مدرسے کی رقم خود قرض لے کر یا کسی کو بطور قرض دے کرکاروبار کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مدرسے کے لیے جو چندہ دیا جاتا ہے اس چندہ سے قرض لینا، یا کسی کو قرض دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر کسی نے اس چندے سے قرض لیا اور اس لی ہوئی رقم پر کچھ کمایا ،تو قرض کی ادائیگی کے وقت صرف قرض کی رقم واپس کرے گا، یا قرض اور نفع دونوں واپس کرے گا؟
دوسرا یہ کہ ایک مہتمم صاحب نے پینتالیس ہزار روپے مدرسے کی رقم سے لے کر پلاٹ خریدنے میں لگایا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب… واضح رہے کہ کسی کے لیے شرعاً یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مدرسے کی رقم کو بطور قرض لے کر، یا کسی دوسرے کو بطور قرض دے کر اپنی سرمایہ کاری کے لیے اس رقم کو تجارت یا کاروبار وغیرہ میں استعمال کرے، بلکہ مدرسہ کی رقم اسی مصرف میں خرچ کرنا لازم اور ضرور ی ہے، جس مصرف کے لیے وہ ( رقم) دی گئی ہے، اپنے ذاتی مفاد کے لیے مدرسہ کی رقم قرض لینا، یا دینا جائز اور درست نہیں ہے، اگر مدرسے کی رقم ذاتی مفاد کے لیے لی، تو اس کے ذریعہ جو کچھ کمائے گا، اس کا صدقہ کرنا لازم ہے، یا تواصل رقم کے ساتھ ملاکر مدرسے کولوٹا دے، یا فقراء پر صدقہ کر دے، بہر صورت صدقہ کرنا لازم ہے، کیوں کہ چندہ دینے والوں نے یہ رقم اس لیے دی ہے کہ اسے طلبہ، اساتذہ او رمدرسے کے دیگر مصارف میں خرچ کیا جائے، قرض لینے یا کسی کو قرض دینے کے لیے نہیں دی، البتہ اساتذہ کو پیشگی تنخواہ کے طور پر دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ وہ اتنی خطیر رقم نہ ہو، جس کو تنخواہ سے منہا کرنا ممکن نہ ہو۔
یاد رہے کہ اگر پینتالیس ہزار روپے اس نے پلاٹ خریدنے میں لگائے ہیں، تو اس پر لازم ہے کہ وہ رقم مدرسے کو لوٹا دے، او راگر وہ پلاٹ فروخت کر لیتا ہے، تو کل رقم سے پینتالیس ہزار کا فیصدی تناسب لگا کر پلاٹ کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے پینتالیس ہزار سے زائد رقم مدرسے کو دے، یا فقراء پر صدقہ کرے۔
”جاؤ ،میں نے تمہیں اپنی زندگی سے آزاد کیا“ کے الفاظ سے طلاق کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کی شادی والدین کے کہنے پر ہوئی، شادی کے بعد ابتدائی چھ مہینے ٹھیک گزرے، اس کے بعد تعلق خراب ہونا شروع ہوگیا، حالات کی خرابی کی وجہ بیوی کا نامناسب رویہ تھا، اس کے ساتھ کچھ روحانی مسائل بھی تھے جس کا کافی علاج کرایا، اس کے علاوہ اس کے بات کرنے کا انداز انتہائی توہین آمیز ہوتا تھا، اس کے گھر والوں کو بھی بتایا کہ انہیں سمجھائیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔
کچھ عرصہ قبل میری بیوی نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا او رکہا کہ ”اگر مرد ہو تو دیدو طلاق“، جس کے جواب میں ،میں نے کہا کہ :”جاؤ، میں نے تمہیں اپنی زندگی سے آزاد کیا“، مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان الفاظ سے طلاق ہو جاتی ہے، میرا مقصد اسے ڈرانا تھا، بہرحال ہم نے رجوع کر لیا تھا، ابھی تین دن قبل اس کی حددرجہ بدتمیزی کی وجہ سے میں نے اسے کہا کہ: ”میں آج تمہیں خدا کو حاضر ناظر جان کر پہلی طلاق دیتا ہوں“، اس کے بعد میں نے رجوع نہیں کیااور اسے والدین کے گھر بھیج دیا ہے۔
اب میں ان حالات سے تنگ آگیا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اگر اس کے گھر والے بات مان گئے تو میرا رجوع کا ارادہ نہیں ہے، او راگر وہ بہت اصرار کریں اور روز لگائیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا، تو سوچوں گا کہ کیا کیا جائے۔
آپ حضرات شریعت مطہرہ کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ایک طلاق ہوئی ہے یا دو طلاقیں؟ اس کا کیا حکم اور کیا کفارہ ہے؟ بیوی کے لیے کیا حکم ہے او رہمارے لیے کیا حکم ہے؟
جواب… سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ نے اپنی بیوی کے لیے تین طرح کے طلاق کے الفاظ ادا کیے ہیں: 1..”جاؤ“ 2..”میں نے تمہیں اپنی زندگی سے آزاد کیا“ 3..میں آج تمہیں خدا کو حاضر ناظر جان کر پہلی طلاق دیتا ہوں“ ،ان میں سے ہر ایک جملے کا حکم درج ذیل ہے:
1..”جاؤ“ یہ طلاق کے ان الفاظ میں سے ہے جن سے طلاق کا واقع ہونا نیت پر موقوف ہوتا ہے، چوں کہ صورت مذکورہ میں طلاق کی نیت نہیں تھی ،اس لیے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
2..”میں نے تمہیں اپنی زندگی سے آزاد کیا“ یہ الفاظ چوں کہ صریح کے حکم میں ہیں، لہٰذا ان سے بلانیت ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی، اس کے بعد چوں کہ رجوع پایا گیا، لہٰذا وہ بدستور آپ کی بیوی رہے گی۔
3..”میں آج تمہیں خدا کو حاضر ناظر جان کر پہلی طلاق دیتا ہوں“ اس سے بھی بلانیت ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی، عدت کے اندر اندر رجوع کر لینے سے رشتہٴ زوجیت بر قرار رہے گا، چوں کہ آپ کی بیوی کو دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، لہٰذا اس کے بعد آپ کو صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہ جائے گا، طلاق کے معاملے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
ایسی صورت حال میں آپ کے بڑوں کو چاہیے کہ جذبات سے بالاتر ہو کر اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں، حتی الامکان ان کے مابین مصالحت کی کوشش کریں، تاکہ ایک گھر اجڑنے سے محفوظ رہے اور آپ بھی صبر اور برداشت سے کام لیں اور اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں، تاکہ غصے او رجذبات میں آکر وقتی طور پر اٹھایا گیا قدم ہمیشہ کی پشیمانی کا سبب نہ بنے اور بیوی کو چاہیے کہ اچھے اخلاق کا مظاہر کرے، رویے اور لہجے میں نرمی اپنائے اور شوہر کا احترام اور اس کی فرماں برداری کو اپنے اوپر لازم کر لے، یہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کا طریقہ ہے۔
لاک ڈاؤن میں تعلیم، طریقہٴ تعلیم اور اساتذہ کی تنخواہوں کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب تمام معمولات معطل ہو گئے اورحکومتی پابندیوں کی وجہ سے مساجد ومدارس بھی مقفل ہو گئے، تو مدرسہ کی انتظامیہ کے دباؤ پر مہتمم صاحب نے مدرسہ کے تمام اساتذہ کرام کو آن لائن تعلیم دینے کا مکلف بنایا، مرحلہ ثانویہ کے درجات میں ابھی آن لائن تعلیم ہورہی ہے اور آن لائن تعلیم کے لیے Messenger Room کا انتخاب کیا گیا، اب تعلیم کا وقت شروع ہوتے ہی متعلقہ درجہ کا ایک طالب علم رومCreate کرتا ہے او راس کالنک Viber Group میں ارسال کر دیتا ہے، اس لنک کے ذریعے گروپ ممبران جو اس درجہ کے طلبہ اوراساتذہ ہیں، اس لنک کے ذریعہ (جس کے پاس فیس بک کا اکاؤنٹ ہے وہ اپنے اکاؤنٹ سے اور جس کے پاس فیس بک کا اکاؤنٹ نہیں ہے وہ Chrome Broser کے ذریعہ) اس روم سے Join ہو جاتا ہے اور اساتذہ اور طلبہ سب اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ویڈیو کالنگ کے ذریعہ سبق پڑھتے پڑ ھاتے ہیں۔
1..ایسی صورت حال میں درس وتدرس کو کیف ما اتفق جاری رکھا جائے ،یا حالات ساز گار ہونے تک موقوف رکھا جائے؟
2..اگر موقوف رکھا جائے تو اساتذہ کی تنخواہوں کا کیا حکم ہو گا؟ تنخواہیں لینا جائز ہے یا ناجائز؟ او راگر درس وتدریس کو جاری رکھا جائے تو اس کے لیے کون سا طریقہ مناسب ہے؟
3..مندرجہ بالا صورت کے ساتھ یعنی فیس بک، یا میسنجر روم، زوم، یا اسکائپ سے ویڈیو کالنگ کے ذریعے درس وتدریس کا کیا حکم ہے؟ یا صرف وائس کالنگ کو استعما ل کیا جائے؟
4..اگر کوئی استاد یا طالب علم اپنا کیمراآف رکھے ،استاذ صرف طلبہ کو آواز سنائے، یا طلبہ صرف آوازسنیں، تو کیا وہ استاذ یا طالب علم زجرو توبیخ کا مستحق ہے؟
5..اگر مذکور الصدر صورت میں شرعاً کوئی قباحت ہے تو اس طرح تعلیم کے ذریعہ جو تنخواہیں وصول ہوئیں ،ان کا کیا حکم ہے؟
شرعی حکم سے آگاہ فرماکر بندہ کا تذبذب دور فرمائیں، الله تعالیٰ آپ کو دارین میں اپنی شایان شان اجر عطا فرمائے۔ آمین
جواب…1..درس وتدریس کے نظام کو معطل وموقوف رکھنے سے بہتر ہے کہ اسے ایسے جائز اورشرعی طریقہ پر جاری رکھا جاوئے، جس میں کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ ہو نے پائے۔
2..شرعی نقطہٴ نظر سے اساتذہٴ مدرسہ وملازمین وغیرہ اجیر خاص کہلاتے ہیں، لہٰذا اگر اساتذہ وملازمین وغیرہ نے مقررہ اوقات میں متعلقہ مقامات پر اپنے آپ کو سونپ دیا ہو او رمتعینہ اوقات میں حاضر رہے ہوں، یا مقررہ وقت میں انہوں نے آن لائن سبق پڑھا دیا ہو، تو یہ لوگ اجرت (تنخواہ) کے شرعاً حق دار ہیں ، اور درس وتدریس کو مناسب اور شرعی طریقوں پر ہی بحال رکھیں۔
3..ویڈیو کالنگ شرعاً ناجائز ہے، اس لیے وائس کالنگ پر اکتفاء کیا جائے۔
4..اساتذہ وطلباء کرام دونوں اپنے اپنے کیمروں کو بند کرکے ہی درس وتدریس کو جاری رکھیں او راس پر کوئی ایک فریق بھی لائق زجروتوبیخ نہیں، بلکہ قابل ِ صد ستائش ہے، کہ وہ ممنوعات سے بچنے کا التزام کر رہا ہے۔
5..جو تنخواہ دی جاتی ہے، وہ پڑھانے کی اجرت ہے، جو کہ جائز ہے، البتہ تصویر کشی(اگر ہوگئی ہو) کا گناہ الگ ہو گا۔
ڈراؤنے خواب اور سودی قرضوں کی نحوست
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک معذور آدمی ہوں، اس کے باوجود الله نے مجھے اتنا نوازا تھا کہ میں ساری عمر بھی سجدے میں پڑا رہتا ، تو الله کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتا تھا، پر میں رحمن کو بھول کے شیطان کے راستے پر چلتا رہا، سب کہتے تھے معذور آدمی سے شادی کون کرے گا، الله نے ایک بہت ہی خوب صورت خاتون کے دل میں میرے لیے رحم کو جگہ دی، وہ صورت کی ہی نہیں، سیرت کی بھی بہت اچھی تھی، آج تک اس نے احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ایک معذور آدمی ہوں، پر میں خود پسند شخص تھا کہ میں نے اس ہیرے کی بھی قدر نہیں کی، آج میں قرضوں میں ڈوب کے تباہ ہو گیا ،گھر کا سارا نظام تباہ ہو گیا،بچے مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں، آپ کو پھر زحمت دے رہا ہوں، شادی کے بعد میں نے اورمیری بیوی نے یہ خواب دیکھے تھے:
1..بیوی کا خواب: میری بیوی خواب میں چھپکلیاں دیکھتی تھی، یہ چھپکلیاں اس کے جسم سے،کبھی ناک سے، کبھی منھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں، ایک دن حقیقت میں ہمار ے گھر کے دورازے پر مگر مچھ جتنی بڑی چھپکلی تھی، سب محلے کے لوگ حیران تھے کہ اس علاقے میں اتنی بڑی چھپکلی کبھی نہیں دیکھی۔
2..او رمیں خواب میں غلاظت دیکھتا تھا کہ میرا کمرہ انسانی غلاظتوں سے بھرا ہوتا تھا یہاں تک کہ میں نے انسانی فضلوں کو کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
اب جب پوری طرح تباہ ہو گیا ہوں، یہ خواب مجھے اور میری بیوی کو آنے ختم ہو گئے ہیں، مفتی صاحب اس قدر پریشانی ہے، لفظوں میں بتا نہیں سکتا ،ایک تو معذور ہوں، دوسرا تیس لاکھ روپے سود میں دے چکا ہوں، ابھی مزید دس لاکھ روپے دینے ہیں، نماز پڑھتے پڑھتے بھول جاتا ہوں، زبان لڑکھڑانے لگتی ہے، ہر نماز کے بعد توبہ کی تسبیح، یٰسین شریف، سورہ واقعہ، سورة ملک، سورہ مزمل، سب وظیفے پڑھ رہا ہوں، اگر میر ی جگہ کوئی اور ہوتا تو خود کشی کرچکا ہوتا۔
الله، رسول کے واسطے مجھے بتائیں کہ یہ سب کیا ہے؟ اتنی پریشانی، اتنی ذلت، اتنی ذلت!!!
جواب…واضح رہے کہ خواب کی حقیقت سے نہ تو بالکلیہ انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے متعلق اس حد تک اعتقاد بڑھایا جاسکتا ہے کہ شریعت کے مقابلے میں خواب ہی کو حجت قرار دیا جائے، کہ خواب کی وجہ سے انسان کی جیتی جاگتی زندگی ہی متاثر ہوجائے، بلکہ خواب کے متعلق اعتدال والا نظریہ رکھا جائے، مصائب اور مشکلات منجانب الله انسان پر آتی ہیں، اس میں کسی اچھے یا بُرے خواب کا کوئی دخل نہیں ہوتا، بُرے خوابوں کی وجہ سے ناامید اور مایوس ہو جانا، حتی کہ زندگی ہی سے مایوس ہو جانا گناہ ہے، ہر وقت خوابوں میں سوچ وبچار کرتے رہنے سے جیتی جاگتی دنیا میں زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔
احادیث مبارکہ او راسلاف کے اقوال میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں: 1..الله تعالیٰ کی طرف سے بشارت 2..نفسانی خیالات ۔ 3..شیطانی تصورات،جب خواب کی تین قسمیں ہیں، تو یہ ضرور ی نہیں ہے کہ ہر خواب کا تعلق انسان کی جیتی جاگتی زندگی سے ہو، اس لیے جب بھی کوئی شخص خواب دیکھے، اگر تو وہ خواب اچھا ہو، بھلا معلوم ہو، تو اپنے کسی خیر خواہ اور صالح دوست سے اس کا ذکر کرے، تاکہ وہ اس کی صحیح تعبیر بیان کرے، اور اگر کوئی بُرا اور قبیح خواب دیکھے، تو اس کو کسی پر بیان نہ کرے، بلکہ اپنے اعمال کی درستگی کی فکرکر ے او رالله تعالیٰ کی جانب متوجہ ہوجائے، اگر بیان کرنا بھی چاہتا ہے تو کسی صالح اور تعبیرات جاننے والے شخص کے سامنے بیان کرے۔
نیز جتنا جلدی ممکن ہو اپنے آپ کو سودی قرضوں سے نجات دلائیں، سود جیسی لعنت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں،خود بھی اور بچوں کو بھی پاکیزہ اور حلال مال کھلائیں، تاکہ یہ ان کی اچھی تربیت او ربہترین مستقبل کے لیے معاون ثابت ہو، اور اولاد بجائے نفرت کے محبت کرنے والی فرماں بردار بنے۔
آج تک جو سودی قرضے لیے ہیں اپنے اس فعل پر بارگاہِ خداوندی میں ندامت کے آنسو بہائیں، اور آئندہ اس کے نہ کرنے کے عزم کے ساتھ توبہ واستغفار کریں، تاکہ یہ دنیا وآخرت میں آپ کے لیے وبال نہ بنے۔