکتی ہو، جب میں نے مفتی حضرات سے پوچھا تو سب نے کہا کہ یہ ایمرجنسی کے زمرے میں نہیں آتا، طلاق ہو گئی ہے، جب شوہر کو مفتی کا فتویٰ سنایا ،تب کہا میری نیت طلاق کی نہیں تھی، اس کے بارے میں بھی مفتی حضرات سے پوچھا تو سب نے کہا کہ اس میں نیت کا اعتبار نہیں، طلاق ہو گئی ہے، مفتی صاحب اس بات کو پانچ سال ہو گئے، ان پانچ سالوں میں شوہر کا جہاں دل ہوتا، جانے دیتے ،ورنہ اجازت نہیں دیتے، جب بھی میں شوہر سے کہتی کہ شادی میں دوبارہ نکاح کرو گے، تو کہتا: ٹھیک ہے، کرلوں گا، لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ میری نیت یہ تھی کہ اگر کسی شادی میں گئی تو تم مجھ پرحرام ہو گی، میں طلاق والی با ت بھول گئی تھی اب پانچ سال بعد واپس یاد آئی، اب جب شوہر سے کہا کہ ہماری تو طلاق ہو گئی ہے، تو اب پانچ سال بعد کہتا ہے کہ میری نیت میں یہ تھا کہ اگر کسی شادی میں گئی تو تم مجھ پر حرام ہو گی اور اس وقت صرف یہ الفاظ کہے تھے دو دفعہ کہ اگر تم میری اجازت کے بغیر کہیں گئی تو تم مجھ پر حرام ہوگی۔ ایک دن یہ بھی کہا تھا کہ میں نے صرف دور کے لوگوں کے بارے میں کہا تھا یعنی جن کے گھر دور ہوں۔ مفتی صاحب مئی میں کئی بار یہ بھی کہا تھا کہ میں تمہیں چھوڑتا ہو ں یا چھوڑ رہا ہوں، چوں کہ میں پٹھان ہوں تو پشتو میں یہ کہا تھا کہ :”پریدم دے“۔
مفتی صاحب اگر طلا ق ہو گئی ہے تو کتنی ہوئی ہے؟ اگر طلاق ہوئی ہے تو دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے؟ اگر ممکن ہو تو جلدی جواب دیجیے گا وہ لوگ شادی مانگ رہے ہیں، اگر طلاق ہوئی ہے تو ہمارے دوبارہ نکاح کرنے میں ہم گناہ میں مبتلا تو نہیں ہوں گے؟
جواب… صورت مسئولہ میں آپ کے شوہر کا آپ کو یہ کہنا کہ ”اگر تم میری اجازت کے بغیر کہیں گئی تو تم مجھ پر حرام ہو گی“ اور آپ کا شوہر کی اجازت کے بغیر (ایمرجنسی نہ ہونے کی صورت میں) پڑوسی کے گھر جانے سے ایک طلاق بائن واقع ہو گئی ہے او راس سے نکاح ختم ہو گیا ہے اور دوبارہ آپس میں رہنے کے لیے تجدید نکاح کیا جائے او راس کے بعد آپ کے شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری پہلی شادی والدین کی مرضی سے ہوئی ہے، جب کہ شادی سے پہلے بھی میں جس سے اب کرنا چاہتا ہوں اس کو پسند کرتا تھا، لیکن میری اس وقت منگنی ہوئی بھی تھی اور میں توڑ نہیں سکتا تھا، میں اپنے والدین کا دل نہیں دُکھا نا چاہتا تھا، اسی لیے میں نے والدین کی پسند سے شادی کر لی پر اب میں دوسری اپنی پسند کی کرنا چاہتا ہوں، مگر لڑکی کے والدین سے اب تک میں نے بات نہیں کی، مجھے ڈر یہ ہے کہ ان کے والدین منع نہ کر دیں، کیوں کہ ان کی بیٹی کنواری ہے، حالاں کہ ان کی بیٹی بالغ ہے، مگر مجھے ڈر یہ ہے کہ ان کے والدین راضی نہیں ہوں گے، کیوں کہ میں شادی شدہ ہوں اور میری بیٹی بھی ہے، اسلام میں چار شادی جائز ہے۔
اب آپ بتائیں میں دوسری شادی اپنی پسند کی ان کی بیٹی سے کرنا چاہتا ہوں، البتہ وہ مجھے بچپن سے جانتے ہیں، میرے استاد ہیں، مجھے ڈر یہ ہے کہ وہ مجھے غلط نہ سمجھیں او رانکار نہ کر دیں ،اب آپ اس کا حل بتائیں، میں ان کی بیٹی کو الگ رکھوں گا اور میرا یہ کرنا غلط تو نہیں ہے ، اور میں لڑکی کے ماں باپ کی مرضی کے بغیر کر نہیں سکتا ، لہٰذا آپ مجھے ایک ہفتے میں جلد از جلد اس کا حل بتا دیں کہ میں بات کیسے کروں اور راضی کیسے کروں؟ آپ کی بہت مہربانی ہو گی کہ آپ شریعت کے مطابق اس کا حل بتائیں ۔
جواب… واضح رہے کہ اسلام اگرچہ مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ شخص تمام بیویوں کے مابین مساوات اور عدل بر قرار رکھنے پر مکمل قدرت رکھتا ہو اوربیویوں کے تمام حقوق ادا کرنے پر بھی قادر ہو، مذکورہ صفات کے حامل شخص کے لیے ایک سے زائد نکاح کرنا شرعاً جائز اور درست ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں لڑکی کے والدین اگر سمجھتے ہیں کہ آپ تمام بیویوں کے درمیان مساوات کرکے تمام حقوق ادا کرسکیں گے اور کوئی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو تو ان کو چاہیے کہ آپ کا نکاح اپنی بیٹی سے کروادیں، بصورت دیگر اپنی پہلی بیوی کے تمام حقوق ادا کرکے اسی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں۔
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ الدر المختار وغیرہ کتابوں میں ایک ضابطہ ذکر ہے کہ:” کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم تجب إعاد تھا
“ اس ضابطہ کی وضاحت مطلوب ہے ،کیوں کہ نماز بہت چیزوں سے مکروہ ہو جاتی ہے تو کہا ں کہاں اعادہ کیا جائے، مثلاً قراء ت میں لحن جلی کی وجہ سے ، بے ترتیب سورتیں پڑھنے سے، بلا جماعت نماز ادا کرنے سے، تصویر والی جگہ نماز پڑھنے سے،غصب کردہ زمین میں نماز پڑھنے سے، سدل کی حالت میں نماز پڑھنے سے، واجبات فعلیہ ترکیہ کے ترک کرنے سے، کیا یہ قاعدہ اتنا عام ہے یا اس میں کچھ تخصیص بھی ہے؟ یعنی یہاں واجبات سے مراد وہ واجبات تو نہیں جس کے سہوا ترک سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے؟ اگر کراہت کو اس ترک واجب کے ساتھ خاص کرے جس کے سہوا ترک سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے تو اس میں آسانی ہو گی، انضباط ہو گا، تاہم اس تخصیص کی بنیاد کیا ہو گی؟ برائے مہربانی اس بارے میں بندہ کی راہ نمائی فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔
جواب… واضح رہے کہ”الدر المختار“ کے قاعدہ ”کل صلاة أدیت مع کراہة التحریم تجب إعادتھا“ میں مذکور کراہت تحریمی سے وہ کراہت تحریمی مراد ہے، جو نماز میں کسی ایسی چیز کے چھوڑنے سے پیدا ہو، جو ماہیت صلوة اور أجزاء صلوة میں سے ہو، لہٰذا اگر نماز میں کسی ایسی چیز کے چھوڑنے سے کراہت تحریمی پیدا ہو، جو خارج من الصلوٰة ہو، جیسے فاسق کی امامت کرانا وغیرہ تو ایسی صورت میں نماز واجب الاعادة نہیں ہے، چناں چہ امداد الفتاوی میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:
”البتہ در مختار میں یہ قاعدہ لکھا ہے واجبات صلوٰة میں ”کل صلوٰة أدیت مع کراہة التحریم تجب إعادتھا“
اور رد المحتار میں اس کے عموم پر ایک قوی اعتراض کرکے تصحیح کے لیے یہ توجیہ کی ہے ” إلا أن یدعی تخصیصہا بأن مرادہم بالواجب والسنة التی تعاد بترکہ ما کان من ماہیة الصلوٰة وأجزائھا“ پس صلوة خلف الفاسق ونحوہ
میں اول تو کوئی امر اجزائے صلوة میں سے مختل نہیں ہوا، اس لیے قاعدہ وجوب اعادہ کا جاری نہ ہوگا۔“(کتاب الصلوٰة،1/232، 233، دارالعلوم کراچی)
سوال… کیا فرماتے ہیں علما ء کرام اور مفتیان ِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ انسان کے اعضا ء اس کی رضا مندی سے بیچنا یا ہبہ کرنا مثلاً جگر، گردے، پھیپھڑے، آنکھ، خون وغیرہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب…آزاد انسان اور اس کے اجزاء واعضاء شریعت کی نظر میں نہ تو مال ہے اور نہ ہی کسی کی ملک میں داخل، اسی لیے نہ تو ان کی خرید وفروخت جائز ہے او رنہ بطور عطیہ اور ہبہ کسی کو دینا اور وصیت کرنا جائز ہے، کیوں کہ ان سب کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ وہ مال بھی ہوں اورمملوک بھی، یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آزاد آدمی کی خریدوفروخت سے منع کیا گیا ہے اور اس کی خرید وفروخت کے بارے میں شدید وعید سنائی گئی ہے اور اس میں مسلمان اور کافر، زندہ اور مردہ کا کوئی فرق نہیں ۔
خون بدن انسانی کا جزء ہے اور بدن سے نکل کر بہہ جائے تو نجس اور ناپاک ہے، جزء ہونے کے اعتبار سے اس کی مثال انسانی دودھ جیسی ہے، جو بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے نکلتا ہے اور دوسرے انسان کے بدن کا جزء بنتا ہے، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شریعت نے عورت کے دودھ کو جزوانسانی ہونے کے باوجود ضرورت کی بناء پر شیر خوار بچوں کے لیے جائز کر دیا ہے، اسی طرح اگر ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر مریض کی جان بچانے یا صحت یاب ہونے کی کوئی دوسری صورت ممکن نہ ہو تو بقدر ضرورت خون دینا جائز ہے۔
اور جہاں تک خون کی خرید وفروخت کا معاملہ ہے تو جن صورتوں میں خون دینا جائز ہے ان میں اگر بلا قیمت خون نہ ملے تو قیمت دے کر خون حاصل کرنا بھی جائز ہے، مگر خون دینے والے کے لیے اس کی قیمت لینا جائز نہیں، کیوں کہ شریعت کی نظر میں یہ مال بھی نہیں او رپاک بھی نہیں۔
الله تعالیٰ نے انسان کو مخدوم کائنات بنایا ہے، لیکن اپنے جسم کا مالک بھی نہیں، اس لیے ان کے اجزاء واعضاء کا استعمال کسی دوسرے کے لیے اگرچہ اس کی رضا مندی سے کیوں نہ ہو، اس کی اہانت، اور ملک خداوندی میں ناجائز تصرف اور تخریب کاری کی وجہ سے ناجائز ہے، لہٰذا دوسرے کی جان یا عضو بچانے کے لیے اپنے جسم کا کوئی حصہ گردے، پھیپھڑے،جگر اور آنکھ وغیرہ دینا اور اس کی پیوندکاری کرنا ( خواہ رضا کارانہ طور پر ہو یا قیمت لے کر ) جائز نہیں۔
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء دین اس کے مسئلے کہ بارے میں کہ پچھلے سال میرے ایک چچا زاد کزن کا انتقال ہو گیا تھا جو کہ ایک کمپنی آٹو موبائیل میں کام کرتا تھا، اب اس کمپنی نے متوفی کو اس کی انشورنس کے پیسے دینے ہیں، وکیل کو اس بارے میں راہ نمائی چاہیے کہ اس رقم میں سے متوفی کے ماں باپ جو کہ حیاتہیں اور اس کی بیوی اور بچوں کا حصہ کس تناسب سے ہو گا؟ اور مزید یہ کہ جو بچیاں شادی شدہ ہیں ان کا کتنا حصہ ہو گا؟
جواب…صورت مسئولہ میں ”آٹو موبائل کمپنی“ کی طرف سے متوفی کے ورثاء کو جو انشورنس کے پیسے ملتے ہیں، وہ عطیہ شمار ہو گا اور عطیہ میں میراث جاری نہیں ہوتی، بلکہ متوفی کے ورثہ میں سے کمپنی جس کو یہ رقم دینا چاہے وہی اس کا حق دار ہو گا، دوسرے ورثاء کا اس میں حق نہیں۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر متوفی نے زندگی میں کسی وارث کو اپنے نائب کے طور پر مقرر کیا ہو، تو یہ رقم کمپنی کے قانون کے مطابق اس کو دی جائے گی اور اگر متوفی کی طرف سے نائب مقرر نہ ہو تو اس صورت میں کمپنی کو اختیار ہے،جس وارث کو یہ رقم دینا چاہے ، دے سکتی ہے۔