کن عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے؟

کن عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے؟

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السُّوَء َ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِن قَرِیْبٍ فَأُوْلَئِکَ یَتُوبُ اللّہُ عَلَیْْہِمْ وَکَانَ اللّہُ عَلِیْماً حَکِیْماً، وَلَیْْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّی إِذَا حَضَرَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّیْ تُبْتُ الآنَ وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوتُونَ وَہُمْ کُفَّارٌ أُوْلَئِکَ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْما﴾ ․(سورہ النساء، آیت:18-17)

توبہ قبول کرنی اللہ کو ضرور تو ان کی ہے جو کرتے ہیں برے کام جہالت میں ، پھر توبہ کرتے ہیں جلدی سے تو ان کو اللہ معاف فرما دیتا ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے o اور ایسوں کی توبہ نہیں جو کیے جاتے ہیں برے کام یہاں تک جب سامنے آجائے ان میں سے کسی کی موت تو کہنے لگا میں توبہ کرتا ہوں اب، اور نہ ایسوں کی توبہ جو مرتے ہیں حالت ِکفر میں ،ان کے لیے تو ہم نے تیار کیا ہے عذاب دردناکo

توبہ اور اس کی قبولیت کا آخری وقت
توبہ کسی گناہ پر ندامت اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کو کہتے ہیں۔ (الندم توبة، کما قال علیہ الصلاة والسلام، مسند احمد،رقم:3568)

یہ گناہ کفروشرک کا ہو یا اس سے کم درجہ کا ہو، گناہ دانستہ طور پر کیا جا رہا ہو یا نا دانستہ طور پر ، اس کے انجام اور سزا سے واقفیت ہو یا نہ ہو ،بہر صورت موت کی سکرات سے قبل ندامت کے آنسو اسے صحیفہ اعمال سے دھو ڈالتے ہیں، آیت کریمہ میں﴿یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓء َ بِجَہَالَةٍ﴾میں جہالت سے برے اعمال کے انجام اور سزا سے بے خبری کی جہالت مراد ہے، کسی عمل کے گناہ ہونے یا نہ ہونے کی جہالت مراد نہیں ہے، لیکن اس تفسیر پر یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ یہاں قبولِ توبہ کی خوش خبری صرف ان لوگوں کو دی گئی ہے جو گناہ کے انجام سے بے خبر تھے، جو لوگ گناہ کے انجام سے واقف ہونے کے باوجود گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کی توبہ بھی بارگاہ الہٰی میں قبول ہو گی یا نہیں؟ اس کا پہلا جواب یہ ہے آیت کریمہ میں ”بجھالة“کی قید اتفاقی ہے، کیوں کہ گناہ کی جرأت عقلا و عرفا وہی کرسکتا ہے جو اس کے انجام سے بے خبر اور جاہل ہو، اس کے لیے قبول توبہ کی خوش خبری انہیں کے تذکرے میں دی گئی ہے، وگرنہ ہر خاص و عام اور انجام سے بے خبر اور با خبر، ہر شخص کے لیے موت تک توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، قتادہ نے فرمایا: صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ہر گناہ جہالت ہے، خواہ وہ گناہ عمداًہو یا بغیر عمد کے۔ (تفسیر ابن کثیر، ذیل آیت رقم:17) اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے، قرآن مجید میں جانتے بوجھتے خواہش نفس سے مغلوب ہو کر کسی معصیت کے ارتکاب پر بھی جہالت کا اطلاق ہوا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:﴿ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِیْ إِلَیْْہِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْْدَہُنَّ أَصْبُ إِلَیْْہِنَّ وَأَکُن مِّنَ الْجَاہِلِیْن﴾ (یوسف:33) (اے رب! مجھ کو قید پسند ہے اس بات سے جس کی طرف مجھ کو بلاتی ہیں اور اگر تو دفع نہ کرے گا مجھ سے ان کا فریب تو مائل ہو جاؤں گا ان کی طرف اور ہو جاؤں گا بے عقل۔)

یہاں حضرت یوسف علیہ السلام نے عمداً فعل معصیت(زنا) کے ارتکاب کو جہالت میں شمار کیا ہے۔اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے اس عمل کو جس میں انہوں نے آپ علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا تھا، یاد دلاتے ہوئے اس سے جاہل قرار دیاہے، حالاں کہ اس معصیت سے وہ واقف تھے اور عمداً اس کے مرتکب تھے:﴿قَالَ ہَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِیُوسُفَ وَأَخِیْہِ إِذْ أَنتُمْ جَاہِلُونَ﴾؟(یوسف:89)(کہا کہ کچھ تم کو خبر ہے کیا کیا تم نے یوسف سے اور اس کے بھائی سے جب تم کو سمجھ نہ تھی؟)

ثم یتوبون من قریب
پھر جلدی سے توبہ کرنے کا مطلب غر غرہ موت سے پہلے توبہ کرنا ہے، حضرت عکرمہ نے فرمایا:دنیا تو ساری قریب ہی قریب ہے۔(تفسیر ابن کثیر، النساء ذیل آیت:17) او ر احادیث متواترہ اسی پر دلالت کرتی ہیں۔

جہالت عذر کیوں نہیں؟
کسی عمل کے معصیت ہونے کے متعلق جہالت یا اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والے حکم کے متعلق جہالت، شریعت مطہرہ میں عذر شمار نہیں ہوتا، اگر اس کو عذر شمار کر کے سزا و جزا سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو دنیا کی کسی عدالت میں انصاف نہیں پنپ سکتا اور نہ ہی اسلامی معاشرے میں عدل فراہم کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی عدالت کسی مجرم کو قانون یا اس کے حکم کے متعلق نہ جاننے کی وجہ سے سزا سے بری نہیں کرتی ہے۔

جہالت کن خاص خاص مواقع پر عذر بن سکتی ہے اس کی تفصیل انشاء اللہ ﴿وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُولًاً﴾سورة اسرا کی تفسیر میں آئے گی۔

غرغرے کی حالت میں توبہ قبول نہ ہونے کی وجہ
جب انسان پر سکرات کا عالم طاری ہوتا ہے اس وقت توبہ کی مہلت ختم ہو جاتی ہے، کیوں کہ جن اشیاء پر ایمان بالغیب کا تقاضا دنیا میں کیا جاتا تھا سکرات کے وقت وہ چیزیں آنکھوں کے سامنے عیاں ہو جاتی ہیں، اس وقت کا ایمان، ایمان بالغیب نہیں، بلکہ ایمان بالمشاہدہ ہوجاتا ہے، مثلاً فرشتوں کو دیکھنا، روح کو نکلتے ہوئے دیکھنا، آخرت کے عذاب کے مختلف مراحل کا سامنے آنا، یہ چیزیں جب ملک الموت روح کو قبض کرنے کے لیے ظاہر ہوتے ہیں،ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں، فرعون نے بھی سکرات کے وقت عذاب کے اخروی مشاہدات کو دیکھ کر کلمہ پڑھ لیا تھا، لیکن بارگاہ الہی میں قبولیت نہ پا سکا، چناں چہ قرآن کریم میں ہے:

﴿حَتَّیٰ إِذَا أَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّہُ لَا إِلَٰہَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ،آلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ﴾․(یونس91-90)

(یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا بولا یقین کر لیا میں نے کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر کہ ایمان لائے بنی اسرائیل اور میں ہوں فرماں برداروں میں۔ اب یہ کہتا ہے اور تو نافرمانی کرتا رہا اس سے پہلے اور رہا گم راہوں میں)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”إن اللہ یقبل توبة العبد مالم یغرغر“․ (جامع الترمذی :رقم الحدیث:3537، وسنن ابنِ ماجہ:رقم الحدیث: 4253)”بے شک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کر لیتا ہے جب تک اس پر نزع کی حالت نہ آئے۔“

اہلِ علم کی ایک جماعت کے نزدیک توبہ دو طرح کی ہوتی ہے۔
1.. کافر کی حالت نزع میں کفر سے توبہ۔ 2.. مومن کی حالت نزع میں فسق و فجور سے توبہ۔

پہلی قسم کے لوگوں کی توبہ حالتِ نزع میں بالاتفاق مردود ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :﴿فَلَمْ یَکُ یَنفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ﴾․( المومن:85) (پھر نہ ہوا کہ کام آئے ان کو یقین لانا ان کا) سورة النساء کی اس آیت کریمہ اور حدیثِ رسول میں انہیں کے متعلق ہے کہ ان کی توبہ ، حالتِ نزع میں قابلِ قبول نہ ہو گی۔

البتہ گناہ گار مومن کی بہ حالتِ نزع کی گئی توبہ کو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر چھوڑ دیں ،اس پر کوئی قطعی حکم لگانے سے گریز کریں، کیوں کہ اگر اس کی توبہ کی عدم قبولیت کا حکم لگائیں تو اس کے صاحب ایمان اور حرمتِ ایمان کا بطلان لازم آئے گا اور اگر حتمی طور پر قبولیت توبہ کا دعوی کریں تو حالتِ اختیاری اور حالتِ اضطراری کا مساوی ہونا لازم آئے گا، لہٰذا ان دونوں کے درمیان کا راستہ توقف کا راستہ ہے۔(دیکھیے: احکام القرآن تھانوی، التفسیرات الاحمدیہ، النساء،ذیل آیت:18)

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاء کَرْہاً وَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَیْْتُمُوہُنَّ إِلاَّ أَن یَأْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً، وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً أَتَأْخُذُونَہُ بُہْتَاناً وَإِثْماً مُّبِیْنا، وَکَیْْفَ تَأْخُذُونَہُ وَقَدْ أَفْضَی بَعْضُکُمْ إِلَی بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنکُم مِّیْثَاقاً غَلِیْظاً﴾(سورة النساء، آیت:19تا21)

اے ایمان والو!حلال نہیں تم کو کہ میراث میں لے لو عورتوں کو زبردستی اور نہ روکے رکھو ان کو اس واسطے کہ لے لو ان سے کچھ اپنا دیا ہوا، مگر یہ کہ وہ کریں وہ بے حیائی صریح اور گزران کرو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح، پھر اگر وہ تم کو نہ بھاویں تو شاید تم کو پسند نہ آئے ایک چیز اور اللہ نے اس میں رکھی ہو بہت خوبیo اور اگر بدلنا چاہو ایک عورت کی جگہ دوسری عورت کو اور دے چکے ہو ایک کو بہت سا مال تو مت پھیر لو اس میں سے کچھ، کیا لینا چاہتے ہو اس کو ناحق اور صریح گناہ؟ oاورکیوں کر اس کو لے سکتے ہو اور پہنچ چکا ہے تم میں ایک دوسرے تک اور لے چکیں وہ عورتیں تم میں سے عہد پختہ۔

خواتین کی خود مختاری اور ان کو فیصلہ کا حق
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاء کَرْہاً﴾ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ جس طرح ناانصافی برتی جاتی اور انسانی شرف و عظمت سے محروم کیا جاتاتھا ، قرآن کریم مختلف اسلوب اور مختلف مقامات پر ان رسم و رواج اورظالمانہ سوچ اور سماج پر تنقید کر کے اس کی اصلاح پر دو ٹوک الفاظ میں گفت گوکرتا ہے۔

زمانہ جاہلیت کی چند رسمیں ایسی تھیں جن میں عورت خود مختاری سے محروم رہتی تھی، اس کی عزت نفس کا ذرا بھر خیال نہ رکھا جاتا تھا، اس کی مختلف صورتیں تھیں، لیکن قرآن کریم نے کسی ایک صورت پر نکیر کر نے کی بجائے ایک جامع تعبیر اور اسلو ب اختیار کیا ہے، فرمایا:﴿لاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاء کَرْہاً﴾․تمہارے لیے عورتوں پر زبردستی وارث بننا حلال نہیں ہے، اس انداز بیان سے قدیم و جدید کی ان تمام صورتوں، حیلوں، بہانوں کو حرام قرار دیا گیا ہے، جن سے عورتوں کی خود مختاری پرزد پڑتی ہو، زمانہ قدیم کی رائج صورتوں میں سے چند صورتیں آج بھی مسلمان کہلانے والے گھروں میں جہالت کی وجہ سے رائج ہیں، زمانہ قدیم کی ایک رسم یہ تھی کہ اگر عورت کا شوہر فوت ہوجاتا، تو شوہر کے اولیا، والد، بھائی، اپنی بہو اور بھابی کو بیٹے اور بھائی کا ترکہ سمجھ کر اس کے زبردستی وارث بن جاتے، عورت کو از خود اس گھر سے جانے کا اختیار ہوتا اور نہ مرضی سے کسی دوسری جگہ نکاح کرنے کا، اگر شوہر کے اولیا چاہتے تو ان میں سے کوئی خود اس سے نکاح کر لیتا یا چاہتے تو بغیر نکاح کے گھر میں بٹھائے رکھتے اور وہ ان کے گھر کی نوکرانی بن جاتی اور اگر چاہتے تو اس کا نکاح کسی اور مرد سے کر کے اس کا مہر خو دوصول کر لیتے، گویا تیسرے شخص کے ہاں فروخت کردیتے اور کبھی عورت کو اس لیے گھر میں محبوس رکھتے کہ عورت تنگ آکر مہر میراث کی وہ مقدار ہمیں واپس لوٹا دے، جو ہمارے بھائی یا بیٹے کے حصے سے لے چکی ہے۔

اگر شوہر فوت ہو جائے تو اس خطرے سے اسے مہر اور میراث سے محروم رکھا جاتا کہیں یہ مال لے کر دوسری جگہ شادی نہ کر لے اور کبھی زبردستی اس کو شوہر کے بھائی سے نتھی کردیا جاتا ہے، تاکہ میراث کا مال کسی دوسرے خاندان میں منتقل نہ ہونے پائے اور کبھی عورت کے ورثا اس کی مالی حیثیت کو دیکھ کر للچاتے اور اسے دوسری جگہ شادی کرنے سے روکتے ، غرض اسلام ہر ایسی صورت اور حیلہ کی تردید کرتا ہے، جس سے عورت کی خود مختاری، شرافتِ انسانی اور اس کے معاشرتی اور مالی حقوق پر زد پڑتی ہو۔

﴿وَلاَ تَنکِحُواْ مَا نَکَحَ آبَاؤُکُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتاً وَسَاء سَبِیْلا، حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمْ أُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالاَتُکُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ وَأُمَّہَاتُکُمُ اللاَّتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّہَاتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَائِبُکُمُ اللاَّتِیْ فِیْ حُجُورِکُم مِّن نِّسَآئِکُمُ اللاَّتِیْ دَخَلْتُم بِہِنَّ فَإِن لَّمْ تَکُونُواْ دَخَلْتُم بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ أَصْلاَبِکُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَیْْنَ الأُخْتَیْْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً، وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ کِتَابَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ وَأُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِکُم مُّحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیْضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْْتُم بِہِ مِن بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْماً حَکِیْماً﴾․
(سورة النساء، آیت:22 تا24)

اور نکاح میں نہ لاؤ جن عورتوں کونکاح میں لائے تمہارے باپ، مگر جو پہلے ہو چکا ہے، یہ بے حیائی ہے اور کام ہے غضب کا اور برا چلن ہےo حرام ہوئی ہیں تم پر تمہاری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بیٹیاں بھائی کی اور بہن کی اور جن ماؤں نے تم کو دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور تمہاری عورتوں کی مائیں اور ا ن کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں، جن کو جنا ہے تمہاری ان عورتوں نے جن سے تم نے صحبت کی اور اگر تم نے ان سے صحبت نہیں کی تو کوئی گناہ نہیں تم پر اس نکاح میں اور عورتیں تمہارے بیٹوں کی جو کہ تمہاری پشت سے ہیں اور یہ کہ اکٹھا کرو دو بہنوں کو ،مگر یہ کہ جو پہلے ہو چکا ہے، بے شک اللہ بخشنے والا ،مہربان ہےo اور خاوند والی عورتیں مگر جن کے مالک ہو جائیں تمہارے ہاتھ، حکم ہوا اللہ کا تم پر، اور حلال ہیں تم کو سب عورتیں اس کے سوا، بشرطیکہ طلب کرو ان کو اپنے مال کے بدلے قید میں نہ لانے کو، نہ مستی نکالنے کو، پھر جس کو کام میں لائے تم ان عورتوں میں سے، تو ان کو دو ان کے حق جو مقرر ہوئے، اور گناہ نہیں تم کو اس بات میں کہ ٹھہرا لو تم دونوں آپس کی رضا سے مقررکیے پیچھے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہےo

مردو عورت کا جنسی تعلق ایک حقیقت اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن اس تعلق کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ جس کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ جنسی تعلق کس طرح کی عورت سے قائم ہونا چاہیے اور کس بنا پر ہونا چاہیے، تاکہ حسب ونسب کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں کا باہمی تقدس بھی قائم رہے، ملحدین نے اٹھارویں عیسویں کے معروف یہودی مفکر اور نفسیانی علوم کے ماہر کہلائے جانے والے ”سیگمنڈ فریڈ“کے جنسی نظریے کی اندھی تقلید کرتے ہوئے انسان کو”جنسی حیوان“قرار دیا ہے، جن کی نظر ”میں مقدس رشتے“ ایک بے معنی اصطلاح ہے، جنسی جذبہ ایک پیاس ہے، جو محرمات کے ذریعے بجھائی جا سکتی ہے، بلکہ ان کے نزدیک محرمات کے ذریعے جنسی جذبے کی تسکین اس لحاظ سے بھی بہتر ہے کہ محرمات دیکھی بھالی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے طبعی مزاج سے بھی واقف ہوتے ہیں، چناں چہ مارکس لکھتا ہے کہ بھائی اور بہن آپس میں نکاح کر سکتے ہیں۔

اس میں کوئی عیب نہیں اور نہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔(کتاب کارل مارکس،ص:104بحوالہ کتاب اشتراکیت کا حقیقت پسند انہ جائزہ،ص:5نعمان پبلشنگ گوجراں والہ)

افراط و تفریط کے دیگر مظاہر ہندؤوں کی بعض قوموں میں دیکھے جا سکتے ہیں ،جہاں چچا زاد اور ماموں زاد سے نکاح حرام ہوتا ہے۔

اسلام ایک خوبصورت دین ہے، فطرت کا عکاس ہے، وہ اپنی تعلیمات کے ذریعے انسان کو جانور بنانے کی بجائے اشرف المخلوقات قرار دیتا ہے، جس میں شرم بھی ہے، غیرت بھی، جس میں باہمی رشتوں کا تقدس بھی ہے، اس کے مختلف مراتب بھی ہیں،ان احکامات کی رعایت سے ایک مہذب خاندان اور مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

اہل کتاب میں محرمات سے نکاح کی ممانعت
دنیا کے تمام مذاہب میں (سوائے الحاد اور دہریہ پن کے شکار لوگوں کے) محرم سے رشتہ ازدواج حرام سمجھا گیا ہے، بحیثیت مذہب مجوس کے متعلق محرم سے نکاح کے جواز کی شہرت ہے، مگر ان کی مذہبی تعلیمات سے اس کا ثبوت نہیں ملتا اور اہل کتاب میں تو بالخصوص محرم سے نکاح کی حرمت مذکور ہے۔

چناں چہ کتاب مقدس کی کتاب احبار میں ہے۔
نسب کی بنا پر جن عورتوں سے نکاح حرام ہے وہ سات ہیں۔
1. مائیں 2. بیٹیاں 3. بہنیں 4. پھوپھیاں 5. خالائیں 6. بھتیجیاں 7. بھانجیاں، (ماؤں میں ان کے اصول یعنی نانی، دادی وغیرہ بھی شامل ہیں)۔

رضاعت کی بناپروہ عورتیں حرام ہو جاتی ہیں جو نسب کی بنا پر حرام ہوتی ہیں۔
1. رضاعی مائیں 2. رضاعی بیٹیاں 3. رضاعی بہنیں 4. رضاعی پھوپھیاں 5. رضاعی خالائیں 6. رضاعی بھتیجیاں 7. رضاعی بھانجیاں۔

آیت کریمہ میں ہے کہ :﴿وَأُمَّہَاتُکُمُ اللَّاتِی أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ﴾اس اجمال کی تفسیر اس حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے: ”یحرم من الرضاعة ما یحرم من الولادة“․ (صحیح البخاری)

یعنی جو رشتے نسب کی بناء پر حرام ہوتے ہیں وہی رضاعت کی بنا پر بھی حرام ہوتے ہیں۔
(جاری)