نصف النہار شرعی سے پہلے روزے کی نیت کرنا
سوال… رات کو طبیعت بہت خراب تھی اس لیے سحری کے وقت روزہ کی نیت نہیں کی، لیکن یہ ارادہ تھا کہ اگر طبیعت صبح تک ٹھیک ہو گئی تو زوال سے قبل نیت کر لوں گا، لیکن نیند کی وجہ سے زوال سے قبل روزہ کی نیت نہ کر سکا، بلکہ ایک یا پونے ایک بجے آنکھ کھلی تو نیت کی، کیا میرا یہ روزہ ہو گا یا زوال سے قبل نیت نہ کرنے کی وجہ سے شمار نہ ہو گا؟
جواب… روزے کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ غروبِ آفتاب کے بعد سے لے کر ضحوہٴ کبرٰی سے ذراپہلے تک روزے کی نیت کر لی جائے، ضحوہٴ کبریٰ سے مراد نصف النہار شرعی ہے، صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک شرعی دن ہے اور اس کا نصف ضحوہٴ کبرٰی اور نصف النہار شرعی ہے، پس روزہ کی نیت کا آخری وقت نصف النہار شرعی سے ذرا پہلے تک ہے ، اگر نصف النہار شرعی ہونے پر یا اس کے بعد نیت کی تو روزہ صحیح نہیں ہو گا۔
لہٰذا اگر آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ آپ نے نصف النہار شرعی سے ذرا پہلے تک نیت کر لی تھی تو اس دن آپ کا روزہ شمار ہو گا، ورنہ نہیں۔
سحری کھانے میں برکت ہے
سوال… ایک شخص روزے رکھتا ہے اور اس نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ سحری نہیں کرتا اور شام کو صرف پانی سے افطار کرتا ہے، کیا اس طریقہ سے روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب… مذکورہ طریقہ کے مطابق روزے رکھنا اگرچہ جائز ہے، لیکن مناسب ہے کہ سحری بھی کرے، احادیث مبارکہ میں سحری کے بارے میں بہت فضیلت آئی ہے، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا، ”ہمارے او راہلِ کتاب ( یہود ونصاریٰ) کے روزوں کے درمیان سحری کرنے اور نہ کرنے کا فرق ہے، کہ وہ سحری نہیں کرتے اور ہم کرتے ہیں۔“ اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” سحری کھایا کرو، اس لیے کہ سحری کھانے میں برکت ہے “۔
رمضان میں بوقت ِسحری اذان کے دوران کھانا پینا
سوال… ہمارے ہاں عموماً لوگ رمضان المبارک میں سحری کے وقت اذانوں کے ہوتے ہوئے بھی کھانا پینا جاری رکھتے ہیں او رکہتے ہیں کہ اذان کے ختم ہونے تک کھانا پینا جائز ہے، کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟ یا اس سے روزے میں خلل واقع ہوتا ہے؟ اور اذان کے وقت کھانے والے کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ مفصل ومدلل جواب دے کر عندالله ماجور ہوں۔
جواب… لوگوں کا اذان کے دوران کھانا پینا غلط ہے اوراس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
ہاں اگر یہ امر یقینی ہو کہ اذان سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہوئی ہے تو ایسی صورت میں روزہ تو درست ہو جائے گا ،لیکن اذان واجب الاعادہ ہو گی۔
لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا، بلکہ اذان وقت کے اندر ہی دی جاتی ہے، اس لیے اذان کے دوران کھانے ، پینے سے اجتناب بہرحال لازم ہے، احتیاط تو اس میں ہے کہ اذان سے چند منٹ پہلے ہی کھانا پینا بند کر دیا جائے۔
روزے کی حالت میں مسواک کا استعمال
سوال… روزے کی حالت میں مسواک استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب… روزے کی حالت میں مسواک ہر وقت استعمال کرنا مسنون ہے، اس کی وجہ سے روزے میں کسی قسم کا نقصان لازم نہیں آتا۔
روزے کی حالت میں کان، ناک اور آنکھ میں دوا ڈالنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ روزے کی حالت میں کان، آنکھ او رناک میں دوا ڈالنا کیسا ہے؟
جواب… کان اور ناک میں مائع دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، البتہ خشک دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، مگریہ کہ دماغ یا معدہ تک پہنچنے کا یقین ہو جائے، اور آنکھ میں کسی بھی قسم کی دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
روزے کی حالت میں انہیلر کا استعمال
سوال… ”اِن ہیلر“ جو ایک آلہ ہے، جس کے دبانے سے ایک گیس نکلتی ہے، جو منہ میں داخل کی جاتی ہے، جس سے سانس کی تکلیف دور ہوتی ہے، اور دوران روزہ مریض اس کو استعمال نہ کرے تو سخت تکلیف ہو جاتی ہے، بسا اوقات سانس بند ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ، اب بعد میں قضاء بھی نہیں رکھ سکتا، تو ایسی صورت میں دورانِ روزہ ”ان ہیلر“ استعمال کرے تو کیا اس کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟
جواب… روزے کی حالت میں ان ہیلر کے استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، کیوں کہ اس میں عام طور پر دوا کے ذرات ہوتے ہیں، اگر ابھی اس آلے کے استعمال کے بغیر روزہ نہیں رکھ سکتا تو روزہ نہ رکھے، بعد میں جب بھی صحیح ہو جائے قضاء اس کے ذمہ لازم ہے، او راگر اس کو ایسا موقع نہیں ملا تو پھر فدیہ ادا کرے، لیکن اگر فدیہ ادا کرنے کے بعد صحیح ہو گیا تو وہ فدیہ نفلی صدقہ شمار ہو جائے گا اور اس پر قضاء لازم ہو گی۔
حالتِ روزہ میں برش اور ٹوتھ پیسٹ کا استعمال
سوال…ایک مسئلہ معلوم کرنا تھا کہ روزے کی حالت میں برش اور منجن استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب…روزے کی حالت میں اگر برش ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ استعمال کیا جائے تو روزہ مکروہ ہوگا ،اور اگر کوئی چیز حلق سے نیچے چلی گئی تو روزہ ٹوٹ جائے گا، لیکن بغیر ٹوتھ پیسٹ کے صرف برش استعمال کیاجائے تو اس میں کراہت نہیں۔
اسی طرح منجن ذائقہ دار ہے اور اس کے استعمال میں بھی چوں کہ اس کے اجزاء کے حلق سے نیچے چلے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا استعمال روزے کی حالت میں مکروہ ہے۔
روزے کی حالت میں انجکشن لگانا
سوال…اگر رمضان المبارک میں کوئی آدمی بیمار ہو جائے اور اس کو انجکشن لگانے کی ضرورت پڑجائے، بعض مریضوں کو انجکشن لگانے سے ری ایکشن کا خطرہ ہو تو اس صورت میں انجکشن لگانا جائز ہے یا نہیں؟ ری ایکشن کی صورت میں گلوکوز اور طاقت کے انجکشن کی ضرورت بھی ہوتی ہے، اس کا لگانا کیسا ہے؟
جواب… انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے گلوکوز کا ہو یا طاقت کا، اس لیے کہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی چیز جسم میں موجود قدرتی راستوں کے ذریعے معدے یا دماغ تک پہنچے ، جب کہ انجکشن کے ذریعے دوا رگوں یا مسامات کے ذریعے جسم کے اندر پہنچتی ہے، اصلی راستوں سے نہیں، لہٰذا اس سے روزے پر اثر نہیں پڑتا۔
قے کرنے سے روزے کا حکم
سوال…کیا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب… اگر قے منہ بھر کر آئی اور ایک چنے کی مقدار یا اس سے زائد عمداً واپس لوٹالی تو روزہ ٹوٹ گیا، قضاء لازمہے، کفارہ نہیں اور اگر جان بوجھ کر منہ بھرقے کی تو اس صورت میں بہرحال روزہ فاسد ہوجائے گا اگرچہ واپس نہ لوٹائے، البتہ منہ بھر کر قے نہ ہو توروزہ نہیں ٹوٹتا ۔
بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا
سوال…گزارش یہ ہے کہ عرصہ چھ سال سے میری بیوی شوگر کی مریضہ ہے، اب چوں کہ بیماری پرانی ہونے کے ساتھ ساتھ کمزوری بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے، علاج وغیرہ بھی خاصی حد تک کیاہے، گزشتہ سال رمضان المبارک میں صحت کچھ اچھی تھی تو بیوی نے روزے رکھنے شروع کردئیے، مگر ابھی چودہ روزے ہی رکھے تھے کہ شدید بیمار ہوگئی جس کی وجہ سے اس کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا، روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کے پانی پینے کی نالی کا منہ بند ہوگیا، شام کو جب وہ پانی پیتی تو پانی اپنی صحیح جگہ جانے کے بجائے پورے پیٹ میں پھیل جاتا ،بڑی مشکل سے ڈاکٹروں نے پیٹ سے پانی نکالا، سولہ روزے قضا ہوگئے،اب ایسی حالت میں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ اور آئندہ روزوں کی قضاء بھی بظاہر مشکل ہے، کیوں کہ کمزوری اس کی پہلے سے زیادہ ہے، آیا قضاء روزے رکھنے لازم ہیں یا فدیہ وغیرہ دے دیں؟
جواب… صورت مسئولہ میں روزہ رکھنے سے اگر بیماری میں اضافے کا خطرہ ہے تو شرعاً ان کو اجازت ہے کہ وہ صحت مند ہونے تک روزہ نہ رکھیں، جب ٹھیک ہو جائیں تو ان چُھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ء کریں، البتہ اگر صحت مند ہونے کی کوئی امید نہ ہو اور آخر دم تک روزہ رکھنے کی طاقت لوٹنے سے بالکل مایوسی ہو، چھوٹے اورٹھنڈے ایام میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہیں تو ایسی صورت میں قضاء شدہ اور آنے والے فرض روزوں کا فدیہ دینا ہوگا، اور ایک روزے کے عوض میں ایک صدقة الفطر کی رقم کے برابر کسی مسکین کو دینا ضروری ہے۔
مروجہ قضائے عمری
سوال…بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی سے عمر بھر کی نمازیں قضاء ہوگئی ہوں تو رمضان المبارک کے آخری جمعے میں نماز جمعہ کے بعد چار رکعت یا بارہ رکعت قضاء کی نیت سے پڑھے تو قضاء نمازوں سے اس کا ذمہ بری ہو جاتا ہے اسے ”قضائے عمری“ کہا جاتا ہے۔
تو کیا ایسی قضائے عمری درست ہے اور اس کا کوئی ثبوت قرآن وحدیث سے ہے یا نہیں؟
جواب… واضح رہے کہ سوال میں مذکور مروّجہ قضائے عمری کا ثبوت قرآن وحدیث اور کتبِ معتبرہ میں نہیں، قضاء نمازوں کے بارے میں شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ قضاء نماز پہلی فرصت میں ادا کرلی جائے، چاہے نماز کا وقت ہو یا نہیں(سوائے اوقاتِ مکروہہ کے)،اسی طرح نوافل کے بجائے قضاء پڑھ لیا کرے، اور اگر کسی کا اس حالت میں انتقال ہو جائے کہ قضاء نمازیں اس کے ذمے باقی ہوں تو ہر نماز کے بدلے میں صدقہٴ فطر کی رقم کے برابر فدیہ ادا کیا جائے۔
لہٰذا سوال میں جو طریقہ مذکور ہے وہ غلط اور بدعت ہے اور لوگوں کو نماز کے ترک کرنے پر جری بنانا ہے، اسی طرح شریعت مطہرہ پربہتان اور اس میں دخل اندازی کے مترادف ہے،لہٰذا ایسی مہمل باتوں پر عمل اور یقین نہ کیاجائے۔
نابالغ کے پیچھے نمازِ تراویح
سوال…اگرکوئی بچہ بلوغت کے قریب ہو، مثلاً :12/13برس کا ہوتو رمضان المبارک کے مہینے میں اس کا تراویح میں قرآن مجید سنانا کیساہے؟ او ریہ خوف ہو کہ قرآن نہ سنانے کی صورت میں قرآن بھول جائے گا ،اور یہ بھی فرمائیں کہ اس کے پیچھے تراویح پڑھنا بہتر ہے، یا اکیلے، یا ”الم تر کیف“ کے ساتھ، کون سا طریقہ افضل ہے؟
جواب…12،13برس کے نابالغ بچے کی اقتدا میں تراویح کی نماز درست نہیں۔
قرآن کریم کی پختگی کے لیے متبادل انتظام کرلیاجائے، یعنی کسی استاذ کو قرآن کریم سنائے، یا کسی طالب علم کے ساتھ دور کرے۔
”الم تر کیف“ کی سورتوں سے اگر تراویح پڑھانے والا موجود ہو تو تراویح جماعت سے پڑھنی چاہیے، ورنہ اکیلا پڑھ لے، بچے کے پیچھے تراویح نہیں ہوتی۔
صدقہٴ فطر کا مستحق کون ہے؟
سوال…فطرانہ کن لوگوں کو دیا جائے؟ امام مسجد جس کے گھر کا گزارہ اچھا چل رہا ہو وہ بھی فطرانہ کا حق دار ہے یانہیں؟
جواب… صدقہٴ فطرکی رقم کسی غریب اور مستحق کو دینی چاہیے، شریعت کی اصطلاح میں غریب اس کو کہتے ہیں جس کی ملکیت میں سونا، چاندی، مالِ تجارت، نقدی اور گھر میں موجود روز مرہ کے استعمال کی چیزوں سے زائد سامان اتنا نہ ہو جو ساڑھے سات تولہ( 87.479گرام) سونے یاساڑھے باون تولہ( 612.35گرام )چاندی کے برابر ہو۔
تین جوڑے کپڑے سے زائد لباس، ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسی خرافات ضروریاتِ اصلیہ میں داخل نہیں، اس لیے ان کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں امام صاحب کی مالی حالت کو دیکھا جائے، پھر اس کے مطابق حکم لگایا جائے۔
حافظِ قرآن کے لیے چندہ جمع کرنا
سوال… ایک مسجد کا امام حافظ ہے اور وہ رمضان میں قرآن سناتا ہے، رمضان کے آخر میں مسجد میں اعلان کیا جاتا ہے کہ امام صاحب کے لیے چندہ دیا جائے، ایسا اعلان کرکے پیسہ جمع کیا جاتا ہے، اب امام صاحب کے لیے یہ پیسے لینا جائز ہے یا نہیں؟ دلیل سے واضح فرمائیں۔
جواب…مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر حافظ امام کے لیے یہ عطیات ،خواہ نقدی کی شکل میں ہوں یا لباس کی صورت میں، جائز نہیں:
1…بالعموم چندہ وصول کرنے میں ایسے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے، اس لیے یہ وصول کردہ رقم حرام ہے۔
2…چندہ دینے والوں میں بینک اور بیمہ کے ملازمین اور دوسرے ناجائز ذرائع آمدنی رکھنے والے بھی ہوتے ہیں، اس لیے بہتر نہیں۔
3…یہ رسم عام ہونے کی وجہ سے ایک قسم کا معاوضہ ہے۔
4… اگر امام واقعتا اس کو معاوضہ نہ سمجھے، تب بھی اشرافِ نفس کی وجہ سے حرام ہے۔
5…اگر بالفرض اشراف ِنفس نہ ہو، تب بھی اس سے غلط رسم کی تائید ہوتی ہے، البتہ مسجد میں مسلمانوں کے عمومی امورِ خیر کے لیے چندہ کرنا جائز ہے۔ ( کذا فی احسن الفتاوی ج:3ص:516)