مسلمانوں کے پیشوا اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹونوں کو سرکاری عمارتوں پر چسپاں کرنے کی فرانسیسی حکومت کی ذلیل حرکت نہ صرف قابل مذمت ہے، بلکہ عین دہشت گردی ہے۔ ایسی گھنا٭نی حرکت سے دنیا میں امن وسکون اور محبت وبھائی چارہ کے بجائے لوگوں میں نفرت وعداوت اور تشدد کا ماحول پیدا ہوگا۔ دنیا کے 2ارب مسلمانوں کے ساتھ ہر امن پسند انسان کا یہی کہنا ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیشوا کے کارٹونوں کا اس طرح سرکاری عمارتوں پر چسپاں کرنا قابل مذمت عمل ہے۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ نے بھی اپنے بیان میں اقرار کیا کہ کسی مذہب کے پیشوا کے کارٹونوں کو عمارتوں پر چسپاں کرنے سے دنیا میں تشدد میں اضافہ ہی ہوگا۔ ہم جس طرح فرانسیسی حکومت کی اس ذلیل حرکت کی مذمت کرتے ہیں، وہیں مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنہری وقیمتی تعلیمات کو اپنے قول وعمل کے ذریعہ عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں، تاکہ عوام میں اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں اسلام مخالف طاقتوں کے ذریعہ پیدا کردی گئی ہیں وہ دور کی جاسکیں۔
حضرت محمدمصطفی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جوامع الکلم (اقوال زریں) سے نوازا گیا ہے۔ (بخاری) جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم چھوٹی سی عبارت میں بڑے وسیع معانی کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک اہم ترین خصوصیت یہ بھی ہے کہ جس وقت آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ سے پڑھنے کے لیے کہا گیاتو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مَا اَنَا بِقَارِیٴ (میں پڑھ نہیں سکتا ہوں) کہہ کر معذرت چاہی، لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسی خاص الخاص تربیت ہوئی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قول وعمل کو رہتی دنیا تک اسوہ بنادیا گیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے اقوال زریں سے مستفید ہونے والے حضرات بڑے بڑے ادیب وفصیح وبلیغ بن کر دنیا میں چمکے۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلے بعض جملے رہتی دنیا تک عربی زبان کے محاورے بن گئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے وعظ ونصیحت، خطبے، دعا اور رسائل سے عربی زبان کو الفاظ کے نئے ذخیرہ کے ساتھ ایک منفرد اسلوب بھی ملا۔
ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں قبیلہ قریش سے ہوں اور میری رضاعت قبیلہ بنی سعد میں ہوئی۔ یہ دونوں قبیلے اس وقت اپنی زبان وادب میں خصوصی مقام رکھتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم سے فرمایا:میں سرزمین عرب بہت گھوم چکا ہوں، بڑے بڑے فصحاء کے کلام کو سنا ہے، لیکن آپ سے زیادہ فصیح کسی شخص کو نہیں پایا۔ آپ کو کس نے ادب سکھایا؟ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور بہترین ادب سے نوازا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فصاحت وبلاغت کا ایسا معیار آپ صلی الله علیہ وسلم کو عطا کیا گیا جس کی نظیر قیامت تک ملنا ناممکن ہے اور آپ کے اقوال زریں انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خطبے، خاص کر حجة الوداع کے موقعہ پر دیا گیا آپ صلی الله علیہ وسلم کا آخری اہم خطبہ نہ صرف جوامع الکلم میں سے ہے، بلکہ حقوق انسانی کا بنیادی منشور بھی ہے۔ اس خطبہ مبارکہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل مختصر وجامع الفاظ میں انسانیت کے لیے ایسے اصول پیش کیے جن پر عمل کرکے آج بھی پوری دنیا میں امن وامان قائم کیا جاسکتا ہے۔
جہاں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال زریں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، وہیں شریعت اسلامیہ میں ان اقوال زریں کو یاد کرکے محفوظ کرنے کی بھی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے، چناں چہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میری امت کے فائدہ کے واسطے دین کے کام کی چالیس احادیث یاد کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن عالموں اور شہیدوں کی جماعت میں اٹھائے گا اور فرمائے گا کہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔ یہ حدیث متعدد صحابہٴ کرام سے روایت ہے اور حدیث کی مختلف کتابوں میں موجود ہے۔ حدیث میں مذکورہ ثواب کے حصول کے لیے سینکڑوں علمائے کرام نے اپنے اپنے طرز پر چالیس احادیث جمع کی ہیں۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی کی چالیس احادیث پر مشتمل کتاب ”الاربعین النوویة“پوری دنیا میں کافی مقبول ہوئی ہے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چالیس فرمان پیش خدمت ہیں، جن میں علم ومعرفت کے خزانے سمودیے گئے ہیں اور یہ اعلیٰ اخلاق اور تہذیب وتمدن کے زریں اصول ہیں۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو یاد کرکے ان پر عمل کریں اور دوسروں کو پہنچائیں تاکہ غیر مسلم حضرات بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحیح تعلیمات سے واقف ہوکر، اسلام سے متعلق، اپنے شکوک وشبہات دور کرسکیں۔
بخاری ومسلم میں وارد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چالیس فرمان
٭ …تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔٭ …کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو بے گناہ قتل کرنا اور جھوٹی شہادت دینا ہے۔ ٭ … سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا، کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کے مال کو ہڑپنا، میدان (جنگ) سے بھاگنا، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ ٭ … منافق کی تین علامتیں ہیں: جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا۔٭ …تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے ۔ ٭ … اللہ کے نزدیک سب عملوں میں وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو دائمی ہو، اگرچہ تھوڑا ہو۔ ٭ …میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔ ٭ … پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔٭ … اللہ کے نزدیک سب سے محبوب جگہ مسجدیں ہیں۔ ٭ … جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر10 مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔٭ … موٴمن ایک بل سے دوبارنہیں ڈسا جاتا۔ ٭ … پہلوان شخص وہ نہیں جو لوگوں کو پچھاڑ دے، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ ٭ …مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا۔ مریض کی عیادت کرنا۔ جنازہ کے ساتھ جانا۔ اس کی دعوت قبول کرنا۔ چھینک کا جواب یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہہ کر دینا۔ ٭ … اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ ٭ … ظلم قیامت کے روز اندھیروں کی صورت میں ہوگا۔ ٭ …چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔ ٭ … دنیا میں ایسے رہوجیسے کوئی مسافر یا راہ گزر رہتا ہے۔ ٭ … رشتہ توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ ٭ … اگر کوئی شخص (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ ٭ … انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جو بات سنے (بغیر تحقیق کے) لوگوں سے بیان کرنا شروع کردے۔ ٭ … وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کی ایذاوٴں سے محفوظ نہ ہو۔ ٭…تم میں سے وہ شخص میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے جو اچھے اخلاق والا ہو۔ ٭ … صدقہ دینے سے مال میں کمی نہیں آتی اور جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔ ٭ … اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں پر خرچہ کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے، یعنی اس پر بھی اجر ملے گا۔ ٭…اے نوجوان کی جماعت! تم میں سے جو بھی نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے کیوں کہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو کوئی نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزے رکھے کیوں کہ یہ اس کے لیے نفسانی خواہشات میں کمی کا باعث ہوگا۔ ٭…عورت سے نکاح (عموماً) چار چیزوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کے شرف کی وجہ سے، اس کی خوب صورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت سے نکاح کرو، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ یہ آخر ی جملہ بد دعا نہیں ہے، بلکہ یہ عرب کا ایک محاورہ ہے اوراس سے دین دار عورت سے نکاح کی طلب وکوشش پر ابھارنا اور آمادہ کرنا مقصود ہے۔ ٭… حلال واضح ہے، حرام واضح ہے۔ ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی۔ اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائے گا، اس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے،کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ اس کا جانور دوسرے کی چراگاہ سے کچھ چرلے۔ اچھی طرح سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے، یاد رکھو کہ اللہ کی زمین میں اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سن لو کہ جسم کے اندر ایک گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب وہ سنور جاتا ہے تو ساراجسم سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، سن لو کہ یہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے۔ ٭ … اللہ کی قسم! مجھے تمہارے لیے غریبی کا خوف نہیں ہے، بلکہ مجھے خوف ہے کہ پہلی قوموں کی طرح کہیں تمہارے لیے دنیا، یعنی مال ودولت کھول دی جائے اور تم اس کے پیچھے پڑ جاوٴ، پھر وہ مال ودولت پہلے لوگوں کی طرح تمہیں ہلاک کردے۔ ٭ … اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ ٭ …جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو۔ ٭ … حرام کھانے، پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں؟! ٭…مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔٭ … تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ ٭ … اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو فروخت کرتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت (قرض وغیرہ کا) فیاضی اور وسعت سے کام لیتا ہے۔ ٭ …کھاوٴ ،پے٭ ،پہنو اور صدقہ کرو، لیکن فضول خرچی اور تکبر کے بغیر (یعنی فضول خرچی اور تکبر کے بغیر خوب اچھا کھاوٴ، پے٭، پہنو اور صدقہ کرو)۔ ٭ … رشک دو ہی آدمیوں پر ہوسکتا ہے، ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے مال کو راہ حق میں لٹانے کی پوری طرح توفیق ملی ہوئی ہے۔ اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی ہے اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ ٭ … موٴمنین کی مثال ان کی دوستی اور اتحاد اور شفقت میں بدن کی طرح ہے۔ بدن میں سے جب کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن نیند نہ آنے اور بخار آنے میں شریک ہوتا ہے۔ ٭ … آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، پیچھے پیٹھ برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے۔ ٭… (سچا) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ مہاجر وہ ہے جو اُن کاموں کو چھوڑدے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ٭ … اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں بھلائی فرض کی ہے، لہٰذا جب تم (کسی کو قصاصاً) قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو۔ اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ہر ایک کو اپنی چھری تیز کرلینی چاہیے اور اپنے جانور کو آرام دینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں فصاحت وبلاغت کے پیکر اور بے مثال ادیب عرب حضرت محمدمصطفی صلی الله علیہ وسلم کے جوامع الکلم (اقوال زریں ) کو سمجھ کر پڑھنے والا، ان کے مطابق عمل کرنے والا اور ان سنہری تعلیمات وقیمتی پیغامات کو دوسروں تک پہنچانے والا بنائے، آمین، ثم آمین۔