کسی بھی حکومت میں سرکاری مشینری کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے کہ حکومت کو بہتر اور احسن طریقے سے چلانے میں سرکاری افسران کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر یہ اہلکار دیانت دار، محنتی، قابل، شائستہ اور قانون پسند ہوں تو حکومت کا ڈھانچہ نہ تو کبھی شکستہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے کم زور۔لیکن اگر اہلکار بدکردار، بددیانت، راشی، نااہل، بداطوار اور نظریاتی طور پر ملک کے مخالف ہوں تو حکومت کا قائم رہنا ناممکن اور سیاسی استحکام زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اہلکاروں کے انتخاب میں ہمیشہ تعلیم، اہلیت، شہرت ، نظریاتی پاکیزگی، اسلام اور پاکستان سے وفاداری جیسے عوامل کو بطور خاص ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر تقریریاں کرتے وقت ایسے لوگوں کے ناموں پر غور نہ کیا جائے، جن کی اسلام، پاکستان اور آئین کے ساتھ وفاداری مشکوک ہو، کیوں کہ اگر چور، چوکیدار بن گئے اور راہ زنوں نے راہ بروں کی جگہ لے لی تو پھر قانون اور آئین کے تحفظ کی ضمانت کون دے سکے گا؟ قادیانیوں کے بارے میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے تاریخی جملہ فرمایا تھا کہ ”قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں“ اور یہ بات پاکستان کے گزشتہ 72سالوں میں بار بار ثابت ہوچکی ہے کہ قادیانی پاکستان دشمنی اور آئین وقانون شکنی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ ان حالات میں یہ بات نہایت قابل افسوس ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ مناصب پر قادیانی عناصر کو ایک خاص سازش کے تحت فائز کیاجارہا ہے۔
سرکاری محکموں میں مرزائیوں کا اپنی آبادی سے بدرجہا بڑھ کر قبضہ کرنے پر مسلمان بجا طور پر بے چین ہیں۔ ان کی سابقہ روش کو دیکھ کر اگر وہ یہ مطالبہ کرتے کہ آئندہ دس سال میں ملک کے ہر محکمے میں کسی بھی مرزائی کی بھرتی بند کر دی جائے تب بھی یہ مطالبہ عین قرین انصاف تھا۔ مگر مسلمان اس سے کم تر مطالبہ، یعنی قادیانوں کو کلیدی مناصب سے ہٹانے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ جس کی معقولیت کی بنیاد صرف یہ مذہبی نظریہ نہیں کہ کسی اسلامی اسٹیٹ میں قرآن وسنت کی واضح ہدایات کی بنا پر کسی بھی غیر مسلم کو کلیدی مناصب پر مامور نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کے علاوہ یہ مطالبہ اس لیے بھی کیا جارہا ہے :
یہ لوگ پچھلے انگریزی دور میں مسلمانوں کی غفلت اور انگریزوں کی غیر معمولی عنایات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے نام پر مسلمانوں کی ملازمتوں کے کوٹہ کا استحصال کرتے آئے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد حکم رانوں کی غفلت یا بے حسی سے فائدہ اٹھا کر اس معمولی اقلیت نے شرح آبادی کے تناسب سے بدرجہا زیادہ ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
اس گروہ سے تعلق رکھنے والے اہم مناصب پر فائز افراد نے اپنے ہم مذہبوں کو بھرتی کرکے او راپنے ماتحت اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے حقوق پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی۔
اس کے نتیجے میں ملک کے تمام اہم شعبوں فوجی، صنعتی، معاشی، اقتصادی، انتظامیہ، مالیات،منصوبہ بندی، ذرائع ابلاغ وغیرہ پر انہیں اجارہ داری حاصل ہو گئی او رملک کی قسمت کا فیصلہ ایک مٹھی بھر غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
اس گروہ کے سرکردہ افراد نے اپنے دائرہ اثر میں اپنے عہدہ او رمنصب کو قادیانیت کی تبلیغ واشاعت کے لیے استعمال کیا اورانہی ہدایات پر عمل کیا جو ان کے خلیفہ گاہے بگاہے انہیں دیتے ہیں۔
کلیدی مناصب پر فائز مرزائیوں کے ذمہ دار افراد ملک وملت کے مفادات سے غداری کے مرتکب ہوتے رہے۔
ان چند وجوہات کی بنا پر مرزائیوں کا کلیدی مناصب پر برقرار رہنا صرف مذہبی نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ ملک کی اکثریت کے معاشی، سماجی، معاشرتی مفادات کے تحفظ او رملک وملت کی سا لمیت کا بھی تقاضا ہے۔
قادیانیوں نے جب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نوزائیدہ پاکستان پر دھاوا بوالا، تو سب سے پہلے سر ظفر الله خان قادیانی کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنوایاگیا کہ اس سے مرزائیوں کو دوہرا فائدہ حاصل ہونا تھا: اول:پاکستان میں اعلیٰ مناصب کے لیے مرزائیوں کے لیے وزیرخاجہ کی سفارش پر خصوصی چناؤ۔ دوم : بیرونی دنیا میں قادیانی تبلیغ اور تعلقات کے فوائد جی بھر کر حاصل کرنا اور یوں قادیانی دونوں طرح کے فوائد میں خوب آگے نکل گئے۔ اصولی طور پر ظفر الله کا وزیر خارجہ پاکستان بننا ہی غلط تھا کہ یہ ایک کلیدی اور محفوظ منصب تھا۔ مگر بہ امر مجبوری اس کو قبول کیا گیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انگریز وائسرائے نے اس ( ظفرالله) کی تقرری پر بہت اصرار کیا اور دھمکی دی کہ جب تک ( اس کو وزیرخارجہ پاکستان ہونے کا) اعلان نہیں کیا جاتا، اختیارات کی منتقلی نہ ہوسکے گی۔ سر ظفر الله خاں 27/1947ء سے24/اکتوبر1954ء تک تقریباً سات سال تک وزیر خاجہ کے عہدے پر رہے۔
ایک موقع پر قادیانی خلیفہ مرزا محمود نے اپنے پیروکاروں کو تلقین کرتے ہوئے کہا:
” جب تک سارے (سرکاری وغیر سرکاری) محکموں میں ہمارے آدمی (مسلط)نہ ہوں، ان (محکموں کے اثرورسوخ) سے جماعت (مرزائیہ) پوری طرح کام نہیں لے سکتی۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے، پولیس ہے، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے، فنانس ہے، اکاؤنٹس ہے، کسٹمز ہے، انجینئرنگ ہے، یہ آٹھ دس موٹے محکمے ہیں، جن کے ذریعے جماعت (مرزائیہ) اپنے حقوق محفوظ کراسکتی ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میں بے تحاشا جاتے ہیں، اس کے نتیجے میں ہماری نسبت فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور ہم اس سے اپنے حقوق کی حفاظت کا فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ باقی محکمے خالی پڑے ہیں۔ بے شک آپ لوگ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں، لیکن وہ نوکری اس طرح کیوں نہ کرائی جائے جس سے جماعت فائدہ اٹھاسکے؟ اور پیسے بھی اسی طرح کمائے جاسکتے ہیں کہ ہر محکمے میں ہمارے آدمی موجود ہوں اور ہر طرف ہماری آواز پہنچ سکے۔“ (روزنامہ الفضل، ربوہ، جلد نمبر40، شمار، نمبر10، صفحہ4،11/جنوری1952)
یہی وجہ ہے کہ وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت خزانہ، وزارت پانی وبجلی، وزارت مواصلات، وزارت سائنس وٹیکنالوجی، وزارت صحت، پی آئی اے، احتساب بیورو، وزارت تعلیم ، پبلک سروس کمیش، ایٹمی توانائی کمیشن ، بیرونی ممالک، سفارت خانے، سی بی آر وغیرہ میں قادیانیوں کی بھر مار ہے۔ ملک عزیز پاکستان میں سابق وزیر خارجہ سر ظفر الله خان کے دور میں حساس عہدوں پر قادیانیوں کو تعینات کیا گیا۔ حساس اداروں کے کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کا برا جمان ہونا ملکی سا لمیت اور بقا کے لیے حد درجہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ ہر قادیانی نے اپنے مذہب کی تبلیغ وتشہیر کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں سر ظفر الله خان کی زندگی ہمارے سامنے ہے کہ وہ پہلے قادیانی جماعت کے مبلغ او ربعد میں حکومت پاکستان کے ملازم تھے۔ اسی طرح جہاں کہیں بھی کوئی قادیانی موجود ہے ، وہ اس ادارہ کا ملازم بعد میں ہے، قادیانیت کا مبلغ پہلے ہے۔ قادیانی غیر مسلم اقلیت ہے، آبادی کے تناسب سے قادیانوں کو ملازمتیں ضرورملنی چاہییں کہ اقلیتوں کے حقوق کی پاس داری از حد ضرور ی ہے، جب کہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے بڑھ کر کئی گنا زیادہ قادیانی سرکاری حساس اداروں میں ملازم ہیں۔ تقریباً 22 کروڑ آبادی میں 20 لاکھ کے قریب قادیانی ہیں۔ یعنی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں۔ لیکن جب عملی میدان یا بیوروکریسی میں نظر دوڑائی جائے تو پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کا وہ تاریخی جملہ100% سچ نظر آتا ہے، جو انہوں نے کرنل رفیع الدین کو کہا تھا کہ:” یہ لوگ (قادیانی، مرزائی) چاہتے تھے کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکا میں حاصل ہے، یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔“ (بھٹو کے آخری323 دن، صفحہ167)
امریکا میں جو مقام یہودیوں کو حاصل ہے وہی قادیانیوں نے پاکستان میں حاصل کرناچاہا۔ اپنے غلبہ واقتدار کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قادیانی قیادت نے اپنے کارکنوں کو سرکاری محکموں میں بھرتی کرنے کا منصوبہ بنایا او رپھر اپنے اس سرکاری اثر ورسوخ کو قادیانیت کے فروغ اور استحکام کے لیے استعمال کیا۔ وزیر خارجہ سر ظفر الله خان قادیانی اپنی سرکاری حیثیت سے ناجائز فائدے اٹھانے میں اس حد تک بد نام ہوا کہ1953ء میں اس کے خلاف ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوا اور عوامی سطح پر اس کی بر طرفی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس تحریک کے دوران معلوم ہوا کہ سر ظفر الله خان کا وزیر خارجہ کی حیثیت سے تقرر برطانوی سام راج کے دباؤ کا نتیجہ تھا اور اس کے عرصہٴ وزارت میں اسے اسلام دشمن طاقتوں کا مکمل تحفظ حاصل رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سر ظفر الله خاں کے دور وزارت میں بیرون ممالک تمام پاکستانی سفارت خانوں میں ان کی سفارش پر یہودی لڑکیوں کو ملازم رکھا گیا، جس سے اسلامی ممالک میں پاکستان کی بہت جگ ہنسائی ہوئی۔ اس وجہ سے بعض عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہے۔ علاوہ ازیں بیرونی دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے اس قدر قادیانی لٹریچر تقسیم کیا گیا کہ قادیانیت کو ہی پاکستان کا سرکاری مذہب سمجھا جاتا تھا۔ سرظفر الله خاں نے اپنے خلیفہ مرزا محمود کے حکم پر بیرون ممالک تمام سفارت خانوں میں چن چن کر قادیانیوں کو بھرتی کیا ،جو قادیانیت کی تبلیغ کے لیے دن رات کام کرتے تھے۔
روزنامہ ”نوائے وقت“ کے بانی جناب حمید نظامی مرحوم نے کہا تھا کہ غیر ممالک میں پاکستان کے ”سفارست خانے“ تبلیغ ِمرزائیت کے اڈے اور ان کے جماعتی دفاتر معلوم ہوتے تھے۔ سر ظفر الله خاں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے جب جزائر غرب الہند کا دورہ کیا تو اس نے مختلف تقریبات میں جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قادیانی کا آخر الزمان نبی کی حیثیت سے تعارف کرایا۔ سرظفرالله خاں کی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ 1950ء میں تقریباً40 ممالک میں قادیانیوں کے 126 مشن کام کر رہے تھے، ان میں سے ایک اسرائیل میں بھی ہے۔
حال ہی میں حکومت پاکستان نے معروف قادیانی نبیل منیر شیخ کو اقوام متحدہ میں مستقل نائب مندوب تعینات کیا ہے۔ یہ شخص قادیانی جماعت کے حلقہ گارڈن ٹاؤن لاہور کا صدر اور قادیانی تنظیم انصار الله کا زعیم تھا۔ نبیل منیر شیخ کی بیوی صائمہ منیر قادیانی خواتین کی تنظیم لجنہ کی سرکردہ راہ نما ہے۔ اس نے اپنا وصیت نامہ قادیانی مرکز ربوہ میں جمع کروارکھا ہے، جس کے تحت اس کی موت کے بعد اس کی جائیداد کا 10/1 حصہ قادیانی فنڈ میں جمع کر دیا جائے۔ یاد رہے یہ فنڈ قادیانی مذہب کی تبلیغ واشاعت میں خرچ ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایسا افسر نہیں ہے جسے اس حساس عہدہ پر تعینات کیا جاسکے؟
پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کی تعیناتی کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ ملاحظہ کیجیے:
”اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے قادیانیوں کی ریاستی اداروں اورکلیدی عہدوں بشمول اعلیٰ آئینی عہدوں پر تعیناتی او رگھس بیٹھنے کے عمل کی موثر درستگی ہونی چاہیے تھی ،لیکن اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، اگرچہ قوم کا مطالبہ اور دوسری آئینی ترمیم کی منشا یہی ہے۔
ریاست ِ پاکستان مخصوص طریقہ کار اور نئے سائنسی اقدامات کے ذریعے اس اقلیت کی اصل تعداد کا پتہ چلائے۔ یہ ایسی صورت حال میں مزید ضروری ہو جاتا ہے جب اس اقلیت کی ایک بڑی تعداد اصل شناخت چھپاتی ہے اور مسلمان ہونے کا غلط تاثر دیتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں، ہر کسی نے قادیانیوں کی جانب سے طاقت کی راہداریوں تک رسائی کو محسوس کیا تھا اور یہ تشویش کا باعث بنتا رہاہے۔ طارق عزیز (ایک سرکاری افسر ،جو قادیانی تھا) نے صدر جنرل پرویز مشرف کے پرنسپل سیکریٹری ہونے کے ناطے اپنا کردار ادا کیا او رمختلف محکموں میں قادیاینوں کی شمولیت کو یقینی بنایا۔ ان میں آئینی عہدے بھی شامل ہیں اور اس وجہ سے مختلف اہم حساس نوعیت کے معاملات میں قادیانیوں کو مشاورت کا حصہ بنا دیا۔ یہاں دوبارہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنے پاکستانی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کا پرنسپل سیکریٹری آئین پاکستان کے آرٹیکل (b) (a)(3)260 کے تحت مسلمان تھا یا غیر مسلم تھا؟! حال ہی میں واجد شمس الحسن نے قادیانیوں کے سرپرست ملک برطانیہ میں قادیانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے قادیانی عقیدے کو افشا کیا ہے۔
یہاں یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ پاکستان کا ہر شہری بلا امتیاز نسل، ذات، عقیدہ یا مذہب کے زندگی کا حق رکھتا ہے اور آئین کی حدود میں اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم، چوں کہ قادیانوں کو پہلے ہی غیر مسلم قرار دیا جاچکا ہے، اس لیے ان کو دیگر اقلیتوں کی طرح ہی تصور کیا جانا چاہیے، جن کو بآسانی شناخت کر لیا جاتا ہے اوروہ اپنے ناموں سے اپنے مذہب کو چھپانے کا اہتمام نہیں کرتے۔
ملک کے وسیع تر مفاد میں عدالت ایسے افراد کے نام ظاہر کرنے سے باز رہے گی جو قادیانی عقائد رکھتے ہیں، مگر انہوں نے اپنی مذہبی شناخت چھپا کر بیورو کریسی، عدلیہ، فوج، نیوی، ایئرفورس اور دیگر حساس اور اہم اداروں میں اعلیٰ عہدے حاصل کیے ہیں، کیوں کہ اس سے بدمزگی پیدا ہو گی، مگر اس روش کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ملک کے ہر شہری کا حق ہے کہ وہ ایسے افراد کے بارے میں جانے جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں کہ وہ کس مذہبی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو لوگ ان کے بچوں کے لیے نصاب ترتیب دیتے ہیں کن مذہبی عقائد کے حامل ہیں، جو لوگ ان کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں ان کے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کیا تکریم دیتے ہیں، وہ لوگ جو سفیر ہیں اور ان کے اسلامی نظریے کے نمائندہ ہیں اور دنیا بھر میں اس کا پرچار کرنے کے لیے تعینات ہیں کون سے نظرئیے کی تشہیر کرتے ہیں اور کس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور سب سے آخر میں لیکن اتنی ہی اہم بات ہے کہ وہ لوگ جن کے ذمے پاکستان کا دفاع ہے وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ ریاست کی ذمہ داری تھی اور بالخصوص وفاقی حکومت کی، لیکن یہ اس سے عہدہ برآہونے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، جس وجہ سے عدالت احکامات جاری کرنا ضروری سمجھتی ہے۔
پاکستان میں رہنے والی اکثر اقلیتیں اپنے ناموں اور پہچان کے اعتبار سے علیحدہ شناختی رکھتی ہیں، لیکن آئین کے مطابق ان اقلیتوں میں سے ایک اقلیت(کے لوگ) اپنے ناموں اورظاہری لباس کے اعتبار سے علیحدہ شناخت نہیں رکھتے، جس سے بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اپنے ناموں کی وجہ سے وہ آسانی سے اپنا عقیدہ چھپاسکتے ہیں او رایک مسلم اکثریت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ، وہ مکرم اور حساس عہدوں تک رسائی بھی پاسکتے ہیں اورجملہ مفادات حاصل کرسکتے ہیں۔
اس صورت حال کوسنبھالنا اہم ہے، کیوں کہ ایک غیر مسلم کی آئینی عہدوں پر تعیناتی ہمارے مقامی قانون اور رسومات کے منافی ہے۔ اسی طرح، غیر مسلم مخصوص آئینی عہدوں کے لیے منتخب بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔ اکثر اداروں / شعبوں بشمول پارلیمنٹ کی ممبر شپ اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں ہیں۔ اسی لیے جب کسی اقلیتی گروہ کا کوئی رکن اپنے اصل مذہبی عقیدے کو دھوکہ دہی سے چھپاتا ہے اور اپنے آپ کو مسلم اکثریت کا حصہ ظاہر کرتا ہے تو وہ آئین کے الفاظ اور روح کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ اس پامالی سے محفوظ بنانے کے لیے ریاست کو فوری اقدامات کرنے چاہییں۔“