کارٹون دیکھنا کیسا ہے؟
جب کوئی خط میں مجھ سے پوچھتا ہے کہ ہم ویڈیو گیم کھیل سکتے ہیں یا کارٹون دیکھ سکتے ہیں؟ تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے کیا بننا ہے؟ ان کا جواب آتا ہے کہ ہمیں الله والا بننا ہے۔ پھر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے کسی الله والے کو گیم کھیلتے ہوئے دیکھا ہے؟ کیا کبھی دیکھا ہے کہ مریدین شیخ کے انتظار میں ہوں اور وہ کہے کہ مجھے ابھی بیس ہزار کا اسکور پورا کرنے دو، پھر مجلس ہوگی؟!
کارٹون کے بارے میں تو مفتی صاحبان کی طرف سے حرام کا فتویٰ ہے، دارالعلوم دیوبند کا فتوی میرے پاس موجود ہے، لیکن پھر بھی بعض لوگ اپنی اولادکوکہتے ہیں کہ بیٹا! کارٹون دیکھتے رہو، مجھے تنگ مت کرو!
ویڈیوگیم کی تھوڑی سی بھی گنجائش دینے کا نقصان
ایک دوست ہیں جو عالم بھی ہیں، انہوں نے اپنے بچوں کو بیس منٹ ویڈیوگیم کھیلنے کی اجازت دے دی، میں نے انہیں سمجھایا کہ بیس منٹ میں ویڈیوگیم کون چھوڑتا ہے؟ آپ کے چار بچے ہیں، پہلے بچے کے بیس منٹ شروع ہوئے تو باقی تین بچے وہیں بیٹھے ہوں گے، گیم کھیلنے کے دوران ماں با ربار آواز دے گی کہ بیٹا! کھانا کھا لو، بہت دیر ہو گئی ہے، ایسے وقت بچے کھانا کیوں کھائیں گے؟ ابھی اس کا چار ہزار اسکور ہوا ہے، جب کہ پہلے بچے کا آٹھ ہزار اسکور تھا، اسے یہ ریکارڈ توڑنا ہے، پھر کیا بیس منٹ میں وہ ایک ہی ویڈیوگیم کھیلے گا؟ پھر تین بچوں کے بیس بیس منٹ جمع کریں تو ساٹھ منٹ تو یہی ہو گئے، نماز کا وقت آئے گا تو نماز بھی نہیں پڑھیں گے، ماں باپ کسی کام کا کہیں گے تو کیا بچہ ویڈیوگیم کھیلنے کے دوران کوئی کام کرے گا؟ ان دوست نے یہ باتیں سن کر توبہ کی او رکہا: ان حالات میں تو ویڈیو گیم کھیلنے ہی نہیں دینا چاہیے۔
ساری رات جاگنا، سارا دن سونا
بچوں کو اسکول وغیرہ سے جو چھٹیاں ملتی ہیں، ایک ایک بچے کا انٹرویو لیں تو معلوم ہو گا کہ ساری رات جاگتے ہیں او رسارا دن سوتے ہیں، جب بچوں کے پاس موبائل ہو گا تو کیا وہ فحش گیم نہیں کھیلیں گے؟ جامعہ بنوری ٹاؤن سے گیمنگ ژون کے بارے میں فتوی بھی آگیا ہے، میرے پاس بھی ہے۔ اس میں یہی خرابیاں لکھی ہیں کہ ویڈیو گیم کھیلنے میں نہ دین کا فائدہ ہے نہ دنیا کا ، گیم کھیلنے کے دوران استنجاروکنا، نمازیں نہ پڑھنا، دماغ میں ہر وقت ویڈیوگیم کی چیزیں گھومنا۔ اس سے بہتر ہے کہ شرعی لباس میں فٹ بال کھیل لو یا کوئی اور جائز کھیل کھیل لو، جس میں جسم کی ورزش بھی ہو، مگر ان خرافات کا کوئی فائدہ نہیں۔
بغیر تصویر والے کا رٹون دیکھنا کیسا ہے؟
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ بغیر تصویر والے کارٹون دیکھ سکتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ کہ آج بچے یہ کارٹون دیکھیں گے، کل پھر تصویر والے کارٹون بھی دیکھیں گے، ان کو کیسے روکیں گے؟ کارٹون دیکھنے کے لیے گھر میں کمپیوٹر آئے گا، بڑا موبائل آئے گا، جب آپ گھر پر موجودنا ہوئے تو پھر کیسے کنٹرول کریں گے؟ آپ اس کو الماری میں بند کرکے تو نہیں جائیں گے؟! جب ہم آپ چھوٹے تھے تو اس وقت کیا یہ سب چیزیں تھیں؟ ہمارا آپ کا بچپن ان خرافات کے بغیر کیسے گزر گیا؟
بچوں کے تعلیمی انحطاط کا سبب
ایک شہر سے فون آیا کہ ہمارے مدرسے میں آکر بیان کریں۔ ہم وہاں گئے، ارادہ تھا کہ پندرہ منٹ کچھ دین کی بات کریں گے، لیکن ایک گھنٹہ کا بیان ہوا۔ وجہ یہ ہوئی کہ وہاں کے مہتمم صاحب نے بتایا کہ ہمارے مدرسہ کا نتیجہ دن بدن گرتا جارہا ہے، بچے گھر جاکر ویڈیوگیم، کارٹون، فلموں میں لگ جاتے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ مال داروں کے بچے بھی حفظ کر رہے ہیں، لیکن ان کو اسمارٹ فون، ٹی وی، لیپ ٹاپ سب کچھ دیا ہوا ہے، جس سے بچے تباہ ہو رہے ہیں۔
حفظ ِ قرآن میں سخت نقصان کا سبب
جب دماغ میں موبائل ہو گا تو دل میں قرآن پاک کیسے آئے گا؟ آج کل بچے اس لیے حافظ جلد نہیں بنتے یا اگر یاد کر بھی لیا تو بھول جاتے ہیں، اس کی بھی زیادہ وجہ یہی چیزیں ہیں کہ مدرسے سے آنے کے بعد ٹوپی پھینک کر گیم لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مدرسہ میں ہوتے ہوئے بھی دل ودماغ ویڈیوگیم میں ہوتا ہے، اب آپ ہی بتائیے! اس کو قرآن پاک کیسے یاد ہو گا؟ اس لیے حفاظ کو اس لعنت سے خاص طو رپر دور رکھیں۔
بچے پر کی گئی محنت کو برباد کرنا
ایسے والدین بھی ہیں جو اس دور میں بھی اپنی اولاد کو نیٹ، کارٹون اور ویڈیوگیم سے بچاتے ہیں، لیکن یہی بچے جب نانا، نانی کے گھر جاتے ہیں تو ایک ہی دن میں اتنے دنوں کی محنت برباد کر دیتے ہیں، ان بچوں پر شیطان کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ باپ کا روتے ہوئے فون آتا ہے کہ میں نے بچوں کی تربیت میں اتنی محنت کی او رجب موقع آیا تو اس طرح ہوا۔ ان سے کہتا ہوں کہ مایوس ناہوں، آج کے دور میں شیطان کے ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، آپ ننھیال میں کہہ دیں کہ ہم اس شرط پر ننھیال آئیں گے، جب یہ خرافات آپ بند کریں گے، ہمارے بچوں کا شدید نقصان ہوتا ہے۔ کئی گھروں میں خواتین نے ننھیال میں کہا تو ماشاء الله! اس پر عمل ہو رہا ہے، جب بیٹی ماں باپ کے گھر آتی ہے تو ان دنوں میں ٹی وی ویڈیوگیم ، کارٹون ہر چیز بند رکھتے ہیں۔
کارٹون اور ویڈیو گیم کے صحت پر مضر اثرات
ہمیں الله تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں پیدا کیا کہ ہم کارٹون اورویڈیو گیم میں لگے رہیں۔ آپ یہود ونصاریٰ کی ریسرچ دیکھ لیں کہ کارٹون اور ویڈیو گیم والے بچوں کی صحت کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ ان کے دماغ او ربینائی کا کیا حال ہے؟ ان کا وزن کیوں بڑھ رہا ہے؟ کھانا کیوں ہضم نہیں ہوتا؟ ان کا جسم پھول تو رہا ہے ، مگر کم زور کیوں ہے؟ ان کی یادداشت کیوں متاثر ہو رہی ہے؟ جوانی میں ہارٹ اٹیک، برین ہیمبریج، جوڑوں کا درد، بلڈ پریشر کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ فلم، کارٹون، ویڈیوگیم میں لڑائی دیکھ رہے ہیں ، لڑائی اور جوش والے گیم کی وجہ سے بلڈ سرکولیشن بڑھ جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، دل ودماغ پر دباؤ آجاتا ہے۔ ویڈیو گیم او رکارٹون وغیرہ کی وجہ سے ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے ہمارے بچوں کی نقل وحرکت اور ورزش نہیں ہوتی او ران کی جسمانی نشو ونما شدید متاثرہوتی ہے۔
پہلے بچے فٹ بال کھیلتے تھے، دوڑ لگاتے تھے، جس سے ان کی صحت اچھی رہتی، اب تو بچے اور جوان سب مرجھائے ہوئے پھول لگتے ہیں۔ بعض بچے کھانا نہیں کھاتے تو مائیں کارٹون دکھا کر کھلاتی ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر وہ اس کے عادی بن کر کارٹون دیکھے بغیرکھانا ہی نہیں کھاتے، اس کے علاوہ ضدی بن جاتے ہیں، اس لیے ہر گز ان کی یہ ضد پوری نہ کریں، چند دن تنگ کریں گے، لیکن پھر یہ عادت چھوٹ جائے گی۔ جس چیز سے شریعت نے منع کیا ہے، ہمارے فائدے کے لیے ہی منع کیا ہے۔
ڈراؤنی فلموں اور سنسنی خیز گیم کے نقصانات
آج کل بچے اکثر ڈر جاتے ہیں، رات کو روتے ہیں، کبھی ان کو کچھ نظر آتا ہے، کبھی کچھ، اگر غور کریں تو وجہ یہ نکلے گی کہ ہم نے ان سے رحمت اور حفاظت کے فرشتے خود بھگا دیے ہیں۔ ویڈیوگیم ، کارٹون میں لگا دیا، ان کو ہر چیز تصویر والی لا کر دی، بت نما کھلونے لائے، ان میں موسیقی بجتی ہے، ان سب چیزوں کے پاس تو سرکش شیاطین ہی جمع ہوتے ہیں، جو بچوں کو تنگ کرتے ہیں۔ ڈراؤنی فلمیں، سنسنی خیز گیم، گندے مناظر ، چڑیل او رجن وغیرہ کے ڈرامے دیکھتے ہیں، دیر تک جاگنے کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں ۔
ڈراؤنے مناظر بچوں اور خواتین کے لیے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں ، کیوں کہ ان کے اعصاب پہلے ہی کم زور ہوتے ہیں، ڈراؤنے مناظر ان کے دماغ پر سوار ہو جاتے ہیں۔ بچہ اگر بیمار ہو جاتا ہے تو صحت کے لیے خوب خرچہ کریں گے، لیکن اسمارٹ فون، کارٹون، ویڈیوگیم گھر سے ختم نہیں کریں گے، جب کہ جس گھر میں تصویریا کتا ہو، اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ، پھر رب کی رحمت کیسے آئے گی؟
کارٹون بینی، ویڈیوگیم، کفّار کی سازش
مفتی محمد شہزاد شیخ نے ایک کتاب”کارٹون بینی، ویڈیوگیم اورمسلمان بچے“ لکھی ہے۔ بہت اہم کتاب ہے۔ اس میں قرآن وحدیث سے دلائل دیے ہیں کہ کارٹون حرام ہیں، پھر بتایا ہے کہ ہندوؤں کے بھگوان کرشنا اورہنومان یہ کارٹون کے ذریعے مسلمان بچوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ ایسے واہیات کارٹون دیکھ کر ہمارے بچے آپس میں کھیلتے ہیں کہ میں کرشنا ہوں، ایک کہتا ہے میں ہنومان ہوں۔ مفتی صاحب نے اس کتاب میں چھ مختلف انداز کے کارٹون اس طرح چھاپے ہیں کہ ان کی تصویر سے چہرے مٹا دیے ہیں، وہ چھ کارٹون سو رکے ہیں۔ اس کے علاوہ بتایا ہے کہ پاکستان میں بچوں کی جو میٹری باکس، بستوں، شرٹوں اور ان کے جوتوں پر یہ سور بنے ہوئے ہیں۔ بچوں کو سور والے کارٹون دکھا رہے ہیں، اب بچے کو کیا معلوم کہ اس کارٹون میں جو ہیرو ہے وہ حرام جانور سور ہے۔ رفتہ رفتہ وہ ایسے ناپاک اور حرام جانور سے مانوس ہو رہے ہیں۔ اس پر بھی ہم سے کہا جاتا ہے کہ بچوں کو کارٹون دیکھنے سے کیوں منع کرتے ہو؟
ایمان کو خطرے میں ڈالنے والی ویڈیوگیم
اب ذرا دل تھام لیجیے! ایسے ویڈیوگیم بھی ہیں جن میں بیت الله کی تصویر پر، روضہٴ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصویر پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ نعوذ بالله! بعض میں الله تعالیٰ کا نام اُلٹالکھا ہوا ہے، کہیں آیات غلط لکھی ہوئی ہیں اور اس پر نعوذ بالله! فائرنگ کی جارہی ہے۔ایک گیم تو ایسا ہے کہ اس میں ایک مسجد سے داڑھی والے نمازی باہر آرہے ہیں، جن کودہشت گرد دکھا کر ویڈیو گیم کھیلنے والا فائرنگ کرتا ہے۔ بعض گیم ایسے ہیں جس میں بت کوسجدہ کرنا پڑتا ہے، جس سے ایمان اورنکاح بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے، ان بتوں سے مانگنا پڑتا ہے، نیز ہندوؤں نے اپنے باطل خدا کرشنا، ہنومان وغیرہ کو کارٹون کی شکل میں پیش کیا ہے۔ بچوں کے بیگ ، مگ وغیرہ پر ان کی تصویر ہوتی ہے، جس سے بچوں کو ان سے محبت ہو جاتی ہے۔ کفار نے یہ محنت اس لیے کی تاکہ مسلمان بچوں کے دلوں سے ان چیزوں کی نفرت ختم ہو جائے۔ سور کی شکل والے یہ کھلونے، کتابیں کون چھاپ رہا ہے؟ ہم مسلمان چھاپ رہے ہیں، الله سے ڈرنا چاہیے، گناہ میں تعاون بہت خطرناک ہے۔
بچوں کی مار دھاڑ کا اہم سبب
پھر مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ ”ٹام اینڈ جیری“ کارٹون کی وجہ سے بچے گھر کی چیزوں کو پھینک رہے ہیں، ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، کارٹون میں جو دکھا رہے ہیں، وہی ان کے دماغ میں بھر رہا ہے، جیسا ان کارٹونوں میں شرارتیں دکھائی جاتی ہیں، ویسا ہی گھر میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح”سپر مین“ کارٹون کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بغیر سہارے کے دیوار پر چڑھ جاتا ہے اور بچے اس کی نقل کرتے ہیں، گرتے ہیں، ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ کارٹون ”ٹام اینڈ جیری“ اور ’سپر مین“ پر1970ء میں بعض ملکوں نے پابندی لگا دی کہ ہمارے بچے برباد ہو رہے ہیں۔ ان چیزوں کو ہم گناہ ہی نہیں سمجھتے، دکھ تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم میں جو دین دار ہیں او ربچوں کو دین دار بنانا چاہتے ہیں، وہ بھی ان چیزوں سے اپنی اولاد کو نہیں بچاتے۔ اپنے بچوں کو کارٹونوں کی شکل والے لباس اور نیکریں پہنا رہے ہیں!
کفّار کی مشابہت، کفّار وفساق ہمارے آئیڈیل
فلموں، ڈراموں اورکارٹونوں میں یہود ونصاریٰ، کفّار اور ہندؤوں کا کلچر، ثقافت، لباس، عادات واطوار دیکھ کر لڑکے اور لڑکیاں ہر بات میں ان کی مشابہت کرتے ہیں، جس پر شدید وعید احادیث میں وارد ہے۔ سرورِ عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، اس کا شمار اسی قوم میں ہو گا۔ میڈیا نے کرکٹر، فلم اسٹارز کو اتنا اُبھارا، سائن بورڈ پر ان کی بڑی بڑی تصویریں، سڑک کنارے اور چونگیوں پر ان کے مجسمے لگائے کہ آج کانوجوان یہی سمجھتا ہے کہ یہی لوگ کام یاب ہیں، انہی کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی الله عنہم اور نیک لوگوں سے اتنی محبت نہیں، جتنی ان کفّار سے ہے، اپنا حلیہبھی ان جیسا بناتے ہیں، سنت جیسا نہیں بناتے۔ لگتا ہے مدینے والے پیارے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم سے ہمارا کوئی تعلق او ررشتہ ہی نہیں ہے۔
پلک جھپکنے میں نفس کی بدمعاشی
ایک الله والے سے کسی نے کہا کہ آپ اسمارٹ فون کیوں نہیں استعمال کرتے؟ انہوں نے فرمایا: یہ ایسا سمندر ہے جس میں مجھے تیرنا نہیں آتا، پھر اس میں بڑے بڑے مگر مچھ ہیں، جن سے بچنا ناممکن ہے، ایسا نہ ہو ڈوب جاؤں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:”ولا تکلنی إلیٰ نفسي طرفة عین“
، ”اے الله! مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے حوالے نہ فرما۔“ اس دعا کا مفہوم اس زمانے میں آسانی سے سمجھ آتا ہے کہ والدین خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بیٹا رات دیر تک کمپیوٹر پر فزکس، کیمسٹری کی اسٹڈی کرتا ہے، حالاں کہ وہ تو فلمیں دیکھ رہا ہے، جیسے ہی کسی کو آتے دیکھا تو ایک بٹن دبانے سے کیمسٹری کی کتاب اسکرین پر آگئی، ذرا اندازہ کیجیے کہ پلک جھپکنے کی دیر میں نفس نے کیسا دھوکہ دیا!
فحش ویڈیوگیم اور فحش کارٹون
پھر آج کل تو فلمیں ہی فحش نہیں ہیں، کارٹون اور ویڈیوگیم تک گندے ہوگئے، جس میں لباس فحش ہوتا ہے، اس میں نازیبا حرکات ہوتی ہیں، جن سے بچوں کی حیا کا جنازہ نکل رہا ہے۔ والدین کہتے ہیں کہ یہ توکارٹون ہے، اس میں میں کیا حرج ہے؟ لیکن اس کا بھی بچے کے دماغ پر اثر پڑتا ہے، ان میں غلط خواہش پیدا ہوتی ہے۔ کئی تو قبل از وقت بالغ ہو گئے، پھر جوانی میں شادی کے قابل نہیں رہے۔ یہ سب حقائق ہیں، ایسے نوجوان اس شعر کا مصداق ہوتے ہیں #
طفلی گئی علامت پیری ہوئی عیاں
ہم منتظر ہی رہ گئے عہدِ شباب کے