گستاخانہ خاکوں کے فتنے نے ایک بار پھر کروٹ لی ہے۔ فرانسیسی صدر نے جناب رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی شان اقدس میں توہین پر مبنی خاکے سرکاری طور پر دوبارہ شائع کرواکے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ پوری اسلامی دُنیا نے اس گھٹیا فعل کی پر زور مذمت کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امت ِ مسلمہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ کے معاملے میں انتہائی حساس ہے۔
شان ِ رسالت میں گستاخی کا ارتکاب گزشتہ صدیوں میں کئی بار ہوا ہے او ر کبھی بھی مسلمانوں نے ایسی جسارت کو معاف نہیں کیا۔ شیطان کے نمائندوں کی جانب سے توہین رسالت کا ارتکاب حضور صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے آغاز کے ساتھ اسی وقت ہو گیا تھا جب آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر پہلی بارہ جلسہ عام میں اسلام کی دعوت دی۔اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے سگے چچا ابولہب نے توہین آمیز کلمات کہے۔ اس وقت آپ کا کوئی حامی وناصر نہ تھا۔ آپ نے خاموشی اختیار کی، تاہم جلد ہی قرآن مجید کی سورة اللہب نازل ہوئی، جس میں ایسی بے مثال فصاحت وبلاغت کے ساتھ ابولہب کے طنزیہ جملوں کا جواب دیا گیا تھا کہ وہ گنگ رہ گیا اور پورے مکہ میں اس کی عزت خاک میں مل گئی۔ جلد ہی وہ عبرت ناک موت مر گیا۔ ابوجہل نے بھی توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کو سر ِ عام جلی کٹی سنائیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی الله عنہ، جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، اس حرکت پر جوش سے بھر گئے۔ انہوں نے ابوجہل کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سرپٹھ گیا۔ یہی واقعہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ کیقبول اسلام کا سبب بن گیا۔ ابوجہل بعد میں غزوہٴ بدر میں دو بچوں کی تلواروں سے مارا گیا۔ تاریخ کی گواہی ہے، توہین رسالت کا ہر مرتکب عبرت ناک موت مرا۔ دور خلافت ِ راشدہ اور دور بنو اُمیہ میں مسلمانوں کی شان وشوکت سب پر عیاں تھی، ہر طرف اسلام کا بول بالا تھا، یہی صورت حال بنو عباس کے عروج میں تھی۔ تاریخ اس دوران شان ِ رسالت میں تنقیص کے واقعات سے خالی ہے، البتہ اندلس کے اموی حکم رانوں کے دور میں مسلمانوں کی شان وشوکت اور فتوحات سے جل بھن کر مقامی پادریوں نے نصرانی شہریوں کو حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے پر ابھارا تھا۔ جب کچھ بدبختوں نے یہ جسارت کی تو اموی حکم رانوں نے انہیں گرفتار کرکے قتل کرا دیا۔ اس پر پادریوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گستاخی کو جنت کا راستہ قرار دے کر لوگوں کو اس فعل بد پر مزید برانگیختہ کیا۔ یوں گستاخیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، مگر اموی حکومت نے پوری سختی سے کام لیا۔ بہت سے بد بختوں کے کیفر ِ کردار تک پہنچنے کے بعد عیسائی پادریوں نے چپ ساد ھنے میں عافیت سمجھی۔ بعد میں صلیبی جنگوں کے درمیان بھی توہین رسالت کا ایک واقعہ پیش آیا۔ ریجی نالڈنامی ایک نصرانی حاکم نے عازمین حج کا قافلہ لوٹا اور حمت عالم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی توہین کرکے پوری اُمت مسلمہ کی غیرت کو للکارا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس حرکت کے جواب میں کہا ”الله کی قسم ! میں ریجی نالڈ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردوں گا۔“ آخر کار حطین کے معرکے میں ریجی نالڈ گرفتار ہوا۔ سلطان نے ریجی نالڈ کو گرفتار کرکے اسے واصل جہنم کر دیا۔
یہاں اکابر کے حوالے سے ایک علمی بات عرض کر دوں۔ مشہور حدیث ہے کہ ”تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“ (مشکوٰة) یہ حدیث پڑھ کر اُلجھن پیدا ہوتی ہے کہ والدین اور بچوں کی محبت زیادہ ہوتی ہے، تبھی ہم والدین کی بات مانتے ہیں اور اولاد کے لیے دن بھر اِدھر سے اُدھر بھاگتے ہیں تو کیا ہم مؤمن نہیں جس کی حالت ایسی نہیں وہ ناقص مسلمان ہے۔ بعض محدثین اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں یہاں محبت سے مراد طبعی محبت نہیں، جیسی بیوی بچوں سے ہوتی ہے، بلکہ عقلی محبت ( فکری ونظریاتی وابستگی) مراد ہے، جس کا حاصل ہے اطاعتِ رسول کے دائرے میں رہنا، پس اگر کسی کو جذباتی محبت ایسی نہ ہو، مگر وہ شریعت کا پابند ہو تو وہ اس حدیث میں بتائے گئے”معیار مؤمن“ پر پورا اترتا ہے۔ تاہم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نے”آپ بیتی“ میں اپنے والد گرامی حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی ( حضرت مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت کے بڑے بھائی) کے حوالے سے حدیث کا جو مطلب لکھا ہے وہ سب سے الگ ہے۔ وہ یہ کہ حدیث میں طبعی محبت ہی مراد ہے او راس کے بغیر بندہ مؤمن نہیں کہلا سکتا۔ یہ محبت ہر مسلمان کو حاصل ہے، مگر اس کے اظہار کا موقع کبھی کبھی ملتا ہے، مثلاً کسی مسلمان کے سامنے اس کا باپ بھائی یا بیٹا توہین رسالت کر دے تو وہ مسلمان چاہے فاسق وفاجر کیوں نہ ہو، یہ حرکت براداشت نہیں کرے گا۔ یہ طبعی محبت ہی تو ہے، جس کا ایسے مواقع پر اظہار ہو جاتا ہے۔
آج گستاخی کرنے والے دریدہ دہن اپنی اوچھی حرکات پر خوش نہ ہوں۔ انہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی یہ شیطانیاں مسلمانوں میں وہ روح پھونک دیتی ہیں جو سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں تقریریں بھی نہیں کرسکتیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات برکات کوبٹہ لگا سکتے ہیں اور اسلام کی روشنی گل کرسکتے ہیں۔ ہر گز نہیں۔ ان کی یہ ناپاک مہم ان کے لیے خود کشی کے مترادف ہے۔ اگر انہیں کیفر کردار تک پہنچنے کی جلدی ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ شیطان نے ان کی مت مار دی ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق گزشتہ ایک عشرے میں ایسی ہر مہم کے بعد سینکڑوں لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس شور شرابے کے دوران غیر جانب داری کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حقیقی زندگی کی تلاش میں نکلے او ربہت جلد اسلام کی منزل تک آن پہنچے۔
”وہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو بجھا دیں اپنے مونھوں کی پھونکوں سے او رالله تعالیٰ اپنے نور کی تکمیل کرکے رہے گا، چاہے یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار لگے۔“ (الصف:8)
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا