بچے کی خوراک کی نالی بند ہونے کی صورت میں حرمت ِ رضاعت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے بیٹے نے بھتیجی کا دودھ پیا ہے، لیکن اس کی خوراک کی نالی بند تھی، حلق سے نیچے نہیں گیا، اسے الٹی ہو گئی تھی، کیوں کہ اس کی خوراک کی نالی بند تھی، کوئی بھی چیز اس کے حلق سے نیچے نہیں جاتی تھی، اس کے بعد آپریشن ہوا، تب جاکے میرے بیٹے نے اپنی ماں کا دودھ پیا اور ہضم کیا، اب میں اپنی اسی بھتیجی کی بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے سے کروانا چاہتا ہوں، لیکن جو رشتہ کروانا چاہتا ہوں وہ میرے بیٹے سے ایک دو سال چھوٹی ہے، اور میں اپنی بیٹی دینا چاہتا ہوں وہ لڑکا میرے بیٹے کا ہم عمر ہے اور بیٹی اس لڑکی کی ہم عمرہے، کیا یہ رشتے جائز ہیں یا نہیں؟
جواب… شرعی نقطہ نظر سے اگر دودھ صرف بچے کے حلق تک پہنچ جائے اور حلق سے نیچے نہ جائے، تو اس صورت میں صحیح قول کے مطابق دودھ کا صرف حلق تک جانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے، اور اگر دودھ حلق تک پہنچا ہو، لیکن حلق سے نیچے جانے اور نہ جانے میں شک ہو، تو اس صورت میں صرف شک کی وجہ سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے، لیکن اس صورت میں احتیاط کرنا افضل اور بہتر ہے، اور اگر اس بات کا یقین ہو کہ دودھ حلق سے نیچے گیا ہے، تو اس صورت میں حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر واقعتا بچے کی خوراک کی نالی بند تھی جس کی وجہ سے دودھ بچے کے حلق ے نیچے نہ گیا ہو اور بچے نے الٹی بھی کی ہو، تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوئی، لہٰذا آپ اپنے بیٹے کا نکاح اپنی بھتیجی کی بیٹی کے ساتھ کرواسکتے ہیں، تاہم چوں کہ شبہ موجود ہے، اس لیے رشتہ نہ کیا جائے تو بہتر ہے، البتہ اپنی بیٹی کا نکاح اپنی بھتیجی کے بیٹے کے ساتھ کرواسکتے ہیں، نیز نکاح کے لیے لڑکے اور لڑکی کی عمریں برابر ہوں ، یا کم زیادہ ہوں، اس سے نکاح پراثر نہیں پڑتا ہے۔
تین طلاق اور بچوں کی پرورش کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا نام رضوان ہے، میں نے پہلے بھی جھگڑے کے دوران اپنی بیوی کو دو مرتبہ کہا کہ” طلاق طلاق“، تو ایک سال بعد پھر جھگڑا ہوا، تو میں نے تین مرتبہ کہا کہ” طلاق طلاق، طلاق“ تو میری بیوی بہت رونے لگی، میرے پاؤں پکڑ کر رونے لگی، تو میرے دل میں رحم آیا، میرے ماموں مجھے ایک امام کے پاس لے کر گئے، تو امام صاحب نے کہا کہ تین مرتبہ طلاق کہنے سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے، لیکن میں نے اپنے امام صاحب سے پوچھا، تو انہوں نے مجھے کہا کہ تین مرتبہ طلاق کہنے سے طلاق ہو جاتی ہے، میری بیوی حاملہ بھی ہے، کیا حاملہ عورت کو طلاق دینے سے طلاق ہو جاتی ہے؟ اگر ہو جاتی ہے تو میرے دوبچے ہیں، ایک بیٹا ہے جس کی عمر دو سال ہے، اور ایک بیٹی ہے جس کی عمر سات سال ہے، اگر طلاق ہو گئی ہے، تو میں اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھو ں یا بیوی کو دوں؟
جواب… طلاق خواہ غصے میں دی جائے یا حالت ِ حمل میں، ہر صورت میں واقع ہو جاتی ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور وہ حرمت مغلظہ کے ساتھ آپ پر حرام ہو گئی ہے، اب سوائے حلالہ شرعیہ کے نہ رجوع ممکن ہے اور نہ ہی تجدید نکاح۔
چوں کہ بچے کی پرورش اور تربیت کا تمام تردار ومدار شفقت پر ہے، اور عورتوں میں طبعی طور پر شفقت ومحبت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے لڑکے کے ابتدائی سات سال اور لڑکی کے نو سال کی عمر تک پرورش کی حقدار عورت ہے، اور بعد میں چوں کہ بچے کو حفاظت کے ساتھ ساتھ تہذیب وتمدن، آداب واخلاقیات اور زندگی کے مختلف شعبوں میں جسمانی اور ذہنی تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے بعد میں پرورش کا یہ حق بلوغت تک مردوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔
شادیوں میں لفافہ لینے دینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے یہاں میمن ہال چوک بزار میں اصلاح معاشرہ کا پروگرام دینیات کمیٹی کے ماتحت ہوا، الحمدلله! اس میں ایک مفتی صاحب نے مسئلہ بیان کیا کہ شادیوں میں لفافے لینا دینا سود جیسا ہے اور وہ حرام ہے، ہمارے یہاں لفافہ لینا دینا ضرور ی نہیں سمجھا جاتا ہے، لوگ اپنے اعتبار سے لیتے دیتے ہیں اور اس میں عام طور پر درمیانی طبقے کے لوگوں کی مدد بھی ہو جاتی ہے، تو یہ مسئلہ بتا کر ہماری رہبری فرمائیں، اخیر میں ایک صاحب نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ آپ نے مسئلہ بیان کیا اور میری بیٹی کی شادی ہے، اگر یہ سود ہے، تو میں لفافہ نہیں لوں گا، انہوں نے کہا :بالکل سود ہے۔
جواب… شادیوں کے موقع پر لفافے لینے دینے کی جو رسم معاشرے میں رائج ہے، اسے ”نیوتہ“ کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے: اگر شادی کے موقع پر تحفے تحائف اور لفافے وغیرہ رسم ورواج کے دباؤ کی وجہ سے دیے جاتے ہیں، یا اس کا عوض اور بدل واپس کرنے کو ضروری سمجھا جاتا ہے، واپس نہ کرنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے، یا اضافہ کے ساتھ واپس کرنے کو لازم سمجھا جاتا ہے، تو یہ جائز نہیں۔
البتہ کسی قسم کے بدلے کی نیت نہ ہو، رسم ورواج کا دباؤ بھی نہ ہو، محض خوشی کے موقع کی مناسبت سے کچھ رقم بطور تعاون ہدیہ کی جارہی ہے، تو یہ جائز ہے، اور اس میں مضائقہ نہیں، تاہم بہتر یہ ہے کہ ولیمے کے وقت دینے کے بجائے پہلے یا بعد میں ضرورت اور موقع کی مناسبت سے دے دی جائے۔
چناں چہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله تعالیٰ:﴿وَمَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا لِّیَرْبُوَ فِی أَمْوَالِ النَّاسِ الخ﴾ اس آیت مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:” مذکورہ رسم (نیوتہ) جو کہ عام خاندانوں او راہل قرابت میں چلتی ہے، وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں، اس پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے وقت میں کچھ دے گا، بلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں کچھ دیا لیا جاتا ہے، اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے،… لہٰذا ان کو یہ حق اس طرح دیا جائے کہ نہ اُن پراحسان جتائے اور نہ کسی بدلے پر نظر رکھے، اور جس نے بدلے کی نیت سے دیا کہ ان کا مال دوسرے عزیز رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے کے بعد کچھ زیادتی لے کر واپس آئے گا، تو الله تعالیٰ کے نزدیک اس کا کوئی درجہ اور ثواب نہیں اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربوٰ سے تعبیر کرکے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہو گی“۔(6/750)
لاپتہ شخص کی بیوی کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک عورت جس کی ایک بیٹی ہے، پانچ سال قبل اس کے شوہر گھرآئے اور یہ کہہ کرنکل گئے کہ میں جارہا ہوں، اور وہ دن اور آج کا دن کہ اس کے زندہ اور مردہ ہونے کی کوئی خبر نہیں، ان کے بھائی لوگ ڈھونڈتے نہیں، اور سالوں نے کچھ مدت ڈھونڈا، لیکن کچھ اتا پتہ نہیں، اور یہ بھی کہ اس عورت کا شوہرگھر سے نکلنے سے قبل نشئی ہو گیا تھا، اب جب کہ اس کے غائب ہوئے پانچ سال کا عرصہ ہو گیا ہے اور اس کی بیوی اور بچی کا سارا خرچ لڑکی کے گھر والے برداشت کر رہے ہیں، تو کیا اس عورت کی اس شوہر سے جدائی ہو گئی ہے کہ نہیں؟ اور یہ عورت کہیں اور نکاح کر سکتی ہے کہ نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو کیا اب اس عورت پر کوئی عدت ہے کہ نہیں؟ اور اگر جدائی نہیں ہوئی تو مزید کتنا عرصہ اس عورت کو انتظار کرنا پڑے گا، برائے کرم قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرما کر مشکور فرمائیں۔
جواب… جس عورت کا شوہر لاپتہ ہو جائے، اس کی زندگی اور موت کا کوئی پتہ نہ چلے اور عورت کو اپنی عصمت کی حفاظت دشوار ہو، یا نان ونفقہ کا انتظام نہ ہو تو ان صورتوں میں اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ مسلمان قاضی کی عدالت میں مقدمہ پیش کرکے پہلے یہ ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص سے تھا، پھر اس کے بعد گواہوں سے اپنے شوہر کالا پتہ ہونا ثابت کرے، اس کے بعد قاضی خود اپنے طور پر تمام واقعہ کی باقاعدہ تفتیش کرے اور اس کے شوہر کو تلاش کرائے، جب اس کے ملنے سے مایوس ہو جائے، تو قاضی اس عورت کو چار سال تک مزید انتظار کرنے کا حکم دے ، (قاضی کے پاس جانے سے پہلے جو پانچ سال گزرے ہیں، ان کا اعتبار نہیں) ،اس عرصہ میں اگر اس کا شوہر مل گیا، تو ٹھیک ، ورنہ چار سال گزرنے کے بعد عورت عدالت میں دوبارہ درخواست دے، جس پر قاضی لاپتہ شوہر کی موت کا فیصلہ سنا دے، اس کے بعد چار ماہ دس دن عدت وفات گزار کر عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہو گا، لیکن اگر عورت کے لیے اتنا عرصہ صبر کرنا مشکل ہو اور گناہ میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو، تو قاضی کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ چار سال کے بجائے صرف ایک سال انتظار کرنے کا حکم دے اور ایک سال کے بعد عدت طلاق (تین مرتبہ ایام ماہواری) گزار کر وہ دوسری جگہ نکاح کرسکے گی۔
قرض دے کر اس پر نفع لینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چوں کہ ایران بارڈر(250) گوادر ایک کاروباری مرکز ہے، یہاں پاکستانی تاجر ایران سے ٹائل لا کر اسی بارڈر پر رکھتے ہیں جو کہ کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد کراچی یا پاکستان کے مختلف شہروں میں جاتے ہیں، اب بات یہ ہے کہ فریق اول جو ٹائل کے مالک ہیں، ان کے پاس ٹائل کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے، تو اس سلسلے میں فریق دوئم کو کہا جاتا ہے کہ آپ ہمارے مال کا کل کسٹم ڈیوٹی ادا کریں، ہم آپ کو فی میٹر پر کبھی 30 روپیہ ، کبھی 20روپیہ دیں گے اور یہ میٹرز ٹائل کبھی 1600 میٹر ہوتے ہیں، کبھی 2000 ،مختلف اوقات میں الگ الگ تعداد میں ہوتے ہیں، چوں کہ فریق دوئم یہ رقم باقاعدہ نیشنل بینک میں قانونی طریقہ کار میں چالان کے ساتھ جمع کرتے ہیں جو کہ ایک مہینہ، کبھی اس سے زیادہ وقت میں فریق اول اپنا ٹائل فروخت کرکے جو رقم ملتی ہے وہ اس میں فریق دوئم کی رقم بشمول فائدہ کے ساتھ ادا کرتا ہے، او راس مال پر فریق اول کو اگر نقصان ہو، یا ڈبل فائدہ ہو، اس میں فریق دوئم کو کوئی واسطہ نہیں، فریق دوئم کو صرف فی میٹر 30 یا25 روپیہ ملے گا اصل رقم کے ساتھ، اب سوال یہ ہے کہ کہ یہ رقم فریق اول کے لیے دینا اور فریق دوئم کے لیے لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب… صورت مسئولہ میں دونوں فریقین ( ٹائل کے مالک اور کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے والے فریق) کے درمیان طے ہونے والا معاملہ قرض کی حیثیت رکھتا ہے اور قرض دے کر اس پر نفع کا لین دین سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں فریق ثانی جتنی رقم دے دے، اس کے لیے اس رقم سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔