دنیا کا ہر مذہب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں، ان کا ادب واحترام ملحوظ خاطر رکھیں۔ اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے زیادہ اہم اور اپنے ایک انفرادی اسلوب کی حامل ہے۔ مثلاً جب بھی الله تعالیٰ نے اپنی اطاعت وفرماں برداری کی طرف توجہ دلائی ہے تو اس کے فوراً بعد والدین کی اطاعت اور فرماں داری کی تعلیم دی ہے۔
سورہٴ لقمان میں ہے : اے بندو تم میرا ( الله کا) شکر کرو اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو ، تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے“۔ جس طرح سے الله کے حقوق ہم پر فرض ہیں، بالکل اسی طرح بندوں کے حقوق بھی ہم پر فرض اور اتنے ہی اہم ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
قرآن پاک میں ہے: ”او رہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیاہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا او رتکلیف برداشت کرکے اسے جنم دیا، اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ پنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا توکہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجالاؤں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہوجائے اور تو میری اولادبھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں او رمیں مسلمانوں میں سے ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگرز کر لیتے ہیں، ( یہ) جنتی لوگوں میں ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا تھا۔ والدین سے نافرمانی کرنے والوں کے لیے گھاٹا ہی گھاٹا ہے“۔ (سورہٴ احقاف)
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو، تم اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرو، تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو، پھر تم اپنے باپ کے ساتھ صلہ رحمی کرو، پھر تم اپنے قریبی رشتہ د اروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ پھر اس کے بعد دور کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو“۔ (مظہری) ماں کے ساتھ اس طرح کا خاص حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم الله تعالیٰ نے کئی وجوہات کی بنا پر دیا ہے۔
٭…بچے کو اپنے پیٹ میں رکھنے کی تکلیف اور پیدائش کے وقت کی تکلیف سہنے کی وجہ سے۔٭… بچہ پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد اس کی پرورش اور نشوو نما کے لیے ماں کے بدن سے بچے کو غذا دی جاتی ہے۔ ٭… ہر وقت بچے کو اپنے کاندھوں پر لادے رہنا اور دن رات اس کی ضرورتوں کے پیچھے لگے رہنا۔٭… ماں بچوں کو سکھاتی ہے اورانہیں تربیت دیتی ہے۔
الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایتیں دی ہیں۔ اتنی ہدایتیں زندگی کے دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں، کیوں کہ گھریلو سکون کی اہمیت اور بقا الله تعالیٰ کی نظر میں بہت اہم ہے۔ایسی ماؤں کا اس طرح کا غیراسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے او ربہت مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ الله تعالیٰ کی نظرمیں ایسی ماؤں کا اجر کم ہو جاتا ہے، کیوں کہ وہ خاوند کو اس کے مقام سے گر اکر اولاد کی مدد سے گھریلو سکون کو تباہ وبرباد کرتی ہیں۔ کئی ایسی مائیں اپنی زندگی کے آخری حصہ میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتی ہیں جب وہ خود اپنے پیدا کیے ہوئے مسائل میں گھرِ کر پریشانی ہو جاتی ہیں، لیکن پھر اس وقت نقصان کی تلافی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے ۔ سورہ الاسراء میں ہے: ”اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا او رماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اورمحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازوپست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے“۔
ان آیات میں الله تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب واحترام کی بات کی ہے۔ ان آیات میں الله تعالیٰ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یارومدد گار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسا اورپروان چڑھایا، ہمارے والدین ہماری ہر خواہشپوری کرتے تھے۔ اس لیے اولا دپر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔ اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب واحترام کرناچاہیے، لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہیے جب وہ بوڑھے ہو جائیں ،کیوں کہ وہ بھی اسی طرح بے یارومدد گار ہو جاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے۔
الله تعالیٰ نے درج ذیل ہدایت بھی دی ہیں ۔ ٭… والدین کو ان کی بے عزتی کے طو رپر چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی نہ کہیں۔٭… ان کے سامنے چلا کر نہیں بولیں۔ ٭… انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہم دردی کے انداز میں ان سے بات کریں۔ ٭…والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی فرماں برداری اور نرمی سے کریں۔٭… ان کے ساتھ رحم دلی اور دل کی گہرائیوں سے یہ سب کچھ ہونا چاہیے، محض دکھانے کے لیے روایتی انداز میں نہیں۔ ٭… والدین کے لیے دعا کریں کہ الله تعالیٰ میرے والدین پر رحم فرما کہ بالکل اسی طرح جس طرح وہ لوگ بچپن میں مجھ پر حم وکرم کرتے تھے۔ یہ دعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہیں، کیوں کہ الله تعالیٰ نے خود یہ دعا ہمیں سکھائی ہے او راس کی تلقین فرمائی ہے ٭.. سورة الاسراء کی آیت نمبر 25 میں الله تعالیٰ نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کر دی ہے کہ اگر کسی سے بھول چوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی نازیبا کلمات نکل جائیں، جو لاپرواہی کی وجہ سے نہیں، بلکہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں ہو جائے تو اس پر الله تعالیٰ ہمیں سزا نہ دے گا، بشرطیکہ ہم خلوص دل سے توبہ کر لیں اور معافی مانگ لیں ، الله تعالیٰ ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔