دین اسلام نے جان دار کی مجسمہ سازی، منظر بندی اور صورت گری کی قباحت، مضرت اور فساد کو خوب واضح فرمایا ہے اور شرکیہ اعمال کے ساتھ جوڑتے ہوئے مسلمانوں کو اس عمل سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، اس لیے ہر دور میں جان دار کی تصویر کو مسلمانوں کے درمیان انتہائی قبیح اور مذموم عمل سمجھاجاتا رہا ہے، اب کچھ عرصہ سے ڈیجیٹل آلات کے ذریعہ تصویر سازی عام ہوگئی ہے اور ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ ایک فتنے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ محترم جناب جواد عبدالمتین صاحب نے اس موضوع پر دو مضامین لکھے ہیں، جن میں ڈیجیٹل تصویرکے فتنہ انگیز پہلو اور سماجی نقصانات سے متعلق گفت گو کی گئی ہے، یہ دونوں تحریریں ”ڈیجیٹل ڈیوائس اور ایپلی کیشن ۔۔۔ دینی وسماجی نقصانات“کے عنوان سے شاملِ اشاعت کی جارہی ہیں ۔ (ادارہ )
ڈیجیٹل بدنظری اور معاشرے میں پھیلتی بے حیائی
اصل بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں پریشانیوں سے بچانے کے لیے جو احکامات دیے ہیں، ان پر اگر صحیح طور پر عمل کیا جائے توتمام برائیاں معاشرے سے ختم کی جاسکتی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے دینی حلقے ایسے فتنوں میں مبتلا ہوچکے ہیں جس کے باعث برائی کے خلاف بھی کھل کر بولنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کا سب سے بڑا سبب ڈیجیٹل شکل میں جان دار کی تصویر کے حوالے سے علمائے کرام میں پیدا ہونے والا اختلاف ہے، جس سے بلاتخصیصِ عمر سب کی عزت و آبرو خطرے میں نظر آتی ہے۔
کیا فرق کریں اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں یا دینی مدارس میں؟! اس برائی کے اثرات اب دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکے ہیں۔ حدودِ حرم اور دیگر مقدس مقامات پر بھی لوگ اس فتنے کا شکار نظر آتے ہیں۔ عبادت گاہوں اور تفریحی مقامات میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ حج اور عمرے جیسی مقدس عبادات کے دوران بھی لوگ اپنی عبادت کی تشہیر کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقوں سے آئی مسلمان خواتین کی تصاویر بھی بناکر فیس بک پر اور اپنی فرینڈ لسٹ میں شیئر کرنا عار محسوس نہیں کرتے اور جب کسی کو روکنے یا تنبیہ کرنے کی کوشش کی جائے تو آگے سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ:بھائی!اس میں علماء کا اختلاف ہے، اس لیے آپ کو زیادہ متشدد ہونے کی ضرورت نہیں۔
میں اپنے ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر مبنی تعلیمی اور تحقیقی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر اللہ کی قسم کھا کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم اور حکمت کی ہر جہت کی چوٹی پر بٹھا رکھا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ایسے نفیس، باریک، خوب صورت اورسادہ انداز میں فتنوں سے بچنے کے اصول ہم تک پہنچائے ہیں کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ علم وحکمت رکھنے والے علما کرام بخوبی جانتے ہیں کہ اُمت کی نفسیات کو سمجھنے والا وقت کے نبی سے بہتر کوئی نہیں ہوتا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ قلب ہمیشہ نظر کے ذریعے سے شکار ہوتا ہے اور اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ دین ہمیں قیامت تک آنے والے فتنوں سے بچنے کے اصول بتاتا ہے۔
اگرچہ علمائے کرام اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ مسئلہ تصویر کا نہیں بلکہ جاں دار کی تصویر کا تھا، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر منع فرمایا ہے، اورپانچ ہزار سال کی انسانی تاریخ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ جس دور میں بھی معاشرے میں جان دار کی تصویریں عام ہوئی ہیں، وہاں شرک اور بے حیائی کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکا۔
اس کے لیے چاہے زمانہ قدیم مصر کے مجسموں اور اہراموں میں بنی تصاویر کا ہو یا سرزمین ِعرب پر آلِ سعود کا دورِ حکومت، جہاں1966 ء میں پہلی عرب خاتون نوال بخش ؟؟؟کے ٹیلی ویژن پر نمودار ہونے سے اس فتنے کا دوبارہ سے آغاز ہوا اور اب تو جدید سائنس بھی اس بات کو ثابت کرچکی ہے کہ جاں دار کی تصویر دیکھنے سے انسان کے قلب و ذہن پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دماغ میں جو کیمیائی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اس کو جانچا جاسکتا ہے اور اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، جس کی جیتی جاگتی مثال مغربی معاشرہ ہے، جہاں اب شرم و حیا کا کوئی تصور باقی نہیں رہ گیا، رشتوں کا تقدس ختم ہوچکا ہے اور ہر طرح کی نفسانی خواہش کو پورا کرنا ہر انسان اپنا حق سمجھنے لگا ہے، چاہے اس کے لیے اُس کو کسی بھی حد تک جانا پڑے۔
یہاں لمبی بات کرنا یا کسی پر تنقید کرنا مقصود نہیں، نہ ہی کسی بحث ومباحثے کو شروع کرنا مقصد ہے، لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس مسئلے پر چودہ سو سال سے اُمت کا اتفاق تھا، اُس وقت تک اس طرح کی بے حیائی کے پھیلنے کے تمام راستے بند تھے۔
جب 1960ء کے اوائل میں جان دار کی تصویر کے حوالے سے عرب علمائے کرام سے غلط بیانی کرکے اور اُن کو نامکمل معلومات فراہم کرکے شک میں ڈالا گیا اور ایسے فتوے حاصل کیے گئے جس سے ڈیجیٹل شکل میں جاندار کی تصویرکے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا، تو جمہور عرب علماء نے اس کی سخت مخالفت کی، مگر حکومتی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے اُن کی رائے کو نظر انداز کر دیا گیا، حتیٰ کہ اس کے نتیجے میں شاہ فیصل کے بھتیجے کو نیشنل ٹیلی ویژن اسٹیشن کو بند کرانے کی غرض سے کیے گئے حملے کے دوران قتل کردیا گیا اور اس ساری صورت حال کا نقصان یہ ہوا کہ پھر ہمیشہ کی طرح عوام الناس نے علمائے کرام کے اختلاف سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہر طرح کی حد کو پار کر دیا، جس کے نتیجے میں اب ہم بھی اُن مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں، جس کا شکار کئی دہائیاں پہلے مغربی معاشرہ ہوچکا ہے۔
اب جو علمائے کرام صرف یہ کہہ کر اس مسئلے سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ یہ ایک اختلافی معاملہ ہے، تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ آگے آنے والے حالات کی ذمہ داری اُن پر نہیں ہوگی، جب کہ1960ء کی دہائی کے بعد سرزمینِ عرب پر پھیلنے والے جدت زدہ فتنوں کی صورت حال بھی ان کے سامنے ہے۔
یقینا اللہ رب العزت نے ہمیں تقویٰ کی تلقین فرمائی ہے اور تقویٰ کا لباس بہترین لباس قرار دیا ہے، یہ وہ لباس ہے جس پر فتنوں کی گولیاں اثر نہیں کرتیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری نجات اپنے اسلاف اوراکابر کی پیروی میں ہے، نہ کہ مادی ترقی سے متاثر ہوکر دین کو بدلنے میں۔
آپ اور آپ کا سمارٹ موبائل فون
اس حوالے سے بہت سی خبریں سننے میں آئی تھیں کہ آپ کا موبائل فون بغیر آپ کی اجازت کے آپ کی ویڈیو بھی بناسکتا ہے اور آپ کی باتیں کسی اور تک پہنچا بھی سکتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر یقین کرنا کوئی مناسب عمل نہیں، اب جب کہ ہم نے خود اس پر تجربہ کرکے اس بات کی یقین دہانی کرلی ہے کہ یہ بات بالکل درست ہے تو اب اس کے بارے میں آپ حضرات کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے۔
پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ آپ اپنے موبائل پر جن کمپنیوں کی ایپلی کیشنز استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جیساکہ گوگل کا اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم جو کہ آپ کے سمارٹ موبائل کو چلاتا ہے یا واٹس ایپ جس کے ذریعہ سے آپ لوگوں سے رابطے میں ہیں یا فیس بک جو کہ آپ کو سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا سے رابطے میں مدد فراہم کرتا ہے یا ایسی دیگر ایپلی کیشنز، یہ تمام تو بنیادی طور پر ہی اس بات کا مکمل اختیار رکھتی ہیں کہ آپ کی پرسنل انفارمیشن ،یعنی انتہائی ذاتی معلومات جس میں آپ کے موبائل کے کیمرے اور مائیک تک رسائی، آپ کے موبائل پر موجود کانٹیکٹس یعنی رابطوں کی تفصیل، آپ کے میسیجز یعنی پیغامات، آپ کی تصاویر اور ویڈیوز جو آپ نے اپنے موبائل پر محفوظ کی ہیں اور آپ کی لوکیشن جس پر آپ موجود ہیں یا جہاں جہاں آپ موبائل ساتھ لے کر گئے تھے، ان تمام چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں، ان معلومات کو محفوظ کریں اور مستقل بنیادوں پر اپنے نئے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ان معلومات کو استعمال کریں۔
اب اس موقع پر اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر ان کمپنیوں کو ہمارے پرسنل ڈیٹا تک رسائی حاصل بھی ہے تو انہوں نے ہماری ان معلومات کا کرنا کیا ہے؟ یا پھر یہ کہ ہم کون سا کوئی ایسا غیرقانونی کام کر رہے ہیں جس سے ہمیں کسی نقصان کا اندیشہ ہو؟
تو یہ بات مان لیتے ہیں کہ آپ کوئی غیرقانونی کام نہیں کررہے، اس لیے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن کون عقل مند یہ چاہے گا کہ اس کی نجی زندگی کے متعلق ساری معلومات ہر وقت کوئی اکٹھی کر رہا ہو، آپ کی باتیں ریکارڈ کی جا رہی ہوں، بند حالت میں بھی آپ کا موبائل آپ کی نقل و حرکت اور بات چیت کی تفصیل، تصاویر اور ویڈیوز محفوظ کر رہا ہو۔
اس حوالے سے بہت سے واقعات تو پہلے بھی سامنے آئے تھے کہ ایپ سٹور پر موجود عام ایپلی کیشنز جو کہ کسی بھی ایپلی کیشن ڈویلپر کی بنائی ہوئی ہو سکتی ہیں، وہ آپ کے پرسنل ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں، آپ کی ویڈیو بنانے، آپ کی آواز ریکارڈ کرنے اور آپ کی دیگر ذاتی معلومات حاصل کرنے تک کا اختیاراُن کے پاس آجاتا ہے۔
وہ لوگ جو کہ اپنے موبائل مرمت کے لیے کسی کے پاس بھیجیں یا کسی کے بھیجے ہوئے میسج میں آنے والے کسی لنک کو کھول کر دیکھیں یا کوئی انجانی فائل ڈاون لوڈ کرلیں یا وجہ بے وجہ ایپ سٹور سے گیمز اور دیگر ایپلی کیشنز ڈاون لوڈ کرکے استعمال کرنے کے عادی ہوں، وہ باآسانی اپنے موبائل میں کسی اور کو رسائی دینے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اور اگر ایسا کچھ نہ بھی ہو تو جن ایپلی کیشنز کا ذکر شروع میں کیا ہے، وہ تو آپ کی ساری ذاتی معلومات حاصل کرہی رہی ہیں۔
اس حوالے سے کم سے کم بھی احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ :
اپنی ذاتی زندگی کی حفاظت کے لیے اپنی سمارٹ ڈیوائسز کے کیمروں پر ٹیپ لگا کر اُن کو بند کریں۔
اہم بات کرتے ہوئے ان کو اپنی آواز کی پہنچ سے دور رکھیں ۔
اس بات کا یقین رکھیں کہ سمارٹ ڈیوائس جہاں بھی آپ کے ساتھ ہے، وہاں آپ کی موجودگی کے بارے میں آپ کے علاوہ اور بھی کوئی جان سکتا ہے۔
سوشل میڈیا اور اسمارٹ ڈیوائسز کے ذریعے سے آپ کی ذاتی معلومات دوسروں تک پہنچنے کے باعث ہونے والے بہت سے حادثات پہلے بھی مقامی اور غیر ملکی اخباروں کی زینت بن چکے ہیں۔
اس ساری تحریر کا مقصد آپ کو اس بات کا اشارہ دینا تھا کہ آپ کے آس پاس موجود سمارٹ ڈیوائسز جیسے موبائل فون، لیپ ٹاپ، سمارٹ ٹی وی، سکیورٹی کیمرے اور دیگر اس طرح کی چیزیں اگرچہ وہ آپ کی ملکیت ہوں یا کسی اورشخص کی، یہ آپ کی ذاتی زندگی میں بھرپور دخل اندازی کر رہی ہیں، آپ کی ذاتی معلومات اکٹھی کر رہی ہیں اور اس معلومات کو بگ ڈیٹا کا حصہ بناکر آرٹی فیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کے مختلف منصوبوں میں استعمال بھی کر رہی ہیں، جو کہ ظاہر میں تو آپ کے فائدے کے لیے بھی ہوسکتے ہیں، لیکن ان کے باطنی عزائم تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
عقل مند کو تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، اس حوالے سے مزید تحقیق آپ خود بھی کرسکتے ہیں۔