چند روز قبل خیبر پختوانخوا کے ضلع ہری پور اور پشاور میں بچیوں کے تحفظ کی خاطرایک سرکاری نوٹیفیکیشن جاری ہوا، جس میں تمام اسکولوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ بچیوں کو برقع یا عبا یا پہننے کی پابندی کرائیں، مگر چند مخصوص حلقوں کی جانب سے اس مستحسن فیصلے پر تنقید ہوئی۔ جس کی بنا پر حکومت نے یہ نوٹیفیکیشن واپس لے لیا۔
پردے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوتے ہی سوشل میڈیا پر دو طرح کے طبقات ابھر آئے۔ کچھ لوگ اس فیصلے کی تعریف کرنے لگے اور چند دیگر افراد اس پر تنقید کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے۔ تنقید کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو خود کو عورتوں کے حقوق کے ضامن سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے دکھائی دیے کہ بچیوں پر زبردستی نہیں کرنی چاہیے اور برقع پہننے اور نہ پہننے کا انہیں اختیار ہونا چاہیے، لیکن اس طرح کے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بچیوں پرا سکول کا یونیفارم بھی تو لازم ہوتا ہے، لڑکیوں کے لیے نیلے رنگ کی قمیض اور سفید شلوار، جب کہ لڑکوں کے لیے پینٹ شرٹ پہننا ضروری ہے، اگر یہ لباس پہنانے کے لیے ان پر جبر کیا جاسکتا ہے تو ان کے تحفظ کے پیش نظر چادر یا برقع پہننے کے لیے زبردستی کیوں نہیں کی جاسکتی؟ جب یہ لوگ زبردستی دوسری وردی پہنانے پر راضی ہیں تو برقعے کو بھی اگر بچیوں کے یونیفارم میں شامل کر دیا جائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟
صوبائی مشیر تعلیم ضیاء الله بنگش نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ اضلاع سے ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہو رہے تھے او رہم نے اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ کرنا تھا۔ اس حوالے سے ضلع ہری پور کی انتظامیہ نے یہ کام کیا اور اب صوبہ بھر میں اس فیصلے کو نافذ کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے صوبے کی اور ملک کی کچھ روایات ہیں اور ہم اپنے کلچر اور دین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
یہ صوبائی مشیر تعلیم کا ایک مستحسن بیان تھا ،لیکن سیکولر طبقے کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ اقدام عین قرآنی فیصلے کے مطابق ہے او رانہوں نے وہی کیا جو ریاست مدینہ میں اس مسئلہ کے حل کے لیے کیا گیا تھا۔ اگر آپ سورة الاحزاب کی آیت نمبر 59 کا شان نزول اور تشریح دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ الله رب العزت نے خود ہراسانی کے مسئلے کا یہی حل بتایا تھا۔ چناں چہ الله تعالیٰ نے حکم دیا: ترجمہ ”اے نبی کہہ دے اپنی بیویوں کو اوراپنی بیٹیوں کو اور مسلمانوں کی عورتوں کو کہ وہ نیچی کر لیا کریں اپنے منھ پر اپنی چادریں، اس سے جلدی پہچان ہو جایا کرے گی تو آزارنہ دی جایا کریں گی۔“
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی اس آیت شریفہ کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں منافقین مسلمانوں کی باندیوں کو چھیڑا کرتے تھے، لیکن کبھی کبھی کنیزوں کے شبہے میں آزاد عورتوں کو بھی ستاتے تھے۔ جس کی وجہ سے عام مسلمانوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایذا پہنچتی تھی۔ اس لیے خود الله رب العزت نے اس کا حل یہ بتایا کہ مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم دو اور اس کی صورت بھی بیان فرما دی کہ اپنی چادریں سر سے نیچی کر لیا کریں۔ حضرت عبدالله بن عباس نے اس کی یہ صورت بیان فرمائی ہے کہ الله تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے چادر لٹکا کر چہروں کو چھپالیں اور صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی رکھیں۔ امام ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کا مطلب اور ( آیت میں مذکور لفظ) جلباب کی کیفیت دریافت کی تو انہوں نے سر کے اوپر سے چادر چہرہ پر لٹکا کر چہرہ چھپا لیا اور صرف بائیں آنکھیں کھلی رکھ کر (آیت میں بیان کی گئی ہیئت اور الفاظ) اِدناء اور جلباب کی تفسیر عملاً بیان فرمادی۔ اس کے بعد مفتی صاحب مزید وضاحت فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بصراحت چہرہ کے چھپانے کا حکم دیا ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاں اگرچہ فی نفسہ ستر میں داخل نہیں، مگر بوجہ خوف فتنہ کے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔ صرف مجبوری کی صورتیں مستثنیٰ ہیں۔
ان آیات میں تو بدقماش لوگوں کی ایذارسانیوں سے بچنے کے لیے عورتوں کو پردہ کا حکم دیا گیا ہے، لیکن ہمارے نام نہاد فلسفی کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ خواتین کو ستاتے ہیں، انہیں روکا جائے، خواتین کو پردے کا پابند نہ کیا جائے۔ اس تجویز کا پہلا حصہ اچھا ہے کہ ان لوگوں کو اپنے افعال بد سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے، لیکن ایسا ممکن نہیں ہے، اگر حکومتیں ایسا کرسکتیں تو معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہو چکا ہوتا، لیکن کتنے لوگوں کو روکیں گے او رکس کس طریقے کو روکیں گے؟ کیوں کہ لوگ مختلف طریقوں سے خواتین کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے یہ دونوں کام ضروری ہیں کہ ان لوگوں کو روکنے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے اور خواتین کو بھی پردے کی ترغیب دی جائے۔
بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ خواتین کی مرضی ہے کہ وہ حجاب اور برقع اوڑھیں یا ترک کریں۔ ان لوگوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ پردے کا حکم الله تعالیٰ نے دیا ہے، جس کے بعد کسی قسم کی کوئی چوائس یا اختیار باقی نہیں رہتا، بلکہ اس حکم کو من وعن تسلیم کرنا پڑتا ہے، جب کہ اس کے خلاف دلائل دینے کا انجام نہایت بھیانک ہوتا ہے۔ جس طرح نماز کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں اختیار ہے پڑھیں یا نہ پڑھیں، یہ ہماری مرضی پر منحصر ہے ، یاروزہ رکھیں یا نہ رکھیں آپ کو اختیار ہے۔ ایسا ہر گز نہیں، بلکہ آپ کو ہر حال میں نماز پڑھنی اور روزہ رکھنا پڑے گا ،کیوں کہ وہ خالق کائنات کا حکم ہے۔اسی طرح پردے کا حکم بھی الله تعالیٰ نے خود ہی دیا ہے۔
رہا یہ اعتراض کہ اگر پردہ اتنا ہی عزتوں کا محافظ ہے تو چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ کیوں زیادتی ہوتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اسلامی قوانین کے عدم نفاذ کا نتیجہ ہے۔ اگر اسلامی قوانین کے مطابق لوگوں کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے تو معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہوجائے اور پورا معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے، لیکن ہم خود کو مسلمان کہنے او راپنے ملک کو اسلامی ملک قرار دینے کے باوجود غیر مسلموں کے قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے اپنے آئین وقانون سے روگردانی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں بہت زیادہ جرائم ہو رہے ہیں۔ ان جرائم میں سے ایک جرم خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات ہیں۔
جن کا حل شریعت مطہرہ کے مطابق پردہ ہے۔ اگر ہماری بہنیں پردے کو لازم سمجھیں اور اس پر سختی سے عمل کریں تو ان کی عزتیں محفوظ ہو جائیں گی اور معاشرے سے ایک بڑے فتنے کا خاتمہ ہو جائے گا۔
پردہ عورتوں کی عزت میں اضافہ کرتا ہے اور پردہ دار خواتین باعزت معلوم ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے کوئی شریر انسان انہیں چھیڑنے کی جرأت نہیں کرسکتا، لہٰذا مسلمان بہنوں کو چاہیے کہ پردے کو لازم پکڑیں اور برقعے کو اپنی زندگی کا جزلاینفک سمجھیں ،کہ الله رب العزت کے اس اہم حکم پر عمل کے ساتھ ساتھ ،معاشرے میں ان کا مقام مزید بلند ہو جائے۔ مسلمان والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو بچپن ہی سے پردے کا عادی بنائیں، انہیں کم سنی میں ہی ایسا لباس پہنائیں جوان میں شرم وحیا پیدا کرے۔ انہیں صحابیات اور نیک مسلمان خواتین کے واقعات سنائیں۔ بچپن میں مختصر لباس پہنانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ہماری بچیوں کے دلوں سے اس لباس کی نفرت نکل جاتی ہے، پھر اگر وہ بلوغت کے بعد بھی اس لباس کو پہنیں تو انہیں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے بچیوں کو بچپن ہی سے ایسا کا لباس پہنائیں جو ان میں شرم وحیا پیدا کرے۔ اس کے علاوہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے سے فساد کو مٹانے کے لیے حتی الامکان کوشش کرے۔ اس کے لیے شریر اور جرائم پیشہ لوگوں کو گرفتار کرے او رانہیں سر عام سخت سزائیں دے، تاکہ انہیں دیکھ کر دیگر افراد عبرت حاصل کریں اور آئندہ کوئی ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے کی جرأت نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں بچیوں کو پردہ کے فضائل سنائیں او رانہیں برقع وغیرہ پہننے کی ترغیب دیں، تاکہ بچیوں کے دلوں میں پردہ سے محبت پیدا ہو اور ہمارا معاشرہ ایک پاکیزہ معاشرہ بن جائے۔