میاں بیوی کے درمیان شرعی حقوق
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بیوی پر شوہر کے کیا حقوق اور ذمہ داریاں واجب ہیں؟ کیا بیوی پر شوہر کے لیے کھانا پکانا، کپڑے دھونا، استری کرنا، گھر کی صفائی اور بچوں کو دودھ پلانا، ان کی پرورش کرنا اور اسی طرح ساس، سسر کی خدمت بھی شرعاً واجب ہے یا نہیں؟ نیز شوہر پر بیوی کے کیا حقوق وذمہ داریاں واجب ہیں؟ تفصیلی جواب کے ساتھ راہ نمائی فرمائیں۔ شکریہ
جواب… واضح رہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہٴ حیات ہے، جس طرح اس میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کی راہ نمائی کے لیے واضح احکامات اور روشن تعلیمات موجود ہیں، اسی طرح ازدواجی زندگی میں بھی مرد وعورت کے باہمی تعلقات کے متعلق اس میں نہایت صریح اورمنصفانہ ہدایات بیان کی گئی ہیں۔
ان ہدایات میں میاں بیوی کے حقوق بھی داخل ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر ایک شادی شدہ جوڑا خوش گوار زندگی گزار سکتا ہے اور رشتہ ازدواج مستحکم او رباقی رہ سکتا ہے، لیکن میاں بیوی کے حقوق ایک طویل الذیل موضوع ہے جن کو تفصیلاً بیان کرنا مشکل ہے، مختصر طور پر دونوں کے حقوق بیان کیے جائیں گے، ان میں سے بعض حقوق ایسے ہیں جن کا پورا کرنا شرعی فریضہ بنتا ہے اور بعض کا پورا کرنا اخلاقی فریضہ بنتا ہے:
بیوی پر شوہر کے جو حقوق ہیں من جملہ ان میں سے شوہر کی دل جوئی کرنا اور ہر جائز کام میں اس کی اطاعت کرنا، اس کے لیے کھانا پکانا، کپڑے دھونا، استری کرنا، ان کے بچوں کی پرورش کرنا، دودھ پلانا او رگھر کی صفائی وغیرہ داخل ہیں، بیوی پر مذکورہ امور دیانةً واجب ہیں، قضاءً نہیں، لہٰذا اگر بیوی بغیر عذر کے انکار کرتی ہے، تو بیوی گناہ گار ہوگی، لیکن شوہر بیوی کو ان امور کے کرنے پر مجبو رنہیں کرسکتا، باقی رہا ساس اور سسر کی خدمت کرنا تو شرعاً اس پر ان کی خدمت کرنا لازم نہیں، البتہ بیوی کا اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ ان کو اپنی ماں باپ کی طرح سمجھ کر ان کی خدمت کرے۔
اسی طرح شوہر پر بیوی کے جو حقوق ہیں من جملہ ان میں سے بیوی کو نان ونفقہ دینا، رہائش دینا اور حسب ِ استطاعت ان کی ضروریات اورسہولیات کا انتظام کرنا وغیرہ داخل ہیں۔
الغرض! گھر کے اندرونی امور انجام دینا بیوی کی ذمہ داری ہے اورگھر سے باہر کے امور انجام دینا شوہر کی دمہ ذاری ہے، جیسا کہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کی ذمہ داریاں ان کے درمیان تقسیم کی تھیں کہ گھر سے باہر کے امور حضرت علی رضی الله عنہ انجام دیں گے او رگھر کے امور حضرت فاطمہ رضی الله عنہا انجام دیں گی۔
نکاح کے موقع پر دیے گئے تحائف کی ملکیت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میر ی بہن کی شادی ہوئی تھی ایک سال پہلے، پھر ایک سا ل بعد میاں بیوی کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے، جس کی وجہ سے بات طلا ق تک آپہنچی، شادی کے وقت دولہے کی بہنوں نے میری بہن کو تحفے دیے ، جو کہ زیورات ہیں اور دولہے کی طرف سے بھی نکاح میں او رمنھ دکھائی اور شادی میں میری بہن کو زیورات دیے اور کپڑے وغیرہ بھی، اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ میری بہن کی ملکیت ہے یا نہیں؟ او راگرملکیت میں ہے تو طلاق کے وقت دولہے کی بہنیں اور خود دولہا ان سب چیزوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے آیا، تو میری بہن یہ سب چیزیں واپس کرے گی یا نہیں؟ برائے کرم راہ نمائی فرمائیں۔
جواب…صورت مسئولہ میں آپ کی بہن کو لڑکے یا اس کی بہنوں وغیرہ کی طرف سے تحفے تحائف اگر بطور ملکیت دیے گئے ہوں ، تو واپس نہیں کیے جائیں گے اور اگر صرف استعمال کے لیے دیے ہوں، تو وہ آپ کی بہن کی ملکیت نہیں ہے، لہٰذا طلاق کے بعد ان کو واپس کیا جائے گا، اوراگر دیتے وقت کوئینیت نہیں تھی یا کوئی تصریح نہ کی ہو، تو وہاں کی برادری کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا اگر ان کے عرف میں یہ تحائف بطورِ ملکیت دیے جاتے ہوں، تو ان کو واپس نہیں کیا جائے گا او راگر صرف استعمال کے لیے دیے جاتے ہوں، تو واپس کیے جائیں گے۔
واٹس ایپ اسٹیٹس پر اشتہارات لگا کر اجرت لینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص یہ کام کرتا ہے کہ چار سو روپے رجسٹریشن فیس بھر کر ایک گروپ میں شامل ہوتا ہے، جس کے بعد اسے روزانہ کی بنیاد پر مختلف کمپنیوں کے اشتہارات دیے جاتے ہیں، یہ اشتہارات اسے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر لگانے ہوتے ہیں، چوں کہ واٹس ایپ اسٹیٹس چوبیس گھنٹے کے لیے ہوتا ہے، تو چوبیس گھنٹے بعد اس اسٹیٹس کے جتنے بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں، ان کی تعداد کا اسکرین شارٹ گروپ ایڈمن کو بھیج دیتا ہے اوراس کے مطابق اسے پیمنٹ کر دی جاتی ہے، کیا یہ طریقہ کار شرعاً درست ہے ؟
جواب… صورت مسئولہ میں ذکر کردہ معاملے کی فقہی حیثیت ”اجارہ“ کی ہے ،اس میں گروپ ایڈمین کی حیثیت مستاجر کی اور گروپ میں شمولیت اختیار کرنے والے کی اجیر (مزدور) کی ہوتی ہے ،چوں کہ اجارہ میں اجرت کی تعیین کا ہونا ضروری ہے، مذکورہ، صورت میں اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسد ہے۔
نیز مذکورہ صورت میں گروپ میں شمولیت کے لیے چار سو روپے دینے کی شرط لگائی جاتی ہے، یہ اجارہ میں شرط فاسد ہے او راجارہ شرط فاسد کی وجہ سے فاسد ہو جاتا ہے او رجب گروپ میں شمولیت جائز نہیں ہے، تو اس سے حاصل ہونے والا نفع لینا بھی جائز نہیں۔
والد کے انتقال کے بعدجائیداد کی تقسیم کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
(الف) ہم چا ربھائی اور تین بہنیں ہیں، ہماری چاول کی دوکان ہے، یہ دکان ہمارے والدصاحب کی تھی،2000ء میں والد صاحب کا انتقال ہوا تھا او رچار سال بعد ہم نے اپنی بہنوں کو اس دوکان سے حصہ دے دیا تھا اور ہم بھائیوں نے شراکت داری جاری رکھی، آج میں جب اپنے بڑے بھائی ہارون سے کہتا ہوں کہ مجھے اس دوکان سے میرا حصہ دو، تو وہ کہتا ہے کہ :”اس دوکان میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، کیوں کہ تم نے اس دوکان کے لیے کچھ بھی نہیں کیا“ اور میں یہ کہتا ہوں کہ :”یہ دوکان میرے باپ کی ہے او رمیں باقاعدہ اس کا وارث ہوں“، میں اس دوکان سے چاول لیتا ہوں اور اس کی ادائیگی نہیں کرتا، کیوں کہ میرا یہ مؤقف ہے کہ میں اس دکان کا مالک اور وارث ہوں، اس لیے میں دین دار نہیں ہوں او رمیرے بھائی ہر مہینے لاکھوں روپے اس دوکان سے اٹھاتے ہیں، جب کہ میں وہ بھی نہیں لے رہا۔
اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ:
∗… میں اس دوکان کا وارث ہوں، کیوں کہ یہ میرے والد کی دوکان تھی؟ بھائی کہتا ہے کہ تونے اس دوکان کے لیے کچھ نہیں کیا، اس لیے یہ دوکان تیری نہیں ہے۔
∗…کیا میں وہ رقم مانگ سکتا ہوں، جو یہ لوگ ہر مہینے اٹھاتے ہیں؟
(ب)… دوسرا یہ ہے کہ میرا بھائی جس کے ساتھ لگ بھگ چالیس سال میں بچپن سے لے کر کام کرتا رہا، اور وہ ہمیشہ یہ کہتا رہا کہ ہم ساتھ ہیں، ہم مشترکہ ہیں او رایک وقت پر کچھ سالوں پہلے بھائی نے کہا کہ میں جتنی بھی جائیداد بناؤں گا، اس میں ہم پارٹنر ہوں گے او رمیں سب کے ایک جیسے بنگلے بناؤں گا او رجب ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے کہا کہ:”آپ میرا حصہ مجھے دے دو“، تو اس نے کہا کہ:”ہم ساتھ تھے ہی کب؟“ یعنی بالکل برعکس بات کر دی او رمجھے ایک اور دوکان دی ہوئی تھی وہ باقاعدہ چھین لی اور گھر خالی کرنے کی بھی دھمکی دی، لیکن دو سال پہلے گھر کی فائل مجھے دے دی، لیکن دوکان اور مزید کوئی جائیداد نہیں دی۔
اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ:
∗…اس صورت میں اسلام کیا کہتا ہے کہ میرا بھائی ہمیشہ یہ کہتا رہا کہ ہم ساتھ ہیں، ہم ساتھ ہیں او راب کہتا ہے کہ ہم ساتھ تھے ہی کب؟
∗…کیا وہ ایسا کرسکتا ہے؟ کیا وہ میرا دین دار ہے؟ کیا میں اپنی چھینی ہوئی دوکان اس سے مانگ سکتا ہوں؟
جواب…جواب سے پہلے بطورِ تمہیدکے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ مفتی کو غیب کا علم نہیں ہوتا کہ وہ اصل حقیقت کو جانے، بلکہ جو ظاہری صورت ِحال اس کے سامنے بیان کی جاتی ہے، اُسی کے مطابق مفتی شریعت کی روشنی میں جواب دیتا ہے، اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
بیان کردہ صورت حال اگر واقعتا مبنی برحقیقت ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا، تو مذکورہ کاروبار جو کہ والد صاحب کی ملکیت تھا اور والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء اس کے مالک بن گئے، لہٰذا جب بھائیوں نے اپنی بہنوں کو ان کا حصہ رقم کی صورت میں دے دیا اور ساری جائیداد اپنے نام کر لی، اس کے بعد اس کاروبار میں سب بھائی کام کرتے رہے او رساتھ ہی بات بھی طے کر لی کہ مذکورہ کاروبار میں ہم سب بھائی شریک ہیں، تو اس ساری جائیداد میں بمع منافع کے تمام بھائیوں کا برابر حصہ ہو گا، کسی بھائی کا دوسرے بھائی کو یہ کہنا کہ یہ کاروبار آپ کی ملکیت نہیں بلکہ میرا ہے، یہ غلط ہے۔
اسی طرح آپ کے پاس اور دیگر بھائیوں کے پاس جو گھر مذکورہ کاروباروغیرہسے خریدے گئے ہیں یا وہ والد صاحب کے خریدے ہوئے تھے تو ان میں سب بھائیوں کا برابر حصہ ہو گا، لہٰذا وہ کسی ایک کی ملکیت شمار نہیں ہو ں گے۔
نیز آپ کے پاس جو دوکان تھی، وہ والد صاحب کی ملکیت تھی والد صاحب کی وفات کے بعد اس میں تمام ورثاء کا برابر حصہ ہو گا، صرف وہ آپ کی یا آپ کے بھائی کی ملکیت شمار نہیں ہو گی، البتہ اگر آپ نے وہ دوکان خود اپنے پیسوں سے خریدی ہے، جس میں وارثت کی رقم نہ ہو، تو اس صورت میں یہ دوکان آپ کی ملکیت ہو گی ،اسی طرح دوسرے بھائیوں نے اپنیذاتی رقم سے جو جائیداد بنائی ہے وہ بھی ان کی ملکیت ہو گی، اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔
صدقہ کی ادائیگی کے مختلف شرعی مصارف
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں:
1.. کیا گھر کے اوپر پرندوں کے لیے باجرے اور گوشت کا صدقہ کرنا جائز ہے؟ کیا یہ صدقہ شمار ہوتا ہے؟
2.. براہ کرم یہ بھی بتائیں کہ اگر کسی کو پیشہ ور بھکاری معلوم ہو تو کیا اسے کوئی صدقہ دیا جائے؟ سڑکوں پر مانگنے والوں کی طرح۔
3.. سڑک کے بھکاریوں کے علاوہ او رکون سے صدقات ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر کیے جاسکتے ہیں؟
4.. گھریلو ملازموں کو ان کی اجرت کے علاوہ دی جانے والی رقم صدقہ شمار ہوتی ہے؟
5.. وہ لوگ جو ہمارے گھروں میں ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء پہنچا رہے ہیں، بعض اوقات ان کے پاس صحیح مقدار میں بقایا کیش نہیں ہوتا ہے، ایسی حالت میں کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ تم اسے رکھو اور اس کے ذہن میں صدقہ کا خیال ہو، کیا صدقہ شمار ہوتا ہے؟
جواب… 1.. واضح رہے کہ گھر کی چھت پر پرندوں کے لیے باجرہ رکھنا یا ایسا گوشت ڈالنا ،جو انسانوں کے کھانے کے قابل نہ ہو، درست ہے، بلکہ باعث اجرو ثواب اور صدقہ بھی ہے، تاہم صحیح سالم گوشت انسانوں کو چھوڑ کر چیلوں وغیرہ کے آگے ڈالنا او راس کو بلا دور ہونے کا سبب سمجھنا، جیسا کہ عوام جاہل میں معروف ہے، درست نہیں، یہ ہندووں کے ٹونے ٹوٹکوں جیسا عمل ہے۔
ضرورت مندانسان صدقے کے زیادہ مستحق ہیں، اگر کوئی انسان مستحق صدقہ نہ ملے، تب جانور مستحق ہیں، مستحق انسان کے ہوتے ہوئے پرندوں کو دینا گویا کہ ضائع کر دینا ہے۔
2.. پیشہ ور گدا گروں کو صدقات دینا جائز نہیں، البتہ اگر غالب گمان یہ ہو کہ وہ واقعی محتاج ہے، تو دینے کی گنجائش ہے۔
3.. احادیث مبارک میں صدقہ کرنے کی ترغیب وارد ہوئی ہے، اگرچہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑاہی کیوں نہ ہو، البتہ بہترین صدقات وہ صدقات جاریہ ہیں جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی صدقہ کرنے والے کو ملتا رہتا ہے، جیسے کہیں مسافر خانہ بنانا، یا مسجد ومدرسہ کی تعمیر میں حصہ ڈالنا، یا دینی کتابیں خرید کر کسی دینی مدرسہ کے مکتب میں وقف کرنا، یا مسجد کے لیے قرآن مجید کے نسخے وقف کرنا وغیرہ۔
5،4… الله تعالیٰ سے ثواب کا امیدوار ہو کر صدقہ کی نیت سے گھریلو ملازمین کو ان کی اجرت کے علاوہ رقم دینا یا گھروں میں ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء پہنچانے والوں کے لیے بقایا چھوڑنا بھی باعث اجروثواب اور صدقہ ہے۔
مہر فاطمی سے کیا مراد ہے؟ او راس کی مقدار، مہر مؤجل ومعجل سے کیا مراد ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین بیچ اس مسئلہ کے کہ”مہر فاطمی“ سے کیا مراد ہے؟ موجودہ دو رمیں یہ کس شئے کے مساوی ہے؟”مہر معجل“،”مہر مؤجل“ سے کیا مراد ہے؟
جواب… مہر فاطمی سے مراد وہ مہر ہے جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے نکاح کے وقت بطور مہر مقرر فرمایا تھا۔ جس کی مقدار احادیث مبارکہ میں ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی بیان ہوئی ہے، او رایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، تو اس حساب سے یہ پانچ سو (500) درہم بنتے ہیں، جو کہ تولے کے اعتبار سے131.25 تولہ اور گرام کے حساب سے1.5309 کلو گرام بنتے ہیں۔
مہر معجل سے مراد وہ مہر ہے جو نکاح کے وقت ہی شوہر بیوی کو ادا کردے ،او رمہر مؤجل سے مراد وہ مہر ہے جو تاخیر سے ادا کیا جائے۔