قربانی کس پر واجب ہے؟
سوال …قربانی کس پر واجب ہوتی ہے۔ اگر والد زندہ ہو تو کیا بیٹے پر قربانی واجب ہے؟
جواب… قربانی ہر اس مسلمان مرد و عورت، عاقل، بالغ، مقیم پر واجب ہے جس کے پاس قربانی کے دنوں میں حوائج ضروریہ، رہائش کا مکان، کھانے پینے کا سامان، استعمال کے کپڑے، سواری، دیگر ضروریات کے علاوہ ساڑھے سات تولے (87.479 گرام) سونا یا ساڑھے باون تولے (612.35 گرام) چاندی یا اس کے برابر نقدرقم یا ان کے علاوہ کوئی دوسرا سامان ہو۔
لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر باپ اور بیٹا دونوں کی ملکیتیں الگ الگ ہوں اور دونوں صاحب نصاب ہوں تو ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے۔ اور اگر باپ، بیٹا اکٹھے رہتے ہوں اور بیٹے کا کوئی مستقل کاروبار بھی نہیں اور نہ اس کے پاس بقدر نصاب رقم ہوتوبیٹے پر قربانی واجب نہیں۔
عورت پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟
سوال …ہمارے گھر میں سب لوگ شروع ہی سے ایک ساتھ اتفاق سے رہ رہے ہیں۔ گھر کی تمام تر ذمے داری خرچ، صدقہ، فطرہ اور قربانی وغیرہ بھی گھر کا ذمے دار فرد مشترک طور پر کرتا ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ جس طرح ہمارے گھر کے مردوں پر قربانی واجب ہے اسی طرح ہماری عورتوں پر بھی واجب ہے یا نہیں؟ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ گھر میں موجود ہر عورت کے پاس ساڑھے سات تولے سونا اور استعمال کے کپڑے کم از کم 20جوڑے اور کچھ نہ کچھ نقد رقم بھی ہر وقت موجود رہتی ہے۔ مذکورہ بالا صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ آیا اس حالت میں عورتوں پر بھی قربانی واجب ہے؟اور وجوب کی صورت میں عورت خود قربانی کرے یا گھر کے ذمے دار فرد کے ذمے کردے، کیوں کہ ہمارا گھر مشترک ہے۔
جواب…عورت اگر خود صاحب نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔مذکورہ صورت میں چوں کہ گھر کی تمام عورتیں صاحب نصاب ہیں، لہٰذا ہر ایک کے ذمے الگ الگ قربانی واجب ہے۔ چناں چہ گھر کے ذمے دار کو چاہئیے کہ ان کی طرف سے بھی قربانی کا اہتمام کرے۔
قرض لے کر قربانی کرنا
سوال …قرض لے کر قربانی کرنا شرعاً کیسا ہے؟
جواب … کسی شخص پر اگر قربانی واجب ہے اور نقد رقم نہیں تو قرض لے کر قربانی کرنا لازم ہو گا اور اگر قربانی واجب نہیں تو قرض لے کر قربانی کرنا بہتر نہیں ، تاہم اگر قربانی کرے تو قربانی ہو جائے گی اور ثواب بھی ملے گا اور قرض کی رقم ادا کر نا اس پر لازم ہو گا۔
قربانی کا جانور
سوال …کیسے جانور کی قربانی کرنا جائز بلکہ افضل ہے؟
جواب…قربانی کے جانور کا عمدہ، موٹا، تازہ اور عیبوں سے سالم ہونا ضروری ہے۔
حضرت علی رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ قربانی کے جانور کے آنکھ، کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا پچھلا حصہ یا اگلاحصہ کٹا ہوا ہو، اور نہ ایسے جانور کی قربانی کریں جس کا کان چیرا ہوا ہو، یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔(ترمذی)
حضرت براء بن عازب رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قربانی میں کیسے جانوروں سے پرہیز کیا جائے؟ آپ صلی الله علیہ وسلمنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چار طرح کے جانوروں سے پرہیز کرو:
1..وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔
2..وہ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو۔
3..ایسا بیمار جانور جس کا مرض ظاہر ہو۔
4..یسا دبلا پتلا جانور کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
خصی جانور کی قربانی افضل ہے، کیوں کہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔ اسی طرح حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود ایسے جانور کی قربانی کی ہے۔
جِلدکی بیماری والے جانور کی قربانی
سوال … ایسے جانور کی قربانی کرنا جس کو جلد کی بیماری ہو شرعاً کیسا ہے ؟
جواب … اگر کسی جانور کو جلد ی بیماری ہے او را سکا اثر گوشت تک نہ پہنچا ہو تو اس کی قربانی درست ہے اور اگر بیماری اور زخم کا اثر گوشت تک پہنچ گیا ہو تو اس کی قربانی صحیح نہیں۔
خارش والے جانور کی قربانی
سوال …خارش والے جانور کی قربانی کرنا شرعاً کیسا ہے ؟
جواب …خارش والے جانور کی قربانی درست ہے ، لیکن اگر خارش کی وجہ سے بالکل کمزور ہو گیا ہو یا خارش کھال سے گزر کر گوشت تک پہنچ گئی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے ۔
گھسے ہوئے دانت والے جانور کی قربانی
سوال …گھسے ہوئے دانتوں والے جانور کی قربانی کرنا شرعاً کیسا ہے؟
جواب … اگر جانور کے دانت گھس کر مسوڑھوں سے جاملے، لیکن گھاس کھانے پر قادر ہے تو اس کی قربانی صحیح ہے او راگر گھاس کھانے پر قادر نہیں تو اس کی قربانی جائز نہیں۔
قربانی کے جانور کی عمریں
سوال …قربانی کے جانور کی عمر کس قدر ہونی ضروری ہے بالخصوص بکرا، بکری اور بھیڑ کی، بعض حضرات کا کہنا ہے کہ بکرا، بکری اور بھیڑ کے دو دانت ہونا ضروری ہیں، عمر جس قدر بھی ہو۔ اگر دو دانت نہیں تو قربانی جائز نہیں۔ صحیح کیا ہے؟
جواب… واضح رہے کہ قربانی کے جانوروں میں سے اونٹ پانچ سال، گائے اور بھینس دو سال، بھیڑ اور بکری ایک سال کی ہونا ضروری ہے۔ اس سے کم عمر والے جانور کی قربانی جائز نہیں۔
البتہ دنبہ چھے ماہ کا اس قدر فربہ (موٹا تازہ) ہوکہ سال بھر کا معلوم ہو تو اس کی قربانی درست ہے۔
جہاں تک دو دانت ہونے کا تعلق ہے تو حضرات فقہائے کرام نے عمر کا اعتبار کیا ہے اور دو دانت ہونے کو اس کی علامت قرار دیا ہے، یعنی سن رسیدہ ہو تو اس کی قربانی درست ہے اور دو دانت کی علامت ہو تو بہتر ہے۔ اوراگر دو دانت نہ ہو، لیکن جانور سن رسیدہ ہو تو بھی اس کی قربانی درست ہے۔
قربانی کرنے کا صحیح وقت
سوال …قربانی کا صحیح وقت کیا ہے؟ نمازعید سے پہلے بھی جائز ہے یا نہیں؟
جواب…جن شہروں یا بستیوں میں نماز جمعہ وعیدین درست ہے، وہاں عید کی نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ اگرکسی نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کردی تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے، البتہ چھوٹے گاؤں جہاں جمعہ و عیدین کی نمازیں نہیں ہوتیں وہاں لوگ دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں۔
کسی عذر کی وجہ سے نماز عید پہلے دن نہ ہوسکی تو نماز عید کا وقت گزرجانے کے بعد قربانی درست ہے۔
رات میں قربانی کا جانور ذبح کرنا
سوال … رات میں قربانی کا جانور ذبح کرنا کیساہے؟
جواب…گیارھویں اور بارھویں ذوالحجہ کی رات میں قربانی کا جانور ذبح کرنا درست ہے، دسویں اور تیرھویں کو نہیں، لیکن رات میں ذبح کرتے وقت جانور کی رگوں کے درست نہ کٹنے کا امکان ہے، اس لیے رات میں قربانی کرنا مکروہ ہے۔
ذبح کا مسنون طریقہ
سوال …قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ اگر کوئی شخص خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب… اگر کوئی شخص ذبح کرنا جانتا ہے تو اس کے لیے اپنی قربانی کو خود ذبح کرنا افضل ہے اور اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے بھی ذبح کراسکتا ہے، مگر ذبح کے وقت وہاں خود حاضر رہنا افضل ہے۔
ذبح کے وقت اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو اسے پڑھے اور اگر دعا یاد نہیں تو کوئی حرج نہیں، دل سے ہی نیت کافی ہے، دعاء یہ ہے:
”اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰاتِ و الْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن،لَا شَرِیْکَ لَہ، وَبِذٰلِکَ اُٴمِرْتُ وَاَٴنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَٴللّٰھمَّ مِنْکَ وَلَکَ․“
پھر”بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر“ کہہ کر ذبح کرے اور ذبح کرنے کے بعد یہ دعا(اگر یاد ہو) پڑھے:
”اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمّدٍوَّخَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَاالصَّلاَةُ وَالسَّلَام“․
قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا طریقہ
سوال …قربانی کے گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟ کتنا حصہ فقرا کو دیا جائے، کتنا حصہ اپنے لیے رکھا جائے اور اگر گوشت تقسیم نہ کیا جائے بلکہ تمام گوشت اپنے پاس رکھا جائے تو کیا حکم ہے؟
جواب…قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے رکھا جائے۔ ایک حصہ رشتے داروں میں تقسیم کیا جائے اور ایک حصہ فقرأ و مساکین کو دے دیا جائے۔
اگر کوئی شخص تمام گوشت خود رکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
قربانی کرنے والا وفات پاگیا
سوال …ایک آدمی نے اپنے لیے قربانی کا جانور خریدا تھا، لیکن قربانی کرنے والے کا انتقال ہوگیا تو اب کیا حکم ہے؟ اس جانور کا ذبح کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
جواب…دس ذوالحجہ سے پہلے یا قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر صاحب قربانی کا انتقال ہوجائے تو قربانی ساقط ہوجائے گی اور وہ جانور وارثوں کا ہوگا۔
لہٰذا صورت مسؤلہ میں یہ جانور وارثوں کا ہے۔ ان پر مرحوم کی طرف سے اس کا ذبح کرنا واجب نہیں، البتہ تمام وارثوں کی رضامندی سے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔
قربانی کا گوشت غیرمسلم کو دینا
سوال …کچھ حضرات یہ بتاتے ہیں کہ قربانی کا گوشت کسی بھی غیر مسلم کو نہیں دینا چاہیے، کیوں کہ قرآن و سنت کے لحاظ سے منع ہے اور اہل کتاب بھی غیر مسلم ہوتے ہیں کیا اہل کتاب غیر مسلم کو بھی دینا چاہیے۔
جواب…قربانی کا گوشت غیر مسلم کو خواہ وہ اہل کتاب ہوں یاغیر اہل کتاب دینا جائز ہے، البتہ زکوٰة اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔
حرام آمدنی والے کے ساتھ قربانی میں شرکت
سوال …قربانی کے ایک جانور میں شریک شرکا میں سے ایک یا کئی شرکا کی آمدنی اگر بالکل حرام ہو مثلاً بینک ملازم ہو یا حلال و حرام ملا ہوا ہو تو کیا اس صورت میں دیگر شرکا کی قربانی صحیح ا ور درست ہو جائے گی؟
عدم جواز کی صورت میں ایک اشکال یہ ہوتا ہے کہ دینی مدارس میں جہاں اجتماعی قربانی کا اہتمام ہوتا ہے وہاں اس بات کی تحقیق نہیں کی جاتی وہاں کیا صورت ہوتی ہے (اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ عام لوگ مدارس کو جہاں بڑے بڑے علما کرام موجود ہیں دلیل بنا کر اپنے عمل پرمطمئن ہوجاتے ہیں اور انفرادی عمل میں حکم شرع کو معلوم کرنے کی قطعی ضرورت محسوس نہیں کرتے)۔
جواب… اگر قربانی کے شرکاء میں سے کسی ایک شریک کی آمدنی ساری حرام ہو یا اس میں غالب عنصر حرام کا ہوتو اس کی وجہ سے دوسرے شرکا کی قربانی بھی نہیں ہوگی۔ یہ اس وقت ہے کہ جب آمدنی کے حرام ہونے کا علم ہو۔ اگر علم نہ ہوتو تجسس کی اجازت نہیں لہٰذا اس میں شریک ہونے والوں کی قربانیاں درست ہیں۔ انفرادی سطح پر کی جانے والی قربانیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اگر پہلے سے ذریعہٴ آمدنی کا علم ہوتو قربانی ناجائز ہوجائے گی۔لہٰذاایسے شخص کو شریک ہی نہیں کرنا چاہیے۔اگر ذریعہٴ آمدنی کا علم نہ ہو تو پوچھنا اور تفتیش کرنامناسب نہیں۔
مرحومین کے لیے قربانی کرنا
سوال …قربانی کے جانور میں مرحوم والد صاحب یا دیگر فوت شدہ رشتے داروں کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے حصہ رکھنا کیسا ہے؟اور اس کا گوشت غربا میں تقسیم کرنا ضروری ہے یا گھر میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے؟
جواب… مرحوم والد صاحب یا فوت شدہ رشتے داروں کے ایصال ثواب کے لیے قربانی کے جانور میں حصہ رکھنا جائز ہے۔ اس کا تمام گوشت غرباء میں تقسیم کرنا ضروری نہیں، بلکہ امیروغریب اور گھر والے سب کھاسکتے ہیں۔
قربانی کا گوشت فروخت کرنا
سوال …میں نے بکرے کی قربانی کی اور اس بکرے میں کچھ چربی نکلی۔ میرا بچہ اس چربی کو 15روپے میں فروخت کرآیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس چربی کی رقم کو اپنے پاس رکھنا جائز ہے یا ناجائز۔یا اس رقم کو صدقہ کردوں۔ اس رقم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
میں نے اپنے گھر میں قربانی کی اور قربانی کا گوشت میرے پاس موجود ہے۔میرا ہوٹل ہے جس میں روٹی سالن فروخت کرتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اس قربانی کے گوشت کو اپنے ہوٹل میں استعمال کرسکتا ہوں۔ اور قربانی کے گوشت کو فروخت کرنا جائزہے یا ناجائزہے۔
جواب… قربانی کا گوشت اور چربی ہوٹل میں سالن بنا کر یا ویسے فروخت کرنا درست نہیں۔ اگر کسی نے فروخت کیا تو اس پر قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے، اپنے پاس رکھنا درست نہیں۔
قربانی کی کھال
سوال …قربانی کی کھال کے شرعی احکام کیا ہیں؟ کیا قربانی کرنے والا اس کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے؟ کسی جماعت یا رفاہی ادارے میں دینا کیسا ہے؟
جواب… قربانی کی کھال کو قربانی کرنے والا اپنے استعمال میں لاسکتا ہے، لیکن فروخت کرکے پیسے نہ تو خود کھاسکتا ہے نہ کسی مال دار کو دے سکتا ہے، بلکہ بیچنے کے بعد قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
کسی ملازم کو تنخواہ اور کام کے عوض میں دینا درست نہیں، جیسے امام، مؤذن، خادم مسجد کہ ان کو بحق اجرت قربانی کی کھال دینا درست نہیں، البتہ اگر یہ لوگ نادار ہیں تو ناداری کی وجہ سے ان کو دینا درست ہے۔
قربانی کی کھال یا اس کی رقم کسی ایسی جماعت یا انجمن وغیرہ کو دینا بھی درست نہیں جو اس رقم کو مستحقین پر خرچ نہیں کرتی بلکہ جماعت اور ادارے کی دیگر ضروریات مثلاً کتابوں ، مدرسے، مسجد، ہسپتال اور شفاخانے کی تعمیر یا کارکنوں کی تنخواہ میں خرچ کرتی ہے۔
البتہ ایسے ادارے یا جماعت کو دینا درست ہے جو اس رقم کو مستحقین زکوٰة پر خرچ کرتی ہے۔آج کل چوں کہ رفاہی ادارے قربانی کی کھال کو اس کے صحیح مصرف پر خرچ نہیں کرتے، اس لیے ان کو دینا درست نہیں۔
موجودہ زمانے میں چرم ہاے قربانی دینی مدارس میں دینا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ اس میں غریب طلبہ کی امداد بھی ہے اور علم دین کی خدمت بھی۔
تکبیرات تشریق
سوال …تکبیرات تشریق کسے کہتے ہیں۔ کب سے کب تک پڑھی جاتی ہیں اور یہ تکبیرات کس پر واجب ہیں؟
اگر کوئی شخص ان تکبیر ات کو بھول کر ترک کرے تو اس کا کیا حکم ہے۔
جواب…درج ذیل کلمات کو تکبیر تشریق کہا جاتا ہے:” اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لاَاِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ،ُ وَا للّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْد“․
ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی فجرسے ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ کی عصر تک ہر نماز کے بعد فوراً بلند آواز سے تکبیرات تشریق پڑھنا واجب ہے، البتہ عورتیں آہستہ کہیں۔
حضرات صاحبین رحمہما الله تعالیٰ کے قول کے مطابق تکبیرات تشریق امام، مقتدی، مسبوق، منفرد، شہری، دیہاتی، مقیم، مسافر، مرد اور عورت سب پر واجب ہے۔ حضرات فقہائے کرام کے نزدیک یہی قول مفتی بہ ہے، اس لیے تمام افراد کو تکبیرات تشریق ہر فرض نماز کے بعد کہہ لینی چاہئیں۔
کوئی شخص اگر تکبیرات کہنا بھول جائے اور مسجد سے نکل جائے تو پھر اس کو تکبیرات نہیں کہنی چاہئیں، اس لیے کہ تکبیرات کی قضا نہیں البتہ آئندہ احتیاط کرے۔